مایوسی سے جنگ

مقدس

لائبریرین
ناعمہ میرے خیال میں فرسٹریشن دور کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے کہ ہم اس کو کسی پر نکالنے کے بجائے کچھ لکھ کر اس کو دور کریں۔ آپ کے پاس الفاظ ہیں۔۔ آپ لکھ سکتی ہیں ۔۔ اور آپ ایسا ہی کر رہی ہیں۔۔ آپ دیکھنا بہت جلد آپ اس سچوئیشن سے نکل آئیں گی
 

انتہا

محفلین
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول کتابوں میں ملتا ہے:
عرفت ربی بفسخ العزائم
یعنی، میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا ہے۔
بندہ پر کوئی حال یا کیفیت رجوع الی اللہ کے لیے آتی ہے۔
ہم نے اپنی تمام خواہشات اور ضروریات کےپورا ہونے کو تو اللہ کا انعام سمجھا ہے لیکن خواہش کے ٹوٹنے پر اللہ کی طرف یکسوئی اور توجہ کا جو نعمت عظمیٰ ہے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اس میں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے۔
 
درست ہے۔
جب بہت فرسڑیشن ہورہی ہو تو ایک بار رک کر اپنے اپ کو دیکھنے اور اللہ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے
اس بارے میں ایک ازمودہ نسخہ صلوة التسبیح ہے۔ یہ وظیفہ عام ہے۔ رات کو سونے سے پہلے چار رکعت کی نیت کرکے تین سو مرتبہ تسبیح پڑھیں جو اس نماز کے لیے مخصوص ہے۔ ہر بار کلمے کا مطلب اپنے ذھن میں بھی دھرانا ہے۔ یہ عمل چالیس منٹ سے ایک گھنٹے کا ہے۔ نماز پڑھ کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگیں۔
اگلے ہی روز انشاللہ نتیجہ دیکھیں۔
کیا انسان اور کیا انسان کی اوقات اور کیا اس کی دنیاوی جستجو۔ اصل چیز صرف اللہ سے تعلق ہے۔ اگر ہر معاملے کے بعد اللہ سے تعلق مضبوط ہورہا ہے تو پھر پوری دنیا اپ کے ہاتھ سے نکل جائے مگر اپ کامیاب ہیں انشاللہ۔
 

انتہا

محفلین
اپنی جیسی بنی ہوئی مخلوق سے توقعات وابستہ کرنا اکثر مایوسی اور ناامیدی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن جن سے توقعات ہوتی ہیں جب وہ پوری نہیں ہوتیں توان کی حقارت اور نفرت دل میں آنا بھی یقینی ہے۔ تو کیوں نہ صرف اس ذات کی طرف کامل متوجہ ہوا جائے جس سے کبھی بھی مایوسی اور ناامیدی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہر ایک صرف اسی ذات کا محتاج ہے، اور وہ کسی کو مایوس نہیں لوٹاتا۔
تاریخی کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ فرعون جو کہ ایک متکبر، ظالم بادشاہ تھا اور جسے دعوائے خدائی بھی تھا۔ ایک مرتبہ مصر میں قحط پڑ گیا۔ لوگ فرعون کے دربار میں آئے اور اس سے کہا کہ تو خدا ہے۔ ہم تجھے خدا مانتے ہیں۔ تو بارش برسا تا کہ ہماری کھیتیاں سیراب ہوں، ہماری اور ہمارے مویشیوں کی پیاس بجھے۔ ہم اس وقت مشکل میں ہیں تو ہماری مدد کر۔ فرعون یہ سن کر بڑا پریشان ہوا اور سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے لوگوں سے کہا کہ جاؤ، کل بارش ہو جائے گی۔ لوگ خوش ہو کر چلے گئے۔
جب رات ہوئی اور مخلوق خدا محو خواب ہوئی تو تو فرعون اٹھا اور اس نے اپنا لباس فاخرہ زیب تن کیا۔ تاج کو سر پر سجایا اور رات کے اندھیرے میں دریائے نیل پر پہنچ گیا۔ دریا کے کنارے جا کر اس نے تاج کو مٹی میں پھینکا، خود گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے مٹی اپنے سر پر ڈالتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنے لگا: اے خدا، تو جانتا ہے کہ میں خدا نہیں، میرے بس میں کچھ بھی نہیں، تو میرے جھوٹ سے اچھی طرح واقف ہے، دیکھ تیری مخلوق پیاسی پھر رہی ہے، ان کی کھیتیاں برباد اور بستیاں ویران ہو رہی ہیں۔ لوگ بے موت مر رہے ہیں، تو ان کے حال پر رحم کر، ان پر اپنی رحمت نازل فرما۔ اس کا رونا گڑگڑانا اللہ تعالیٰ کو ایسا پسند آیا کہ کچھ ہی دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔ فرعون نے اپنا لباس ٹھیک کیا، تاج سر پر رکھا اور اپنے محل میں واپس چلا گیا۔(یہ واقعہ سکون قلب میں کم وبیش الفاظ کے ساتھ لکھا ہے)
جب اللہ تعالیٰ ایسے جھوٹے خدا کی جھوٹی خدائی کا بھرم رکھ سکتا ہے اور اسے مایوس نہیں لوٹاتا تو اپنے ماننے والے پر تو وہ بہت زیادہ مہربان ہے۔ اور ان کی پکار تو بہت جلد سننے والا ہے۔
لیکن حق یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں نے اس کے حق کی قدر نہیں کی اور اسے چھوڑ کر عاجز، محتاج چیزوں سے امیدیں لگا دیں۔
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهؕ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهؕ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْ۔ًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ۠ مِنْهُ١ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ۰۰۷۳ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۰۰۷۴ اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓكَةَِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌۚ۰۰۷۵ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۰۰۷۶ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۰۰۷۷
لوگو! ایک مثال با ن کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں۔ ان لوگوں نے خدا کی قدر جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی۔ کچھ شک نہیں کہ خدا زبردست اور غالب ہے خدا فرشتوں مں سے پغا م پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ بےشک خدا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے جو ان کے آگے ہے اور جن ان کے پچھے ہے وہ اس سے واقف ہے۔ اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے۔ مومنو! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ۔(الحج: ۷۲-۷۷)
 

