مارخور اور آئی بیکس

PakIbexAP.jpg

اس فائل تصویر میں ایک پہاڑی پر مارخور بکروں کے ہیولے نظر آ رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت محدود تعداد میں مارخور اور نایاب پہاڑی بکرے آئی بیکس کے شکار کے اجازت نامے دے رہی ہے۔ دونوں جانور ناپیدگی کے خطرے سے دوچار انواع میں شامل ہیں۔ [رائیٹرز/رسل چینی]

عامر محمد خان2010-09-27

پشاور – سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی دیہی باشندوں کو عمودی پہاڑوں سے چترال اور کوہستان کی وادیوں میں اترنے والے مارخوروں اور آئی بیکس بکروں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ جانور ناپیدگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

تاہم بعض مقامی افراد ان پرشکوہ جانوروں کے بین الاقوامی شکار کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلی حیات نے دسمبر سے مارچ تک جاری رہنے والے شکار کے موسم کے دوران مارخور اور آئی بیکس کے شکار کے اجازت ناموں کے لئے ٹرافی کے شکاریوں سے بولیاں طلب کی ہیں۔ بولیاں وصول کرنے کی آخری تاریخ 31 اکتوبر ہے۔

شکاری کشمیری مارخور کے چار اور آئی بیکس کے دس اجازت ناموں کے لئے بولیاں دیں گے۔ محکمہ جنگلی حیات کے اعلٰی تحفظ کار سعید الزماں نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ یہ اجازت نامے جنگلی حیوانات و نباتات کی خطرے سے دوچار انواع کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن کی منظوری سے جاری کیے جائیں گے۔

خطرے سے دوچار انواع کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن کا معاہدہ حکومتوں کے درمیان ہے جس کا مقصد جنگلی جانوروں اور پودوں کی بین الاقوامی تجارت کو پائیدار بنانا ہے۔

مارخور اور آئی بیکس کا تعلق بکروں کی کیپرا قسم سے ہے۔ بین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت نے 1994 میں مارخور کو خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں شامل کیا کیونکہ اس وقت بالغ مارخوروں کی تعداد گھٹ کر 2 ہزار 5 سو سے بھی کم رہ گئی تھی۔ حد سے زیادہ شکار اور انسانی بستیوں کی توسیع کے باعث دو نسلوں کے دوران ان کی آبادی میں تقریباً 20 فیصد کمی واقع ہو گئی ہے۔

آئی بیکس کی ایک ذیلی انواع نوبیئن آئی بیکس (کیپرا آئی بیکس نوبیانہ) کو 1996 میں ناپیدگی کے خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ایک تخمینے کے مطابق، نوبیئن آئی بیکس کی تعداد 10 ہزار سے بھی کم بالغ جانوروں پر مشتمل ہے اور اس کی دو نسلوں کے دوران کمی کی شرح تقریباً 10 فیصد رہی۔

پاکستان میں نامعلوم تعداد میں پائے جانے والے سائبیریائی آئی بیکس (کیپرا سیبیریکا) کو معدومیت کے کم خطرے کے باعث ذیلی انواع میں شامل کر دیا گیا ہے۔

مارخور (کیپرا فیلکنری) پاکستان کا قومی جانور ہے۔ بعض مارخور شمال مشرقی افغانستان، شمالی بھارت، جنوبی تاجکستان اور جنوبی ازبکستان میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں زندہ مارخوروں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں ہے۔

چترال میں ڈویژنل جنگلات افسر امتیاز حسین نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ گزشتہ دسمبر کے ہمارے جائزے کے مطابق، چترال میں مارخوروں کی تعداد 2 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قواعد کے تحت ٹرافی شکار میں ہر 100 مارخوروں میں صرف ایک نر مارخور کے شکار کی اجازت ہے۔

شکار کی فیس سے دیہاتیوں کی مدد، خطرے سے دوچار انواع کا تحفظ

مارخور اپنے چمکدار اور شاندار سینگوں کی بدولت ٹرافی شکاریوں کے لئے انعام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ انتہائی زیادہ شکار اور انسانی بستیاں پھیلنے سے دنیا بھر میں مارخور کی آبادیاں متاثر ہوئی ہیں تاہم محکمہ جنگلی حیات نے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کے لئے ٹرافی شکار کا طریقہ اپنا لیا ہے۔

