لال مسجد کا حالیہ انتخابات پر اثر

حالیہ انتخابات میں مشرف اور اس کی قاتل لیگ کو لال مسجد کے واقعہ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اس ظلم کا بدلا لوگوں نے کسی حد تک الیکشن میں ووٹ‌ قاتل لیگ اور ایم ایم اے کے خلاف ڈال کر لیا۔ جاوید ہاشمی نے شیخ رشید کے خلاف مہم میں بنیادی نعرہ بھی یہی لگایا کہ لال حویلی یا لال مسجد۔ سرحد میں مذہبی جماعتوں کی لال مسجد والے واقعہ پر مجرمانہ خاموشی نے ان کی بساط لپیٹ دی۔ پنجاب میں ق لیگ کے ایک دو ارکان نے ٹکٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اس پر لال مسجد کا خون لگا ہے ( وجہ چاہے کچھ اور ہو مگر عوامی جذبات کو وجہ بنا کر یہ بہانہ بنایا گیا (‌ ۔ اس واقعہ کے اثرات کو شجاعت حسین ، مشاہد حسین اور شیخ رشید نے ٹی وی پر تسلیم کیا اور کسی نی کسی طریقے سے اپنی براءت کا اظہا ربھی کیا۔

نو جوان کشمیری صحافی اور راشٹریہ سہارا کے جموں و کشمیر میں نامہ نگار صریر خالد نے لال مسجد آپریشن کے ”اختتام“پر (لال مسجد....جیتاجنرل پِٹا پاکستان!) کے عنوان سے ایک تجزیاتی مضمون لکھا تھا جس میں اُن حالات کی قبل از وقت پیش گوئی کی گئی تھی کہ جو اس آپریشن کے بعد پیش آرہے ہیں۔ یہ تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس بدترین سانحہ کے اثرات بھی بتاتا ہے۔


صریر خالد
لال مسجد کی بنیاد دہائیوں پہلے پڑی تھی لیکن اس کے نام کا مفہوم جیسے اب واضح ہو رہا ہے۔جیسے اس کی بنیاد رکھنے والے کو غیب سے یہ عندیہ ملا تھا کہ ایک روز اس مسجد کے درو دیوار اور اسکا فرش خونِ مسلم سے لال ہوگااور اس مسجد کی بے حرمتی ایک ایسے سلسلے کی بنیاد بنے گی کہ جو نہ جانے کیا کیا ”گُل“کھلائے گی۔

حکومتِ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی مانیںتو لال مسجد آپریشن ختم ہو چکا ہے ،مُش، بُش کو خونِ مسلم کا نذ رانہ چڑھا کر اپنی آمریت کو مزیدکچھ وقت کے لئے دوام بخشنے میں کامیاب دکائی دے رہا ہے لیکن زمینی صورتحال کو دیکھیں تو پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ آپریشن اب شروع ہوا ہے۔

کب تک چلے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا طے ہے کہ نتیجہ پاکستان کی تباہی و رسوائی کے سواکچھ نہیں ہو گا۔کیا ہوا کہ مشرف سرکار اس آپریشن کی ”کامیابی “پر بغلیں بجا رہی ہے،مگر اندر ہی اندر مشرف کو بھی معلوم ہے کہ اس ”کامیابی“نام کے جو بیج اُس نے بوئے ہیںاُن سے خوشبو دار پھولوں کی کونپلیں نہیں پھوٹیں گی ،بلکہ ایک ایسی زہریلی گیس خارج کرنے والی جھاڑیاں اُگیں گی کہ جو پوری قوم کو موت کی نیند نا بھی سلائے ،دماغی طور بانجھ ضرور بناسکتی ہے۔

مسجد کو میدانِ جنگ بنانے کے بنانے سے کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ،اس بات کا پوری طرح ثابت ہوجانا ابھی باقی ہے البتہ اس معاملے کو لیکر اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کو قبولنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ وقتی طور اگر کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ مشرف کا ہوا ہے۔

اوراب جس طرح کی باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے ان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ تاریخ ِ پاکستان میں بدترین الفاظ میں درج ہوئے لال مسجد کے واقع کی بساط خود حکمرانوں نے ہی بچھائی تھی۔

لال مسجد کی تاریخی دیواروں پر جتنی گولیاںلگی ہیں اتنے ہی سوالات ابھر کے سامنے آگئے ہیں جن کا مگر پاکستانی حکمرانون کے پاس کوئی ٹھوس اور عقل کے قابلِ قبول جواب نہیں ہے۔اگر خوحکومت کی ہی مان لیتے ہیں کہ لال مسجد میں محسور افراد کے پاس بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود موجود تھا تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہ ہتھیار کہاں سے آیا؟

جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے لال مسجد کے جغرافیہ کے مطابق بتایا ہے،کہ یہ مسجد پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)کے ہیڈ کوارٹر کے بغل میں واقع ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ کسی ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کا جہاں صدر مقام ہوگا وہ جگہ انتہائی حساس ہوگی اور اس علاقے پر سرکاری اداروں بلکہ بذاتِ خود متعلقہ خفیہ ادارے کی زبردست نظر ہوگی۔

