لنڈا بازار

شمشاد

لائبریرین
191308651_1841624539340454_4994330959108665885_n.jpg


لُنڈا بازار کراچی ایک برطانوی خاتون کے نام پر مشہور ہوئی ہے، لینڈا (Linda) نام کی خاتون ایک عام خاتون تھیں جو کراچی میں متعین ایک انگریز افسر کی بیوی تھیں مگر بہت رحم دل، غریبوں سے ہمدردی کے سبب انہوں نے کم وسائل کے باوجود خدمتِ خلق کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے دوستوں کو قائل کیا کہ وہ گھر میں رکھے ایسے کپڑے جو پرانے ہونے یا نظر سے اتر جانے کے سبب قابل استعمال نہ ہوں وہ غریبوں کو بلا قیمت پیش کرنے کے لئے انہیں دے دیں، اس طرح سے ملے کپڑے ایک اسٹال پر سجائے گئے، جو انکے نام کی مناسبت سے ” لینڈا اسٹال ” کہلایا۔ تجربہ کامیاب رہا آور پذیرائی کا سبب بنا، اسطرح اور لوگ اور گروپ میدان میں آئے مگر کام لینڈا اسٹال کے نام سے کیا، آگے چل کر استعمال شدہ کپڑوں کی مارکیٹ کاروباری رنگ میں آگئی مگر نام لینڈا مارکیٹ ہی رہا -

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی شدید سردی میں غریبوں کو تحفظ دینے کے لئے حکومت نے پرانے گرم کپڑوں کی درآمد پر کبھی پابندی نہیں رکھی، پڑوسی ملک ہندوستان میں درآمدات پر مکمل پابندی کی پالیسی کے سبب ہندوستان سے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئے ہندوستانی شہری پرانے گرم کپڑے شوق سے خریدتے تھے۔ لاہور میں قائم اسطرح کی مارکیٹ مسز لینڈا کے نام سے ہی قائم ہوئی اور لنڈا بازار کہلائی۔ اس نام کو مزید شہرت اسد بخاری کی فلم لنڈا بازار سے ملی، پی ٹی وی نے اپنے قیام کے بعد سینما فلمیں دکھانے کی پالیسی بنائی تو سب سے پہلی فلم لنڈا بازار ہی دکھائی گئی تھی۔ مگر مسز لنڈا کا خیرات کا خواب اب مکمل طور پر کمرشلائزڈ ہوگیا ہے کیونکہ ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں ہی دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی۔

کراچی میں پرانے کپڑوں کی مارکیٹ لائٹ سینما کے ساتھ ایک گلی میں تقسیم سے قبل سے قائم تھی، اس بازار سے منسلک بڑی تعداد کچھی میمن برادری کی تھی جنکی اکثریت مارکیٹ کے سامنے ہی گاڑی کھاتے میں رہائش پزیر تھی۔ پرانے گرم ملبوسات کے بڑے خریدار شمالی علاقہ جات کےلوگ تھے جو آہستہ آہستہ اس مارکیٹ کو سمجھنے لگے اور صدر ایوب کے دورمیں پٹھانوں نے اس مارکیٹ میں قدم رکھا اور آہستہ آہستہ اس مارکیٹ پر چھاتے گئے، میمن برادری میں اس مارکیٹ نے کبھی بھی لنڈا بازار کا نام نہیں پایا بلکہ پٹھانوں کی نسبت سے "لالہ گلی" کہلاتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ گَلی بھی اب لنڈا بازار ہی کہلاتی ہے۔
(بشکریہ - اقبال رحمن)
 

عظیم

محفلین
لنڈا بازار میں سمجھ رہا تھا کہ شاید لندن سے آہستہ آہستہ لنڈا بنا ہو گا۔ لاہور میں پہلے یہ اسٹیشن کے پاس ہوا کرتا تھا لیکن اب تو تقریباً ہر چھوٹے بڑے بازار میں ایک سیکشن لنڈے کا بھی ہوتا ہے!
 

جاسمن

لائبریرین
میرے لیے یہ نئی معلومات ہیں۔
لاہور میں نسبت روڈ پہ میو ہسپتال کے سامنے چھوٹی گلیوں میں لنڈا بازار ہوا کرتا تھا۔ پھر نجانے کہاں کہاں بنا۔
بہاولپور میں شاہی بازار میں تھا چبوترے پہ۔ پھر کئی جگہ شروع ہوا۔ اب تو پرانے اچھی حالت میں کپڑے "نئے" ظاہر کر کے بیچنے کا کام بھی چل پڑا ہے۔ شہزاد مارکیٹ میں بیٹی کے ساتھ اس کے لیے گرم کوٹ لینے گئی تو ایک دکان بس گرم کوٹوں کی ہی تھی۔ اس پہ کوٹ دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سا احساس ہوا۔ بیٹی کا ہاتھ پکڑ کے باہر لے گئی کہ بیٹا یہ تو لنڈے کے کوٹ ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس نام کو مزید شہرت اسد بخاری کی فلم لنڈا بازار سے ملی
اتفاق کی بات ہے کہ آج پنجابی فلموں کے ولن کا ذکر چلا اور میں نے اسد بخآری کی بات کی اور یو ٹیوب پہ انھیں ڈھونڈ کے احباب کو تصویر دکھائی۔
اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!
 

