لشکری زبان: دوسری قسط

زیف سید

محفلین
آیا نہیں ہے لفظ یہ ہندی زباں کے بیچ

پہلے ذکر آچکا ہے کہ اٹھارہویں صدی میں اردو زبان کو ہندی کہا جاتا تھا۔ دراصل اس زبان کے لیے ہندی یا ہندوی نام صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آیا تھا۔فارسی کے مشہور شاعر خواجہ مسعود سعد سلمان (1046ء تا 1121ء) جو لاہور کے باسی تھے ، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوی زبان میں ایک دیوان چھوڑا ہے۔ اگرچہ اس دیوان کا ایک شعر بھی وقت کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، ایسے شواہد ضرور پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دیوان کا واقعی وجود تھا۔ امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) نے اپنی معرکہ آرا کتاب’ غرۃالکمال ‘(1294ء)کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مسعود نے تین زبانوں میں دواوین چھوڑے ہیں، فارسی،عربی اور ہندوی (جمیل جالبی، 1984ء)۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ ممکن ہے اس’ ہندوی‘ سے مراد پنچابی ہو، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امیر خسرو اس دور کے ہندوستان میں بولے جانی والی زبانوں میں فرق روا رکھتے ہیں اور پنجابی کو ’لاہوری‘لکھتے ہیں۔

غرۃ الکمال ہی میں خسرو اپنی زبان کے بارے میں یوں سخن طراز ہیں:

من ترکِ ہندوستانیم، من ہندوی گویم چوں آب
(میں ہندوستانی ترک ہوں، میں ہندوی پانی کی طرح بولتا ہوں)

اپنی مثنوی ’نہ سپہر‘ میں خسرو نے دعویٰ کیا ہے کہ الفاظ کی شیرینی میں ہندوی فارسی اور ترکی دونوں سے بڑھ کر ہے۔ (سلیم اختر، 1995ء)

اس وقت سے لے کر انیسویں صدی تک اردو زبان کو ہندی ہی کہا جاتا تھا۔ مختلف ادوار سے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

بہ کالاپانی فرود آمدم کہ بہ زبانِ ہندی مراد آبِ سیاہ است
جہانگیر، تزکِ جہانگیری، دورِ حکمرانی 1650ء تا 1672ء (جمیل جالبی، 1984ء)

میں ہندی زبان سوں لطافت اس چھنداں سوں نظم ہور نثر ملا کر گلہ نہیں بولیا

ملا وجہی، سب رس، 1653ء (سلیم اختر، 1995ء)
اگرچہ سبھی کوڑا و کرکٹ است
بہ ہندی و رندی زبان اٹ پٹ است
جعفر زٹلی، متوفی 1713ء (شوکت سبزواری، 1978ء)

تمام شد نکات الشعرا ے ہندی
میرتقی میر، نکات الشعرا، 1759ء

کیا جانوں لوگ کہتے ہیں کس کوسکونِ قلب
آیا نہیں ہے لفظ یہ ہندی زبان کے بیچ
میرتقی میر

وہ اردو کیاہے ، یہ ہندی زباں ہے
کہ جس کا قائل اب سارا جہاں ہے
مراد شاہ، نامہٴ مراد، 1788ء (جمیل جالبی، 1984ء)

مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھ
اب ہے اشعارِ ہندوی کا رواج
شیخ ہمدانی مصحفی

اول یہ کہ اس جگہ ترجمہ لفظ بہ لفظ ضروری نہیں کیوں کہ ہندی تراکیب عربی سے بہت بعید ہے۔
شاہ عبدالقادر، ترجمہٴ قرآن، 1795ء

یہی نہیں بلکہ اردو کے لیے لفظ ہندی کا استعمال بیسیوں صد ی میں بھی موجود ہے۔ اور وہ علامہ اقبال کے ہاں، جو اپنی فارسی شاعری کے دفاع میں فرماتے ہیں:

گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیریں تر است
(اگرچہ’ ہندی‘ذائقے میں شکر ہے
فارسی کا طرزِ گفتار شیریں تر ہے)
علامہ اقبال، اسرارِ خودی، 1915ء(فاروقی، 1999ء)


مثالوں کی لمبی فہرست کے لیے معذرت، لیکن ان سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ زبان جسے ہم آج اردو کے نام سے جانتے ہیں، انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے ہندی کے نام سے جانی جاتی رہی ہے۔ اوپر دیے گئے مراد شاہ کے شعر میں پہلی بار لفظ اردو کوزبان کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ سال ہے 1788ء ( واضح رہے کہ بعض محققین نے اس سے پیشتر کی بھی چند مثالیں ڈھونڈی ہیں، جیسے محمد مائل، 1776ء اور مصحفی، 1776ء لیکن ان دونوں مثالوں کی توقیت کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، فاروقی، 1999)

لیکن لاہور کے باسی مراد شاہ کے مندرجہ بالا شعر کے وقت بھی اردو کا عام مطلب زبان نہیں تھا۔ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ انشا و قتیل نے 1807ء میں اس اردو کو دہلی شہر کے معنی میں استعمال کیا ہے۔حتیٰ کہ1846ء میں شائع ہونے والی جان شیکسپیئر کی مرتبہ لغت ’اے ڈکشنری آف ہندوستانی اینڈ انگلش‘ بھی لفظ اردو کے بطور زبان معنی سے واقف نہیں ہے ، جہاں اس لفظ کے تحت لکھا ہے:

اردو: فوج، کیمپ ، بازار
اردوئے معلی: شاہی کیمپ یا لشکر۔ عام طور پر اس سے دہلی شہر یا شاہجہان آباد مراد لی جاتی ہے۔

اس موقعے پر اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کب اور کیسے ہندی زبان کا نام اردو پڑا۔


کلام الملوک

جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اٹھارہویں صدی میں اردو یا اردوے معلی کا مطلب دہلی شہرتھا۔ خانِ آرزو کا بیان بھی ہم پڑھ چکے ہیں کہ اردو کی زبان فارسی ہے۔ لیکن خانِ آرزو کے بھانجے میر تقی میرکو اس سے اختلاف تھاچناں چہ وہ اپنے تذکرے نکات الشعرا میں لکھتے ہیں کہ ہندی دراصل زبانِ اردوے معلی ہے۔ (فاروقی، 1999ء)

یقینا فارسی مغلوں کے دور میں ہندوستان بھر کی سرکاری زبان تھی۔ لیکن اورنگ زیب کے انتقال (1707ء) کے بعد مغل قلمروکا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا تھا۔ اوراٹھارہویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے باجبروت مغل سلطنت عملاً اردوے معلی تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ مغل بادشاہ شاہِ عالم ثانی کے بارے میں ایک شعر اس صورت حال کی عکاسی کرتا ہے:

سلطنتِ شاہِ عالم
از دلی تا پالم

نظامِ حکومت کے تاروپود بکھرنے اور انتظامی ڈھانچے میں دراڑیں پڑنے سے مغلوں کو تو خیر بڑا نقصان ہوا لیکن اردو زبان کو یہ فائدہ ہوا شاہی زبان فارسی کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی اور عوام کی زبان ، یعنی اردونے اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کر دیں۔(فاروقی، 1999ء) چنا ں چہ رفتہ رفتہ فارسی کی بجائے اردو دارلحکومت اور دربار کی اہم ترین زبان کے روپ میں سامنے آنا شروع ہو گئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ کہ خود مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا (عرصہٴ حکومت 1719ء تا1747ء) اور عالمگیر ثانی (عرصہٴ حکومت1754ء تا 1759ء)اردو میں شاعری کرتے تھے۔ شاہ عالم ثانی (عرصہٴ حکومت1759ء تا 1806ء) ہفت زبان تھااور اس نے نہ صرف ہندی ، پنجابی ، فارسی اور برج بھاشا میں شاعری کی ہے بل کہ اس کی داستان ’عجائب القصص‘شمالی ہندوستان میں اردو نثر کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ چنانچہ چند عشروں کے اندر اندر ’زبانِ اردوے معلی‘ بجائے فارسی کے اردو قرار پائی(جمیل جالبی، 1987ء؛ فاروقی، 1999ء )

