ماتمِ اقبال - جگن ناتھ آزاد

حسان خان

لائبریرین
پھر نالہ ہائے غم سے ہے لبریز دل کا ساز
پھر ہو گیا ہے دیدۂ حیراں گہر طراز
وہ حق شناس فلسفی و مردِ نکتہ داں
وہ باکمال شاعر و درویشِ پاکباز
نغمے تھے جس سخنورِ عالی دماغ کے
مشرق میں دلپذیر تو مغرب میں جاں نواز
تیرِ اجل نے اُس کو نشانہ بنا لیا
تھا ہم کو آہ جس کے کمالِ سخن پہ ناز
محفل سے آج ساقئ محفل ہی اٹھ گیا
آزاد اب کہاں وہ شرابِ جگر گداز
ہر بزم وقفِ نالہ و غم ہے ہزار حیف
خوننابہ بار دیدۂ نم ہے ہزار حیف
اقبال! اے جہانِ معانی کے تاجدار
اے رومی و ثنائی و غالب کی یادگار
معنی کو تجھ پہ فخر، تخیل کو تجھ پہ ناز
نازاں تھا تجھ پہ مشرق و مغرب کا ہر دیار
آتش کا سوز، گل کی مہک، برق کی تڑپ
سو جاں سے ہو گئے تری تخئیل پہ نثار
تو نے سخن کو زندۂ جاوید کر دیا
تیرے نَفَس نے دی چمنِ شعر کو بہار
دو گز زمین آہ تجھے راس آ گئی
شہرت پہ تیری تنگ تھا دامانِ روزگار
گو زیرِ خاک کالبدِ خاک آ گیا
تو روح بن کے عالمِ جاں میں سما گیا
اے مزرعِ سخن پہ برستے ہوئے سحاب
اے مطلعِ وطن کے درخشندہ آفتاب
جاں بخش تیری نظم کا ہر استعارہ ہے
ہر لفظ بے مثال ہے ہر شعر لاجواب
اب آ کے کون دے گا گلِ شعر کو مہک
بخشے گا کون گوہرِ معنی کو آب و تاب
کہتے ہیں ترجمانِ حقیقت بجا تجھے
ہر رازِ حق تھا دیدۂ باطن پہ بے نقاب
رتبہ تری خودی کا نہایت بلند تھا
تجھ سے ترے خدا نے کیا بارہا خطاب
اِس دور میں تو آگہِ رازِ قدیم تھا
جو ہو حریفِ جلوۂ حق وہ کلیم تھا
جس کی صداؤں پر ہمہ تن گوش تھے سروش
وہ جامِ روح پرورِ عرفاں کا بادہ نوش
جس کی نوا سے نادرِ افغاں تڑپ اٹھا
اف ہو گیا وہ شاعرِ آتش نوا خموش
رنگیں تھا جس کے حُسنِ تخیل سے برگِ گُل
جس کی گرج سے موجۂ طوفاں میں تھا خروش
سینوں میں جس نے قوتِ گفتار سے بھرا
صہبائے بے خودی کا سرور و عمل کا جوش
تھا جس کے سانس سانس میں میخانۂ حیات
تربت ہے اُس کی سایۂ مسجد میں سبزپوش
ہے خاک میں وہ عرشِ معانی ہزار حیف
اے انقلابِ عالمِ فانی ہزار حیف
(جگن ناتھ آزاد)
۱۹۳۸ء
 
Top