لفظ لکھنے پر پابندی ہے اور بولنے پر سزا ہے...حکایتیں نہ شکایتیں …اسد مفتی، ایمسٹرڈیم

لندن کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت برطانیہ امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بوگس شادیوں کے دھندوں کی روک تھام کر رہی ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ہر سال اس طرح کی دس ہزار شادیاں ہوتی ہیں۔ رجسٹرار کا کہنا ہے کہ صرف ایک دفتر میں کم از کم سالانہ دو سو مشتبہ شادیاں ہوتی ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ ممبر پارلیمنٹ نے گذشتہ دنوں ہوم سیکرٹری سے ملاقات کرکے انہیں بعض اخبارات میں شائع ہونے والی کہانیاں دکھائیں جن میں ایشیائی لڑکیوں کے گھر چھوڑنے میں شائع ہوئیں تھیں۔ اراکین پارلیمنٹ نے الزام لگایا کہ ایشیائی والدین کی طرف سے ٹھونسی گئی شادیوں کی بناء پر یارکشائر میں جوان ہونے والی بہت سی ایشیائی لڑکیاں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں جبکہ گھر چھوڑنے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
ان دونوں خبروں کو پڑھ کر مجھے مولانا اشرف علی تھانوی کی مشہور و معروف کتاب ”بہشتی زیور“ یاد آگئی مولانا اشرف علی تھانوی اسی بہشتی زیور میں فرماتے ہیں ”اگر کسی عورت نے اپنے میل سے نکاح نہیں کیا اور اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر لیا اور اس پر اس کا دل ناخوش ہوگیا تو فتویٰ یہ ہے کہ نکاح درست نہیں ہوگا۔“ مولانا اشرف علی تھانوی بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بے جوڑ اور بے میل نکاح نہ کیا جائے اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ نسب میں کن کن ذات کے افراد میں برابری ہے مثلاً شیخ، سید، انصاری اور علوی یہ سب ایک دوسرے کے برابر ہیں، اگرچہ سیدوں کا مرتبہ اوروں سے بڑھا ہوا ہے لیکن سید کی لڑکی شیخ کے لڑکے کے ساتھ بیاہی جا سکتی ہے، نسب میں اعتبار باپ کا ہے ماں کا نہیں (یہ الگ بات ہے کہ روز قیامت مردے ماں کے نام سے جگائے جائیں گے) اس لئے اگر کوئی سید باہر کی عورت گھر میں ڈال لے تو اولاد سید ہوگی لیکن اگر ماں ا ور باپ دونوں عالی خاندان کے ہوں تو ان کی عزت زیادہ ہوگی۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مغل پٹھان ایک قوم ہیں یہ شیخوں اور سیدوں کی ٹکر کے نہیں۔ پیشوں میں برابری اس طرح سے ہے کہ ”جولا ہے درزیوں کے برابر ہیں۔ نائی اور دھوبی درزی کے برابر نہیں ہے۔ شاید اسی لئے عظیم صوفی شاعر شاہ حسین نے کہا تھا۔
اِنی حسینو جولاہا
نہ اومنگیا نہ پرنایا
نہ اس گنڈھ نہ ساہا
نہ او مومن نہ او کافر
جوآہا، سوآہا، انی حسینو جولاہا
حسین تو جولاہا ہے۔ اس لئے نہ تو اس کی منگنی ہوئی ہے نہ گنڈھ اور ساع کی رسمیں ادا کی گئی ہیں نہ اس کی شادی ہوئی نہ وہ مومن ہے نہ کافر بہرحال وہ جو کچھ بھی ہے وہی ہے۔ خدا جانے شاہ حسین کو یہی ڈر تھا کہ اگر اس نے کسی سے شادی کرلی تو کوئی اشرف علی تھانوی اس کے نکاح کے ناجائز ہونے کا اعلان کردے گا اور اب جو دنیاداری کے چکروں سے آزاد ہے پھر انہی چکروں میں پڑ جائے گا۔ مغلوں سے پہلے کے مسلمان حکمرانوں کی تاریخ ایک صاحب ملا ضیاء الدین برنی نے لکھی اس کا نام تاریخ فیروز شاہی ہے اس میں برنی لکھتے ہیں۔
