مجاہدین کی تلواروں نیزوں اور دیگر سامان جہاد کی فضیلت کا بیان

مجاہدین کی تلواروں نیزوں اور دیگر سامان جہاد کی فضیلت کا بیان
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( ۱ )[ARABIC]و لیاخذو ا سلحتھم۔[/ARABIC]( النساء ۱۰۲ ) اور وہ لوگ اپنی ہتھیار ساتھ رکھیں ۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

( ۲ ) [ayah]و اعدو لھم مااستطعتم من قوۃ [/ayah]۔ ( سورہ انفال ۶۰ )
اور ان کافروں سے لڑائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے ( یعنی ہتھیار وغیرہ)


نیزے کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے :

( ۳ )[ayah] یا یھا الذین امنو لیبلونگم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورما حکم [/ayah]: ( المائدہ ۔ ۹۴ )
مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو اللہ تعالی تمھاری آزمائش کرے گا۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ضحاک رحمہ اللہ نے و خذو حذرکم کی تفسیر میں فرمایا ہے یعنی اپنی تلواریں گلے میں لٹکا کر رکھا کرو کیونکہ یہی مجاہد کا حلیہ ( زیور ) ہے ۔

اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما و اعدو لھم مااستطعتم من قوۃ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قوت سے مراد اسلحہ اور تیر کمانیں ہیں ۔ ( الجامع الاحکام القرآن )

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے جہاد کے لئے اسلحہ تیار کیا وہ ہر صبح اس کے نامہ اعمال میں ڈالا جاتا ہے ۔ ( الشفاء الصدور )


٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں پس جس کا اسلحہ بڑھ جاتا ہے اس کی نیکیاں بھی بڑھ جاتی ہیں اور جس کا اسلحہ کم ہو جاتا ہے اس کی نیکیاں بھی کم کر دی جاتی ہیں ۔ ( الشفاء الصدور )


یہ دونوں روایات معضل ہیں اور ان کی سند کا حال بھی اللہ بہتر جانتا ہے ۔
یہ مسئلہ خوب اچھی طرح سے سمجھ لیجئے کہ شہسواری سیکھنا اور سیکھانا اور اسلحہ کا استعمال سیکھنا [ عمومی حالات میں ] فرض کفایہ ہے ۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کبھی فرض عین بھی ہو جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو اس کی سخت ضرورت ہو اور فرض کفایہ ادا کرنے والے بھی باقی نہ رہیں ( الجامع الاحکام القرآن )
تلواروں اور نیزوں کے فضائل میں کئی احادیث آئی ہیں [ آیئے ان میں سے بعض یہاں پڑھتے ہیں ]


( ۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلوار دیکر بھیجے گئے​

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں قیامت سے پہلے تلوار دے کے بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ہے اور ذلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جوکسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔ ( مسند احمد )

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا جس جگہ جہاد کی ضرورت ہو وہاں نیزے بنانا نفل نماز سے افضل ہے ۔ ( لفروسیتہ المحمدیہ)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کے تمام اسلحے کا یہی حکم ہے جو اوپر نیزے کا بیان ہوا۔

( ۲ ) جنت تلواروں کے سائے تلے۔

٭ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ وسلم نے بعض ان دنوں میں جن میں آپ کا دشمن سے مقابلہ تھا سورج کے ڈھلنے کا انتظار کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگوں ! دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو اور جب دشمن سے لڑائی شروع ہو جائے تو ڈٹ کر لڑو اور خوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ ( بخاری )


٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت اور ایک پراگندہ حال شخص کا واقعہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہی حدیث شریف سن کر فوراً لڑائی میں کود گئے اور شہید ہو گئے (بحوالہ صحیح مسلم)


( ۳ ) تلواریں جنت کی چابیاں
٭ حضرت یزید بن شجرہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ تلواریں جنت کی چابیاں ہیں۔ ابن عساکر رحمہ اللہ وغیرہ نے اس روایت کو حضور اکرم صلی اللہ تک مرفوع بھی نقل کیا ہے۔

