متقارب مثمن سالم میں ایک کوشش

الف عین

لائبریرین
بحر کا مسئلہ تو ان سارے مصرعوں میں ہے
سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے​
کسی حال میں تو شمس کو زوال ہے​
یہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہے​
فضا میں ، تری خوشبو کا سب کمال ہے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بحر کا مسئلہ تو ان سارے مصرعوں میں ہے
سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے​
کسی حال میں تو شمس کو زوال ہے​
یہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہے​
فضا میں ، تری خوشبو کا سب کمال ہے​

اگر قافیہ کو دیکھا جائے تو
خیال، زوال، جلال، کمال تقطیع میں اسی طرح نہیں لکھے جائیں گے کیا خ۔یا۔ل ؛ ز۔وا۔ل ؛ ج۔لا۔ل ؛ ک۔ما۔ل
سمجھ نہیں آرہی ہے کہ غلطی کس جگہ ہوئی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ذرا توجہ فرمائیں، بحر ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن یعنی

ف عو لن × ف عو لن × ف عو لن × ف عو لن
یا

1 2 2 × 1 2 2 × 1 2 2 × 1 2 2

اب شعر کی تقطیع کریں

سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے

سَ رے شا × ف عو لن × 1 2 2 × درست
م جو تم × ف عو لن × 1 2 2 × درست
کُ مے را × ف عو لن × 1 2 2 × درست
خ یا ل ہے × ف عو ل فع × 1 2 1 2 × غلط

آپ آخری ٹکڑے میں لُن یا 2 کی بجائے 1 2 لا رہے ہیں، یہی غلطی ہے۔ یہاں کوئی ایسا لفظ ہونا چاہیے جو دو ہجائی یا 2 ہو، مثلاً اگر مصرعے کو اس طرح کریں فقط وضاحت کیلیے

سر شام جو تم کو میرا خیالے

تو اس کا وزن درست ہو جاتا ہے گو مصرع درست نہیں

خ یا لے × ف عو لن × 1 2 2

اور ظاہر ہے کہ یہ غلطی ولا حصہ قافیہ کا ہے سو یہ قافیہ یہاں نہیں آ سکتا۔

اگر آپ کو اب بھی کوئی اشکال ہو تو بلا تکلف بیان کریں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وارث بھائی ایک سوال ہے کہ پچھلے صفحے پہ ایک رپلائی میں آیا ہے کہ بوقتِ ضرورت "ہے" کی ے کو گرا کر تقطیع میں بطور ہَ لایا جا سکتا ہے، اگر اسی طرح اوپر والے مصرعوں کے ساتھ ایسا کیا جا سکتا ہے کیا؟ مثلاَ
خ --فَ
یا --عو
ل ہَ۔۔لُن
 

محمد وارث

لائبریرین
جی گرایا جا سکتا ہے لیکن اس کو مدغم یا "مرج" نہیں کیا جسا سکتا، اگر گرا بھی دیں تو یہ لُن نہیں بنے گا بلکہ

خ یا ل ہ - ف عو لُ نُ یا 1 2 1 1 بن جائے گا اور اس بحر میں یہ ممکن نہیں ہے یعنی وزن پھر بھی غلط رہے گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جی گرایا جا سکتا ہے لیکن اس کو مدغم یا "مرج" نہیں کیا جسا سکتا، اگر گرا بھی دیں تو یہ لُن نہیں بنے گا بلکہ

خ یا ل ہ - ف عو لُ نُ یا 1 2 1 1 بن جائے گا اور اس بحر میں یہ ممکن نہیں ہے یعنی وزن پھر بھی غلط رہے گا۔


وارث بھائی بہت بہت شکریہ، مجھے یہ غلط فہمی کافی بڑی حد تک ہو گئی تھی کہ اس کو مدغم کیا جا سکتا ہے۔
ہائے ہائے
فکرِ شعر میں سر کھپاتا ہوں
میں کہا اور یہ وبال کہاں
 
جناب غزل کو دیکھ کر مجھے نصرت صاحب کی وہ غزل یاد آگئی۔
وہ ہٹا رہے ہیں پردہ سرِ عام چپکے چپکے
کوئی قتل ہورہا ہے درِ بام چپکے چپکے

آپ یہی بحر کو کیوں نہیں آزماتے؟

سرِ شام تم کو میرا جو خیال آرہا ہے
وہی روز جیسے سورج کو زوال آرہا ہے

مجھے پتا ہے کہ غلط ہی ہوگا لیکن اساتذہ اسی بہانے اصلاح ہی فرمادیںگے
 

الف عین

لائبریرین
تمہارا مشورہ درست سہی مزمل، لیکن یہ بلال کی صواب دید پر ہے۔ وہ جس بحر کو آزمانا چاہیں یا جس میں مشق کرنا چاہیں۔ مجوزہ بحر ہی پر کیا موقوف، لا تعداد بحریں ہیں جس میں اس قسم کے موضوع کو ڈھالا جا سکتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میری رائے میں "آج ہے" بھی اسی قدر درست ہے جتنا "اب ہے" کیونکہ اردو ادب میں بے شمار اساتذہ نے ہ کو پچھلے حرف کے ساتھ متصل کیا ہے۔
رہا کی تقطیع رہ کرنے کے متعلق میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ غلط ہے۔۔۔ شاید آپ نے دیکھا نہیں۔
لیا، دیا، گیا، وغیرہ کا وزن فعو ہے
لیکن میں جھ بھ پھ تھ ٹھ وغیرہ کو مختلف حرف مانتا ہوں۔ ممکن ہے کہ استثنائی امثال مل جائیں اساتذہ کے یہاں۔ لیکن مجموعی طور سے تو میں اسے غلط مانتا ہوں۔
اعجاز صاحب! بات آپ کے یا میرے ماننے اور نہ ماننے کی نہیں۔۔۔ میرؔ و غالبؔ سے لے کر موجودہ دور کے شعرا تک کے ہاں یہ مثالیں مل جائیں گی۔ اس کے باوجود اسے آپ "استثنا" کہنا چاہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
بھ، پھ، جھ، کھ وغیرہ کو میں بھی مختلف حروف ہی مانتا ہوں۔
فاتح بھائی اور استاد محترم اب میں کس چیز کو صحیح مانوں، اب ہے یا آج ہے کو۔
میں تو اس سلسلے میں اپنی بات پر قائم ہوں۔
محمد وارث کا کیا خیال ہے؟
ہم تو غالب سمیت دیگر اساتذہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اشعار میں ہ کا اتصال کیے جاتے ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو:
شاید ہو رفتگاں کی گردِ ملال
ابر سا کارواں سے اٹھتا ہے
خاکسار
اب اس کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہے درست نہیں اسکی تقطیع یوں ہوگی

