لاہور کا محسن گنگا رام

نبیل

تکنیکی معاون
آج روزنامہ جنگ میں ایک دلچسپ تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں سر گنگا رام کے خاص طور پر لاہور کے لیے کیے گئے کاموں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

لاہور میں لگنے والے انڈر پاسز کے جمعہ بازار کے باوجود اگر کوئی شخص مجھ سے یہ سوال کرے کہ جدید لاہور کا محسن کون شخص ہے تو میں ایک لمحہ توقف کئے بغیر جواب دونگا کہ سر گنگا رام اور حقیقت تو یہ ہے کہ میرا محض اعتراف کر لینا سر گنگا رام کے مجموعی فلاحی کارناموں اور تعمیرات کے عشر عشیر کا ا بھی احاطہ نہیں کر سکتا۔ 1851ء میں پیدا ہونے والے گنگا رام نے بائیس سال کی عمر میں انجینئرنگ کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی اور اسی سال یعنی 1873ء میں لاہور کے اسسٹنٹ انجینئر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ لوئر مال والے سرے سے شروع ہوں تو میو سکول آف آرٹ (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) لاہور میوزیم، کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ کالج لاہور، جی پی او، لاہور کیتھڈرل، ہائی کورٹ اور پھر اپر مال پر ایجی سن کالج کی ڈیزائننگ، پلاننگ اور تعمیر سر گنگا رام کے ہاتھوں انجام پائی۔ تب سر گنگا رام ایکسئن آف دی سٹی تھے۔ اس دور کو بلاجھجک سرگنگا رام کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ سر گنگا رام نے پٹھانکوٹ اور امرتسر کے درمیان ریلوے ٹریک بچھایا، میو ہسپتال لاہور کا سر البرٹ وکٹر ونگ بنایا۔ لاہور میں پہلا جدید سینی ٹیشن سسٹم اور واٹر ورکس کا نظام قائم کیا جو تقریباً سو سال تک لاہوریوں کی ضروریات پوری کرتا رہا لیکن سر گنگام رام کا لاہور پر سب سے بڑا احسان ماڈل ٹاؤن کا قیام تھا۔ ستائیس فروری 1921ء کو چند لوگوں نے سرگنگا رام کی صدارت میں لاہور شہر سے باہر ایک ہزار ایکڑ پر مثالی ہاؤسنگ سکیم کا منصوبہ بنایا جو قیام پاکستان کے بعد غیر ضروری سرکاری مداخلت، ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے بائی لاز میں مرضی مطابق ترامیم اور مکانوں کی بے ہنگم تقسیم در تقسیم کے باوجود آج بھی لاہور کی رہائشی اعتبار سے سب سے اچھی آبادی سمجھی جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں آج کل کے بزعم خود گنگا رام کیا کر رہے ہیں؟

ملتان میں بننے والے جنوبی پنجاب کے پہلے جدید کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کا نام ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے بدل کر چوہدری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی رکھنے کے پیچھے بھی غالباً یہی جذبہ کارفرما ہوگا مگر اس میں بنیادی فرق یہ ہے سرگنگا رام نے گنگا رام ہسپتال اور دوسرے خیراتی و فلاحی ادارے اپنی جیب سے رقم خرچ کرکے بنوائے تھے، محض فیتہ کاٹ کر، افتتاح کرکے یا فنڈ منظور کروا کر اپنے نام کی تختیاں نہیں لگوائی تھیں۔ اس بات کا رواج صرف ہمارے ہاں ہی ہے کہ حکمران اپنے دورِ اقتدار میں عوام کے ٹیکس کی رقم خرچ کرکے بنائی جانیوالی عمارتوں اور اداروں کے نام اپنے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں مجسمے نصب کرنے کا رواج نہیں وگرنہ ہمیں ایسے ایسے لوگوں کے مجسمے روزانہ دیکھنے پڑتے جن کی ایک بار دیکھنا بھی خاصی ہمت اور دِل گردے کا کام ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی دیکھا دیکھی ملتان کی ضلعی اسمبلی نے بھی ایک قرارداد منظور کی ہے کہ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی مالیت سے بننے والے نئے ہال کا نام ضلع ناظم کے نام پر ”ُفیصل مختار ہال“ رکھ دیا جائے، حالانکہ تیرہ ارب روپے کی مالیت کی پاک عرب فرٹیلائزر خریدنے والے ضلع ناظم نے اس ہال کی تعمیر میں پچیس پیسوں کا حصہ بھی نہیں ڈالا، مگر پاکستان میں عوام کے پیسے پر بننے والے اداروں اور عمارتوں پر حکمرانوں کو تختیاں لگوانے کا شوق ہی بہت زیادہ ہے۔ کسی زمانے میں گنگا رام اپنی ساری دولت لگا کر نام کماتا ہے، آج کے دور کے گنگا رام عوام کے پیسے پر اپنے نام کی تختیاں لگوا رہے ہیں۔ ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام بدلنے کی وجہ سے پرانی سٹیشنری بیکار ہو گئی ہے اور نئی سٹیشنری کی پرنٹنگ وغیرہ پر مزید اڑھائی لاکھ روپے کا اضافی خرچہ ہوگا اور یہ خرچہ بھی ہم جیسے ٹیکس دینے والوں کی جیب سے نکلے گا۔