سیما علی

لائبریرین
اتفاق کی بات ہے کہ آج پنجابی فلموں کے ولن کا ذکر چلا اور میں نے اسد بخآری کی بات کی اور یو ٹیوب پہ انھیں ڈھونڈ کے احباب کو تصویر دکھائی۔
اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!
آمین
اس سے ہمیشہ ہمیں ففٹی ففٹی یاد آجاتا ہے ۔۔۔
 
191308651_1841624539340454_4994330959108665885_n.jpg


لُنڈا بازار کراچی ایک برطانوی خاتون کے نام پر مشہور ہوئی ہے، لینڈا (Linda) نام کی خاتون ایک عام خاتون تھیں جو کراچی میں متعین ایک انگریز افسر کی بیوی تھیں مگر بہت رحم دل، غریبوں سے ہمدردی کے سبب انہوں نے کم وسائل کے باوجود خدمتِ خلق کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے دوستوں کو قائل کیا کہ وہ گھر میں رکھے ایسے کپڑے جو پرانے ہونے یا نظر سے اتر جانے کے سبب قابل استعمال نہ ہوں وہ غریبوں کو بلا قیمت پیش کرنے کے لئے انہیں دے دیں، اس طرح سے ملے کپڑے ایک اسٹال پر سجائے گئے، جو انکے نام کی مناسبت سے ” لینڈا اسٹال ” کہلایا۔ تجربہ کامیاب رہا آور پذیرائی کا سبب بنا، اسطرح اور لوگ اور گروپ میدان میں آئے مگر کام لینڈا اسٹال کے نام سے کیا، آگے چل کر استعمال شدہ کپڑوں کی مارکیٹ کاروباری رنگ میں آگئی مگر نام لینڈا مارکیٹ ہی رہا -

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی شدید سردی میں غریبوں کو تحفظ دینے کے لئے حکومت نے پرانے گرم کپڑوں کی درآمد پر کبھی پابندی نہیں رکھی، پڑوسی ملک ہندوستان میں درآمدات پر مکمل پابندی کی پالیسی کے سبب ہندوستان سے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئے ہندوستانی شہری پرانے گرم کپڑے شوق سے خریدتے تھے۔ لاہور میں قائم اسطرح کی مارکیٹ مسز لینڈا کے نام سے ہی قائم ہوئی اور لنڈا بازار کہلائی۔ اس نام کو مزید شہرت اسد بخاری کی فلم لنڈا بازار سے ملی، پی ٹی وی نے اپنے قیام کے بعد سینما فلمیں دکھانے کی پالیسی بنائی تو سب سے پہلی فلم لنڈا بازار ہی دکھائی گئی تھی۔ مگر مسز لنڈا کا خیرات کا خواب اب مکمل طور پر کمرشلائزڈ ہوگیا ہے کیونکہ ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں ہی دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی۔

کراچی میں پرانے کپڑوں کی مارکیٹ لائٹ سینما کے ساتھ ایک گلی میں تقسیم سے قبل سے قائم تھی، اس بازار سے منسلک بڑی تعداد کچھی میمن برادری کی تھی جنکی اکثریت مارکیٹ کے سامنے ہی گاڑی کھاتے میں رہائش پزیر تھی۔ پرانے گرم ملبوسات کے بڑے خریدار شمالی علاقہ جات کےلوگ تھے جو آہستہ آہستہ اس مارکیٹ کو سمجھنے لگے اور صدر ایوب کے دورمیں پٹھانوں نے اس مارکیٹ میں قدم رکھا اور آہستہ آہستہ اس مارکیٹ پر چھاتے گئے، میمن برادری میں اس مارکیٹ نے کبھی بھی لنڈا بازار کا نام نہیں پایا بلکہ پٹھانوں کی نسبت سے "لالہ گلی" کہلاتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ گَلی بھی اب لنڈا بازار ہی کہلاتی ہے۔
(بشکریہ - اقبال رحمن)
ہمارے پاکستان کراچی میں تو اب لُنڈا بازار ختم ہونے کو ہے
 
بہت خوب میاں۔ معلوماتی دھاگہ اچھا لگا۔ اچھا ہوا آپ کی عنایت سے علم ہوگیا ورنہ ہم تو آج تک یہی سمجھتے آئے تھے کپڑوں کے چھوٹے اور پرانے ہونے کے باعث لنڈا بازار کہا جاتا ہے۔ یوں ہی جیسے ہم پرانے کپڑوں کو لنڈے کپڑے کہہ کر پکارتے ہیں۔
 
Top