پھر آئی ایس آئی کا جہاں تک تعلق ہے تو”قابلیت“میں اس کا دوسرے مما لک کی ایجنسیوں کے مقابلے میں زیادہ نام لیا جاتا رہا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب لال مسجد میں جنگی نوعیت کا اسلحہ جمع کیا جا رہا تھا تو آئی ایس آئی والے کہاں تھے؟آخر اس بات کو غفلت کیسے مانا جا سکتا ہے کہ ایک ایٹمی صلاحیت والے ملک کی خفیہ ایجنسی کے صدر مقام کے قریب ملی ٹینٹوں کا بیس کیمپ بن رہا ہو اور اسے(ایجنسی کو)خبر بھی نہ ہو جائے!۔

افسوس ہے کہ آپریشن سائلنس،جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی،سے اٹھنے والی گرد نے اُ ن بے شمار سوالوں کو مغلوب کر دیا ہے کہ جو اس آپریشن کی ”کامیابی“پر جشن منانے اور اس کا کریڈٹ لینے والوں کو شک کے دائرے میں لاتے ہیں۔

اگر لال مسجد واقعہ کی شروعات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جنرل کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ایک ایسے ملک میں، کہ جو اسلام کے نام پر بنا ہو ،مساجد کا انہدام عمل میں آئے تو اس پر رد عمل ہونا لازمی امر ہے۔حکومت کی یہ دلیل مان بھی لی جائے کہ مذکورہ مساجد ”غیر قانونی“طور بنائی گئی ہیں لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ یہ مساجد برس ہا برس سے یہاں قائم تھیں۔

آخر حکومت کو انکی اچانک مسماری کی کیا ضرورت تھی؟وہ بھی تب کہ جب مشرف نے پنٹاگون کے علاوہ امریکہ کے سبھی این جی اوز کو ملک پر راج کرنے اور یہاں اسلامی اقدار کو ختم کرکے ماڈرنائزیشن کے نام پر طوفانِ بد تمیزی مچانے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔زانیوں اور بدکاروں سے متعلق قانون کو بدل کر انکی حوصلہ افزائی کی جارہی ہو اور سکولوں کا نصاب بدلا جا رہا ہو۔پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی شناخت کچھ بھی ہواور انہیںکتنا ہی ”جنونی“نہ کہا جائے لیکن یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے فوجی حکمران کے ساتھ نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے کے باوجود بھی کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا اور تشدد پر نہیں اتر آئے بلکہ وہ پُر امن طور اور جمہوری طریقوں سے مزاحمت کرتے رہے۔یہاں تک کہ پرویز مشرف نے کشمیرپر پاکستان کی دعویداری چھوڈ دی توبھی وہاں کی کسی مذہبی جماعت نے اخباری بیانات سے بڑھکر کچھ بھی نہ کیا جس پر انہیں بزدل اور نہ جانے کیا کیا ہونے کے طعنے بھی دئے گئے۔

ا لبتہ مغرب پرستی کا معاملہ حد سے آگے نکل جائے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والا ملک عملاََ بد کاری کے ایک بڑے اڈے میں تبدیل ہو جائے تو پھر لال مسجد کے مولویوں کی طرح کئی لوگوں کے پیمانہ¿ صبرکا لبریز ہو جانا غیر فطری نہیں ہے۔حالانکہ لال مسجد میں جو کچھ بھی ہوا اس کے حوالے سے مولویوں کو کلین چٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا اسے ان کی نادانی اور بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔آخر مٹھی بھر لوگ یوں چند لوگوں کو اغوا کر لین اور پھر یہ سمجھ لیں کہ وہ پورے ملک کا نظام بدل سکیں گے تو اسے نادانی یا بیوقوفی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

بہر حال نادان مولویون کی بات ایک طرف البتہ حکومت نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتی ہے لہٰذا اسکے کسی غلط قدم کو نادانی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

مولوی حضرات نے مسجد میں جس طرح کا ماحول پیدا کیا اس کی اصل ذمہ داری انہی پر ڈالی جا سکتی ہے لیکن حکومت شک کے دائرے سے باہر نہیں ہے،بلکہ بعض مبصرین کا یہ ماننا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اصل میں پرویز کے پروردہ ہی لال مسجد کی بال میں ہوا بھر تے رہے۔

حکومت کے پاس ایسا کرنے یا کروانے کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔چناچہ لال مسجد کا تنازعہ ایک ایسے موقعہ پر شروع ہوا اور شہرت حاصل کر گیا کہ جب پاکستان میں جسٹس افتخار چودھری کی بر طرفی کے نام پر مشرف کے خلاف ایک موثر ،مستحکم اور مظبوط تحریک چل رہی ہے۔یہ پہلی تحریک ہے کہ جس نے نہ صرف خود پرویز مشرف کو بوکھلا کے رکھ دیا ہے بلکہ اس نے امریکہ کو بھی مشرف کے متبادل کی تلاش شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔چناچہ گزشتہ کئی ماہ کے دوران امریکہ نے سابق وزیر اعطم پاکستان بے نظیر بٹھو کو مشرف کے مقابلے میں کہیں زیادہ Liftدی اور مشرف کے تئیں بے رخی کا یا یوں کہیں کہ ایسے رویہ کا اظہار کیا کہ جیسے امریکہ بہادر کا مشرف سے دل بھر گیا ہو۔

