لاہور میں‌بم دھماکے!

arifkarim

معطل
صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں’خود کش‘ حملوں کے بعد سوموار کو لاہور میں بھی دو دھماکے ہوئے ہیں۔

لاہور سے بی بی سی کی نامہ نگار مناء رانا کے مطابق شہر کے علاقے علامہ اقبال ٹاؤن کے ایک مصروف بازار مون مارکیٹ میں پاکستان کے معیاری کے وقت کے مطابق رات کے تقریباً پونے نو بجے دو دھماکے ہوئے جن کی آواز دور دور تک سنی گئی۔

کمشنر لاہور خسرو بختیار نے شیخ زید ہسپتال میں مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان دھماکوں میں اب تک دس افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ساٹھ سے زائد زخمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکوں کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے اور تفتیشی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہیں۔

خسرو پرویز نے بتایا کہ دھماکوں کے بعد لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور فائربریگیڈ کا عملہ اس کوشش میں مصروف ہے کہ آگ جائے وقوعہ کے قریب واقع ڈیزل کے ٹینک تک نہ پہنچ پائے۔

عینی شاہدین کے مطابق پہلا دھماکہ مون مارکیٹ کے اندر عباس پلازہ کی پہلی منزل کی دکانوں میں ہوا جبکہ دوسرا دھماکہ مارکیٹ کے باہر موجود بینک کے قریب ہوا۔

پہلے دھماکے کے نتیجے میں متعدد دکانوں کو آگ لگ گئی جسے بجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ دھماکے کے وقت بازار میں خاصا رش تھا اور زخمیوں میں متعدد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔جائے وقوعہ پر امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور زخمیوں کو جائے وقوعہ کے قریب واقع شیخ زید ہسپتال اور جناح ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

ایک دھماکے کے عینی شاہد معید ملک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’میں سڑک کے کنارے اپنی موٹر سائیکل روک کر فون سن رہا تھا کہ اچانک بھگدڑ سی مچ گئی اور خواتین نے یہ کہہ کہ بھاگنا شروع کر دیا کہ بلاسٹ ہوا ہے۔ میں بھی اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے نکلنے لگا تو اسی وقت بینک کے پاس دھماکہ ہوا جس سے آگ لگ گئی۔‘

دھماکے تقریباً چالیس سیکنڈ کے فرق سے ہوئے۔ دھماکوں کے بعد امدادی ٹیمیں وہاں پہنچ گئیں اور زخمیوں کو قریب ہی واقع شیخ زید ہسپتال پہنچانے کا کام شروع ہو گیا۔


پشاور میں دھماکہ

اس سے پہلے دن کے آغاز پر پشاور میں ہونے والے دھماکوں کے بارے میں حکام نے بتایا کہ سیشن کورٹ کے گیٹ پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں کم سے کم نو افراد ہلاک اور پینتالیس کے قریب زخمی ہوگئے ہیں۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں قائم پولیس چوکی کے انچارج محمد گل نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ مبینہ خودکش حملے میں نو افراد ہلاک اور پینتالیس زخمی ہو گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار اور ایک وکیل شامل ہیں۔ اس سے پہلے ابتدائی اطلاعات کے مطابق خودکش حملے میں پانچ افراد کی ہلاکت کی اطلاع تطی۔

پشاور پولیس کے ایک افسر رجب علی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ پیر کو سیشن کورٹ کے گیٹ پر اس وقت پیش آیا جب ایک مبینہ خودکش حملہ آور ایک آٹو رکشہ سے اتر کر عدالت کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گیٹ پر تعینات اہلکاروں نے حملہ آور کو روکنے کا اشارہ کیا جس کے ساتھ ہی اس نے خود کو ایک دھماکے سے اڑا دیا۔

پشاور پولیس کے ایک افسر رجب علی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ پیر کو سیشن کورٹ کے گیٹ پر اس وقت پیش آیا جب ایک مبینہ خودکش حملہ آور ایک آٹو رکشہ سے اتر کر عدالت کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گیٹ پر تعینات اہلکاروں نے حملہ آور کو روکنے کا اشارہ کیا جس کے ساتھ ہی اس نے خود کو ایک دھماکے سے اڑا دیا۔پشاور پولیس کے سربراہ لیاقت علی خان نے خودکش حملے کے بعد بتایا تھا کہ مبینہ خودکش حملے میں پانچ افراد ہلاک اور بیس کے قریب زخمی ہوئے۔

پشاور کے ضلعی رابط افسر صاحبزادہ محمد انیس کا کہنا ہے کہ اب تک جو شواہد اکھٹے کئے گئے ہیں ان کے مطابق تو یہ بظاہر ایک خودکش حملہ تھا تاہم اس سلسلے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پولیس اہلکار کے مطابق جائے وقوعہ سے خودکش حملہ آور کا سر اور جسم کے دیگر اعضاء بھی ملے ہیں۔

صوبہ سرحد کے سنئیر صوبائی وزیر بشیر بلور کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جرات کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد جائے وقوع کے قریب کھڑی گاڑیوں میں آگ لگ گئی جس سے تین گاڑیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ میں عدالت کی مرکزی گیٹ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

خیال رہے کہ سیشن کورٹ کی عمارت جیل روڈ پر واقع ہے جہاں قریب ایم پی اے ہاسٹل، عجائب گھر اور گورنر ہاؤس کے عمارات بھی قائم ہیں۔

پشاور میں تقریباً تین ہفتوں کے دوران کسی عدالت کے کے باہر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سےقبل انیس نومبر کو ڈسٹرکٹ کے گیٹ پر بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں انیس افراد ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ ابھی تک کسی تنظیم اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

بی بی سی اردو!

ناظرین کے "روائیتی" تعزیتی جملوں اور ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشیوں کا انتظار رہے گا!
 

arifkarim

معطل
جس ملک میں مساجد، اسکول، بازار ، عدالت جیسے پبلک مقامات پر موت کا پہرہ ہو۔ وہاں کے رہنے والے دنیا کے بہادر ترین لوگ ہیں!
 

اظہرالحق

محفلین
میں اب بھی کہتا ہوں ناممکن نہیں ہے ، اب بھی اگر ہم اکھٹے نہ ہوئے ، عجیب بات ہے پہلے صرف حکام مزمت تک محدود رہتے تھے اب عوام بھی صرف مزمت کرتی ہے ، کاش ہم اکھٹے ہو سکیں ، ایک بار صرف ایک ہزار جوان ملکر شہر میں روز نکلیں اور یہ ثابت کریں کہ ہم ایک ہیں‌، اگر ہم‌ سیاست کے لئے ہزاروں اکھٹے ہو سکتے ہیں‌تو اپنی اور دیس کی حفاظت کے لیے کیوں‌نہیں‌ نکل سکتے ؟

صرف دیس کے لئے ، ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے ، کاش ہم ایسے ہوتے کہ ہم کہتے کہ چلو آج ہم سب وزیرستان چلتے ہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ خیر اپنے شہر تک تو نکل سکتے ہیں‌ہم ۔ ۔ ۔
 
Top