مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں ہوں میں ۔۔۔ برائے اصلاح۔۔۔

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں ہوں میں
یہ مت کہو کہ پیار کے قابل نہیں ہوں میں

تجھ کو مرا سلام ہو اے لمحہء وصال
اب تیرے انتظار کے قابل نہیں ہوں میں

اُلفت کی رہگزار کا اِک سنگِ میل ہوں
نفرت کے ریگزار کے قابل نہیں ہوں میں

بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں

مجھ کو مثالِ برگ اُڑا لے گئی خزاں
اب موسمِ بہار کے قابل نہیں ہوں میں

اس بحر میں اظہارِ خیال میرے لیے مشکل ہے، وزن اور تقطیع کا مسئلہ ہے۔۔۔ پھر بھی پہلا شعر اچھا لگا تو باقی لکھ دئیے۔۔۔
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے ۔۔
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
 
بہت خوبصورت غزل ہے شاہد شاہنواز بھائی ۔ خاص طور پر یہ شعر تو لاجواب ہے۔

تجھ کو مرا سلام ہو اے لمحہء وصال
اب تیرے انتظار کے قابل نہیں ہوں میں

البتہ مندرجہ ذیل شعر کی تقطیع ہماری سجھ میں نہیں آرہی۔ اساتذہ آئیں تو سمجھائیں۔


بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں

۔
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن کی نشان دہی برمحل ہے۔
اس غزل کی بحر ہے: ’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘ جس میں آخری فاعلن کے مقابل ’’فاعلات‘‘ لانا جائز ہے۔
مذکورہ مصرع: ’’بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب‘‘ اس بحر میں نہیں آ رہا۔
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن کی نشان دہی برمحل ہے۔
اس غزل کی بحر ہے: ’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘ جس میں آخری فاعلن کے مقابل ’’فاعلات‘‘ لانا جائز ہے۔
مذکورہ مصرع: ’’بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب‘‘ اس بحر میں نہیں آ رہا۔

جزاک اللہ استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی
 
مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں ہوں میں
یہ مت کہو کہ پیار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ مطلع میں معنوی تضاد ہے۔ جو شخص اعتبار کے قابل نہ سمجھا جائے اُس سے پیار کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟

تجھ کو مرا سلام ہو اے لمحہء وصال
اب تیرے انتظار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ اچھا شعر ہے۔

اُلفت کی رہگزار کا اِک سنگِ میل ہوں
نفرت کے ریگزار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ شاعر جو کچھ کہنا چاہ رہا ہے وہ قاری تک پوری طرح پہنچ نہیں پا رہا۔

بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ پہلے مصرعے میں عروضی مسئلہ ہے، جیسا کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب نے بھی نشان دہی کر دی۔ دوسرا مصرع بھی کچھ ایسا جان دار نہیں ہے۔

مجھ کو مثالِ برگ اُڑا لے گئی خزاں
اب موسمِ بہار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ شعر مناسب ہے

محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔

توجہ فرمائیے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گویا باقی تمام مصرعے وزن میں ہیں۔۔۔ حیرت ہے، جبکہ مجھے صرف اپنے مطلعے پر اعتماد ہوتا ہے کہ وہ ضرور وزن میں ہوگا۔ باقی ہر شعر کے پہلے مصرعے پر شک رہ جاتا ہے۔۔۔
بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
2 2 1 2 1 2 1 1 2 2 1 2 1 2
بے سود کا ر بار ک قا بل ن ہی ہ مے
۔۔۔ اس کا وزن سمجھ میں آگیا ۔۔۔ (بشرطیکہ میرے تقطیع کے’’ٹکڑے ‘‘ درست ہوں)
بے فیض اور بے سود برابر ہیں، رفاقت اور کاروبار برابر نہیں، یہیں غلطی ہے۔۔۔ شاید ۔۔۔
کیا ’’بے فیض رفاقت‘‘ کو یہیں رکھتے ہوئے جہاں یہ اس مصرع میں ہے، باقی الفاظ بدل کر یہ مصرع وزن میں لایا جاسکتا ہے:
مثلا
بے فیض رفاقت کی شکایت نہیں کرتا
بے سودکاروبار کے قابل نہیں ہوں میں ۔۔۔
۔۔۔
تقطیع کچھ اس طرح ہے:
2 2 1 2 1 2 1 1 2 2 1 2 1 2
بے فے ض رف ا قت ک ش کا یت ن ہ ک ر تا
مجھے تو ٹھیک لگ رہا ہے۔۔۔ آپ کیا فرماتے ہیں، بیچ اس مسئلے کے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں ہوں میں
یہ مت کہو کہ پیار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ مطلع میں معنوی تضاد ہے۔ جو شخص اعتبار کے قابل نہ سمجھا جائے اُس سے پیار کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟
۔۔ معنوی تضاد بے شک ہے، یہ با ت شاعر کی ذات پر عائد ہوتی ہے ، شاعر کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ اعتبار کے قابل نہیں، لہٰذا پیار کے قابل بھی نہیں ہے، یہ طے ہے۔ لیکن وہ نہیں چاہتا کہ ایسا کہا بھی جائے ۔۔۔
تجھ کو مرا سلام ہو اے لمحہء وصال
اب تیرے انتظار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ اچھا شعر ہے۔

