لیکن ہمارا قصہ بدل رہا ہے از ناصر علی سید

Dilkash

محفلین
مقابل ھے آئینہ

از۔۔ناصر علی سید۔۔۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور

ایک بے چہرہ معاشرے میں کسی بھی تخلیق کار کیلئے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرنا کتنا مشکل اور ادق ہے اس کا اندازہ محض اس مسافر کو ہوسکتا ہے جو اندھی شب میں ان دیکھی گھپاؤں میں اپنے آپ کو ڈھونڈنے نکلا ہو ‘یہ سفر جو سراسر خسارے کا ہے خوابوں کا ہے سرابوں کا ہے مگر اسی سفر کے کسی موڑ پر سرنگ کے دوسرے سرے کی روشنی کی ایک جھلک کبھی بجلی سی کوندکر چھپ جاتی ہے۔

بس اسی لمحہ بھر کی روشنی سے ایک سچا تخلیق کار صحیح سمت میں آگے بڑھنے کی رہنمائی کشید کرتا ہے پھر یہ رہنمائی خود سے ملنے میں بھی مدد دیتی ہے ‘خدا سے ملنے میں بھی مدد دیتی ہے کائنات کے وجود کا ادراک بھی بخشتی ہے اور وجہ تخلیق موجودات کا پتہ بھی دیتی ہے اس لئے جب ذات کی تلاش کے سفر پر نکلا ہوا مسافر اس سفر کی روداد لکھتا ہے تو اس کے گرد کئی خوشبوئیں رقصاں ہوتی ہیں جنہیں جگنوؤں کی طرح پکڑ پکڑ کر وہ اپنے البم میں سجاتا ہے ‘ایسا ہی ایک خوش نما البم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے ’’پچھلے پہرکی سرگوشی‘‘ کے نام سے ترتیب دیاہے۔

اس میں جن لفظوں سے اجمل نیازی نے اپنے بے چہرہ معاشرے کی تصویروں کے خدوخال ابھارنے کی کوشش کی ہے وہ لفظ وہ تراکیب عمومی نہیں خصوصی ہیں‘ یہ نئے لفظ ہیں یہ تازہ ترتراکیب ہیں ان میں سے بیشتر سے سماعتیں آشنا نہیں مگر پھر بھی وہ بھلے بھلے سے لفظ انگلی پکڑ کر دوستی کرلیتے ہیں اورلفظ سے دوستی ہوجائے تو وہ اپنے معانی خود آشکار کرلیا کرتا ہے اور پھر ایک نیالسانی ادبی منظر نامہ ترتیب پانے لگتا ہے۔ اجمل نیازی کا لہجہ اس سارے سفر میں کہیں بھی نہ نعرہ بنتا ہے نہ تلخ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کرتا ہے مگر پڑھنے والا اس سے قطعاً انگلی نہیں چھڑا سکتا وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہے اور اسی کے لفظوں میں اپنی کیفیت کا اظہار کررہا ہوتا ہے۔

چراغ بجھ بجھ کے جل رہے ہیں نجانے کیا کیا بدل رہا ہے

ہمیں خبر تک نہیں ہے لیکن ہمارا قصہ بدل رہا ہے

پڑھنے والے کا قصہ اس وقت ہی بدلتا ہے جب وہ ایک ذہنی کیفیت سے دوسری ذہنی کیفیت کی طرف سفر کرنا شروع کردیتا ہے یہ ایک تخلیق کار کی کامیابی بھی ہے اور آزمائش بھی کہ وہ آگے چل کے جہان نو تک رہنمائی کرے پچھلے پہر میں محض سرگوشی ہی کی جاسکتی ہے‘بلند آواز میں بات نہیں کی جاسکتی جب ساری کائنات چپ اوڑھ کر سورہی ہو تو آواز ‘ایک مہذب آواز کو علم ہوتا ہے کہ اسے ہونٹوں سے کیسے جدا ہوناہے‘ یہ پچھلے پہر کا قصہ بھی بڑا عجیب ہے یہیں دعاؤں کی قبولیت کا پہر بھی ہوتا ہے اور یہی خوابوں کی سچی تعبیر کا پیامبر بھی ہوتا ہے نیند ‘خواب اور ریاضت نیم شب کے سنگھم پر موجود اس پہر کے سحر نے اجمل نیازی کے ہاتھ میں اس الجھی ڈور کا وہ سرا تھما دیا ہے جس سے وہ گرہ گرہ کھولتے ہوئے آگے سفر کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ آگے جہاں ذات کی پاتال کی سرزمین شروع ہوتی ہے اور جس میں مٹی کی خوشبو بھی گندھی ہوئی ہے اور وہ ذائقہ بھی خمیر میں موجود ہے جو اسم محمدؐ ادا کرنے کے بعد ہونٹوں پر دیر تک میٹھی گدگدی کرتا رہتاہے