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں تلواروں کو جنت کی چابیاں قرار دیا گیا ہے کیونکہ جب مجاہد میدان جہاد میں تلوار نکالتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔

( ۴ ) تلوار چلانا جنت میں داخلے کا سبب​

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو ایسے اعمال نہ بتاؤں جو تمھیں جنت میں لے جائیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ ضرور ارشاد فرمایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : [ وہ اعمال یہ ہیں ] تلوار چلانا ، مہمان کو کھانا کھلانا ، نمازوں کے اوقات کا اہتمام کرنا ۔ ( ابن عساکر )

( ۵ ) دنیا میں تلوار لٹکانے کا بدلہ جنت میں
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے جہاد یا سرحد کی پہرے داری کے دوران نماز میں تلوار [ اپنے ساتھ ] باندھے رکھی تو اللہ تعالی اسے [قیامت کے دن ] اعزاز و اکرام کی حمیل پہنائیں گے ۔ ( الشفاء الصدور )

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جہاد میں تلوار لٹکاتا ہے اسے [ قیامت کے دن ] ایمان کی چادر پہنائی جائے گی اور جب تک یہ تلوار مجاہد کے جسم پر رہتی ہے فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ ( الشفاء الصدور )

( ۶ ) آگ سے حفاظت

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے جہاد میں تلوار باندھی [ یعنی اپنے ساتھ لٹکائی ] تو یہ اس کے لئے آگ سے بچانے والی ڈھال ہو گی اور جس نے جہاد میں نیزہ اٹھایا وہ اس کے لیے قیامت کے دن علم [ یعنی جھنڈا ] ہو گا ۔ ( الشفاء الصدور )

( ۷ ) اللہ تعالی کا فخر فرمانا
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالی مجاہد کی تلوار اس کے نیزے اور اسلحے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب اللہ تعالی کسی بندے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے تو پھر سے کبھی عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا ۔ ( کتاب ترغیب لابی حفص بن شاہین و ابن عساکر )


( ۸ ) تلوار باندھ کر پڑھی جانے والی نماز پر ستر گنا افضل

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالی کے راستے میں تلوار باندھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز دوسرے لوگوں سے ستر گنا افضل ہے اور اگر تم کہوں کہ سات سو گنا افضل ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی اپنے راستے میں تلوار باندھنے والے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب تک وہ تلوار باندھے رکھتا ہے فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔ اور پہرے دار کے لئے تلوار باندھے رکھنا ایسے ہی سنت ہے جس طرح معتکف کے لئے روزہ ۔ ( الشفاء الصدور )
 
٭ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی کے یمن میں دہ خزانے ہیں ایک تو یرموک کی لڑائی میں نکل آیا کہ اس دن ازدی [لوگ ] لشکر کا ایک تہائی تھے اور دوسرا خزانہ [ قیامت کے قریب ] بڑی لڑائی کے دن نکلے گا یہ ستر ہزار ہوں گے اور ان کی تلواروں کے پر تلے کھجور کی چھال کے ہوں گے ۔ ( ابن عساکر )

٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے بہت سارے علاقے فتح کئے لیکن ان کی تلواروں کی زیب و زینت سونے چاندی کے ذریعے سے نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کی تلواروں کی زیبائش اونٹ کے گردن کے پٹھے، تانبے اور لوہے سے ہوتی تھی ۔ ( صحیح بخاری )

[ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ نے لوگوں کو تلواروں کی زیادہ زیب و زینت کرتے دیکھا۔

بہر حال دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چاندی کا استعمال تلواروں میں جائز ہے ۔ مصنف رحمہ اللہ کا مقصد ان دو روایات کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ تلواروں اور دیگر ہتھیاروں کو دشمن کے خلاف خوب کارگر بنانا چاہیے لیکن فضول نمائشوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ]


فائدہ :
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا دشمنوں کے علاقوں میں [جنگ کے دوران ] اپنے ناخن بڑھاؤ کیونکہ یہ بھی اسلحہ ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کے دوران دشمنوں کے علاقے میں ناخنوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے مثلاً رسی وغیرہ کھولنے اور دوسرے کاموں میں ۔ ( المغنی )
[ اس زمانے میں بھی اگر جہاد میں ناخنوں کی ضرورت پڑتی ہو تو بقدر ضرورت رکھے جا سکتے ہیں ] ۔


