ناعمہ عزیز
لائبریرین
کہتے ہیں جب ایک سانس آ کر گزر جاتا ہے تو گویا موت کی طرف ایک قدم بڑھ جاتا ہے اور یہاں تو آوے کا آوا ہی گزر گیا ، مطلب پورا ایک سال!! جی ہاں عرف عام میں ہم بائیس سال کے ہو گئے ہیں!! چھوٹے بھیا کے مطابق عقل ابھی گھٹنوں میں ہی ہے، اور میرا اپنا خیال یہ ہے کہ شاید گھٹنوں سے بھی نیچے رہ گئی ورنہ بائیس سالوں میں کچھ نا کچھ تو ترقی مل ہی گئی ہوتی!!
اور بڑے بھیا کے مطابق دماغ میں مغز کے نام پر بھی بھوسا بھرا ہوا ہے اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ میں نے سفارش نہیں کی اللہ سائیں سے کہ دنیا جہان کا بھوسا ہما رے ہی دماغ میں بھر دیں، وہ تو بھلا ہو اللہ سائیں کا کہ بھوسا ہی بھر ڈالا اگر خالی ہی رہنے دیتے تو پھر نجانے ہمیں کیا کیا طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے۔
اور میری اماں جان کو خیا ل ہے کہ
’’کام کی نا کاج کی دشمن اناج کی‘‘
جی ہاں عرف عام میں میری اماں کی باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے پر قسم ہے اس بھوسے کی کہ جو میرے دماغ میں بھرا ہے اور اس عقل کی کہ گھٹنوں سے نیچے ہی رہ گئی کبھی بھی میری اماں نے یہ مختصر سا جملہ بولنے پر اکتفا نہیں کیا ہمیشہ وضاحت دیتیں ہیں
چھوٹی بہن کہتی ہے کہ تم لٹریچر پڑھ کر کیا کرو گی زیادہ سے زیادہ ٹیچر ہی لگ جاؤ گی نا ، آئی ٹی طرف ہی دھیان دو اپنا، دو چار پیسے کما لو گی، یعنی کہ وہی ، جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے ، ہاں نا تو کوئی بات نہیں ہم تو پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں کہ ہمیں بنا عقل کے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا,
جب کہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس بار سی ایس ایس کا امتحا ن پاس کر کے دنیا کو حیران کر دیں ہاہاہاہاہاہاہا، آخر کو خوابوں میں چھچھرے دیکھنے کا ہمارا بھی من کر تا ہے
اور چھوٹے تو مجھ پہ باقاعدہ رعب ڈالتے ہیں ، ایک دن ہم کمپیوٹر پر ہی بیٹھے نیٹ گردی میں مصروف تھے کہ خالہ کی بیٹی جو کہ پانچویں کلاس کی طالبعلم ہےا ور بیٹا جو کہ چہارم میں پڑھتا ہے نے آ کر ہمیں بڑے رعب سے مخاطب کیا ،
کیا ناعمہ آپی اب اٹھ بھی جاؤ نا ہم نے کارٹون دیکھنے ہیں۔ ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ، اور بڑی مسکین سے صورت بنائے ان سے سوال کی جسارت کی،
کہ جب عائشہ(چھوٹی بہن) بیٹھی ہوتی ہے تو اسے تو نہیں کہتے اٹھ جاؤ،
تو انہوں سے بڑی شان سے جواب دیا عائشہ باجی سے ڈر لگتا ہے آپ سے نہیں لگتا ،
اور اس دن سے ہم اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ چھوٹوں پر بھی اپنی دھاک نہیں بیٹھا سکے
پورے گھر بھر میں ایک ہی ہماری لاڈلی ہے، صالحہ، جی ہاں بچپن سے اب تک اماں کے بعد اسکا وقت ہمارے ساتھ ہی گزرتا ہے ، ہمارے لاڈ پیار نے اسے بھی اتنا بگاڑ دیا ہے کہ بس ،ا ب تو اماں سے او ر عائشہ سے اس لئے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ تم نے بگاڑا ہے، اب بھگتو ، مگر اتنا بگاڑنے کے باوجود بھی ہمارے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی،
