مادری زبان میں تعلیم کا مسئلہ

مادری زبان میں تعلیم کا مسئلہ


ان ہاتھوں کو شمشیر بنانا پڑا مجھ کو
تب جاکے گزارش مری منظور ہوئی ہے
*عالم نقوی
بقول سلیم احمد’’موجودہ زمانہ فتنۂ الفاظ کا زمانہ ہے۔ روز طرح طرح کے الفاظ ہمارے کانوں میں پہنچتے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو جو پہلے ہی سے تھکے ہوئے اور الجھے ہوئے ہیں اور زیادہ پریشاں خیالی میں مبتلا کر دیتے ہیں.......طرح طرح کے مداری لفظوں کی ڈُگڈُگی بجا کر ہمیں اپنی آوازوں پر نچانے کی کوشش کررہے ہیں.......
اور ہمارا اجتماعی شَعُور چھپکلی کی مُردہ دُم کی طرح، قوم کے جِسمِ مُردہ سے الگ پڑا تڑپ رہا ہے.........‘‘(1)نقاد،دانشور اور صحافی فُضَیل جعفری کے مطابق یہ فتنۂ الفاظ دراصل ہم اردو والوں کے ذہنی اِفلاس کی علامت ہے۔ اور بقول رشید کوثرؔ فاروقی ؂
قندیل جلائیے تو جلتی ہی نہیں
کچھ بوئیے تو سوئی نکلتی ہی نہیں
اِس قوم کا درجۂ بُرودَت کیا ہے؟
یہ برف کسی طرح پگھلتی ہی نہیں
تَعَصُّب اور غلامی
مادری زبان میں تعلیم کے مَسْئلے کے دو رُخ ہیں۔ ایک کا تعلق سیاست اور سرکار کے تَعَصُّب اور دھاندلی سے ہے۔ اور دوسرے کا خود ان کی غلامانہ ذہنیت سے کہ جن کا دعویٰ ہے کہ اردو ان کی مادری زبان ہے!
سَر رضا علی نے اپنی آپ بیتی ’اعمال نامہ‘(1943)میں’’زبان کا اکھاڑہ اور ادب و سیاست کی کُشتی ‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھا ہے’’زبان کا قضیہ ہماری بدقسمتی سے محض زبان کا قضیہ نہیں ہے بلکہ اِس کا سَنگِ بُنیاد دراصل سیاسی غَلِبہَ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔‘‘ انھوں نے ہندستانی اکیڈمی کے سہ ماہی رسالے’’ہندستانی ‘‘ کے اپریل 1936کے شمارے میں شایع کرشن پرشاد کول کے مضمون اردو ہندی ہندستانی میں درج یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اردو اور ہندی کا جھگڑا پرانا ہے۔ اس جھگڑے کی بِنَا سیاسی بلکہ قومی ہے۔ یہ ادبی قَضیہ نہیں۔ ......اس جھگڑے کی بِنا قومی تعَصُّب (ہندو۔مسلم قومی مذہبی تَعَصُّب) یا سیاسی اختلاف سے پڑی .......‘‘
کرشن پرشاد کول کے اس قوم کی تائید ڈاکٹر رفیق زکریا(مرحوم) کے اُس طویل دیباچے سے بھی ہوتی ہے جو 1961میں شایع پروفیسر این ایس گوریکر کی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سررضا علی نے لکھا ہے کہ ’’ہندستانی،ایسا بچہ ہے جس کا باپ اردو اور ماں ہندی یا بھاشا ہے........یہ بچہ نہ ماں سے بگاڑ نا چاہتا ہے نہ باپ سے۔ لیکن انجام کار دونوں میں سے جس کا پلہ بھاری دیکھے گا اُسی کا ہورہے گا۔‘‘
سر رضا علی کی 1943کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ 1947سے تاریں دَم یہی صورت حال ہے۔
آج اردو والوں کی اکثریت اسی ذہنی غلامی اور احساسِ کمتری میں مُبتِلا ہے۔ بزرگ صحافی حفیظ نعمانی نے جمعہ 21دسمبر 2012کو شایع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 15اگست 1947کے بعد آزادی بہت کچھ لائی اور بہت سی چیزوں کو اس نے (دیس ) نکالا (دیا) ان میں وہ زبان بھی ہے جسے ار دو کہتے ہیں ۔ پہلے مرکزی وزیر تعلیم مولانا آزاد نے ایک فارمولہ بنا یا کہ جس اسکول میں 40بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں ان کے اردو ماسٹر کا انتظام کردیا جائے لیکن یوپی کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر سمپورنانند نے کہہ دیا کہ ’’اردو تو کوئی زبان ہی نہیں ہے وہ تو ہندی کی (ایک) شیلی ہے اس لیے الگ سے اس کی تعلیم کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔‘‘لیکن جواہر لعل نہرو سے لے کر مولانا آزاد تک کسی صاحب اقتدار نے سمپورنا نند کو چیلنج نہیں کیا۔ مجاہد اردو قاضی عدیل عباسی نے جو یوپی اسمبلی کے ایک رکن بھی تھے اس وقت کے اسپیکر پرشوتم داس ٹنڈن سے کہا کہ آپ آخر اردو کو اس کا حق کیوں نہیں دیتے ؟ تو ٹنڈن جی نے سکون سے کہا کہ ’’دینگے ضرور دیں گے۔ مگر بیس برس کے بعد‘‘۔ یہ شاطرانہ فیصلہ اس لیے تھا کہ اردو والوں کی ایک نسل درمیان سے نکل جائے تو 20سال بعد جو نسل آئیگی اس کا رابطہ 20سال قبل والی اردو نسل سے ٹوٹ چکا ہو گا۔ او ریہی ہوا۔ ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ جو بیس سال کا وقفہ تھا اس میں اردو دشمنوں کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوئی ایسا عملی قدم نہیں اٹھایا جو نئی نسل کا رشتہ اردو سے منقطع ہو جانے سے بچا لیتا ۔ ہم اردو والوں نے اپنی ساری صلاحیت اس پر خرچ کر دی کہ حکومت سے اردو کو منوالیں لیکن یہ نہ سوچا کہ ندی میں پیرنے کا حق لینے سے کیا ہوگا جب ہمیں خود پیرنا ہی نہ آتا ہو۔‘‘
پروفیسر خان محمد عاطف نے اپنے مضمون ’اردو کی کہانی بھارتی لیڈروں کی زبانی‘ جو دو قسطوں میں 15دسمبراور 22دسمبر 2012کو ایک روزنامے شایع ہوا صد فی صد درست لکھا ہے کہ اردو آج صرف مسلمانوں ہی کی زبان ہے۔ اردو مسلمانوں کی شناخت ہے۔ ہندی ان کی ضرورت ہے (کیونکہ سرکاری زبان ہے) اور انگریزی ان کی بین الاقوامی مجبوری ہے۔
5اپریل 2013کو واشنگٹن (امریکہ) میں ابو الحسن نغمی کی کتاب سعادت حسن منٹو(ذاتی یا دداشتوں پر مبنی اوراق )کی رونمائی ہوئی ۔ تقریب کے اختتام پر ایک سولہ سالہ نوجوان محمد عارض نے صد رمحفل سید تقی عابدی سے پوچھ لیا کہ آخر آج امریکہ میں بڑے ہونے والے بچے اردو کس طرح سیکھیں ؟ تو اخباری اطلاع کے مطابق انھوں نے اس سوال کا دواور دو چار کی طرح کا کوئی دوٹوک جواب نہیں دیا۔ صرف اتنا کہا کہ اردو کی فروغ کے لیے جدیدDigitalبنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور بتایا کہ اس سلسلے میں ایک نئے اروٹیچنگ سافٹ ویر پرکام ہورہا ہے۔ البتہ انھوں نے یہ بالکل درست کہا کہ اردو کے رسم الخط کی حفاظت ضروری ہے دوسرے یہ کہ ہم سب کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا’’اردو صرف کانوں کی زبان بن کرزندہ رہ سکتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کی ترویج وترقی کے لیے ہر صاحب زبان کو اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوگا۔
اردو کی ایک معروف افسانہ نگار صفیہ صدیقی لکھنؤ کے مشہور مردم خیز قصبہ نگرام کی رہنے والی تھیں۔ 1947کے ہنگاموں میں ان کا خاندان پاکستان چلاگیا۔1961میں وہ اپنے شوہر کے پاس لندن منتقل ہوگئیں گزشتہ 28نومبر 2012کو لندن ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا ایک انٹرویو ایک اخبار میں 5جنوری 2013کو کسی جریدے سے نقل کیاگیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’کوئی بھی زبان اسی صورت میں فروغ پا سکتی ہے جب اس کے بچے بھی اسے بولتے ہوں۔‘‘ اور ہمارے تو زیادہ تربچے انگلش میڈیم میں پڑھائے جانے لگے ہیں۔ اب اردو فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے تیسری اور چوتھی نسل میں صرف بولنے کی حد تک شاید زندہ رہ جائے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔
