ماہر طبیب: از امام ابن القیم

ماہر طبیب: از امام ابن القیم

ماہر طبیب: از امام ابن القیم
امام شمس الدین محمد بن ابی بکر جو امام ابن القیم کے نام سے مشہور ہیں بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر معالج و طبیب بھی تھے انہوں نے بیماریوں اور دواوں پر ایک قابل قدر کتاب ْالطبْ لکھی ہے، امام موصوف ۷۵۱ ھجری میں فوت ہوئے ہیں۔آج سے تقریباً سات سو سال پہلےانہوں نے ماہر معالج کے لئے جن چیزوں کا خیال رکھناضروری قرار دیا تھا، اس کی اہمیت اور گذشتہ مسلمان علماء کی میڈیکل کے میدان میں برتری اور اولیت اس سے بخوبی نمایاں ہو جاتی ہے۔

ماہر طبیب وہ ہے جو علاج میں درج ذیل امور کا اہتمام کرتا ہو )مختصر خلاصہ(طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم از امام ابن القیم الجوزیہ صفحہ نمبر ۱۹۶ تا ۱۹۸۔
۱۔ نوع مرض۔ کہ وہ کس قسم سے متعلق ہے۔
۲۔ سبب مرض۔کہ اس مرض کے پیدا ہونے کی وجہ اور علت کیا ہے۔
۳۔ مریض کی قوت کا اندازہ۔کہ وہ مرض کا مقابلہ کر سکتا ہے یا نہیں اور کس حد تک۔
۴۔ مریض کا مزاج طبیعی،
۵۔ مریض کا مزاج حادث: موجودہ ۔وقتی۔عارضی (دورانِ بیماری)
۶۔ مریض کی عمر۔
۷۔ مریض کی عادات، معمولات،
۸۔ موسم، جس میں اس کو بیماری آئی۔جس میں اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
۹۔ مریض کا وطن۔جائے پیدائش۔جائے رہائش۔اور وہاں کے حالات کا علم۔
۱۰۔ وقت مرض۔موسم اور آب و ہوا کی نوعیت۔
۱۱۔ اس مرض کے مقابلہ میں دوا کی تجویز۔
۱۲۔ دوا اور مریض کی قوت باہمی کا موازنہ۔
۱۳۔ اس انداز سے علاج کہ کوئ نئی بیماری پیدا نہ ہو۔جو اس سے بھی شدید ہو۔
۱۴۔ علاج میں تدریج، پہلے آسان طریق علاج سے شروع ہو سکتا ہو تو دوا سے پہلے غذا سے علاج۔
۱۵۔ یہ جاننا کہ مرض قابل علاج ہے یا نہیں، اگر مرض لاعلاج حد تک پہنچ چکا ہو تو پھر غیر مفید علاج نہ کرے، اگر مرض میں تخفیف ممکن ہو،اس مرض کا اضافہ رکنا ممکن ہو۔اس کے مقابلے میں قوت مدافعت بڑھانا ممکن ہو تو اس انداز سے علاج کرے۔
۱۶۔ مادہ مرض کے پختہ ہونے /کرنے سے پہلے اس کا استفراغ )اخراج (نہ کرے۔
۱۷۔ طبیب کو قلبی۔روحانی امراض اور ان کے علاج کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے اور اس طرف پہلے توجہ کی ضرورت ہے۔
۱۸۔ مریض سے انتہائی نرمی سے پیش آیا جائے جس طرح بچے سے پیش آتے ہیں۔
۱۹۔ طبیعی۔روحانی۔اور نفسیاتی تمام اقسام کا طریق علاج استعمال کرے، بعض اوقات نفسیات کا علاج زبردست نتیجہ لاتا ہے۔
۲۰۔ جن امور پر علاج کی بنیاد کا انحصار ہو وہ درج ذیل چیزیں ہونی چاہیے۔
الف۔ صحت موجودہ کا تحفظ۔کہ وہ کم از کم برقرار رہے۔
ب۔ ضائع شدہ صحت کی بحالی۔
ج۔ مرض کا ازالہ۔
د۔ مرض میں حتی الامکان کمی۔اور بالاخر اس کی دوری۔
ھ۔ بڑی خرابی کو دور کرنے کے لیے ہلکی مضرت کو برداشت کرنا۔
و۔ بڑے فائدے کے حصول کے لیے چھوٹے فائدے کی قربانی دینا۔
جو طبیب ان چیزوں کو نظر انداز کرتا ہے اسے طبیب کہنا جائز نہیں۔

مریض کے احوال اور مرض کے احوال ) ابتدائے مرض ۔شباب مرض۔انتہائے مرض۔انحطاط مرض)کا خیال رکھنا واجب ہے۔
طبیب کی مہارت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اگر آسان تدبیر ممکن ہو تو دشوار علاج کی طرف نہ جائے اور اگر ضعیف و کمزور تدبیر ممکن ہو تو قوی کی طرف تدریجاً انتقال کرتا رہے۔ہاں اگر کمزور تدبیر سے مریض کی قوت ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو پھر قوی تدبیر درست ہوگی۔
مریض پر کوئ ایسا تجربہ نہ کرے جس سے اس کو ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔اگر چند امراض یکجا ہوں تو جو دوسرے مرض کا سبب ہو پہلے اس کا علاج کرے یا جو زیادہ اہم ہو اسے پہلے لے لے۔
ترتیب و تحریر از ڈاکٹر شمس الحق حنیف (منتظم اعلٰ شعبہ اسلامیات، ۔۔۔۔۔۔میڈیکل کالج (
 
Top