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پچھلے چھ دن سے وہ اور اس سے بڑی بہن خالہ کہ ہاں گئے ہیں چھٹیاں گزارنے کے واسطے اور ہم تھے کہ تیسرے ہی دن اداس ہو گئے ، پر کیا کرتے مجبوری تھی اپنی اداسی کو الفاظ کی زبان نا دے پائے، کل شام ابا جی موبائل لے کے خالو کو فون کیا کہ ذرا دیر کو اپنی لاڈلی بہن کی آواز ہی سن لیں تو انہوں نے کہ خالہ کے نمبر پہ فون کر لو میں ذرا مصروف ہوں ، اور ابا جی تو پہلے ہی دھمکی لگا چکے تھے کہ خبردار بیلنس ضائع نا کرنا آج ہی کروایا ہے بس پھر کیا تھا ڈرتے مارے ہمت ہی نا ہوئی کہ پھر سے فون کر لیتے ہیں۔
اور آج چونکہ میری سالگرہ کا دن تھا صبح ہی صبح خالہ کا فون آیا کہ صالحہ کو بخار ہو گیا ہے اور ہم نے فورا ہی اپنا بیان دینا مناسب سمجھا کہ دیکھا وہاں جا کر میرے بغیر ادا س ہو گئی،،، اماں صبح سے لینے گئی ہیں اور ہم انتظار کر رہےہیں کہ اب بھی آئی اب بھی آئی ، اور اسی انتطا ر میں دوپہر بھر ہمیں نیند بھی نہیں آئی۔۔ خیر اب وہ آگئی تو ہمیں سکون ہوا ہے،،
اور ہماری دوستوں کے خیا ل ہمارے بارے میں کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان کے لئے انٹر ٹینمنٹ کا اچھا ذریعہ ہیں، البتہ انٹر نیٹ پر ہماری بونگیاں دیکھ کر انکو کبھی یقین نہیں آیا کہ میں بظاہر ہنس مکھ سی کڑی زندگی میں کبھی کسی لمحے میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہوں
یہ تو تھی ہماری کچھ نااہلی ، اور لاڈ پیار کی داستان ، اور ایسا کردار نبھاتے نبھاتے آج پورے بائیس سال ہو گئے ہیں
اور بڑے بھیا کے مطابق دماغ میں مغز کے نام پر بھی بھوسا بھرا ہوا ہے اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ میں نے سفارش نہیں کی اللہ سائیں سے کہ دنیا جہان کا بھوسا ہما رے ہی دماغ میں بھر دیں، وہ تو بھلا ہو اللہ سائیں کا کہ بھوسا ہی بھر ڈالا اگر خالی ہی رہنے دیتے تو پھر نجانے ہمیں کیا کیا طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے۔
اور میری اماں جان کو خیا ل ہے کہ
’’کام کی نا کاج کی دشمن اناج کی‘‘
جی ہاں عرف عام میں میری اماں کی باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے پر قسم ہے اس بھوسے کی کہ جو میرے دماغ میں بھرا ہے اور اس عقل کی کہ گھٹنوں سے نیچے ہی رہ گئی کبھی بھی میری اماں نے یہ مختصر سا جملہ بولنے پر اکتفا نہیں کیا ہمیشہ وضاحت دیتیں ہیں
چھوٹی بہن کہتی ہے کہ تم لٹریچر پڑھ کر کیا کرو گی زیادہ سے زیادہ ٹیچر ہی لگ جاؤ گی نا ، آئی ٹی طرف ہی دھیان دو اپنا، دو چار پیسے کما لو گی، یعنی کہ وہی ، جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے ، ہاں نا تو کوئی بات نہیں ہم تو پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں کہ ہمیں بنا عقل کے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا,