سر دست صورت حال یہ ہے کہ چونکہ یہ الکشن کا زمانہ ہے لہٰذا ووٹ کی سیاست پر مبنی اس نام نہاد جمہوری تماشے میں دونوں کا کام جاری ہیں۔ ہماری طرف سے مطالبے کرنے کا کام اور اہل سیاست کی جانب سے وعدے کرنے کا کام۔ یہ دونوں کو پتہ ہے کہ جمہوریت کے ڈرامے میں دونوں صرف اپنا پارٹ ادا کررہے ہیں۔ نہ ہمیں کچھ لینا ہے نہ انہیں کچھ دیناہے۔ 26,27دسمبر 2012کونئی دہلی میں کل ہنداردو تعلیمی اجلاس نے وزیراعظم سے یہ مطالبہ کرکے اپنا فرض ادا کردیا کہ اردو کو پورے ملک میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے جیسے اردو والوں کو یہ پتہ ہی نہ ہو کہ دہلی، یوپی، بہار او رمغربی بنگال کی جن ریاستوں میں یہ نام نہاد سرکاری اعلان ہوا بھی ہے وہاں اس کا کیا انجام ہوا اور یہ کہ دہلی یوپی بہار اور بنگال میں اردو تعلیم او راردو روزگار کی زمینی حقیقت کیا ہے ۔ مطالبوں کی اس سیاست میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بھی شریک ہو چکی ہے۔مرکزی وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود سے ایک خط لکھ کر جنوری 2013میں اس نے مطالبہ کیاتھا کہ میڈیکل داخلہ امتحان PMTمیں اردو کو بھی شامل کیا جائے ورنہ مہاراشٹر آندھرپردیش کرناٹک اور کشمیر کے بارہویں جماعت کے ہزاروں اردو میڈیم طلبا کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ عبد الباری مسعود کی بائی لائن سے یہ خبر 17جنوری 2013کے اخبارات میں شایع ہوئی تھی۔ ۔‘‘ 29نومبر 2012کو لکھنؤ میں وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی ’’اردو وراثت کارواں کی آمد پر اردو کے فروغ کے لیے متعدد وعدوں کا اعلان کیا تھا۔ ملائم سنگھ سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کچھ نہ کریں بس اتنا کردیں کہ آٹھویں تک اردو کی تعلیم کو سب کے لیے لازمی کردیں او رمعلم اردو کی سند کو اردو ٹیچر کی بھرتی کے لیے TETکے مساوی قرار دے دیں ۔یہ دونوں ہی کام ہنوز وعدۂ فردا ہیں۔
6اپریل 2013کونئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس میں بھی مرکزی وزیر کپل سبّل اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہڈا نے بڑے بڑے اور لبھاونے وعدے کیے۔ کپل سبل نے انٹر نٹ اور موبائل پر دوسری زبانوں کی طرح اردو کے استعمال کو یقینی بتانے کا اعلان کیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اردو کی تعلیم اور اس سے بھی زیادہ اردو میں تعلیم کی صورت حال کیا ہے؟ اردو کے قاری بڑھ رہے ہیں یاگھٹ رہے ہیں؟ان سوالوں کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔
بقول سلیم احمد ’’دوسروں کی خوبیوں کا احساس بری بات نہیں نہ اپنی خامیوں پر مطمئن رہنا اچھی بات ہے ۔ اسی طرح نہ دوسروں کی برائیوں کو مرعوبیت کے سبب اچھا سمجھنا اچھی بات ہے نہ اپنی خوبیوں کو احساس کمتری کے سبب برا سمجھنا اچھی بات ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں پہلے اچھائی او ربرائی کی صحیح تمیز حاصل کرنا ہے اوریہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم چیزوں کو دیکھنے کے لیے صحیح داخلی رویہ نہ پیدا کریں۔ یہ صحیح داخلی رویہ احساس کمتری او راحساس برتری دونوں سے آزاد ہو جاتا ہے اسی آزادی کے ذریعہ ہم اندھی تقلید اور جمود دونوں کمزور یوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں ۔ ‘‘(2)لہٰذا جہاں شناسی کے ساتھ ساتھ خود شناسی بھی مسائل کے حل کے لیے لازمی ہے۔