فائدہ :

اللہ کے راستے میں جو تلوار سب سے پہلے سونتی گئی وہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی تلوار تھی اور اس تلوار کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء بھی فرمائی ۔

واقعہ یہ ہوا ایک بار شیطان نے یہ افواہ اڑا دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے مکہ کے پہاڑوں پر لے جایا گیا ہے ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس وقت بارہ سال کے تھے یہ افواہ سنتے ہی وہ اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر باہر نکل آئے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا تمھیں کہ اس طرح ہاتھ میں تلوار لے کر پھر رہے ہو۔ کہنے لگے مجھے اطلاع ملی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر ایسا ہوتا تو تم نے کیا کرنا تھا۔ کہنے لگے میں اس تلوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے والوں کو ختم کر دیتا ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں اور ان کی تلوار کو دعائیں دیں ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اسلام کے جانبازوں اور عظیم بہادروں میں تھے ۔ ( المستدرک )

٭ ابن ابی الزناد کہتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ کے سر پر تلوار ماری جو اس کے لوہے کے خود [ یعنی جنگی ٹوپی ] کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی زین تک سے گزر گئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کی تلوار کیا ہی عمدہ ہے اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ تو ہاتھ کی طاقت کا کمال ہے تلوار کا نہیں ۔

علامہ طرطوشی رحمہ اللہ نے سراج الملوک میں لکھا ہے کہ کچھ پرانے اور بوڑھے مجاہدین نے یہ قصہ سنایا کہ ایک بار مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی ہوئی تو انہوں نے میدان جنگ میں لوہے کے خود کا ایک ٹکڑا دیکھا جس کا ایک تہائی حصہ سر کے اندر گھسا ہوا تھا وہ کہتے تھے کہ ایسے زور دار وار کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا تھا۔ رومی اسے اٹھا کر لے گئے اور اپنے ایک گرجا گر میں لٹکا دیا۔ انہیں جب شکست پر عار دلائی جاتی تھی تو وہ یہی خود دکھایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جن کے وار اس طرح کے تھے۔ ( سراج الملوک )

فصل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں​

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی تلواریں تھیں [ آئیے ان کے تذکرے سے اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں ]

( ۱ ) الماثور ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد صاحب کی طرف سے وراثت میں ملی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ مدینہ منورہ لائے تھے۔

( ۲ ) ا لعضب ۔ عزوہ بدر میں جاتے وقت یہ تلوار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پیش خدمت کی تھی۔
( ۳ ) ذوالفقار ۔ ذوالفقار عزوہ بدر کے مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھی اور پھر تمام جنگوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی اس کا وسط ریڑھ کی ہڈی کے مشابہ تھا اس تلوار کے قبضے، دھار پٹے اور نیام کے نچلے حصے میں چاندی استعمال ہوئی تھی۔

( ۴ ) الصمصام : [ کاٹنے ولی ، مضبوط جو کبھی نہ مڑ سکے] یہ حضرت عمرو بن معدی کرب کی تلوار تھی۔

