مانگا ہوا زیور

F@rzana

محفلین
’’مانگا ہوا زیور‘‘

’’زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں‘‘
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھوجانے کا

اس قدر احتیاط سے زندگی کو سینے میں چھپانے والے شاعر کی تجوری کا تالا موت نے آخرکار توڑ ہی دیا اور زندگی کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ہم سے چرا کر لے گئی۔
ہائیکو جاپانی شاعری کی صنف ہے جس کی کشش نے دنیا کے ادب کو اپنی جانب کھینچا اور اسی کشش کے تحت محسن بھوپالی نے ۱۹۶۳میں اپنے دوست اور سندھی ہائیکو نگاری کے بانی ڈاکٹر تنویر عباسی کی ہائیکو کے اردو تراجم سے اس صنف کے فروغ کی بنیاد رکھی، جہاں مشرقی چنبیلی کی خوشبوسے مسحور کیا وہیں جاپانی چیری کے پھولوں کی جھنکار بھی سنوائی ، اس حسن و خوشبو کے امتزاج کو ’’چیری سے چنبیلی تک‘‘ (ہائیکو) اپنے آخری مجموعے میں پیش کرنے والے محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن ولد عبدالرزاق تھا، انھوں اپنے دوست ’’محسن‘‘ کی محبت میں عبدالرحمن کو محسن کا روپ دیا حالانکہ ان کا قلمی نام اپنے بڑے بیٹے کے فرزند کے نام پر ’’ابو راشد‘‘ بھی تھا۔
۱۹ نثری و شعری تصانیف وتالیفات (تین غیر مطبوعہ) کے تخلیق کار ۲۹ستمبر۲ ۱۹۳ کو قصبہ سہاگ پور ،ضلع ہوشنگ آباد (بھوپال) میں پیدا ہوئے،انھوں نے حبیبیہ مڈل اسکول اور الیگزینڈرا ہائی اسکول (بھوپال) سے تعلیم حاصل کی، پاکستان ہجرت کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے ۱۹۵۱ میں میٹرک کیا، لاڑکانہ سے ہی ۱۹۵۴ میں انٹر پاس کیا،سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان بی اے اور ایم اے اردو کیا،گورنمنٹ این ڈی کالج سے انجینئرنگ کا ڈپلومہ لیا اور ایم اے صحافت کے بھی طالبعلم رہے،استاد جگر مرادآبادی،بہزاد لکھنوی، شکیل بدایونی،اور قمر جلالوی جیسے ناموں کی فہرست میں بلاشبہ ان کے نام کی شمولیت تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشترمرحوم کے ایک جلسے میں شعر پڑھنے کے باعث ہوئی کہ:

نیرنگیٔ سیاست ِ دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

محسن بھوپالی پیشے کے اعتبار سے بیشک انجینرنگ سے وابستہ رہے ہوں لیکن شعر و سخن کی دنیا میں انھوں نے اپنا مقام بنایا ،شعر وادب کی دنیا کے کئی بزرگو ں سے کہیں زیادہ فعال رہے۔

’’عظمت فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے تو خطاوار ہیں ہم‘‘
جہد کی دھوپ ہے ایمان اپنا
منکر سایۂ دیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں کہ گنہگار ہیں ہم
اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہل دنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم
کوئی منزل ہے نہ جادہ محسن
صورتِ گردشِ پرکار ہیں ہم‘‘

محسن بھوپالی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ انھوں نے خواجہ معین الدین کے ڈرامے ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ میں دو مختلف ادوار میں دو مختلف شہروں میں دو مرتبہ اداکاری کی جبکہ ۲۱ دسمبر ۱۹۵۹ میں حیدرآباد سندھ کے مشہور صداکار و اداکار سید ارشاد علی کے اسٹیج ڈرامے’’ اندھیرے اجالے‘‘ میں معروف فلمی اداکار محمد علی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔

’’جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مئے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحتِ وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو سرِ عام دیا جائے‘‘

کئی بڑے اور مشہور شعراء کے برعکس مرحوم راسخ العقیدہ مسلمان تھے ،نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں کبھی کنجوسی نہیں کرتے تھے،محسن بھوپالی کے کئی اشعار زبانِ زد عام ہوئے اور ایسی شاعری میں کہتے ہیں کہ بڑی شاعری کا امکان کم ہوتا ہے لیکن محسن بھوپالی نے اسے رَد کر دکھایا، حالانکہ ان کی شاعری نیرنگیٔ حالات کی زیرِ دام رہی جہاں طویل نظموں کے ذریعے کئی موضوعات سمیٹے جاتے ہیں، مگر وہ چھوٹی نظمیں لکھنا پسند کرتے تھے چنبیلی اور چیری کی ننھی کلیوں جیسی نظمیں جو اُن کے الفاظ کی مہک کو ہمیشہ بکھیرتی رہیں گی۔

’’فراقِ زیست کا دھڑکا لگا رہا محسن‘‘
تمام عمر جیئے مرگِ ناگہاں کے لئے

منفرد تخلیقی شاعر و نثر نگار اور اردو ہائیکو کے مربی کے داعی اجل کو لبیک کہنے پر ادب کی دنیا سوگوار ہے اور دعائے مغفرت کے ساتھ انھیں سلام پیش کرتی ہے۔
فرزانہ خان نیناں
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب فرزانہ صاحبہ، تعلیمِ بالغاں میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔ اس میں کون سا کردار ادا کیا تھا مرحوم نے؟
 
Top