آخر میں ایک فکر انگیز بات بھی:

اس عاجز کی درخواست ہے کہ اگر پنجاب کے حکمرانوں کو سر گنگا رام سے تھوڑی سی بھی محبت ہے تو وہ اس کی تقلید میں یا تو اپنی جیب سے فلاحی ادارے بنائیں یا کم از کم یہ ہی کردیں کہ جب تک پرانی سٹیشنری ختم نہیں ہوتی اس سے کام چلاتے رہیں اور نئی سٹیشنری کیلئے مختص رقم سے سرگنگا رام کی سمادھی جو راوی روڈ پر خستہ حالت میں کوڑے کے ڈھیروں میں گھری ہوئی ہے کی تزئین ومرمت کروا دیں۔ لاہور کا محسن کم از کم اس سلوک کا مستحق تو ہرگز نہیں جو اس کے سمادھی کے ساتھ لاہوریوں نے کر رکھا ہے۔ سر گنگا رام کا کام ذات پات اور مذہب سے بالاتر تھا اور ہمیں بھی لاہور کے محسن کے کارناموں کا مذہب سے بالاتر ہو کر اعتراف کرنا چاہئے، خصوصاً ایسی صورت میں جب غیر مسلم سر گنگا رام کی پڑپوتی شریلا فلیدر اب بھی گنگا رام ہسپتال کیلئے ”ڈونیشن“ بھجواتی
 

محمد وارث

لائبریرین
خالد مسعود کا بہت فکر انگیز کالم ہے یہ، شکریہ نبیل شیئر کرنے کیلیے۔

سر گنگا رام کے متعلق منٹو کا ایک مختصر افسانہ 'جوتا' اسکی کتاب سیاہ حاشیے'میں سے یاد آ گیا۔


جوتا

ہجوم نے رخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کئے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کیلیے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔

جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہوگیا، چنانچہ مرہم پٹی کیلیے اسے سر گنگا رام ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔
 
سر گنگا رام کا ہسپتال آج بھی خدمت خلق کے لیے مشہور ہے اور اس کار خیر کی وجہ سے ان کی عزت لوگوں میں موجود ہے۔

لاہور کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے کچھ اور لوگ بھی میسر آئے جس میں ایک اور مشہور نام گلاب دیوی کا ہے جس کے نام سے مشہور ہسپتال گلاب دیوی لاہور میں موجود ہے جہاں بہت بڑی تعداد شاید گنگا رام ہستپال سے کہیں زیادہ لوگ صحت کی سہولتوں کے لیے یہاں آتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ہسپتال لیڈی ولنگٹن بھی ہے جہاں راقم کی ولادت باسعادت ہوئی ;)
 

عمر میرزا

محفلین
گنگا رام کی خدمات واقعی ناقابل فراموش ہیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے تعمیری کام ذاتی خرچ سے کئے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شحص بھی اپنے مقصد کے اتنا محلص ہو تو وہ کتنی بڑی تبدیلی لے کر آسکتا ہے۔
 

خرم

محفلین
نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے حاتم طائی کی دختر کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دی تھی کہ سخی کی بیٹی ہے۔ اس سے زیادہ کیا مثال ہو خدا ترس لوگوں کے اکرام کی؟ یہ حلوائی کی دوکان پر ناناجی کی فاتحہ پڑھنے والوں‌کو ان لوگوں سے کیا نسبت؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
افسوس کہ ہم مسلمان ایک بھی گنگا رام پیدا نہ کر سکے -
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
بہت شکریہ نبیل!
 
Top