لَب چھڑی

یوسف-2

محفلین
lub+chari-1.jpg


lub+chari-2.jpg


lub+chari-3.jpg


lub+chari-4.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
لب چھڑی
یہ کیا ہے؟ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے لب چھڑی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں جی ہاں انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ یہ اسم بامسمی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینےمیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لب چھڑیوں کی مارکیٹ ویلیو اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ مکمل طور پر اسم بامسمی بن جائے گی۔ یہ ایک کارآمد شے ہے۔ بقول شاعر، خواتین اسے اپنے نازک ہونٹوں کو گلاب جیسا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں جب کہ مرد حضرات اس سے بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کا کام لیتےہیں۔ آخر خواتین بھی تو شیونگ بلیڈ سے پنسلیں بنانے کا کام لیتے ہیں۔​
آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ابتدا میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ مقبرہ کتب (جسے کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے) میں مدفون کتابوں کے وہ بوسیدہ اوراق پیش کرتے ہیں جن کے بیشتر اشعار میں ہونٹوں کو (غلطی سے ہی سہی) گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار خواتین ضرورت کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شید استعمال کر سکتی ہیں۔ اور آج کے موٹر گاڑیوں کے اس دور میں کون ایسا بھولا ہے جو ان رنگوں کا "مفہوم" نہ سمجھتا ہو۔​
بعض رجعت پسند حضرات (خواتین نہیں) لب چھڑی کا شمار سامان تعیش میں کرتے ہیں، مگر اس سے متفق نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ خواتین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ لب چھڑی کے بغیر صنف نازک کی پہچان تک مشکل ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے۔ دور حاضر میں تراش خراش (زلف و لباس دونوں) چال ڈھال اور شکل و صورت کے لحاظ سے تو دونوں اصناف میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لب چھڑی ہی وہ واحد چھڑی ہے جس کا استعمال، تا دم تحریر صنف قوی نہیں کرتی۔ ہم لب چھڑی کے موجد کی روح کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے لب چھڑی ایجاد کر کے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ آج ہم بلیک اینڈ وہائٹ اور کلرڈ ہونٹ دیکھ کر ہی اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس ہستی سے ہم محو گفتگو ہیں اس کا تعلق کس صنف سے ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
اگر مضمون ہذا کی اشاعت کے بعد خواتین لب چھڑی کا استعمال ترک بھی کر دیں تو اس سے اس کی افادیت اور مانگ میں کمی نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس صورت میں بھی سادہ اور رنگین لب دونوں اصناف کے درمیان وجہ امتیاز بنے رہیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ رنگین لب کے تصور سے ہمارے ذہنوں میں صنف قوی کا خیال آیا کرے گا۔​
ابھی ہم رنگ برنگ لپ اسٹکس کے تراکیب استعمال پر غور و فکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا سطور لکھ ہی پائے تھے کہ لب چھڑی سے متعلق ایک اہم خبر درآمد ہوئی، جس نے متذکرہ بالا تراکیب کو بیک خبر کالعدم کر دیا۔ سات سمندر پار سے خبر موصول ہوئی ہے کہ سائنس دان ایک ایسی لب چھڑی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو انسانی (مطلب یہ کہ نسوانی) جذبات کی عکاسی کیا کرے گی۔​
ہم جب مختلف قسم کے جذباتی قسم کیفیات سے گزرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارا دوران خون گھٹتا بڑھتا ہے بلکہ ہمارے جسم کی بیرونی جلد پر مخصوص کیمیاوی تبدیلیا بھی واقع ہوتی ہیں۔ انہی کیمیاوی تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے جدید لپ اسٹکس میں ایسی کیمیاوی اشیاء شامل کر دی ہیں جو جلدی کیمیاوی تبدیلیوں کے زیر اثر اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہیں۔ اور رنگوں کی یہ تبدیلی مستقل نہیں بلکہ گرگٹ کی طرح تغیر پذیر ہوتی ہے۔ یعنی اب ہمیں خاتون خانہ کے موڈ کو سمجھنے کے لئے فقط ان کے ہونٹوں کا رنگ دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ رنگ ڈھنگ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑے گی۔​
ابھی تو یہ لپ اسٹکس تجرباتی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جب یہ تجارتی بنیادوں پر تیار ہو کر گھر گھر پہنچ جائے گی تو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیں : صاحب خانہ گھر میں داخل ہوتے ہیں کہ گڈو "ابو آ گئے! ابو آ گئے!" کہتا ہوا لپٹ جاتا ہے۔ "بیٹے! آپ کی امی کہاں ہیں؟"۔۔۔"ابو ابو آج گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سے امی کے ہونٹوں کا رنگ مستقل بدل رہا ہے۔" ممی کی آہٹ سن کر ابو کی گود میں چڑھتے ہوئے۔ "ابو مجھ تو ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔" ارے آپ؟ کب آئے؟ اور یہ گڈو جوتوں سمیت آپکی گود میں۔۔۔؟ "۔۔۔ بھئی تمہارے ہونٹوں کا رنگ تو بڑا خوشگوار ہے، گڈو تو بڑا سہما ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ صبح سے ممی کے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔" "۔۔۔ اس گڈو کے بچے کو تو ۔۔۔" "بس ۔۔۔ بیگم۔۔۔ بس۔۔۔ دیکھو!۔۔۔ دیکھو! پھر تمہارے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔"
 
Top