بات الگ ہے کہ جسٹس چودھری کی بحالی کے نام پر مشرف مخالف یہ مہم تھم نہ سکی ہے البتہ ایک عرصہ تک اس مہم سے متعلق خبریں لال مسجد کی خبروںکے تلے دبی رہیں۔پھر مشرف کو ، وقتی طور ہی سہی، یہ فائدہ ضرور ملا کہ اُس نے امریکہ کو یہ سمجھنے پر آمادہ کرلیا کہ پاکستان میں اسے(امریکہ کو)اس (مشرف)سے زیادہ کوئی اور سفاک سپاہی نہیں مل سکتا ہے کہ جسے معصوم لڑکیوں ،بے قصور نمازیوں،طالبان علمِ دین اور عام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے پسینہ نہیں آئے گا۔

دوسری بات جو لال مسجد کے واقعہ کے ذریعہ مشرف امریکہ کو باور کرانا چاہتا تھا اور باور کرا گیا وہ یہ کہ” پاکستان میں ابھی دہشت گردی کا صفایا نہیں ہوا ہے اور اس سمت میںابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جو صرف آپ لوگ مجھ سے کرا سکتے ہیں“۔

اس سلسلے میں پرویز مشرف کا وہ خطاب اہم ہے کہ جو انہوںنے لال مسجد پر قبضہ کرنے کے بعد پی ٹی وی کے ذریعے کیا۔انہوںنے خود کہا کہ پاکستان میں ابھی دہشت گردی باقی ہے۔چناچہ مشرف کو اس وفاداری کا صلہ مل گیا۔امریکی صدر جارج بش کے سلامتی کے مشیر سٹیفن ہیڈلے نے گزشتہ اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔مشرف کو اس سے زیادہ کیا چاہئے کہ پاکستان کے اصل حکمران امریکہ کا اس پر ہاتھ رہے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو ،سینکڑوں انسانی جانوں کی قیمت پر ہی سہی،مشرف کو لال مسجدکے واقعہ سے بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ملی ہے۔البتہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اسکے نصیب میں ایک ایسی ہار آئی ہے کہ جو اسے نہ جانے کب تک ہار کا احساس کراتی رہے گی۔

ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ لال مسجد کو ہتھیاروں کا گودام بنانے والون کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔بلکہ استدلال یہ ہے کہ ایسے حالات ہی پیدا نہیں ہونے دئے جانے چاہئے تھے۔حکومت اگر چاہتی تو اس ہنگامہ آرائی، جس کا خمیازہ مدتوں پاکستان کو ہی اٹھانا پڑے گا،سے بخوبی بچا جا سکتا تھا۔لیکن جب حکمران خود ہنگامہ آرائی کرانا چاہتے ہوں تو کیا کیجئے گا۔بظاہر فوجی حکمرانوں نے غازی برادران کو” منانے“کی بہت کوششیں کی جو ناکام ہو گئیں مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا تشدد ہی وحد راستہ بچا تھا؟۔

جیسا کہ آپریشن سائلنس میں زندہ بچ نکلنے والی کئی طالبات نے کہا کہ دو ایک دن بعد ہی انکا راشن ختم ہوا تھا اور انہوں نے درختوں کے پتوں پر گزارہ کیا۔پانی اور بجلی کی سپلائی کاٹے جانے سے ان کی زندگی مشکل ہو چکی تھی۔ظاہر ہے کہ اگر حکمران چاہتے تو وہ تحمل سے کام لے کر کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر ہی معاملے کو اپنے حق میں کر لیتے۔

آخر بجلی ،پانی،راشن اور اسلحہ کے بغیر کوئی ،چاہے وہ کتنا ہی سخت جان کیوں نہ ہو،کب تک مزاحمت کر سکتا ہے یا جی سکتا ہے۔ مگر وردی والوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوںنے اس عبرتناک انداز میں مسجد پر یلغار کی کہ جیسے کسی دشمن کے آخری قلعے کو فتح کر نا ہو۔دلچسپ بات ہے کہ مشرف اینڈ کمپنی نے آخری معرکہ تب ”لڑا“کہ جب انکے مخالفین لندن میںایک جھٹ ہو کر ان (مشرف)سے نجات پانے کی راہیں تلاش کرنے کے لئے سر جوڑکر بیٹھے تھے۔

حالانکہ لال مسجد کے واقعہ کو لیکر پہلے پہل کسی حد تک مشرف کو عوامی حمایت بھی حاصل رہی اور اسکی اپنی وجوہات ہیں لیکن جوں جوں عام لوگ اس واقعہ کے نفع نقصان کا حساب لگائیں گے،وہ نہ صرف اصل معاملہ سمجھیں گے بلکہ وہ مشرف کومحض اقتدار کی لالچ میں کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ایک سفاک آمر کی طرح ہی دیکھیں گے۔

