لمحہ فکریہ۔۔۔

محسن حجازی

محفلین
کیا کیا جائے؟​
پاکستانی معاشرہ اس وقت جس اخلاقی، علمی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہے، اس انحطاط کے باعث آبادی کی ایک کثیر تعداد جہالت، غربت اور افلاس کی گہری کھائیوں میں گر چکی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ غریب ترین اور ان پڑھ ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس بات کا احساس اکثر پاکستانیوں کو نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے پر ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہے اور ہر فرد اپنے حال میں مست یا اپنے حالات میں جکڑا ہو ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنے سامنے مختلف برائیاں ہوتے دیکھ رہا ہے لیکن ان برائیوں کو روکنا تو درکنار وہ خود بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حد تک کسی نہ کسی برائی میں ملوث ہے جس کے باعث اس کے اندر اتنی اخلاقی جراءت و سکت ہی نھیں کہ وہ کسی برائی کے خلاف ڈٹ سکے، یہی حال تما م عالم اسلام کا ہے۔ اس وقت مسلمان حقیقت سے دور ایک جزباتی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ تمام عالم اسلام اس قدر اقتصادی پسماندگی کا شکار ہے کہ تمام اسلامی ممالک مجموعی جی ڈی پی یورپ کے بیمار ترین ملک اٹلی کے برابر بنتی ہے۔ علمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ سارے عالم اسلام میں چھے سو کے قریب یونیورسٹیاں ہوں گی جن میں کسی یونیورسٹی کا معیار بھی عالمی سطح کا نہیں ہے جبکہ صرف جاپان میں ایک ہزار سے زائد عالمی معیار کی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ مسلمانوں کی نصف سے زائد آبادی یعنی اسی کروڑ کے لگ بھگ لوگ بالک ان پڑھ ہیں۔

عالم اسلام اور پاکستان میں جتنی بھی فکری، اصلاحی، علمی اور اسلامی تحریکیں اٹھیں یا اس وقت کام کر رہی ہیں ان کے مجموعی اثرات بھی مسلمانوں کے اخلاقی، اقتصادی اور علمی زوال کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جن اسلامی ممالک نے کچھ اقتصادی اور علمی ترقی کی بھی ہے تو وہ بھی بہت کچھ گنوا کر یعنی بہت سی اسلامی اقدار اور ہدایات کو پس پشت ڈال کر۔

اسلام خدا کے آخری احکامات جو اس کے آخری رسول کے ذریعے بھیجے گئے ہیں پر مکمل عمل کرنے کا نام ہے۔ جو فرد ان احکامات پر یقین رکھتا ہے اور عمل کرتا ہے وہ مسلمان ہے، آج مسلمانوں کی اکثریت خدا کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ وہ مسلمان ہیں، مسلمان ہونے کا یہ پندار اور بے جا عصبیت بے شمار خرابیوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ آج کا انسان جب مسلمان معاشروں کو دیکھتا ہے تو انہیں غربت، جہالت اور اخلاقی گراوٹوں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ وہ صحیح مسلمان بنیں، قول و فعل کے تضاد کو ترک کردیں۔ ورنہ زبانی کلامی مسلمان ہونے کا دعوی انھیں نہ آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچا سکے گا اور نہ دنیا میں ذلت و رسوائی سے جس سے کہ آج کا عالم اسلام دو چار ہے۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

پاکستانی معاشرے کی اقتصادی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ یہاں پروفیسر سطح کا مالک بھی اگر جائز طریقے سے کمانے کی کوشش کرے تو نیو یارک کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے برابر بھی نہیں کما پاتا اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے کے غیر ہنر مند یا کم تعلیم یافتہ افراد کی اقتصادی حالت کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ ایک انسان کو لرزا دینے کے لئے کافی ہے۔