اردو اخبارات میں یکم دسمبر 2012 کو پروفیسر طاہر محمود کا ایک مضمون شایع ہوا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نئے وائس چانسلرپروفیسر شاہد مہدی نے سبھی انڈر گریجویٹ طلباء کے لیے ابتدائی اردو کو ایک لازمی مضمون بنا دیا ہے البتہ ا س نئے انتظام سے کچھ تکنیکی کورسز کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جن میں قانون کے کورسز بھی شامل ہیں۔ پروفیسر طاہر محمود نے لکھا ہے کہ وائس چانسلر شاہد مہدی کامذکورہ اقدام ہر طرح سے لائق تحسین ہے لیکن قانون کے طلباء کو اردو کے لازمی علم سے محروم رکھنا نا مناسب بھی ہے اور قانون کے طلباء کے مفاد کے خلاف بھی کیونکہ اردو کے بے شما ر الفاظ اور اصطلاحیں آج بھی عدالتی نظام میں رائج ہیں یہ اور بات ہے کہ انہیں دیوناگری میں لکھے جانے کے سبب وہ مثلاً’تعزیراتِ ہند‘کوتاجی راتے ہند‘ اور طلاق کو ’تلاک‘ بولتے ہیں اور اسے ہندی سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی سو اردو الفاظ اور اصطلاحات ہمارے نظام قانون میں آج بھی رائج ہیں جن کو غیر اردو داں وکیل، جج اور لاکالجوں کے استاد غلط پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ۔ لہٰذا پروفیسر طاہر محمود نے لکھا ہے کہ اردو کی ابتدائی تعلیم تو ملک کی ہر یونیورسٹی اور ہر لاء کالج میں لازمی ہونی چاہئے۔ AMITYیونیورسٹی نوئڈا میں مختلف زبانوں کاایک بڑا شعبہ ہے اس میں عربی اور اردو بھی شامل ہیں۔ پروفیسر محمود اسی یونیورسٹی میں قانون پڑھاتے ہیں وہ اپنے طلبا کو اردو کا کورس کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پروفسیر شاہد مہدی کو چاہیے کہ وہ نہ صر قانون کے طلباء کے لیے بھی اردو کو لازمی قرار دیں بلکہ جامعہ ملیہ کے شعبہ قانون میں بھی اردو کی تعلیم لازمی کروائیں کیونکہ اردو کی اہمیت اور افادیت قانون کے طلباء کے لیے دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔
فیض اللہ گنج لکھنؤ میں پروفیسر شارب ردولوی نے اپنی مرحومہ بیٹی شعاع فاطمہ کے نام پر ایک ہائی اسکول قائم کیا ہوا ہے جہاں سبھی طلباء کے لیے انھوں نے اردو کی تعلیم لازمی کررکھی ہے اور غیر مسلم بچے بچیاں شوق سے وہاں اردو پڑھتے ہیں۔ وہاں نظم و نسق اور تعلیم کا معیار اتنا بلند ہے کہ آج تک کسی غیر مسلم گارجین نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ جب یہ سب ہو سکتا ہے تو ہم اردو والوں کو جو اپنی مادری زبان اردو ہونے کے دعوے دار بھی ہیں اردو پڑھنے اور اپنے بچوں کو اردو پڑھوانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ غلامانہ ذہنیت کے سواہمارے نزدیک ا س کا او رکوئی جواب نہیں۔
دنیا کے تمام لسانی سائنسداں اور ماہرین نفسیات آج اس پر متفق ہیں کہ ’مادری زبان کی تعلیم‘ اور ’مادری زبان میں تعلیم ‘ دونوں لازمی ہیں اس کے بغیر دماغ کی تمام Facultiesکا فطری فروغ ناممکن ہے۔ سترہویں،اٹھاریویں اور انیسویں صدی میں یورپ یعنی برطانیہ ، اٹلی، فرانس، پرتگال او راسپین (ہسپانیہ) وغیرہ نے ایشیاء اور افریقہ کے جتنے ملکوں کو اپنا غلام بنایا، ’مادری زبان کی تعلیم‘او رمادری زبان میں تعلیم دونوں سے اعراض، اجتناب بیزاری بلکہ تنفر ان ہی غلام ملکوں کی خصوصیت ہے۔ سبھی ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو ابتدائی چار پانچ سال تک صرف مادری زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔اور وہ ابتدائی اسکول گرامر اسکول کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد جب ان کی ثانوی تعلیم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو جو کچھ بھی وہ پڑھتے ہیں’اپنی مادری زبان ’میں‘ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا وہ سب کے سب آج ہم سے آگے ہیں۔ یہ صرف ہمارے جیسے غلام ملکوں کا المیہ ہے کہ پہلے تو یہاں مادری زبان ہی کی تعلیم نہیں دی جاتی چہ جائے کہ مادری زبان’’میں‘‘ تعلیم اور کہیں مادری زبان پڑھائی بھی جاتی ہے تو اس خر دماغی کے ساتھ کہ ارے یہ تو مادری زبان ہے اسے پڑھنا کیا، یہ تو ہم سب کوآتی ہی ہے۔ اور بقیہ علوم کی تعلیم اُس زبان میں شروع کرادی جاتی ہے جو پیدا ہونے کے بعد بچہ اپنی ماں سے اور اپنے آس پاس نہیں سنتایعنی نہیں سیکھتا ۔زبان سماعی ہوتی ہے، بچہ ابتداً محض سن کے ہی بولتا سیکھتا ہے تو اسی زبان میں وہ سوچتا بھی ہے پڑھنے او رلکھنے کی منزل تو کہیں ڈھائی تین یا چار سال بعد شروع ہوتی ہے تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ جو بچہ اپنی مادری زبان ہی میں چھ سال کی عمر تک بولنا سوچنا پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے تو وہ بعد میں دنیا کی کوئی بھی زبان بآسانی سیکھ سکتا ہے۔ اور اگر چار یا چھ سال کی عمر کے بعد اس کو بقیہ علوم سکھانے کا میڈیم، ذریعہ تعلیم ا س کی مادری زبان ہی کو بنایا جائے تو وہ ان بچوں سے کئی گنابہتر Performکرتا ہے جن کی تعلیم کا میڈیم ان کی مادری زبان کے بجائے کوئی اور زبان ہوتی ہے۔
صرف اٹلی ،یونان ، فرانس اور جرمنی ہی نہیں کہ جہاں ذریعہ تعلیم اطالوی، یونانی، فرانسیسی اورجرمن زبانیں ہیں بلکہ پولینڈ ،ہالینڈ، ناروے ، اسپین،چیکوسلوواکیہ، یوگوسلاویہ، کروشیا، سربیا میں بھی انگریزی نہیں پولش، ڈچ، ناروجین، اسپینش، چیک، سلاؤ ،کروٹ اور سرب زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اور یہ سب تو یورپی ممالک ہیں، کوریا، ویت نام ، تھائی لینڈ، جاپان،ملیشیا ، انڈونیشیا او رترکی تک ہر جگہ کسی غیر ملکی زبان میں نہیں نرسری سے اعلیٰ تکنیکی تعلیم تک ان کی اپنی قومی مادری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور ان تمام زبانوں کا دامن دنیا بھر کے علوم کے تراجم سے مالا مال ہے۔ دوسروں کو جانے دیجئے ، ایران نے 1979میں اسلامی انقلاب کے بعد جب سے نرسری کے جی سے لے کر ادب ، سائنس اور ٹکنالوجی کے اعلیٰ تعلیم تک اپنی قومی زبان فارسی کے ذریعے تعلیم کا نظم کیا ہے ان کی سائینسی اور علمی ترقی کا یہ عالم ہے کہ ہر سال کسی نہ کسی شعبے میں عالمی ایوارڈ کی دوڑ میں آگے رہنے والا کوئی نہ کوئی سائنسداں انہیں ضرور میسر آجاتا ہے۔ خلائی سائنس، نیوکلیرسائنس، سائبر ٹکنالوجی، نینوٹکنالوجی، بایوٹکنالوجی او رجینٹک انجینئرنگ میں تو ایران آج ترقی یافتہ مغرب کے برابر کھڑا ہواہے۔اور وہ نہ صرف پوری مسلم اور عرب دنیا سے بلکہ پوری تیسری دنیا سے بھی آگے ہے یہ صرف ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقہ کے پسماندہ ممالک ہیں جہاں اپنی اپنی قومی مادری زبانوں کو چھوڑ کر انگریزی میڈیم کا عذاب مسلّط ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ۔جسے دیکھنے کے لیے کسی تیسری آنکھ کی بھی ضرورت نہیں یہی دو آنکھیں کافی ہیں۔