مشرف کے آپریشن سائلنس کی گونج نے پاکستان کو جو دیگر زخم دئے اُنکی فہرست لمبی ہے۔یہ اسی ”کامیابی“کا نتیجہ ہے کہ جن ”الزامات“کو وہ آج تک رد کرتے رہے اُنکی از خود تصدیق ہو گئی۔اس سلسلے میں بی جے پی کی اس پریس کانفرنس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس میں راج ناتھ سنگھ نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ مدرسوں کی شبیہ بری طرح متاثر ہو گئی،صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی مدارس شک کے دائرے میں آگئے اور اسلام دشمنوں کو پروپگنڈے کا جو موقع مل گیا وہ الگ سے۔آپریشن کو ”ختم “ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن پاکستان کو آپریشن کے جس ردعمل کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

قبائلیوں نے حکومت کے ساتھ جنگبندی کامعاہدہ توڑ دیا ہے،القاعدہ نے مشرف کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور فوج پر ہوئے حملوں میں ابھی تک قریب ایک سو افراد مارے گئے۔یہ سلسلہ کہاں اور کب رکے گا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

صدر مشرف نے بھلے ہی لال مسجد کے خطیب مولوی عبدلعزیز کو برقعہ پہن کر پی ٹی وی پر لاکر انکی تذلیل کی ہو اور انکے بھائی غازی رشید کو ایک بڑے دہشت گردکے بطور پیش کیا ہو لیکن، پاکستان سے لیکر افغانستان تک اور عراق سے لیکر ان تمام ممالک تک کہ جہاں القاعدہ جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں،ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے کہ جو انہیں (غازی کو)اپنا ہیرو مانتے ہیں۔جہاں تک غازی رشیدکا تعلق ہے انکا شدت پسند لائن اختیار کرنا ایک دلچسپ افسانے کی طرح ہے۔

اپنے والد اور لال مسجد کے بانی خطیب مرحوم عبد اللہ صاحب کی مرضی کے مخالف غازی اس مدرسے سے بھاگ کر یونیورسٹی میں پڑے ہیں کہ جہاں اپنے والد نے انہیں دینی تعلیم کے حصول کے لئے بھرتی کیا تھا۔صرف و نحو ،حدیث و تفسیر اور اس طرح کے دیگر دینی علوم کی جگہ بین الاقوامی تعلقات کی جدید تعلیم پانے والے عبد الرشید غازی نے یہیں تک اپنے والد کی نافرمانی نہیں کی بلکہ خاندانی روایات سے ہٹ کر انہوں نے یو این او کے پاکستان میں دفتر کی ملازمت کی ایک آزاد خیال خاتون کے ساتھ شادی رچائی اور سر پر ٹوپی اور منھ پر چہرے پر رکھنے کے ساتھ ساتھ مدرسے کی ”خدمت“کرنے کی دیگر سبھی روایات کی بغاوت کی۔یہاں تک کہ اپنے والد نے انہیں مدرسے اور مسجد وغیرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ اپنی ساری وراثت سے بھی بے دخل کر دیا۔

غازی کے والد مولانا عبداللہ کو 1998ءمیں کسی نے لال مسجد کے صحن میں گولی مار کر جاں بحق کر دیا تو غازی کی زندگی میں بہت حدبدل گئی۔وہ لال مسجد جانے لگے اور اچانک ہی انکے چہرے پر داڑھی نمودار ہوگئی۔انکے بھائی عبد العزیز نے بعد ازاں انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مولویت پڑھے بغیر ہی مولانا ہو گئے۔

پاکستان نے طالبان سے منھ موڑ کر ان پر حملے کئے تو اس صورتحال میں مولانا عبد الرشید غازی پہلی بار اپنی شدت پسند امیج لیکر ابھرے۔چناچہ طالبان کے حق میں اور حکومتِ پاکستان کے خلاف جو ہنگامہ ہوا اس میں مولانا کا کلیدی کردار نبھایا اور پھر جب حکومت نے ان پر دہشت گردی کی کارروایﺅں میں ملوث ہو نے کا الزام لگا کر انکی گاڑی سے بھاری مقدار میں اسلحہ بر آمد کئے جانے کا دعویٰ کیا تو اُنکی شناخت اور بھی زیادہ شدت پسند کے بطور ہوئی۔حالانکہ حکومت نے بعد ازاں مولانا پر لگائے گئے الزامات واپس لئے،مگرحکومت کے ساتھ انکی چپقلش بنی رہی۔

2003ءمیں پاکستانی افواج نے قبائلی علاقہ وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں پر بمباری کی تو مولانا نے یہاں مارے جانے والے پاک فوجیوں کو ہلاک اور حملوں مقامی قبایلیوں کو شہید کہنے کا فتویٰ جاری کر کے حکومت کو ایک جذباتی صورتحال سے دوچار کر دیا۔

غازی کی ہلاکت یا شہادت سے پاکستان میں کتنے لوگوں کی زندگی میں یوںافسانوی طرز پر تبدیلی آئے گی ،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا البتہ یہ کہنے میں کوئی شک و تردد نہیں ہے کہ لال مسجد کی لالی آسانی سے آسمانِ پاکستان سے نہیں جا ئے گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب، آپ اس لال مسجد کے واقعے کو پھر چھیڑ رہے ہیں اور صرف یکطرفہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔

