مامور یا معمور

مامور یا معمور


محترم انتظار حسین بہت بڑے ادیب اور ماہر لسانیات ہیں۔ ہم ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اسی لیے توجہ سے پڑھتے بھی ہیں۔ دو مئی کے ایکسپریس میں ان کا مضمون پڑھا جس میں ان سے ایک سہو ہوا ہے۔ اب ہم بھی بزرگ ہوگئے ہیں اس لیے بزرگوں کی خطا پر گرفت کرسکتے ہیں۔ اس سہو کا تعلق زبان سے نہیں، بیان سے بلکہ حافظہ سے ہے۔ انہوں نے دلّی پر نادر شاہ کے حملے اور شہر کی تباہی کے حوالے سے ایک مصرعشامت اعمال ما صورت نادر گرفتمرزا غالب کے کھاتے میں ڈال دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ ’’اور اب غالب کا بھی اس باب میں ایک مصرعہ (مصرع) سن لیجیے۔‘‘نادر خان نے جب دلّی پر حملہ کیا تو اُس وقت مرزا غالب کے اجداد بھی دلّی میں نہیں تھے۔ یہ صحیح ہے کہ شاعر ماضی کے کسی واقعہ کو نظم کرسکتا ہے لیکن ’’شامت اعمال ما‘‘ کا مطلب ہے میرے اعمال کی شامت۔ یہ واقعہ مغل بادشاہ محمد شاہ کے دور کا ہے۔ اور نادر خان کی لوٹ مار، غارت گری دیکھ کر بادشاہ کے وزیراعظم ناظم الملک آصف جاہ نے بے ساختہ یہ مصرع کہا تھا اور یہ اکلوتا ہی ہے۔ یہ آصف جاہ وہی ہیں جنہوں نے دکن میں سلطنتِ آصفیہ کی بنیاد رکھی۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم محترم انتظار حسین کی پکڑ کرنے چلے تو ہمارے قارئین نے ہماری ہی پکڑ کر ڈالی۔ گزشتہ شمارے میں ایک مصرع:ہائے تغییر زمانہ تھی جو سجدہ گاہے عشقمیں بحر بدل گئی۔ سجدہ گاہے کی جگہ اصل میں ’’سجدہ گہہ‘‘ ہے، ورنہ دونوں مصرعوں کی بحر الگ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک قاری نے توجہ دلائی ہے کہ غالب کا مصرع اس طرح ہے:لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہاجب کہ ہم نے لکھا ’’لیکن تمہاری یاد سے غافل نہیں رہا‘‘… مرزا غالب سے معذرت۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘۔ خسرو کے مصرع میں ’’زبانش‘‘کی جگہ زبالش کمپوزنگ کی غلطی ہے۔ ہم نے ٹھیک تو کردیا تھا لیکن پہلا پرنٹ چلا دیا گیا۔ اسی طرح میر کے مصرع میں ’’انقلابات ہیں زمانے کے‘‘کی جگہ ’’اتفاقات ہیں زمانے کے‘‘۔پڑھا جائے۔لوگ صحیح کہتے ہیں کہ میاں اپنی خبر لو۔ ہمارے ایک محترم قاری جناب عبدالستار ہاشمی بڑی باریک بینی بلکہ ژرف نگاہی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ (ژرف، فارسی، گہرا، عمیق) انہوں نے گزشتہ سنڈے میگزین (11 تا 17 مئی) میں کئی اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔ صفحہ 15 پر ایک عمدہ تحریر ’’درست استعمال مگر کیسے؟ ’’ہے۔ اس میں مضمون نگار نے لکھا ہے ’’ہر فرد استفادہ حاصل کرسکتا ہے۔‘‘ یہ مضمون خواتین کے شعبہ میں شائع ہوا ہے جس میں دخل دینا مناسب نہیں، لیکن ہم بارہا توجہ دلا چکے ہیں کہ ’’استفادہ‘‘ میں حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے۔ اگر حاصل کرنا ضروری ہے تو استفادہ کی جگہ فائدہ لکھ دیں۔ مضمون میں کمپوزنگ کی غلطیاں اور انگریزی کی بھرمار مستزاد ہیں۔ بعض الفاظ تو ویب سائٹ کی مجبوری ہیں مگر ایڈجسٹ، اٹینڈ وغیرہ کا متبادل تو ہے۔ اسی مضمون میں کمپوزنگ (مشینی کتابت) کی ایک دلچسپ غلطی ہے۔ یہ شاید فیچر ہے یا لیکچر ہے جو کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ مصنفہ پر کیا بیتی ہوگی، کہہ نہیں سکتے۔