اُلفت کی رہگزار کا اِک سنگِ میل ہوں
نفرت کے ریگزار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ شاعر جو کچھ کہنا چاہ رہا ہے وہ قاری تک پوری طرح پہنچ نہیں پا رہا۔
۔۔ ادھر الفت، ادھر نفرت، ادھر رہگزار، ادھر ریگزار ۔۔۔ لفظوں کی چھیڑ چھاڑ ہے، اور کچھ نہیں۔۔ اگر بہتر نہیں ہوسکتا تو حذف کیاجاسکتا ہے۔۔
بے فیض رفاقت تو بنی ہے مرا نصیب
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ پہلے مصرعے میں عروضی مسئلہ ہے، جیسا کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب نے بھی نشان دہی کر دی۔ دوسرا مصرع بھی کچھ ایسا جان دار نہیں ہے۔
۔۔۔ حذف ۔۔ ۔
مجھ کو مثالِ برگ اُڑا لے گئی خزاں
اب موسمِ بہار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ شعر مناسب ہے
 
’’بے فیض دوستی بھی خسارہ ہے صاحبو‘‘
اس کو دیکھئے گا؛ ویسے میں نے اس میں صرف وزن کو ملحوظ رکھا ہے، مفاہیم کی بات اپنی جگہ۔

بے فے ض (مفعول) دو س تی ب (فاعلات) خ سا را ہ (مفاعیل) صا ح بو (فاعلن)
بے سو د (مفعول) کا ر با ر (فاعلات) ک قا بل ن (مفاعیل) ہی ہ مے (فاعلن)
۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بے فیض دوستی بھی خسارہ ہے صاحبو!
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں ۔۔
مطلب بدل گیا، لیکن قابل قبول ہے، اگر اس میں ابلاغ کی کمی نہ پائی جاتی ہو۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بے فیض دوستی تو بنی ہے مرا نصیب ۔۔۔ بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں ۔۔۔
یہ بھی ہوسکتا ہے، چلئے۔۔۔ اب تک کی گفتگو کے مطابق:
مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں ہوں میں
یہ مت کہو کہ پیار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ متنازع۔۔۔
تجھ کو مرا سلام ہو اے لمحہء وصال
اب تیرے انتظار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ درست۔۔۔
اُلفت کی رہگزار کا اِک سنگِ میل ہوں
نفرت کے ریگزار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ ابلاغ کی کمی کا شکار ۔۔۔
بے فیض دوستی تو بنی ہے مرا نصیب ÷ بے فیض دوستی بھی خسارہ ہے صاحبو
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ کمزور ۔۔
مجھ کو مثالِ برگ اُڑا لے گئی خزاں
اب موسمِ بہار کے قابل نہیں ہوں میں
۔۔۔ مناسب ۔۔۔
 
بے فیض دوستی بھی خسارہ ہے صاحبو!
بے سود کاروبار کے قابل نہیں ہوں میں ۔۔
مطلب بدل گیا، لیکن قابل قبول ہے، اگر اس میں ابلاغ کی کمی نہ پائی جاتی ہو۔۔۔


جب مشاورت کی بات ہو گی تو ہر بات کرنے والا اپنی فکر کے مطابق بات کرے گا۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شعر معنوی سطح پر کامل تب بنتا ہے شاعر کا ما فی ضمیر اور اظہاریہ منطبق ہو جائیں۔
 

منیر انور

محفلین
’’بے فیض دوستی بھی خسارہ ہے صاحبو‘‘
اس کو دیکھئے گا؛ ویسے میں نے اس میں صرف وزن کو ملحوظ رکھا ہے، مفاہیم کی بات اپنی جگہ۔

بے فے ض (مفعول) دو س تی ب (فاعلات) خ سا را ہ (مفاعیل) صا ح بو (فاعلن)
بے سو د (مفعول) کا ر با ر (فاعلات) ک قا بل ن (مفاعیل) ہی ہ مے (فاعلن)
۔۔۔


محترم آسی صاحب ۔۔ +پ نے بلکل درست فرمایا ۔۔۔ بحر میں نہیں ہے مذکورہ مصرع ۔۔۔ آپ جانتے ہیں عروض سے میری جان جاتی ہے ۔۔ اس سے کوسوں دور رہتا ہوں میں ۔۔۔ :)

میرے خیال سے " بے فیض رفاقت " کی گنجائش نہیں بن سکتی اس مصرع میں ۔۔۔ بے کے حوالے سے اپنا ایک شعر یاد آ گیا امید ہے ناگوار خاطر نہیں ہو گا ۔۔۔۔

میرے لوگوں کو نئے خواب دکھائے اس نے
میرے صحراؤں کو بے فیض گھٹائیں دے کر
 
منیر انور بھائی ! یہ کسر نفسی ہی عظیم لوگوں کا خاصہ ہے، اور ان کی پہچان ہے ۔ یہ ایک لٹمس ٹسٹ ہے۔ آپ ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فخر و غرور کبھی عظیم لوگوں کی پہچان نہیں رہا ۔

اجی صاحب! اس فقیر اور منیر انور صاحب میں چُٹکیاں کاٹنے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ ’’نہ وہ باز آئیں نہ ہم باز آئیں‘‘
ان کی محبتوں کا اسیر ہوں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
Top