اب سوال یہ ہے کہ آخر دارالحکومت کی زبان پر اتنا اصرار کیوں؟ ہم نے دیکھا کہ خانِ آرزو کے بہ قول صرف دارالحکومت کی زبان ہی فصیح کہلائی جا سکتی ہے۔ ایک عربی کہاوت ہے، ’کلام الملوک، ملوک الکلام‘، مطلب یہ کہ بادشاہ کی زبان زبانوں کی بادشاہ ہوتی ہے۔ (کلام الملوک والی بات فقط مشرق تک محدود نہیں ہے بلکہ مغرب میں بھی یہی حال ہے۔ آج بھی انگریزی زبان کی سب سے مستند گرامر کی کتاب کا نام ’دی کنگز انگلش‘ہے۔) اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہی دربار محض انتظامی مرکز ہی نہیں بلکہ علوم و فنون کا گڑھ بھی ہوا کرتا تھا۔ شاہی سرپرستی کی آرزو میں نہ صرف ملک بھر بلکہ دوسرے ملکوں سے علما و فضلا کھنچے چلے آتے تھے۔ مغلوں کا سنہرا دور تو الگ رہا، ہم دیکھتے ہیں کہ محمد شاہ رنگیلا کے سے گئے گزرے زمانے میں بھی مشہور فارسی شاعر شیخ حزیں دہلی آ بسے تھے۔غالب نے ’مہرِ نیم روز‘ میں رونا رویا ہے کہ شاہجہان کے درباری شاعر طالب آملی کو سونے میں تولا گیا تھا (حالی، 1894ء)۔ داراشکوہ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ایک شعرپرخوش ہو کرشاعر کو ایک لاکھ روپے انعام دیا تھا (جمیل جالبی، 1987ء)۔ ظاہر ہے وہ شہر جہاں ایسے صاحبانِ علم و فن بستے ہوں، وہاں کی زبان کا مستندمانا جانا عین قرینِ قیاس ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ رفتہ رفتہ اردو فارسی کو ہٹا کر دہلی کی فصیح اور مستند زبان کے تخت پر براجمان ہو گئی اور لوگ اسے ’زبان ِ اردوے معلی‘ کہنے لگے۔ ظاہر ہے کہ ترکیب لمبی تھی، اس لیے سکڑ کر ’اردوے معلی‘ اور آخر کار صرف ’اردو‘ بن گئی۔

اس طولِ کلام سے واضح ہوا کہ اردو زبان کے نام کا لشکر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ زبان کا مغل فوج کی چھاؤنیوں میں جنم لینے والا قصہ تو گپ شپ کے قبیل میں آتاہے۔ اردو کے زبردست نقاداور محقق جناب شمس الرحمن فاروقی نے مجھے بتایا ہے فارسی زبان میں لفظ اردو کے بطورِ لشکر استعمال کی انیسویں صدی سے قبل ایک بھی مثال نہیں ملتی۔

اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ بحث کا خلاصہ پیش کر دیا جائے:

اردو زبان کا لشکر سے کوئی تعلق نہیں ہے
اس کا نام شاہجہان آباد (یعنی دہلی) سے نسبت کی وجہ سے پڑگیا۔

زبان کو اردو اٹھارہویں صدی کے آخری چوتھائی حصے میں کہا جانے لگا۔

اس سے قبل اور اس دوران بھی اردو کا سب سے زیادہ مستعمل نام ہندی تھا۔

اگلی قسط میں ہم جائزہ لیں گے کہ اگر اردو کو ہندی کہتے تھے تو پھر یہ آکاش وانی پر بولی جانے والی زبان کیا شے ہے؟