( ۵ ) ا لقلعی : یہ قلعی نامی جگہ سے ملی تھی۔
( ۶ ) ا لبتار : [ بہت خوب کاٹنے والی ]
( ۷ ) ا لحتف : حتف موت کو کہتے ہیں ۔
( ۸ ) ا لرسوب : جسم میں گھس کر ڈوبنے والی۔
( ۹ ) ا لمخذم : کاٹنے والی تلوار
( ۱۰ ) ا لقضیب : بہت زیادہ کاٹنے والی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیزے اور برچھیاں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانچ نیزے تھے۔ جن میں سے تین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنوقینقاع سے ہاتھ لگے تھے۔ ایک اور نیزہ المثویٰ نام کا تھا۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ یہ نیزہ جسے لگتا تھا وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا تھا [ بلکہ وہیں دم توڑ دیتا تھا ] ایک اور نیزہ المنثنی نام کا تھا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برچھی تھی جس کا نام ا لبتعہ تھا اس کا تذکرہ علامہ سہیلی رحمہ اللہ نے کیا ہے اور ایک بڑی برچھی تھی اس کا نام البیضاء تھا ۔ جبکہ ایک چھوٹی برچھی العنزہ نام کی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے وقت اسے ہاتھ میں رکھتے تھے اور عید کے دن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نیزہ بردار کے ہاتھ میں یہی نیزہ ہوتا تھا پھر اسی نیزے کو عید گاہ میں بطور سترہ گاڑ دیا جاتا تھا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات زرہیں تھیں ۔
( ۱ ) ذات الفضول ۔ یہ لمبی زرہ تھی اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ابو الشحم یہودی کے پاس اپنے اہل و عیال کے لیے جو کے بدلے رہن رکھی تھی ۔
( ۲ ) ذات الوشاح۔
(۳ ) ذات الحواشی ۔
( ۴ ) السعدیہ ۔ یہ سعد نامی ایک علاقے کی طرف منسوب ہے جہاں زرہیں بنتی تھیں بعض حضرات کا فرمانا ہے کہ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کی زرہ تھی جو آپ نے جالوت کو قتل کرتے وقت پہن رکھی تھی ۔
( ۵ ) فضہ
( ۶ ) البترا
( ۷ ) الخزیق ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود​


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی دو خود [ جنگی ٹوپیاں ] تھیں ۔
( ۱ ) الموشج :
( ۲ ) السبوغ یا ذوالسبوغ : یہی خود فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تھا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھالیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ڈھال الزلوق نامی تھی زلق پھسلنے کو کہتے ہیں اس پر تلوار وغیرہ پھسل جاتی تھی ۔ ایک اور ڈھال الفنق نامی تھی اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک اور ڈھال بطور ہدیہ پیش کی گئی تو اس پر عقاب یا مینڈھے کی تصویر تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادست مبارک اس پر رکھا تو وہ تصویر مٹ گئی ۔

