لوگوں کی ا صل ضرورت - عزتِ نفس

لوگوں کی ا صل ضرورت

ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا کہ لوگوں کو پیسے کی، روپے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنی احترام کی، عزتِ نفس کی، توقیرِ ذات کی ہوتی ہے، اور ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس کا رواج بڑا کم ہے، اور ہم نے کبھی اس بات کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ حیران ہوکے سوچتے ہوں گے کہ وہ لوگ جو پیسا کماتے ہیں، چراتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، اور ہم نے ان کو انٹرویو کرکے پوچھا ہے کہ آپ کیوں رشوت لیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آپ ایسے قبیح فعل میں داخل ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، ہم بہت سارا روپیہ لے کر، اکٹھا کرکے اس سے عزت خریدتے ہیں۔ پیسا زیادہ ہوگا تو دیکھیے نا پھر آپ ان کو سلام کریں گے۔ وہ عزت خریدتے ہیں، ناجائز طریقے سے، اور جب خرید چکتے ہیں تو پھر معتبر بنتے ہیں۔ بڑی کار میں بیٹھتے ہیں، ہاتھ میں ٹیلی فون اٹھاتے ہیں، دوسرے میں کلاشنکوف ہوتی ہے، اور آپ کہتے ہیں، سلام چوہدری صاحب! اگر یہ سب کچھ کیے بغیر صاحبانِ عزت کو عزت عطاء کی جائے یا جو آدمی جس مقام پر ہے، اس کو عزت عطا کرکے اتنا زچ کردیا جائے، زچ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ کوئی بدفعل کر ہی نہیں سکتا کہ میں ایک صاحبِ عزت آدمی ہوں، تو ترقی یافتہ معاشروں نے اسی تدبیرکو اپنایا ہے کہ انہوں نے لوگوں کی وہ عزت عطا کردی ہے اور وہ لوگ اپنی عزت کی تلوار اپنے پہلو کے ساتھ لٹکا کر کوئی ایسا فعل نہیں کرسکتے، جو ان کو تذلیل کی طرف، بے عزتی کی طرف مائل کرے۔ وہ کہتے ہیں ہم عزت دار آدمی ہیں ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو آپ روزے داروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی عزت اپنی نگاہوں میں ہوتی ہے۔ پھر چاہے آپ کہیں بھی ہوں، غسل خانے میں ہوں، بند کوٹھوں میں ہوں، چھپے ہوئے ہوں، پانی چوری نہیں پیتے، کوئی چیز نہیں کھاتے، کوئی آپ کے اوپر سپاہی نہیں ہوتا۔ تھانیدار نہیں ہوتا۔ کوئی اس کی قدغن نہیں ہوتی کہ یہ بندہ جو ہے اس کے اوپر نگاہ رکھی جائے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں جو ہیں، ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں حکومتیں تو بڑی بے معنی، اور لا یعنی سی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کی بیمار پرسی ایک دوسرے کی مزاج پرسی انسان ہی کرتے ہیں۔ وہی ایک دوسرے کا پالن کرسکتے ہیں۔ وہی ایک دوسرے کو سہارا دے سکتے ہیں۔ حکومتیں کبھی نہیں دی سکتیں، تو میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ چیز بتدریج کم ہورہی ہے، اور ہمیں ایسے مراکز کی، اور ایسے ڈیروں کی ضرورت ہے، جہاں چاہے ہمیں تعلیم نہ ملے جہاں چاہے ہم کو گرائمر نہ سکھائی جائے، جہاں چاہے ہم کو درس نہ ملے، لیکن لوگوں کی تکریم ضرور ہو اور یہ نہ کہا جائے کہ یہ صاحب علم نہیں، اس لیے ہم عزت نہیں کرتے۔ ہم یہ کہیں گے، چونکہ یہ انسان ہے اور یہ حضرت آدم کی اولاد ہے، اس لیے ہم اس کی عزت ضرور کریں۔ ہمارے ڈیرے پر ایک دفعہ ایک نوجوان آیا، اسلامیہ کالج کا سٹوڈنٹ تھا، بڑا اچھا، اور وہ سائیکل پر چڑھا ہوا سائیکل کے ساتھ ہی اندر آگیا تو جہاں بابا جی بیٹھے تھے چار پائی کے اوپر وہاں پائے پر پیر رکھ کرکہنے لگا کہ ’’او بابا! توں کیا لوگوں کو غلط تعلیم دے رہا ہے، اور ان کو اُلٹی اُلٹی باتیں پڑھا رہا ہے۔‘‘ اس پر ہم بہت ناراض ہوئے کہ جناب! یہ کیا بات ہوئی۔ تو اس نے کہا، ’’تجھے پتا ہے کہ انسان جو ہے یہ ارتقا کے ساتھ انسان بنا ہے۔ پہلے انسان بندر ہوتا تھا۔‘‘ بابا جی نے کہا، بیٹا! تم کم از کم یہ بات نہ کرو۔ ہماری تو عزت افزائی ہوئی ہے، تو تو پیغمبروں کی اولاد سے ہے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔ کہنے لگے، یہ بابا آدم کا بیٹا ہمارے پاس تشریف لایا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بھی بندروں کی اولاد نہ کہنا۔ تم نبیوں کی اولاد ہو۔ اب جب اس نے یہ بات سنی کہ وہ نبیوں کی اولاد ہے تو وہ اس بات پر بہت خوش ہوا اور پھر ایک اور طرح سے ایک اور رخ لے کر چلا گیا
۔(کتاب ’’ زاویہ‘‘ کا ایک ٹکڑا) ٭٭٭
 
Top