لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل

فرض کریں کہ انصار عباسی صاحب دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں کہ راستے میں رک کر ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر اپنی گاڑی کی طرف واپس پلٹتے ہیں لیکن اسی اثناء میں ٹھیلے پہ لگا بم پھٹ جاتا ہے اور انصار عباسی سمیت بیس لوگ لقمہ ء اجل بن جاتے ہیں۔ لوگ افسوس کریں گے کہ انصار عباسی صاحب لا علمی میں کس طرح مارے گئے۔​
اب یہی واقعہ ایک اور طرح سے پیش آتا ہے۔ انصار عباسی ساحب جس گروہ پہ تنقید کرتے ہیں اسکی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں وہ گاڑی میں جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے والے کے پاس رک کر پھل خرید ہورہے ہوتے ہیں کہ ایک موٹر سائیکل پاس آ کر رکتی ہے اس پہ سوار افراد ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انصار عباسی ہیں اور انکو گولی کا نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں اگلے دن انکو دھمکی دینے والی تنظیم اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔​
کیا ان دو واقعات پہ رد عمل ایک جیسا ہوگا؟​
جی نہیں۔ پہلے واقعے میں پاکستان کے سیکیوریٹی کے حالات اور انکی وجوہات ڈسکس ہونگیں۔ دوسرے واقعے کو پاکستانی جرنلزم پہ اندوہناک وار کہا جائے گا۔ اور ہر شخص جو انکا نظریاتی طور پہ کتنا ہی مخالف ہو اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جرنلسٹ کی حیثیئت سے انکا قتل ایک سانحے سے کم نہیں۔ یہ آزاد صحافت پہ حملہ ہے۔
دھیرج رکھیں، انصار عباسی صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔​
بس یہیں سے ملالہ کا ملال شروع ہوتا ہے۔​
ملالہ کی کہانی سن کر لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل کی کہانی یاد آتی ہے جسے اسکی ماں باسکٹ میں کھانے کی اشیاء دے کر بیمار نانی کے پاس جنگل کے اس طرف بھیجتی ہے اور راستے میں اسے ایک بھیڑیا مل جاتا ہے۔
ملالہ ، ملال یہ نہیں ہے کہ تمہیں کس نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ نہ ہی یہ ملال ہے کہ اسلام کا نام لینے والوں نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے تمہیں گولی ماری۔ بہت عرصہ ہوا لوگ مر رہے ہیں اور ہم یہ دعوے سن رہے ہیں۔ نہ ہی یہ ملال ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ چونکہ تم نے شریعت کے خلاف جا کر کام کیا اس لئے تم اس سزا کی حقدار ہو۔ شرعی معاملات کو نافذ کرنے کے لئے اب ہمارے یہاں ٹھیلے پہ سبزی بیچنے والا بھی بے قرار ہے یہ جانے بغیر کہ شریعت کس چڑیا کا نام ہے۔ نہ ہی مجھے اس بات کا ملال ہے کہ طالبان نے کہا کہ کیا ہوا تم بچ گئ وہ دوبارہ تمہیں مارنے کی کوشش کریں گے۔ ہم دیکھ چکے کہ وہ اپنی بات میں کتنے اٹل ہیں۔​
میں تمہیں اتنا ہی جانتی ہوں جتنا میڈیا کے ذریعے پتہ چلا۔ یہاں بہت سارے لوگ معاشرے کی تباہ ہوتی اقدار کے بارے میں فکر مند ہیں مجھے تمہارے بارے میں جان کر کیا کرنا۔ وہاں وادی ء سوات میں بے شمار لڑکیاں ہونگیں جو اپنی تعلیم پہ فکر مند ہونگیں۔ جنہیں اپنے ساتھ یہ دوسرے درجے کا سلوک پسند نہیں ہوگا۔ بس یہ کہ تم ان لڑکیوں کے لئے ایک علامت بن گئیں۔ زیادہ تر لوگ تو اس علامت کو درپیش خطرے سے صدمے میں آئے۔​
در حقیقت میں تم سے زیادہ تمہارے والدین کی بہادری کی قائل ہوں۔ آخر تمہارے والدین نے تمہیں گیارہ سال کی عمر میں اس قسم کی مضامین لکھنے کی اجازت کیوں دی جس میں تم لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرو وہ بھی ایسے علاقے میں، اس عہد میں جب کہ صرف اس فتوی کے آنے کی دیر تھی کہ بحیثیئت عورت پیدا ہونا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ آخر انہوں نے تمہیں وہ سبق کیوں نہیں پڑھایا جو ہمارے یہاں اس وقت خواتین کو پڑھایا جانا پسند کیا جاتا ہے؟​
لیکن پھر بھی مجھے ایک ملال سا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ نہیں جنہوں نے تمہیں گولی ماری بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس واقعے کے بعد سامنے آتے ہیں۔​
لوگوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ طالبان نے یہ نہیں کیا امریکہ نے کیا ہے فوج نے کیا ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ کیا آپکو معلوم ہے کہ ملالہ کی فیورٹ شخصیت اوبامہ ہے، یا یہ کہ کیا آپ نے ملالہ کے مضامین پڑھے ہیں؟ انہیں پڑھے بغیر آپ ملالہ کو مظلوم کیوں سمجھتی ہیں؟ ڈرون حملوں میں بچے مارے جاتے ہیں آپ اسکی مذمت نہیں کرتیں تو ہم ملالہ کی مذمت کیوں کریں؟ پاکستان میں ایک نہیں لاکھوں ملالائیں ہیں ہم صرف اسکی مذمت کیوں کریں؟ وہ ہمارے یہاں کی ایک اور مختاران مائ ہے۔ ہم کیوں نہ کہیں کہ عافیہ صدیقی اور جامعہ حفصہ کی لڑکیوں سے اگر آپکو ہمدردی نہیں تو ہمیں بھی ملالہ سے ہمدردی نہیں؟
آخر ملالہ نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس پہ اسکی اتنی شہرت ہے؟ ہمارے یہاں تو ایسی لاکھوں ذہین لڑکیاں ہیں۔ عین اسی وقت دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ وہ جو مضامین اس نے لکھے ہیں اس عمر کا بچہ تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس عمر میں بچے نہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں اور نہ اتنا سوچتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دراصل اس کے ساتھ جو ہوا اس کے اصل ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسکی باتوں پہ اس کی حوصلہ افزائ کی۔​
یہیں پہ دل ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ یہ تک کھوج کر نکال لاتے ہیں کہ کیا ہم جانتے ہیں کہ ملالہ کے دیندار دادا نے ملالہ کے سیکولر نظریات رکھنے والے والد کو اسکے کفر کی وجہ سے نوجوانی میں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔​
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو کہتے ہیں کہ طالبان تو وجود ہی نہیں رکھتے یہ تو امریکیوں کا پھیلایا ہوا وہم ہے۔ لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پھر آپ طالبان کی مذمت کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں تو پھر ایک آئیں بائیں شائیں۔​
اس وقت ایک چودہ سالہ لڑکی برطانیہ کے کسی ہسپتال میں ہوش و خرد سے نا آشنا کسی بستر پہ مشینوں کے سہارے پڑی ہے۔ وہ اگر ایک طویل علاج کے بعد زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک تندرست ہوگی۔
لیکن میرے جیسے دلوں میں یہ خیال کروٹیں لے رہا ہے کہ بستر پہ پڑا وہ وجود ایک چودہ سالہ لڑکی کا ہے یا چونسٹھ سال کے ملک کا ہے۔
مضمون بشکریہ
عنیقہ ناز
ربط
http://anqasha.blogspot.com/
 
Top