ہم تو بس چوں چوں کا مربہ ہو کے رہ گئے ہیں۔ ہم لکھنؤ ،دہلی اور بھوپال کے اردو والے یعنی شمالی اور وسطی ہندستان کی سابق اردو بلیٹ اور موجودہ ’ہندی پٹی‘ کے مسلمان نہ ہندی جانتے ہیں نہ انگریزی ۔ اور یہ بنگالی ، تمل ،تیلگو ،ملیالم، اڑیہ ،آسامی پنجابی اور گجراتی وغیرہ ہندستانی زبانوں کے لوگ (خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، ہر معاملے میں ہم نام نہاد اردو والوں سے کم و بیش ہر معاملے میں اسی لیے بہتر ہیں کہ اُن کی اکثریت انگریزی میڈیم میں نہیں، بنگالی ،تمل ملیالم، کنڑ، تیلگو اور گجراتی زبانوں کے ذریعے ،اپنی اپنی مادری زبانوں میں میڈیم سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرتی ہے۔
یہ تصور کہ اردو پڑھ کر یا پڑھا کر، یا اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرکے زمانے کے شانے سے شانہ ملا کر نہیں چلا جا سکتا، یا ترقی کے کوہ ہمالیہ پر نہیں چڑھا جا سکتا، وہ عظیم’’جھوٹ‘‘ ہے جو صرف غلامی اور غلامانہ ذہنیت ہی کا پیدا کردہ اور پروردہ ہے۔ یادرہے کہ ہم انگریزی کی تعلیم کے خلاف نہیں ہم مادری زبان کو چھوڑ کر ، مادری زبان میں مہارت حاصل کیے بغیر’’ انگریزی میں تعلیم‘‘ کے خلاف ہیں۔
اب آزادی کو 66سال ہو چکے ہیں ۔اردو کی دشمن سیاست اور اردو دشمن صاحبان اقتدار کو جتنا نقصان اردو کو پہنچانا تھا پہنچا چکے اب وہ اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اب صرف Havellپنکھوں کے اشتہارہی میں نہیں، اور عامر خان کے ستیومیو جیتے کے 13ایپی سو ڈ ہی میں ہی نہیں اور صرف مصروتیونشیا کی عرب بہار ہی میں نہیں ،اب پوری دنیا میں’’ہوا بدل رہی ہے‘‘ اس ہوا کا رخ ظلم سے رحمت کی طرف، ناانصافی سے انصاف کی طرف اور کرپشن سے دیانتداری کی طرف ہے۔ ہوا کی تبدیلی کا یہ رخ فطرت کے خلاف نہیں، فطرت کے عین مطابق ہے۔ ہمیں تو صرف فطرت کی طرف واپسی، یعنی اپنے گھر کی طرف واپسی کا عمل شروع کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’حکمت مومن کا گم شدہ خزانہ ہے جہاں سے ملے حاصل کرلو‘‘
دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ،مانگنا او رصرف مطالبے کرتے رہنانہ صرف انسانیت کے شایان شان نہیں بلکہ فطرت کے بھی خلاف ہے۔ یہ شعر آپ میں سے شاید ہر ایک نے سنا اور پڑھا ہوگا اور غالباً سب کو یاد بھی ہوگا لیکن کبھی آپ نے اس پر غور بھی کیا ؟آج پھر سنیے اور اپنے قائدو رہبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قول مبارک کی روشنی میں اس پر غور بھی کیجئے کہ ؂
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جوبڑھ کے خود اٹھالے ہاتھ میں، مینا اسی کا ہے
یہ عظیم اردو زبان کے عظیم شاعر شاد عظیم آبادی کاشعر ہے۔ یاس یگانہ چنگیزی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ؂
خواہ نوالہ ہو یا پیالہ ہو
ہو سکے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ
مجاہد سید نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ؂
میں اپنے ہاتھ کی شمشیر ہی سے معتبر تھا
وہ میری ہر قسم کو اب بہانہ لکھ رہا ہے
اور منور رانا کا تجربہ بھی یہی ہے کہ ؂
ان ہاتھوں کو شمشیر بنانا پڑا مجھ کو
تب جاکے گزارش مری منظور ہوئی ہے
http://www.fikrokhabar.com/index.php/2012-10-20-12-29-41/item/1362-2013-04-13-12-58-48
 
Top