لال مسجد میں اسلحہ کیسا جمع ہوا؟؟؟؟ اس سوال کا جواب مشرف صاحب سے مانگننے کی بجائے جنرل حمید گل سے مانگیے۔

یہ سب گناہ مشرف صاحب نے نہیں کیے، بلکہ مشرف صاحب سے بہت پہلے ضیاء الحق کے دور میں آئی ایس آئی کے لوگ اس مسجد میں جاتے تھے اور یہ اسلحہ اُس وقت کا اس مسجد میں جمع ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

بلکہ صرف اس ایک مسجد کا کیا ذکر، پورا پاکستان ہی بارود ہے اور ہر جگہ غیر قانونی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ لال مسجد کا تو صرف نام ہو گیا کیونکہ سارے شہر کے انتہا پسند اپنا اپنا اسلحہ لیکر یہاں مورچہ بند ہو گئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پورے پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اور جو لوگ [جیسا یہ آرٹیکل لکھنے والے] اس بات کا سارا ذمہ دار مشرف صاحب کو ٹہرا رہے ہیں، تو یہ انکی وہ مشرف دشمنی بول رہی ہے کہ جس کی وجہ سے انکے دل سوچنے سمجھنے سے عاری ہو گئے ہیں۔
//////////////

اور جو یہ لوگ مشرف صاحب پر الزام لگا رہے ہیں کہ غازی برادران تو فرشتے تھے اور مشرف صاحب کی نیت تو پہلے دن سے یہ تھی کہ کسی طرح انکا قتل عام کریں ۔۔۔۔ تو معذرت کے ساتھ مجھے ایسے لوگوں کے ایسے بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر انصاف نہیں کرنا ہے۔

۔ یہی لوگ وہ ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ "قانون" کی بالادستی کے لیے چیف جسٹس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مگر جب ان سے جامعہ حفصہ کے پبلک لائبریری کی زمین پر غاصبانہ قبضے کے متعلق "قانون کی بالادستی" کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہی لوگ ایسے قانون کو ماننے سے منکر ہیں۔

۔ ان لگوں کا اس معاملے میں بہانہ یہ ہوتا ہے کہ جامعہ حفصہ اس زمین پر بہت سالوں سے قائم ہے۔
مگر کیا واقعی یہ بہانہ کوئی اہمیت رکھتا ہے؟ کیا یہ لوگ اسقدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں اس غاصبانہ زمین پر قائم جامعہ حفصہ تو سالوں سے دکھائی دے رہا ہے مگر انہِیں اس زمین سے متعلق وہ مقدمات نہیں دکھائی دے رہے جو زمین کے مالکان نے ان تمام سالوں میں اس غاصبانہ قبضے کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی بھگتائے؟؟؟

تو کیوں آپ کی پچھلی جمہوری حکومتوں نے قانون کی بالادستی قائم نہ کی؟ تو کیوں ایسا ہے کہ آج بھی مذہب کے یہ نام نہاد رکھوالے پاکستان کے ہر علاقے میں ایسی بے تحاشہ غیر قانونی تجاوزات کو صرف مذہب کے نام پر قائم رکھے ہوئے ہیں؟؟؟

تو اسکا جواب یہی ہے کہ مذھب کے ان نام نہاد رکھوالوں کو اس اوپر آرٹیکل لکھنے والے دل کے اندھوں کی حمایت حاصل ہے۔

///////////////////////

پھر آتے ہیں ان لوگوں کے دعوے پر کہ لال مسجد والے فرشتے تھے اور مشرف صاحب تو روز ازل سے انکے خون کے پیاسے تھے۔

۔ تو یہ لوگ بتائیں کہ کیا مشرف صاحب نے ان سے کہا تھا کہ غاصبانہ جگہ جامعہ حفصہ قائم کریں؟
۔ کیا مشرف صاحب نے ان سے کہا تھا کہ اسلحہ لیکر مسجد میں جمع ہو جائیں؟
۔ کیا مشرف صاحب نے ان سے کہا تھا کہ لوگوں پر زبردستی اپنی قانون جاری کرنا شروع ہو جائیں؟

۔ اور اگر مشرف صاحب روز ازل سے انکے معصوم خون کے پیاسے تھے تو کیوں انہیں کئی ہفتوں کا وقت دیتے رہے کہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔
۔ اور کیا وجہ تھی کہ لال مسجد والے یہ معصوم فرشتے نہ ملک کے قانون کو مانتے تھے، نہ مولانا تقی عثمانی کی نصیحت کو مانتے تھے، نہ فضل الرحمان صاحب کی نصیحت کو مانتے تھے، نہ اپنی فقہ کی کتابوں میں لکھے حکم کو مانتے تھے، نہ حکومت کی مانتے تھے، نہ عوام کی اُس اکثریت کی مانتے تھے جو چاہتے تھے کہ یہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔

تو یہ آرٹیکل لکھنے والا دل کا ایسا اندھا ہے کہ اُسے یہ کئی ہفتوں کی مہلت نظر نہیں آئی، اُسے کچھ نظر نہیں آیا بلکہ آج بھی اسکا اصرار ہے کہ لال مسجد والے فرشتے تھے اور مشرف صاحب روز ازل سے انکے خون کے پیاسے تھے۔

//////////////////////

اور یہ صاحب آرٹیکل لکھتے ہیں:

ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ لال مسجد کو ہتھیاروں کا گودام بنانے والون کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔بلکہ استدلال یہ ہے کہ ایسے حالات ہی پیدا نہیں ہونے دئے جانے چاہئے تھے۔حکومت اگر چاہتی تو اس ہنگامہ آرائی، جس کا خمیازہ مدتوں پاکستان کو ہی اٹھانا پڑے گا،سے بخوبی بچا جا سکتا تھا۔لیکن جب حکمران خود ہنگامہ آرائی کرانا چاہتے ہوں تو کیا کیجئے گا۔

تو کوئی اس مشرف دشمنی میں اندھے ہوئے شخص کو بتائے کہ لال مسجد کو ہتھیاروں کا گودام مشرف صاحب سے بہت پہلے ہی بنا دیا گیا تھا جب یہ مسجد فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی اور حکومتی ادارے اس اسلحہ کے گوداموں اور فرقہ وارانہ ہواووں سے آنکھیں پھیرے اس لیے بیٹھے تھے کیونکہ مسجد کے نام پر یہ جگہ اُن مجاہدین کی رنگروٹی کی جگہ بھی تھی جنہیں پاکستان کی گذشتہ حکومتیں کشمیر اور افغانستان میں اپنے مفادات کی نگہداشت کے لیے بھیجا کرتی تھیں۔

تو یہ پوٹینشل تو مشرف صاحب کے حکومت میں آنے سے بہت پہلے موجود تھا۔ مگر ہمارا میڈیا، ہماری قوم، ہمارا قانون، ہم سب اس سے آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے اور ہم میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس قانون شکنی پر ہلکی سی بھی آواز بلند کر سکیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر حکومت خدا ہوتی اور اسکے ہاتھ میں سب کچھ ہوتا اور وہ کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کے بغیر ہی ان تمام انتہا پسندوں کو ٹھیک کر دینے کے قابل ہوتی۔۔۔۔۔ تو مجھے اس آرٹیکل لکھنے والے کے عقل سے پیدل ہونے میں ہرگز کوئی شک نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے بہت زیادہ عقل رکھتا ہو، مگر صرف مشرف دشمنی میں اندھا ہو کر ایسی بے بنیاد چیزیں دلائل کے نام پر تحریر کر رہا ہے۔

اگر واقعی حکومتیں خدا ہوتیں اور واقعی تمام چیزیں انکے ہاتھ میں ہوتیں تو میرا ان جمہوریت کے نام لیواوں سے سوال ہے کہ پھر پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتیں اپنچے پچھلے چار ادوار میں کراچی میں لمحہ بھر کے لیے بھی امن کیوں نہ قائم کر سکیں؟٫ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ پڑھ لیں کہ بینظیر کے دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کے پندرہ ہزار کارکن قتل ہوئے۔ اور نواز دور میں تو اتنا قتل ہوا کہ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے بے شک ہاتھ ملا لو مگر کبھی نواز شریف سے نہ ملانا۔

//////////////////////////////

تاریخ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ "اصلاح امت" کے نام پر جب بھی کوئ چھوٹا گروہ اٹھے گا تو ملک میں فتنہ و فساد ہی پیدا ہو گا۔

کیا ہم نے اپنی تاریخ سے کبھی سبق نہیں لیا کہ جنگ جمل و صفین میں کیا ہوا جب دونوں جنگوں میں دونوں گروہ اس "اصلاح امت" کا نعرہ لیکر کھڑے ہوئَے؟ کیا تاریخ نے نہیں بتایا کہ اس "اصلاح امت" کے نعرے نے 70 ہزار مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے تلواروں سے بہا دیا؟

جب میں ان لوگوں کو تاریخ بتانا چاہتی ہوں تو یہ مجھ پر فورا پلٹ کر اعتراض شروع کر دیتے ہیں کہ "وہ قرن اول کے اونچے درجے کے لوگ" تھے اور انہیں مشرف سے نہ ملایا جائے۔ مگر کسقدر ڈبل سٹینڈرڈز کے مالک ہیں یہ لوگ کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے غازی برادران جیسے دھشت گردوں کو حسینی بنا دیا اور مشرف کو یزیدی بنا دیا۔ تو کیوں انہیں اس وقت حسین کے رتبے کا احساس نہ ہوا؟؟؟

اور میں تو تاریخ کو رتبوں کے اعتبار سے نہیں دیکھتی، بلکہ کچھ سکھنے کے اعتبار سے دیکھتی ہوں۔ کیا واقعی یہ قوم کے لیے مشکل ہے کہ جنگ جمل و صفین کو اس نظر سے دیکھے کہ جب یہ انتہائی بلند درجات والے لوگ بھی اس "اصلاح امت" نامی فتنے سے نہیں بچ سکے اور ہم نے دیکھا کہ ایسی صورتحال میں انجام صرف اور صرف خون کا بہنا ہی ہوتا ہے تو پھر جب یہی معاملات جب کم درجے کے غازی برادران اور مشرف صاحب کے درمیان ہوں تو پھر اسکا نتیجہ کیونکر مختلف نکل سکتا ہے؟