”ہر طرح کے اساتذہ کو یہ سختی سے حکم ہوتا ہے کہ وہ کتوں کے حلق میں قیمتی پتھر نہ ٹھونسے یا خزیروں اور ریچھوں کے گلوں میں گلوبند نہ پہنائیں۔ یعنی کمینوں، رزیلوں اور نکموں کو دکانداروں اور کم عقلوں کو نماز، روزہ، زکواة اور حج کے ارکان اور قرآن کے کچھ پاروں اور کچھ اپنی عقائد سے زیادہ تعلیم نہ دیں جن کے بغیر ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا… لیکن اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی نہ پڑھائیں کہ کہیں ان کمین نفوس کو غیرت نہ مل جائے۔“ گلیوں کے آوارہ کتوں، خنزیروں اور ریچھوں سے ان کی کیا مراد تھی یہ آپ بھی بخوبی سمجھتے ہیں مگر قیمتی پتھر اور گلوبند کس کو کہا گیا ہے؟ دنیاوی تعلیم کو جس کے ذریعے وہ اقتدار میں تھوڑا سا حصہ دار ہوسکتے تھے اور کمین رزیل اور نکمے کس کو کہا گیا ہے ان مسلمانوں کو جنہیں آج کی اصلاح میں عوام کہا جاتا ہے۔ قرآن عوام کے لئے اور دنیاوی تعلیم خواص کے لئے… برنی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کسی عہدے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب ہوا جس کا نام کمال مہیار تھا، جب بلبن نے اس سے مہیار کا مطب پوچھا تو اس نے عرض کی ”مہیار میرا باپ تھا اور وہ ہندو غلام تھا۔“ بادشاہ یہ سنتے ہی غضب کے عالم میں دربارسے اٹھ کر چلا گیا اور بعد میں اپنے امرا سے کہنے لگا میں کسی کم اصل کمینے، رزیل اور ذلیل کو کسی مرتبے یا عزت کی جگہ پر نہیں دیکھ سکتا اور جونہی اس قسم کے لوگ میرے سامنے آتے ہیں میرے جسم کی رگیں حرکت میں آجاتی ہیں میں کسی غلام، کمین نااہل کے لڑکے کو حکومت میں جو مجھ کو خدا کی طرف سے ملی ہے شریک نہیں کر سکتا۔ اگر اس کے بعد کسی خدمت اقطاع، خواجگی، یا مدبری پر تقرری کے سلسلے میں کسی کمینے، بداصل یا ذلیل زادہ کو ان کارکنوں نے میرے سامنے پیش کیا تو چاہے وہ ہزار ہنرمند ہو تو میں اس کے ساتھ وہ برتاؤ کروں گا جس سے دنیا کے لوگ عبرت حاصل کریں گے۔“
بادشاہوں نے ان کم اصل، رزیلوں، کمینوں اور ذلیلوں کے ساتھ جو سلوک کیا سو کیا مگر ہمارے مولانا اشرف علی تھانوی بھی کم از کم اس ضمن میں بادشاہوں سے کسی صورت پیچھے نہیں رہے۔ ان کی معرکہ آراء کتاب ”بہشتی زیور“ اوروں کی بیویوں کی طرح میری بیوی بھی جہیز میں لے کر آئی تھی۔ جسے پتہ نہیں اوروں نے پڑھا ہے یا نہیں میں نے اس کے بعض حصے بڑے مزے لے لے کر پڑھے ہیں۔ اس میں درج کئے گئے نسخوں کو خود تو نہیں آزما سکا مگر کئی ضرورت مندوں کو اس سے فیض یاب کروا چکا ہوں۔ جہاں تک اس غلام کا تعلق ہے اس کے لئے قرآن کے کچھ پارے ہی پڑھنے کی اجازت ہے کہ اس سے آگے ہم کمینوں، رزیلوں، ذلیلوں، کم اصلوں اور کم ذاتوں کے پر جلتے ہیں۔
اکھر لکھن تے پابندی بولن تے تعزیراں نیں!
تاں ای نبھ لیئے نہیں گھنگھرو پیراں وچ فقیراں نیں!

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top