واجدحسین
معطل
مجاہدین کی تلواروں نیزوں اور دیگر سامان جہاد کی فضیلت کا بیان
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ( ۱ )[ARABIC]و لیاخذو ا سلحتھم۔[/ARABIC]( النساء ۱۰۲ ) اور وہ لوگ اپنی ہتھیار ساتھ رکھیں ۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
( ۲ ) [ayah]و اعدو لھم مااستطعتم من قوۃ [/ayah]۔ ( سورہ انفال ۶۰ )
اور ان کافروں سے لڑائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے ( یعنی ہتھیار وغیرہ)
نیزے کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے :
( ۳ )[ayah] یا یھا الذین امنو لیبلونگم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورما حکم [/ayah]: ( المائدہ ۔ ۹۴ )
مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو اللہ تعالی تمھاری آزمائش کرے گا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ضحاک رحمہ اللہ نے و خذو حذرکم کی تفسیر میں فرمایا ہے یعنی اپنی تلواریں گلے میں لٹکا کر رکھا کرو کیونکہ یہی مجاہد کا حلیہ ( زیور ) ہے ۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما و اعدو لھم مااستطعتم من قوۃ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قوت سے مراد اسلحہ اور تیر کمانیں ہیں ۔ ( الجامع الاحکام القرآن )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے جہاد کے لئے اسلحہ تیار کیا وہ ہر صبح اس کے نامہ اعمال میں ڈالا جاتا ہے ۔ ( الشفاء الصدور )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں پس جس کا اسلحہ بڑھ جاتا ہے اس کی نیکیاں بھی بڑھ جاتی ہیں اور جس کا اسلحہ کم ہو جاتا ہے اس کی نیکیاں بھی کم کر دی جاتی ہیں ۔ ( الشفاء الصدور )
یہ دونوں روایات معضل ہیں اور ان کی سند کا حال بھی اللہ بہتر جانتا ہے ۔
یہ مسئلہ خوب اچھی طرح سے سمجھ لیجئے کہ شہسواری سیکھنا اور سیکھانا اور اسلحہ کا استعمال سیکھنا [ عمومی حالات میں ] فرض کفایہ ہے ۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کبھی فرض عین بھی ہو جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو اس کی سخت ضرورت ہو اور فرض کفایہ ادا کرنے والے بھی باقی نہ رہیں ( الجامع الاحکام القرآن )
تلواروں اور نیزوں کے فضائل میں کئی احادیث آئی ہیں [ آیئے ان میں سے بعض یہاں پڑھتے ہیں ]
( ۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلوار دیکر بھیجے گئے
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں قیامت سے پہلے تلوار دے کے بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ہے اور ذلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جوکسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔ ( مسند احمد )
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا جس جگہ جہاد کی ضرورت ہو وہاں نیزے بنانا نفل نماز سے افضل ہے ۔ ( لفروسیتہ المحمدیہ)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کے تمام اسلحے کا یہی حکم ہے جو اوپر نیزے کا بیان ہوا۔
( ۲ ) جنت تلواروں کے سائے تلے۔
٭ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ وسلم نے بعض ان دنوں میں جن میں آپ کا دشمن سے مقابلہ تھا سورج کے ڈھلنے کا انتظار کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگوں ! دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو اور جب دشمن سے لڑائی شروع ہو جائے تو ڈٹ کر لڑو اور خوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ ( بخاری )
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت اور ایک پراگندہ حال شخص کا واقعہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہی حدیث شریف سن کر فوراً لڑائی میں کود گئے اور شہید ہو گئے (بحوالہ صحیح مسلم)
( ۳ ) تلواریں جنت کی چابیاں
٭ حضرت یزید بن شجرہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ تلواریں جنت کی چابیاں ہیں۔ ابن عساکر رحمہ اللہ وغیرہ نے اس روایت کو حضور اکرم صلی اللہ تک مرفوع بھی نقل کیا ہے۔مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں تلواروں کو جنت کی چابیاں قرار دیا گیا ہے کیونکہ جب مجاہد میدان جہاد میں تلوار نکالتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
( ۴ ) تلوار چلانا جنت میں داخلے کا سبب
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو ایسے اعمال نہ بتاؤں جو تمھیں جنت میں لے جائیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ ضرور ارشاد فرمایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : [ وہ اعمال یہ ہیں ] تلوار چلانا ، مہمان کو کھانا کھلانا ، نمازوں کے اوقات کا اہتمام کرنا ۔ ( ابن عساکر )
( ۵ ) دنیا میں تلوار لٹکانے کا بدلہ جنت میں
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے جہاد یا سرحد کی پہرے داری کے دوران نماز میں تلوار [ اپنے ساتھ ] باندھے رکھی تو اللہ تعالی اسے [قیامت کے دن ] اعزاز و اکرام کی حمیل پہنائیں گے ۔ ( الشفاء الصدور )٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جہاد میں تلوار لٹکاتا ہے اسے [ قیامت کے دن ] ایمان کی چادر پہنائی جائے گی اور جب تک یہ تلوار مجاہد کے جسم پر رہتی ہے فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ ( الشفاء الصدور )
( ۶ ) آگ سے حفاظت
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے جہاد میں تلوار باندھی [ یعنی اپنے ساتھ لٹکائی ] تو یہ اس کے لئے آگ سے بچانے والی ڈھال ہو گی اور جس نے جہاد میں نیزہ اٹھایا وہ اس کے لیے قیامت کے دن علم [ یعنی جھنڈا ] ہو گا ۔ ( الشفاء الصدور )
( ۷ ) اللہ تعالی کا فخر فرمانا
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالی مجاہد کی تلوار اس کے نیزے اور اسلحے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب اللہ تعالی کسی بندے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے تو پھر سے کبھی عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا ۔ ( کتاب ترغیب لابی حفص بن شاہین و ابن عساکر )( ۸ ) تلوار باندھ کر پڑھی جانے والی نماز پر ستر گنا افضل
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالی کے راستے میں تلوار باندھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز دوسرے لوگوں سے ستر گنا افضل ہے اور اگر تم کہوں کہ سات سو گنا افضل ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی اپنے راستے میں تلوار باندھنے والے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب تک وہ تلوار باندھے رکھتا ہے فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔ اور پہرے دار کے لئے تلوار باندھے رکھنا ایسے ہی سنت ہے جس طرح معتکف کے لئے روزہ ۔ ( الشفاء الصدور )