//////////////////////

غازی برادران وہ اصل دھشت گرد ہیں جو اپنے پیروکاروں کو عرصے سے کھل کر خود کش حملوں کی ترغیب و تعلیم دے رہے تھے۔ اور اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں بلکہ کچھ اور مدارس بھی ایسے ہی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہیں۔

قوم خود سوچے کہ یہ خود کش حملہ آور آسمان سے یکایک نازل نہیں ہو گئے ہیں۔ بلکہ یہ اس طویل برین واشنگ کا نتیجہ ہیں جو عرصے سے جاری ہے مگر قوم اس کا ادارک نہیں کرتی، اور اگر کرتی بھی ہے تو فورا اسکا الزام امریکہ یا حکمرانوں پر لگا دیتی ہے۔ مگر کب تک قوم اس بے حسی کا ثبوت دیتی رہے گی اور اس حقیقت کا انکار کرتی رہے گی کہ یہ گندگی قوم کے اپنے گریبان میں موجود ہے۔

تو مشرف دشمنی میں آپ لاکھ ان چیزوں کا انکار کرتے رہیں، اور لا لا کر پھر زرداری اور نواز کو اوپر بیٹھاتے رہیں، یہ مسائل آپ کبھی حل نہ کر پائیں گے۔


///////////////////////

اور میری درخواست ہے کہ قوم کی اکثریت کا ذکر مجھ سے کبھی ان معنوں میں نہ کیا جائے کہ جو اکثریت کا فیصلہ ہو وہ بالکل صحیح بھی ہے۔ میں اکثریت یا اقلیت، کسی بھی دوسرے کی مخالف رائے کا احترام تو کر سکتی ہوں، مگر کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ اکثریت یا اقلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقائق و دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
اب محب نے یہ موضوع چھیڑ ہی دیا ہے میں بھی اس بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا ۔ مگر اپنے انداز سے ۔ اور یہ آئندہ کچھ دنوں‌ میں انشاءاللہ ممکن ہوسکے گا ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لال مسجد کا واقعہ نے بھی کسی حد تک حالیہ انتحابات کے نتائج پر اثر انداز ہوا ہے

بھائی جی،

جہاں تک انتخابی نتائج کا تعلق ہے تو شاید کسی حد تک نہیں بلکہ بہت حد تک اثر انداز ہوا ہو گا۔

اور اسکی وجہ قوم کے سیاسی حکمران طبقے کی وہی بے حسی ہے جو صرف سیاست کے زور پر اپنی سیٹ پکی کرنا چاہتے ہیں مگر پاکستان کے مسائل کا کوئی مستقل حل نہیں چاہتے۔ [چاہے یہ سیاسی حکمران طبقے قائد لیگ کے ہوں یا نواز لیگ کے یا پیپلز پارٹی کے]

اور قائد لیگ کے لوٹوں نے تو کبھی بھی مشرف صاحب کا ساتھ ایک بھی کرائسس میں نہیں دیا۔ پچھلے پانچ سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ان قائد لیگ والوں نے ہر دفعہ عین موقع پر مشرف صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ چاہے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا معاملہ ہو یا بگتی کی بغاوت کا، یا لال مسجد کا معاملہ ہو یا پھر افتخار چوہدری کیس کا۔ مشرف صاحب تو ان سے اتنے تنگ تھے کہ ایک موقع پر انہیں بلا کر انہیں انکے طرز عمل پر بری طرح شرمندہ بھی کیا۔

اور انتخابی نتائج پر یاد آیا کہ پروپیگنڈہ وہ چیز ہے جو سچ کو جھوٹ اور حق کو باطل بنا کر پیش کر دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔

یاد کریں وہ واقعہ جب ایک شامی کو پتا چلا کہ علی ابن ابی طالب کو سجدے میں قتل کر دیا گیا ہے تو حیرانی سے پوچھتا ہے کہ کیا علی ابن ابی طالب نماز بھی پڑھتا تھا؟ [ شامی فوج کو پروپیگنڈہ سے اتنا برین واش کر دیا گیا تھا کہ اُنکا خیال تھا کہ علی ابن ابی طالب شراب نوش اور دین سے بے بہرہ شخص ہے [معاذ اللہ] اور اسی بنیاد پر شامی فوج نے ہمیشہ دل سے علی ابن ابی طالب کی فوج کا مقابلہ کیا جبکہ علی ابن ابی طالب اپنی فوج کو بار بار پکارا کرتے تھے کہ انکی نصرت پر آمادہ ہوں اور سستی نہ کریں۔۔۔ مگر یہ سب کچھ اُن پر بے اثر رہا]۔