عجب بے ÷ فعولن
قراری - فعولن
س آکو - فعولن
م آ ج ہے - فعول فع جو کہ غلط ہے۔ ہے کی ی گرا کہ ہ رہنے دیں تو م آج ہ فعول ع ہوگا یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ تسبیغ نہیں ہے، اور وصال کا تو یہاں سوال ہی نہیں۔
یہ فرق پڑتا ہے جب کم از کم بحث کرنے والا کم از کم ایک فرد جاہل ہو!!میں تو ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ مجھے عروض وغیرہ نہیں آتی، بس عملی طور پر کچھ شد بد ہے۔ بہت شکریہ وارث اعظم!!
اگر ہ کا گذشتہ حرف سے اتصال درست نہیں تو میرؔ کے درج ذیل شعر کی درست تقطیع کیونکر ممکن ہے؟
نہ ہونا ہی بھلا تھا سامنے اس چشم گریاں کے
نظر اے ابرِ تر آپ ہی نہ آوے گا برس بہتر​
 
اگر ہ کا گذشتہ حرف سے اتصال درست نہیں تو میرؔ کے درج ذیل شعر کی درست تقطیع کیونکر ممکن ہے؟
نہ ہونا ہی بھلا تھا سامنے اس چشم گریاں کے​
نظر اے ابرِ تر آپ ہی نہ آوے گا برس بہتر​

فاتح بھائی اس شعر میں اور اس طریقہء تقطیع میں میں تو نہیں سمجھتا کہ کچھ غلط ہے۔ کہ یہاں تو حقیقت میں کسی لفظ کا حذف کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور ”آپ ہی“ کو ”آپھی“ بنانا (صوتی صورت میں) کچھ معیوب بھی معلوم نہیں ہوتا کم از کم مجھے تو۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی اس شعر میں اور اس طریقہء تقطیع میں میں تو نہیں سمجھتا کہ کچھ غلط ہے۔ کہ یہاں تو حقیقت میں کسی لفظ کا حذف کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور ”آپ ہی“ کو ”آپھی“ بنانا (صوتی صورت میں) کچھ معیوب بھی معلوم نہیں ہوتا کم از کم مجھے تو۔
جی بعینہ یہی بات ہم نے کہی تھی اور اسی نکتے پر تمام گفتگو تھی اور ہماری جانب سے بلال کے مصرع میں "آج ہے" کو "آ جھے" پڑھتے ہوئے اسے تقطیع میں شامل کرنے اور درست قرار دینے پر بات شروع ہوئی تھی۔
ہمیں معلوم ہے کہ تقریباً تمام اساتذہ نے ایسا کیا ہے اور کل اتفاق سے میرؔ کے دیوان کے مطالعہ کے دوران یہ شعر اور ایسے ہی دو ایک اور شعر بھی سامنے آ گئے جنھیں ہم نے اپنے بیان کی تائید میں یہاں شامل کرنا مناسب سمجھا۔
قبل ازیں ہ کے گذشتہ حرف سے متصل ہونے کی مثال ہم اپنے شعر میں تو دے ہی چکے تھے۔
 

احمد بلال

محفلین
سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے
کسی حال میں تو شمس کو زوال ہے
شمس کا تلفظ بھی غلط ہے۔ صحیح م ساکن کے ساتھ ہے جبکہ یہاں م مفتوح آ رہا ہے۔
محمد بلال اعظم صاحب ایک بات آپ کو کہنی ہے وہ یہ کہ اصلاح کے لیے پوسٹ کرتے وقت پہلے اشعار لکھا کریں بعد میں تقطیع ۔ (اگر اصلاح ِ سخن میں پوسٹ کرنے کے اصولوں میں اس کے برعکس ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ )
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شمس کا تلفظ بھی غلط ہے۔ صحیح م ساکن کے ساتھ ہے جبکہ یہاں م مفتوح آ رہا ہے۔
محمد بلال اعظم صاحب ایک بات آپ کو کہنی ہے وہ یہ کہ اصلاح کے لیے پوسٹ کرتے وقت پہلے اشعار لکھا کریں بعد میں تقطیع ۔ (اگر اصلاح ِ سخن میں پوسٹ کرنے کے اصولوں میں اس کے برعکس ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ )

یہ تو ساری غزل ہی بیکار ہے، میں نے دوبارہ اس کی کوشش ہی نہیں کی۔
پہلے لکھتا تھا ساری غزل کی تقطیع مگر اب صرف انہی اشعار کی لکھتا ہوں جن کا پوچھا کہ کیسے تقطیع کی ہے یا جن میں مجھے خود ابہام ہو۔
 
Top