جب کہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس بار سی ایس ایس کا امتحا ن پاس کر کے دنیا کو حیران کر دیں ہاہاہاہاہاہاہا، آخر کو خوابوں میں چھچھرے دیکھنے کا ہمارا بھی من کر تا ہے
اور چھوٹے تو مجھ پہ باقاعدہ رعب ڈالتے ہیں ، ایک دن ہم کمپیوٹر پر ہی بیٹھے نیٹ گردی میں مصروف تھے کہ خالہ کی بیٹی جو کہ پانچویں کلاس کی طالبعلم ہےا ور بیٹا جو کہ چہارم میں پڑھتا ہے نے آ کر ہمیں بڑے رعب سے مخاطب کیا ،
کیا ناعمہ آپی اب اٹھ بھی جاؤ نا ہم نے کارٹون دیکھنے ہیں۔ ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ، اور بڑی مسکین سے صورت بنائے ان سے سوال کی جسارت کی،
کہ جب عائشہ(چھوٹی بہن) بیٹھی ہوتی ہے تو اسے تو نہیں کہتے اٹھ جاؤ،
تو انہوں سے بڑی شان سے جواب دیا عائشہ باجی سے ڈر لگتا ہے آپ سے نہیں لگتا ،
اور اس دن سے ہم اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ چھوٹوں پر بھی اپنی دھاک نہیں بیٹھا سکے
پورے گھر بھر میں ایک ہی ہماری لاڈلی ہے، صالحہ، جی ہاں بچپن سے اب تک اماں کے بعد اسکا وقت ہمارے ساتھ ہی گزرتا ہے ، ہمارے لاڈ پیار نے اسے بھی اتنا بگاڑ دیا ہے کہ بس ،ا ب تو اماں سے او ر عائشہ سے اس لئے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ تم نے بگاڑا ہے، اب بھگتو ، مگر اتنا بگاڑنے کے باوجود بھی ہمارے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی،
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پچھلے چھ دن سے وہ اور اس سے بڑی بہن خالہ کہ ہاں گئے ہیں چھٹیاں گزارنے کے واسطے اور ہم تھے کہ تیسرے ہی دن اداس ہو گئے ، پر کیا کرتے مجبوری تھی اپنی اداسی کو الفاظ کی زبان نا دے پائے، کل شام ابا جی موبائل لے کے خالو کو فون کیا کہ ذرا دیر کو اپنی لاڈلی بہن کی آواز ہی سن لیں تو انہوں نے کہ خالہ کے نمبر پہ فون کر لو میں ذرا مصروف ہوں ، اور ابا جی تو پہلے ہی دھمکی لگا چکے تھے کہ خبردار بیلنس ضائع نا کرنا آج ہی کروایا ہے بس پھر کیا تھا ڈرتے مارے ہمت ہی نا ہوئی کہ پھر سے فون کر لیتے ہیں۔
اور آج چونکہ میری سالگرہ کا دن تھا صبح ہی صبح خالہ کا فون آیا کہ صالحہ کو بخار ہو گیا ہے اور ہم نے فورا ہی اپنا بیان دینا مناسب سمجھا کہ دیکھا وہاں جا کر میرے بغیر ادا س ہو گئی،،، اماں صبح سے لینے گئی ہیں اور ہم انتظار کر رہےہیں کہ اب بھی آئی اب بھی آئی ، اور اسی انتطا ر میں دوپہر بھر ہمیں نیند بھی نہیں آئی۔۔ خیر اب وہ آگئی تو ہمیں سکون ہوا ہے،،
اور ہماری دوستوں کے خیا ل ہمارے بارے میں کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان کے لئے انٹر ٹینمنٹ کا اچھا ذریعہ ہیں، البتہ انٹر نیٹ پر ہماری بونگیاں دیکھ کر انکو کبھی یقین نہیں آیا کہ میں بظاہر ہنس مکھ سی کڑی زندگی میں کبھی کسی لمحے میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہوں
یہ تو تھی ہماری کچھ نااہلی ، اور لاڈ پیار کی داستان ، اور ایسا کردار نبھاتے نبھاتے آج پورے بائیس سال ہو گئے ہیں