لیاقت باغ میں کون مرا؟

پاکستانی

محفلین
آج راولپنڈی کی مشہور جلسہ گاہ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں کون مرا؟ ہر طرف صرف اور صرف بینظیر بھٹو کا نام لیا جا رہا ہے۔ لیکن وہاں تو اور بھی بہت کچھ تھا۔

ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی تو وہیں تھی۔ پاکستان بھر میں کئی ہفتوں سے جاری انتخابی عمل بھی تو وہیں کہیں پھر رہا تھا۔ آخری خبریں آنے تک اسی جلسہ گاہ میں وفاق کی سیاست بھی دیکھی گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت بھی اسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ اور ان لاکھوں بے نام خواہشوں کا تو ذکر ہی کیا جو لیاقت باغ سے دور ہوتے ہوئے بھی وہیں کہیں گھومتی دیکھی گئیں۔ ان سب کا کیا بنا؟

راولپنڈی اسلام آباد میں سناٹا ہے۔ کہیں کہیں کوئی بچا کھچا ٹائر شاید ابھی تک سلگ رہا ہو لیکن جدھر دیکھو ہو کا عالم نظر آتا ہے۔ کوئی نہیں جو بتائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، انتخابی عمل، وفاق کی سیاست، جمہوریت اور عوامی امنگیں کس حال میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے تو شاید بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی دم توڑ دیا ہو۔ بیچاری میں جان ہی کتنی تھی؟ گیارہ سال تو جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں پٹی۔ پھر اپریل انیس سو چھیاسی میں جب بینظیر بھٹو واپس آئیں تو خیر خواہوں نے ان کی منتیں کیں، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کچھ اور کرنے سے پہلے اپنی پارٹی کو سنبھالو۔ پارٹی الیکشن کراؤ اور اسے ایک منتخب اور فعال قیادت دو۔

لیکن بتیس سالہ بینظیر بھٹو کچھ اور ہی دھن میں تھیں۔ انہیں اتنے کام جو کرنے تھے۔ وزیر اعظم بننا تھا، اپنے باپ کے عدالتی قتل کا بدلہ لینا تھا اور حکومت میں آ کر وہ تمام کالے قوانین ختم کرنے تھے جو فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاست کی خاطر بھوکے کتوں کی طرح ملکی سیاست پر چھوڑ رکھے تھے۔

مزید یہاں
 
Top