اجمل نیازی نے اپنی دھرتی سے اپنی مٹی سے اپنی ثقافت سے جو تہذیب حاصل کی ہے اس کا اظہار اس کے ہاں بہت شدت سے ہوتا گیا ہے‘ میں نے پہلی بار اجمل نیازی کوٹی ہاؤس میں دیکھا تھا‘ اجمل نیازی میز پر بیٹھے بہ آواز بلند کہہ رہے تھے کہ میری مٹی کی اس ایک تصویر پر میں میرؔ کے کئی

دیوان قربان کرسکتا ہوں کہ

’’جٹی نہا کے چھپڑوں نکلی تے سلفے دی لاٹ ورگی‘‘

اس دن بہت بلند آہنگ لہجہ تھا اس نوجوان اجمل نیازی کا پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ سرگوشیوں میں بات کرنے لگا اور وہ بھی رات کے پچھلے پہر کی سرگوشی جب رات کے گذرنے کی مدہم سی چاپ تک سنائی دے رہی ہوتی ہے ‘شاید وہی میر جس کے کئی دیوان وہ اپنی مٹی کی تصویر پر قربان کررہا تھا اس کی مدد کو آیا اور اس نے اسے سمجھایا کہ

دور بیٹھا غبار میر اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

جب عشق جذباتیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تہذیب کے دیئے جلانے لگتا ہے تو بسا اوقات انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں مگر اس چیخ کی آواز نہیں ہوتی کیوں کہ چیخ اس گنبد میں گونجتی ہے جس کے سارے دروازے انسان کے اندر کی طرف کھلتے ہیں ۔ ۔ ۔ جس بھی شہر چلے جائیں

ہم اپنے گھر میں ہوتے ہیں‘خالم خالی بھی ہو لیکن اپنا گھراک نعمت ہے اجمل نیازی نے جن تراکیب اور لفظیات کا رسک لیا ہے ‘اس اعتماد کے ساتھ لیا ہے کہ دعاؤں یادوں اور خوابوں کی جتنی بھی معنویت ممکن ہے یہ لفظ ان تک پہنچنے میں اس کے قاری کی مدد کریں گے یہ نئے لفظیات پچھلے پہر کی سرگوشی کے کم وبیش ہر صفحہ پر اپنے جلوے دکھاتے ہیں اجڑے پجڑے موسم ‘ہجر کا غار حرا ‘اذان فجر میں سویرے کا انتظار‘اجاڑ نیندیں ویران رت جگے‘ خواب خزانہ‘ سلائے گئے اور سوئے ہوئے لوگوں کا فرق ‘جدائی کی اکیلی وسعتیں خواب کا آئینہ ہجر آباد پسماندہ بستی بے وطن لمحوں میں ہمسائیگی ‘حیرت تعبیر اور سبز خوابوں کی زمین ‘سوکھے اشکوں کا آنگن اور ایسے ہی بے شمار تراکیب اور لفظ جن میں بیشتر پر تو مظہر الاسلام کے افسانوں کے عنوانات کا گمان ہوتا ہے

صرف اتنا ہی نہیں اس شعری مجموعہ میں ایسے اشعار اور خصوصاً مصرعوں کی بھی کمی نہیں جن پر ضرب المثل کا گمان ہوتا ہے‘ سید فارغ بخاری نے اپنی کتاب غزلیہ میں اسی طرح کے مصرعوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ہم آمد کی بات کرتے ہیں تو شاعر پر ایک دوتین مصرعے یا شعر ہی نزول کرتے ہیں باقی اشعار تو محض غزل مکمل کرنے کی کوشش ہوتی ہے چنانچہ غزلیہ میں انہوں نے یک مصرعی دومصرعی ‘تین مصرعی غزلیں دی ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو مجھے اجمل نیازی کے کئی مصرعے مکمل غزل کا لطف دیتے ہیں۔

ہجر کی زمینوں میں سرحدیں نہیں ہوتیں

ہرطرف اجلے دسمبر کی سحر پھیلی ہوئی

گھر کی جانب جانے والے راستوں جیسا ہے وہ

دعا کی دہلیز پر‘ زمانے رکے ہوئے ہیں

ہم چلے جاتے ہیں لیکن یہ سفرکٹتا نہیں

یہ مصرعے غزلوں کے ہی نہیں بعض نظموں کے بھی ہیں طوالت کا خوف آڑے آرہا ہے ورنہ میں وہ اشعار بھی لکھ سکتا ہوں جو دردل پر مہذب انداز میں دستک دیتے ہیں اجمل نیازی کا یہ سفر جو میرے نزدیک بلند آہنگی سے نرم وگداز سرگوشیوں تک کا سفر ہے اس عشق کی تہذیب کی دین ہے جس نے اسے یہ کہنے کا حوصلہ دیا ہے۔

عہد غفلت میں مجھے مثل سحر بھیجا گیا

دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا

Dated : 2010-01-26 00:00:00
 
Top