سیما علی

لائبریرین
ماں کے انتقال پر
شکیل اعظمی

اللہ جی
ہم سو نہیں پاتے
امی کو کب بھیجو گے
نانی کہتی ہیں
تم ہم سے روٹھے ہو
لیکن اب ہم
روزانہ مکتب جائیں گے
تم کو تختی پر لکھیں گے
اسلم مسٹر گندے ہیں
ان کے ساتھ نہیں کھلیں گے
اللہ جی
اب مان بھی جاؤ
چاہو تو
امی کے بدلے
ہم سے ساری چیزیں لے لو
گیند بھی لے لو
اور گولی بھی
لٹو اور غلیل بھی لے لو
لیکن ہم کو امی دے دو
ہم کو ہماری امی دے دو
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
وسیع خاندان، ہمہ وقت تکلیف دینے والے دل
اور بے جا توقعات میں گھری تھی
مگر مسکراتی تھی

خوش مزاجی ماں کی فطرت تھی

غلہ، سبزیاں، مشروب
ماں کے ہاتھوں سے ذائقہ کشید کرتے تھے
ماں کا کچن گلی گلی پھر کر کمانے والوں کا پنج تارہ ہوٹل تھا

وہ جیب پھولوں، سبزیوں اور محبت کے بیجوں سے بھری رکھتی تھی
اس نے کبھی زرخیزیوں کا پتا نہیں پوچھا
کئی بنجر زمینوں میں وہ یہ سب اگاتی تھی

خوشحالی میں در آنے والے کئی تکلیف دہ وقفے
اس کے چہرے پہ دستخط کر کے گزرے تھے
مگر پھر بھی حسیں تھی

ماں کو سبھی حادثے، پیدائشیں، تاریخیں یاد رہتی تھیں
گا ؤں کی عورتوں کا گوگل تھی

سب کے دکھ سُکھ میں سانجھ کرتی تھی

بس اک شب سوئی تو پھر نہیں جاگی
جب تھی....تو ایک ہی کمرے میں تھی
جب سے نہیں ہے
کائنات ماں سے بھر گئی ہے!

نائلہ رفیق
 
Top