فیسوں کی مد میں حاصل ہونے والی رقم حکومت اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے والی مقامی آبادی میں تقسیم کی جاتی ہے جس کا 80 فیصد حصہ مقامی دیہی باشندوں کے پاس جاتا ہے۔ اقتصادی ترغیب کے باعث مقامی افراد کو اس انواع کے تحفظ کی ترغیب ملتی ہے۔

گزشتہ سال محکمہ جنگلی حیات نے تین مارخوروں کے اجازت نامے بالترتیب 80 ہزار ڈالر، 75 ہزار ڈالر اور 65 ہزار ڈالر میں فروخت کیے۔ شکاریوں نے بڑے جانوروں کے شکار کے لائسنس کے لئے 100 ڈالر اضافی ادا کیے۔ 2009 میں توشی کی محفوظ شکار گاہ میں ایک کشمیری مارخور کا شکار کرنے کے لئے ناروے کے اوئیون کرسچنسن نے 81 ہزار 2 سو ڈالر ادا کیے۔ اس مارخور کے شکار کی ٹرافی 47 انچ بڑی تھی۔

آئی بیکس پاکستان، افغانستان، چین کے گانسو اور ژن ژیانگ علاقوں، بھارت کی ریاست ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر کے علاقوں، قازقستان، کرغزستان، منگولیا، روس، تاجکستان اور ازبکستان کا مقامی جانور ہے۔

ہمالیائی آئی بیکس (کیپرا سیبیریکا ہمالاینس) کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے انتہائی دور دراز علاقوں میں رہتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک اپنے قدرتی ماحول میں کسی آئی بیکس کو دیکھنا انتہائی شاذ و نادر تھا۔ محکمہ جنگلی حیات کے حکام نے بتایا کہ انہیں محفوظ کرنے کی حالیہ کوششوں کی بدولت آئی بیکس کی آبادی میں استحکام پیدا ہو چکا ہے۔

سائبیریائی آئی بیکس عام طور پر چٹانی علاقوں اور بلند و بالا پہاڑوں کے کھلے مرغزاروں اور عمودی چٹانوں میں بسیرا کرتا ہے اور موسم سرما کے دوران کم بلندی پر اتر آتا ہے۔ وہ مختلف علاقوں میں عمودی مقامات پر رہنے لگتا ہے جن میں صحرا، کم بلند پہاڑ، دامن کوہ اور بلند پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ یہ بلند پہاڑوں سے دور واقع دروں، چٹانوں اور عمودی زمین کے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

آئی بیکس، مارخور کے شکار کے لئے صرف تجربہ کار شکاریوں کو آنا چاہیے

مارخور اور آئی بیکس کے دشوار گزار پہاڑی مسکن کے پیش نظر محکمہ جنگلی حیات صرف انتہائی سخت جان شکاریوں کو بولی میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ شکاریوں کو تمام شکار خود کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے سفر، قیام و طعام، ٹرافیوں کی برآمد کے اجازت ناموں اور اپنی رائفلوں کا خود ہی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ سال محکمہ جنگلی حیات نے ایک آئی بیکس کے شکار کا اجازت نامہ 3 ہزار ڈالر میں فروخت کیا۔ رواں سال مارخور کے شکار کے تمام کامیاب بولی دہندگان کو آئی بیکس کے اجازت نامے بھی خریدنا پڑیں گے۔ شکاری صرف ٹرافی کے سائز کے مارخور یا آئی بیکس کا تعاقب کر سکتے ہیں۔ وہ مادہ یا بچوں کا شکار نہیں کر سکتے۔

امتیاز حسین نے بتایا کہ مارخور اور آئی بیکس کے شکار کا موسم دسمبر سے مارچ تک ہوتا ہے جب نر ملاپ کی غرض سے کم بلندی پر آ جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 20 سے 25 ٹرافی سائز مارخور ہیں تاہم خطرے سے دوچار انواع کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن نے رواں سال خیبر پختونخواہ کو صرف چار اجازت نامے دیے ہیں۔
ربط
http://centralasiaonline.com/ur/articles/caii/features/pakistan/2010/09/27/feature-02?mobile=true
 
Top