×××××××××××

باقی آئندہ، انشااللہ​
 
زیف ،، ہماری زبان اٹھارویں‌صدی تک ہندی یا ہندوی ہی کہلاتی رہی ،، یقینا یہ زبان مغلوں اور ان سے پہلے کے ادوار میں‌بھی بولی جاتی رہی ہوگی ۔۔ آپ نے بکمال ہنر معلومات اکٹھی کی ہیں‌ جو تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے کام ضرور آئیں‌گی ،، مگر ایک بات آپ نے فورٹ‌ولیم کالج کا کوئی زکر خیر کیوں‌نہیں‌کیا ۔۔ 10جولائی 1800 کو قائم ہونے والے اس ادارے نے اردو سمیت برصغیر کی متعدد زبانوں میں کتابیں‌چھاپیں‌اور دیسی زبانوں‌کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔۔۔ویسے میرا سوال تشنہ طلب ہے کہ جب ہندی یا ہندوی کے نام سے زبان موجود ہی تھی اور عام بولی اور سمجھی بھی جا رہی تھی تو اسے اردو کا نام دینے کی ضروت ہی کیوں‌محسوس ہوئی ۔۔۔ ویسے اصل سوال تو یہ ہے کہ جو زبان ہم بولتے ہیں‌اس کی ابتدا کیسے اور کہاں‌سے ہوئی ،، یقینا یہ سیکڑوں‌ سال کی نہیں ‌ہزاروں‌سال پہلے کی بات ہے ،، آپ کی تحقیق اس بارے میں‌کیا کہتی ہے ۔۔ امید ہے کہ مایوس نہیں‌کریں گے ۔۔۔
 

زیف سید

محفلین
شاہد احمد خان نے کہا:
زیف ،، ہماری زبان اٹھارویں‌صدی تک ہندی یا ہندوی ہی کہلاتی رہی ،، یقینا یہ زبان مغلوں اور ان سے پہلے کے ادوار میں‌بھی بولی جاتی رہی ہوگی ۔۔ آپ نے بکمال ہنر معلومات اکٹھی کی ہیں‌ جو تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے کام ضرور آئیں‌گی ،، مگر ایک بات آپ نے فورٹ‌ولیم کالج کا کوئی زکر خیر کیوں‌نہیں‌کیا ۔۔ 10جولائی 1800 کو قائم ہونے والے اس ادارے نے اردو سمیت برصغیر کی متعدد زبانوں میں کتابیں‌چھاپیں‌اور دیسی زبانوں‌کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔۔۔ویسے میرا سوال تشنہ طلب ہے کہ جب ہندی یا ہندوی کے نام سے زبان موجود ہی تھی اور عام بولی اور سمجھی بھی جا رہی تھی تو اسے اردو کا نام دینے کی ضروت ہی کیوں‌محسوس ہوئی ۔۔۔ ویسے اصل سوال تو یہ ہے کہ جو زبان ہم بولتے ہیں‌اس کی ابتدا کیسے اور کہاں‌سے ہوئی ،، یقینا یہ سیکڑوں‌ سال کی نہیں ‌ہزاروں‌سال پہلے کی بات ہے ،، آپ کی تحقیق اس بارے میں‌کیا کہتی ہے ۔۔ امید ہے کہ مایوس نہیں‌کریں گے ۔۔۔

مینڈا سائیں:

اس سوال کے جواب کا تفصیلی جائزہ قسط نمبر تین میں‌موجود ہے بلکہ تیسری قسط کی ابتداہی فورٹ ولیم کالج سے ہوتی ہے۔ (میں‌نے تیسری اور چوتھی قسطوں‌کو اکٹھا ہی پیش کر دیا ہے)۔

زبان کی ابتدا کے بارے میں‌ بھی آب کی بات بجا ہے کہ اس کا آغاز ہزاروں سال قبل ہوا ہے۔ اس کا جائزہ بھی اسی قسط میں موجود ہے۔ اگر کوئی سوال پھر بھی تشنہ رہے تو بندہ حاضر ہے۔

زیف
 
Top