یہ تو ہماری غلطیاں ہیں۔ چلیے اب دوسروں کی غلطی پکڑتے ہیں۔ یوم ماں پر محترمہ سمیحہ راحیل قاضی، دختر قاضی حسین احمد مرحوم کا مضمون پڑھا۔ اپنی والدہ کے حوالے سے بہت پُراثر مضمون ہے۔ انہوں نے فارسی کا ایک مصرع اپنے مضمون میں شامل کیا ہے:سوئے مادر آ کہ تیمارت کنداس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا ہے کہ ’’ماں کی گود میں آجائو کہ تمہاری تیمارداری ہوسکے‘‘۔ محترمہ سمیحہ راحیل کو فارسی پر عبور ہے اور ہمیں اس کی شد بد بھی نہیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ’’سوئے مادر‘‘ نہیں بلکہ سوئے ما۔ در آ یعنی میری طرف آ‘‘ ہے اور ہم سے غلطی کا صدور عین ممکن ہے۔سنڈے میگزین ہی میں ایک قاری نے صفحہ 11 پر ’’پیاری ماں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے دو شعروں میں غلطی کی نشاندہی کی ہے اور ستم یہ ہے کہ یہ غلطی جہانِ ادب کے صفحہ پر ہوئی ہے۔ شاعر صاحب کا مصرع ہے:تیری ہستی ہے فقط میرے لیے ارض و سماںچونکہ ’’جہاں‘‘ کا قافیہ ملانا تھا اس لیے سما ’’سماں‘‘ ہوگیا۔ ارض کے ساتھ سما آتا ہے یعنی زمین اور آسمان۔ سماں کا مطلب کچھ اور ہے جیسے نعت کی محفل میں واجد انصاری نے سماں باندھ دیا۔ اسی صفحہ پر ایک کتاب کے تبصرے میں ’’وفات‘‘ وفاقت ہوگیا ہے۔ خیر، کمپوزنگ کی غلطیاں تو اور بھی ہوں گی جس سے لگتا ہے کہ پروف ریڈر حضرات نیند میں ہوتے ہیں یا عجلت میں۔لکھنے والے مامور اور معمور میں فرق نہیں کرتے۔ میرے سامنے ایک تحریر ہے جس کا ایک جملہ ہے ’’عوام کو سہولتوں کی فراہمی پر ’’معمور‘‘ محکمہ‘‘۔ معمور کا مطلب ہے: بھرا ہوا، لبریز، آباد۔ اس کا مصدر ’’عمر‘‘ ہے۔ معمورہ کا مطلب ہے: بستی، آبادی، کاشت شدہ زمین۔ بہادر شاہ ظفر کا مصرع ہے ’’روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر‘‘ اور مامور ’’امر‘‘ سے ہے۔ مقرر کیا گیا۔ چنانچہ مذکورہ جملہ میں معمور کے بجائے مامور ہونا چاہیے۔ امر کیا گیا۔ اچھا، مزے کی بات یہ ہے کہ امر ہی سے آمر ہے۔ آمر کا مطلب تو برا نہیں ہے یعنی حکم کرنے والا۔ لیکن آمر عموماً برے نکلے جس سے یہ لفظ بدنام ہوگیا۔ ورنہ اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ’’اولی الامر‘‘ یعنی اپنے حاکم کی اطاعت کرو۔ ساتھ ہی یہ تاکید بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ ہم نے جتنے آمر دیکھے وہ صرف اپنی اطاعت کو جائز ٹھیراتے رہے۔
’’جل، تھل‘‘ بڑی عام سی اصطلاح ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں خوب موسلا دھار بارش ہوئی تو ایک چینل پر خاتون خبر دے رہی تھیں ’’جل تھل ہوگئی‘‘۔ یہ کوئی محاورہ نہیں۔ اگر خاتون کو پتا ہوتا کہ ’’تھل‘‘ کیا ہے تو یہ غلطی نہ ہوتی۔ ’’جل‘‘ کا مطلب تو معلوم ہی ہوگا: پانی۔ تھل کہتے ہیں خشکی، ریگستان یا صحرا کو۔ تھل کا ریگستان پاکستان ہی میںہے۔ اصل محاورہ ہے ’’جل تھل ایک ہونا‘‘ یعنی اتنی بارش ہو کہ پتا ہی نہ چلے کہاں پانی ہے اور کہاں خشکی۔ جو لوگ ایسے عالم میں سفر کرتے ہیں انہیں اس کیفیت کا خوب اندازہ ہے۔ پیدل چلنے والے بھی سنبھل سنبھل کر قدم رکھتے ہیں کہ کسی گڑھے میں نہ جا پڑیں… اور کھلے ہوئے گٹر تو ایسے موقع پر ’’دعوتِ عام‘‘ دے رہے ہوتے ہیں کہ آئو، ہم میں سما جائو۔ بہرحال جل تھل جب تک ایک نہیں ہوگا بات نہیں بنے گی۔


http://fridayspecial.com.pk/21250
 
Top