پا کستا نی معاشرہ غذائی قلت کا بھی شکار ہے لیکن اس امر کا شعور یا احساس بھی کم ہی افراد کو ہے آبادی کی اکثریت حیوانی سطح پر جی رہی ہے۔ نقص تغذیہ (Malneutration) کے باعث جو جسمانی، نفسیاتی، ذہنی اور اخلاقی امراض پوری قوم میں پھیل گئے ہیں ان کے احساس سے معاشرہ عاری ہے، اگر یہ کہا جائے پاکستانی قوم نقص تغذیہ کے باعث جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، اور اخلاقی طور پر ایک مریض قوم کی شکل اختیا کر گئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

پاکستانی معاشرے میں غربت اور امارت کے درمیان فرق تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستانی کی دو تہائی سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس ملک میں ہر طرح کے وسائل موجود ہیں۔

ان حالات میں کیا کیا جائے؟
کیا خاموش بیٹھ کر جہاز کے ڈوبنے کا انتظار کیا جائے یا ان ہاتھوں کو روکنے کی کوشش کی جائے جو جہاز میں شگاف پر شگاف ڈالے چلے جارہے ہیں یا ان اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے جن کے باعث معاشرے کا جہاز اخلاقی، علمی، اور اقتصادی شکستگی کا شکار ہوا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث مبارکہ میں معاشرے کو ایک جہاز سے تشبیح دی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر جہاز میں شگاف ڈالنے والوں کو نہ روکا گیا تو جب جہاز ڈوبے گا تو اس کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا گویا برائیوں کو روکنا یا ان کا تدارک ہمارا انسانی اور دینی فریضہ ہے۔

آج کے سائینسی دور میں زندگی سادہ نہیں رہی کوئی ایک فرد یا چند لوگ معاشرے کا رخ نہیں موڑ سکتے انفرادی کوششیں کوئی خاص اثر پیدا نہیں کر سکتیں اس کے لیے منظم اور سائینٹیفک بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ایسے ادارے وجود میں لانا ہوں گے جو معاشرتی خرابیوں کا گہرا تجزیاتی شعور رکھتے ہوں۔ یونیورسٹی آف ریفارمز بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے۔ یونیورسٹی آف ریفارمز کا منصوبہ ایک گہرے تجزیاتی شعور کی بنا پر معاشرتی خرابیوں کا ایک ایسا جامع حل پیش کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر پاکستانی معاشرہ جہالت، غربت اور افلاس کی تاریکیوں سے نکل کر عالم اسلام اور دنیا کے لیے ایک راہنما کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس نیک مشن کے لیے کثیر افرادی اور مالی وسائل درکار ہیں۔ مالی وسائل کے ادارہ معاشرے پر بوجھ بننا نہیں چاہتا بلکہ اپنے وسائل خود پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ غربت، جہالت اور افلاس میں گھری ایک کثیر آبادی کو ہنر مند اور تعلیم یافتہ بنا کر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کا ایک ہمہ جہتی پروگرام Poverty Elimination Bank اور Poverty Ozone جیسے منصوبوں کی شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت جس ذہنی انتشار، اقتصادی پسماندگی اور جسمانی نقاہت میں مبتلا اور "میں سب جانتا ہوں، میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا" جیسے رویوں کا شکار ہے، اس طرح کے سنجیدہ اور علمی منصوبوں کے لیے کسی تعاون کی امید کم ہی ہے۔ البتہ پاکستان سے باہر جو پاکستانی ہیں وہ اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں امید ہے ان تک یہ آواز پہنچی تو یونیورسٹی آف ریفارمز کے اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔

یونیورسٹی آف ریفارمز کی ویب سائیٹ لانچ کر دی گئی ہے، اس کے مطالعے سے آپ یونورسٹی آف ریفارمز کے تجزیے اور منصوبوں سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے ایک چھوٹا سا دیا روشن کر دیا ہے امید ہے کہ اس روشنی کو پھیلانے میں آپ بھی ہمارے ساتھی بن جائیں گے۔

اس شعور کو عام کرنے کے لیے ویب ایڈریس اپنے دوستوں کو ایس ایم ایس کیجئے۔

(میرے والد گرامی جناب محمد شفیق حجازی کی جانب سے ایک مراسلہ میرے نام۔۔۔)
 
Top