جاسمن

لائبریرین
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

منور رانا
 

جاسمن

لائبریرین
دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

محمد علی ساحل
 

جاسمن

لائبریرین
اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

نظیر باقری
 

جاسمن

لائبریرین
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے
ضمیر جعفری
 

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
زندگی چاہے گداگر ہی بناکر رکھ دے
اے مری
ماں تو میرا نام سکندر رکھ دے

ماخوذ :
ماں از قلم منور راناؔ
 
آخری تدوین:

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
کون سمجھائے یہ تنقید کے شہزادوں کو
ماں پہ ہم شعر نہ کہتے تو یہ شہرت ہوتی

ماخوذ : از
ماں منور راناؔ
 
آخری تدوین:

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا
اٹھایا گود میں
ماں نے تب آسمان چھوا

ماخوذ : از ماں منور راناؔ
 
آخری تدوین:

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی
ماں کی آنکھیں چوم لیجیے روشنی بڑھ جائے گی

ماخوذ :
ماں از منور راناؔ
 

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
منانے کے لیے ماں بیچ رستے میں چلی آئی
یہ ذلت بھی مرے بیٹوں کے حصّے میں چلی آئی

ماخوذ : از
ماں منور راناؔ
 

MD MUBARAK ANSARI

محفلین
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

ماخوذ : از
ماں منور راناؔ
 

سیما علی

لائبریرین
اگر ہو گود ماں کی تو فرشتے کچھ نہیں لِکھتے
‏جوممتا روٹھ جائے توکنارے پھر نہیں دِکھتے
‏یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی
‏سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چُبھتے

‏عابی مکھنوی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

بھوک سے مجبور ہو کر مہماں کے سامنے
مانگتے ہیں بچے جب روٹی تو شرماتی ہے ماں

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوؤں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں

لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں

ایسا لگتا ہے جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر بانہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب کبھی
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں

شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں​
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
رب قادر ، رحیم ،کریم ایسا
کوئی رحیم نہیں اللہ پاک ورگا
پتر بھاویں زمانے دا غوث ہووے
نہیں مانتے پیراں دی خاک ورگا​
 

جاسمن

لائبریرین
سرنگوں سارا جہاں ہے مامتا کے سامنے
بد دعا میں ہے دعا اس کی دعا کے سامنے
جہاں آراء تبسم
 
Top