لوٹ آئے گا کسی شام یہی لگتا ہے --- شبانہ یوسف

سین خے

محفلین
لوٹ آئے گا کسی شام یہی لگتا ہے

لوٹ آئے گا کسی شام یہی لگتا ہے
جگمگائیں گے در و بام یہی لگتا ہے

زیست کی راہ میں تنہا جو بھٹکتی ہوں میں
یہ وفاؤں کا ہے انعام یہی لگتا ہے

ایک مدت سے مسلسل ہوں سفر میں لیکن
منزل شوق ہے دو گام یہی لگتا ہے

اک کلی بر سر پیکار خزاؤں سے ہے
یہ نہیں واقف انجام یہی لگتا ہے

میرے آنے کی خبر سن کے وہ دوڑا آتا
اس کو پہنچا نہیں پیغام یہی لگتا ہے

مجھ کو بھی کر دے گا رسوا وہ زمانے بھر میں
خود بھی ہو جائے گا بدنام یہی لگتا ہے

بھولنا اس کو ہے آسان شبانہؔ لیکن
مجھ سے ہوگا نہیں یہ کام یہی لگتا ہے

شبانہ یوسف

 
Top