زونی

محفلین
میرے پاس تو علم نہیں ہے عمل بھی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے اگر دنیا میں کوئی بندہ ناکام ہے تو مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،





جب ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا کوئی دوسرا شخص ہماری کسی کمی یا کوتاہی کی طرف نشاندہی کرتا ھے تو نارمل سی بات ھے پہلا ردعمل یہ ہوتا ھے کہ ہم منفی سمت میں سوچنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنی کوتاہی کیلئے کوستے ہیں ،،،،جب کوئی انسان اس طرح کی منفی باتیں سوچنے لگتا ھے اور اسی ایک نکتے پہ بار بار سوچتا ھے تو ایک وقت آتا ھے وہ حقیقت میں اس نتیجے پہ پہنچتا ھے کہ وہ بلا ضرورت اس دنیا میں بھیجا گیا ھے اور چونکہ وہ سوسائٹی کی نظر میں پرفیکٹ نہیں ھے لہذا اس سے زیادہ ناکام شخصیت اس دنیا میں دوسری کوئی نہیں ھے ۔ یہاں سے فرسٹریشن کا آغاز ہوتا ھے اور اگر یہ رویہ زیادہ دیر قائم رہے تو انسان حقیقی معنی میں ڈپریشن میں چلا جاتا ھےجو کہ سب بیماریوں کی جڑھے ۔

فرسٹریشن سے نکلنے کیلئے پہلی چیز جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ھے وہ انسان کی اپنی سوچ ہوتی ھے اور اسے تبدیل کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ھے ،،،اس کیلئے ضروری ھے کہ آپ چیزوں کو مثبت پیرائے میں دیکھیں یعنی مثال کے طور پہ اپنے آپ کو لایعنی مخلوق سمجھنے کی بجائے اپنے اندر ان صلاحیتوں کو تلاش کریں جن کے بل بوتے پہ آپ اپنی شخصیت کو گروم کر سکیں ،،اگر کسی مقصد میں ناکامی کا سامنا ھے تو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو پہچان کر مثبت انداز میں انہیں خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں ،،،اپنے اندر اتنا قوت ارادی پیدا کریں کہ غیر جانبداری سے اپنا محاسبہ خود کریں تاکہ منفی سوچ کو مثببت رویے میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اور سب سے اہم بات کہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ھے بلکہ اپنے تجربات سے سیکھتا ھے اور اس کا تعلق دنیاوی علوم سے بہت کم ھے ،،،یہ ضرور ھے کہ دنیاوی علوم آپ کے شعوری ارتقا میں مددگار ثابت ہوتے ھیں ۔ تمام امور اللہ تعالی کی مرضی سے انجام ضرور پاتے ہیں لیکن میرے خیال میں جو برتر قوت انسان کو حاصل ھے وہ انسانی شعور ھے جس پہ انحصار کر کے ہم اپنے معاملات کو پہچان سکتے ہیں اور بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہیں ۔

اس کے باوجود اگر انسان بے چینی محسوس کرتا ھے تو کسی دوست ،،،رشتہ دار یا قابل اعتماد شخص سے ضرور شئیر کرنا چاہیئے اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اپنے خیالات کو قلمبند کریں یا کسی ایسی صحتمندانہ ذہنی یا جسمانی ایکٹوٹی کو اپنے معمولات میں شامل کر لیا جائے جس سے فرسٹریشن کا خاتمہ بھی ہو اور دوسرے معاشی یا معاشرتی مقاصد بھی حاصل کیے جا سکیں یا کسی دیرینہ شوق کی تسکین ہو سکے ۔
 

عسکری

معطل
مقام کی تبدیلی بھی بہت ہی ضروری ہے کئی سال سے ایک ہی کام کر کر کے میں خود فرسٹریشن میں تھا ہر وقت پھر پاکستان کا ٹور لگایا اب ایک سال سے سب ٹھیک ہے :biggrin:
 
Top