[ جہاد کے لیے خریدے جانے والے اور تیار کئے جانے والے اسلحہ کے فضائل ہم نے پڑھ لئے اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میراث میں نہ درھم چھوڑے نہ دینار ۔ اور نہ کوئی اور مال اور دولت ۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے میراث میں امت کو علم اور جہاد کے ہتھیار عطاء فرما کر اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ مسلمانوں نے جب تک میراث نبوی کو تھامے رکھا اس وقت تک وہ واقعی مسلمان رہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہ آسکی اور نہ کہیں اسلامی نظام کو چیلنج کیا جاسکا لیکن جب مسلمانوں نے علم دین چھوڑ دیا اور اسلحے کو بھی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا تو پھر نہ وہ اپنے اندر اسلام کو محفوظ رکھ سکے اور نہ وہ دنیا میں اسلامی نظام کی حفاظت کر سکے بلکہ اپ تو وہ زمانہ بھی آ چکا ہے جب خود بہت سارے نام نہاد با اختیار مسلمان اسلامی نظام حکومت اور اسلام نظام معیشت کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں اور اسلامی سزاؤں کو ( نعوذ باللہ) انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں یہ لوگ بھی اب کافروں کی طرح یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام ایک مذہب ہے اور مذہب ایک ذاتی معاملہ اور مذہب تک محدود چند رسومات کا نام ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک کامل دین ہے جو دنیا کے تمام باطل ادیان اور ظالمانہ نظاموں پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور لوگوں کو سیدھا راستہ ، امن ، روزی ، اور وسعت والی زندگی عطاء کرنا اسلام کی ذمہ داری ہے جبکہ اسلام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور مسلمان یہ ذمہ داری اسی وقت اداء کرسکتے ہیں جب وہ اپنے پاک نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کو تھامیں گے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اللہ تعالی کے حکم سے اسلام کی دعوت دی اور یہ اعلان فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی کو بھیج دیا ہے اور میں قیامت تک تمام انسانیت کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرا مشن دنیا میں لا الہ الا اللہ کو غالب کرنا اور باقی سارے ادیان کو مغلوب کرنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں دو چیزیں سینہ تان کر کھڑی ہوئیں ایک جہالت اور دوسری کافروں کی طاقت ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہالت کے مقابلے میں قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں علم کو پھیلایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی میراث میں یہ علم امت کے لئے چھوڑا اور امت نے اس علم کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
دوسری چیز جو اسلام کے مقابلے میں اتری وہ تھی کافروں کی طاقت چنانچہ اس سے مقابلے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جہاد فرض کیا گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس وقت تک لڑتے رہو جب تک دنیا میں کافروں کے پاس کچھ طاقت بھی موجود ہے ۔ کیونکہ کافر ہمیشہ اپنی طاقت اسلام کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے طاقت بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر تم دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا چاہتے ہو تو پھر اپنے دشمن کافروں کو کبھی بھی طاقتور نہ بننے دینا بلکہ ان کی طاقت کو توڑنے کے لئے ان سے جہاد کرتے رہنا۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جزیرۃ العرب سے کافروں کی طاقت کو ختم کر دیا گیا۔ حضرات خلفاء راشدین نے بغیر تاخیر کئے روم اور فارس کی دونوں سپر پاوروں پر آگے بڑھ کر وار کیا اور ان کی طاقت کو بھی اکھاڑ پھینکا ۔ بس یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسلحے سے محبت فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وراثت میں اسلحہ چھوڑا کیونکہ اسلحے کے ذریعے جہاد ہوتا ہے اور جہاد کے ذریعے سے اللہ کا نام اور اس کا نظام دنیا میں قائم اور نافذ ہوتا ہے۔ مگر کافروں نے محنت کر کے مسلمانوں کے دلوں میں اسلحے کی نفرت ڈال دی اور ان کے ذہنوں میں یہ بھر دیا کہ اسلحہ اٹھانا یا تو تنخواہ دار فوجیوں کا کام ہے یا بد معاشوں اور غنڈوں کا جبکہ شرفاء اور علماء اور صلحاء کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہاتھوں میں اسلحہ لے کر پھریں یا اپنے گھروں میں اسلحہ جمع کریں ۔ کافروں کا یہ جادو کام آگیا اور اہل علم اور اہل تقوی نہتے ہو گئے حالانکہ ماضی کے تمام ائمہ تمام اکابر ، تمام محدثین تمام صوفیاء اور تمام اولیا ساری زندگی ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا کر جہاد کے راستوں میں شہادت کی لیلی کو ڈھونڈتے رہے اور جب ان کا انتقال ہوتا تھا یا وہ شہید ہوتے تھے تب بھی ہتھیار ان کے ہاتھوں میں ہوتے تھے وہ ان ہتھیاروں سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اپنا قیمتی سرمایہ اور وقت انہیں خریدنے ، بنانے اور سیکھنے میں خرچ فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ان پر فخر کرتا ہے جبکہ آج کے نہتے مسلمانوں پر اسلام خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی بزدلی اور کم فہمی کی وجہ سے اسلام کو اتنا ذلیل و رسوا کیا ہے جتنا وہ ماضی میں کبھی نہ تھا۔ اسلام کے یہ آنسو شرمندگی اور عار بن کر ہمیں ایک ہی بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو دوبارہ تھام لیں جو ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عطاء کر گئے تھے ۔ تب ان شاء اللہ اسلام بھی ہم پر فخر کرے گا اور ہم قیامت کے دن کی شرمندگی سے بھی بچ جائیں گے۔
یا اللہ ہم سب مسلمانوں کو اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سنبھالنے اور تھامنے کی توفیق عطاء فرما دے اور ماضی کی طرح اب بھی اسلام کو دنیا میں نافذ فرما کر انسانیت پر رحم فرما دے ۔ آمین ثم آمین ]
 
Top