///////////////////

دیکھئیے، جنہیں مشرف صاحب پر اعتراض کرنا ہے، انہیں چاہے کوئی دلیل پیش کر دی جائے [یا پھر مشرف صاحب کوئی قدم اٹھا لیتے] ان معترضین کو لال مسجد کے معاملے میں ہر قدم پر کوئی نہ کوئی اعتراض نکال لیتے۔

مثلا پہلے انہیں اعتراض تھا کہ مشرف صاحب ان پر آپریشن کیوں نہیں کرتے؟ اور اسکی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مشرف صاحب خود انہیں ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ امریکہ کی نظر میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکیں۔
اور جب مشرف صاحب نے کئ ہفتوں کے انتظار اور ہر ممکنہ کوشش کے بعد آپریشن کیا تو انہیں اعتراض ہو گیا کہ یہ آپریشن کیوں کیا گیا اور کیا حکومت بغیر تشدد کے معاملہ طے نہیں کر سکتی تھی؟

تو یہ بات طے ہے کہ مشرف صاحب جو کچھ بھی کرتے، ان لوگوں کے اعتراضات کو ختم کرنا تو کسی انسان کی بس کی بات نہیں۔

////////////////////////

اور یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب لال مسجد میں اتنا اسلحہ جمع تھا تو مشرف صاحب نے پہلے ہی ایکشن کیوں نہ لے لیا۔

تو اس کی بہت سی وجوہات میں نے اوپر بیان کر دی ہیں۔ لیکن ایک چیز کا اضافہ کر دوں کہ اگر مشرف صاحب صرف اسلحہ جمع ہونے کی بنا پر پہلے کوئی ایکشن لے لیتے تو یہی لوگ یہ اعتراض کرتے ہوئے پائے جاتے:

1۔ کیا پورے ملک میں مشرف صاحب کو غیر قانونی اسلحہ نظر نہیں آتا جو امریکہ کی شہ پر مسجد پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔

2۔ یہ اسلحہ آج کا تو نہیں بلکہ برسوں سے یہاں جمع ہے، تو اب امریکہ کی شہ پر اسے ایشو بنا کر حملہ کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

یقین کریں انسان جو مرضی کر لے مگر انکے اعتراضات ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے اور ہر چیز کے لیے انکے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ موجود ہو گا۔

///////////////////

اور آخر میں اگر لال مسجد کے حوالے سے اکثریت کا حوالا دیا جائے اور انتخابی نتائج کی بات کی جائے تو کیا پیپلز پارٹی کو اس لیے اکثریت ملی کہ انہوں نے لال مسجد کے معاملے میں لال مسجد والوں کی دھشت گردی کی مذمت کی تھی؟

تو یاد رکھئیے اکثریت یا اقلیت ۔۔۔۔ یہ انصاف کرنے کا طریقہ نہیں بلکہ صرف دلائل اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی انصاف کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بار پاکستان جب میں گیا تو بہن سے پوچھا تھا کہ لال مسجد کے بارے انہوں‌ نے میڈیا پر کیا دیکھا۔ ان کا جواب تھا کہ

اللہ میڈیا کو غارت کرے، انہوں‌ نے ہماری رات کی نیند اور دن کا چین چھین لیا تھا۔ ایک چینل غازی کو مجاہد اور دوسرا حکومت کو حق بجانب اور تیسرا دونوں‌کو قصور وار ثابت کرنے پر لگا ہوا تھا۔ آخر میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں نے اللہ سے باقاعدہ نماز کے بعد دعا کی کہ اللہ تعالٰی چاہے جو صورت نکلے، چاہے غازی اور دیگر لوگ مرنے ہیں، مر جائیں، حکومت نے ختم ہونا ہے، ختم ہو جائے، مشرف مرتا ہے، مر جائے، میڈیا نے بند ہونا ہے، بند ہو جائے پر اس ڈرامے کو بند کرائیں
 
مہوش تفصیل سے آپ کے ایک ایک نکتہ کا جواب دوں‌گا تاکہ آپ کو بھی یہ گلہ نہ رہے کہ آپ کے سوالات تشنہ رہے اور میری درخواست ہے کہ کچھ حقائق اور ثبوت بھی جمع کر لیجیے گا اس واقعہ کے لیے کیونکہ میں تو خود عینی شاہد ہوں اس پورے واقعہ کا اور سینکڑوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس خونی کھیل کو اپنے سامنے رچتا ہوا دیکھتے رہے اور بے بسی سے روز جیتے اور روز مرتے رہے۔ آپ کے لیے شاید مشرف دوستی انسان دوستی پر مقدم ہے اور مشرف کا محاسبہ آپ کے نزدیک شاید ناجائز ہے مگر یقین کریں کہ جن لوگوں نے سانحہ لال مسجد دیکھا ہے وہ اسے کبھی نہ بھلا سکیں گے اور ان کے دل اس سانحہ پر خون کے آنسو روتے رہیں گے۔ اگر صرف غازی عبدالرشید اور ان کے ساتھ چند اور لوگ جن پر غیر ملکی اور دہشت گرد ہونے کا الزام ہے وہ قتل ہوتے تو میں چند سوال ضرور اٹھاتا مگر اسے سانحہ یا خون فگار واقعہ نہ سمجھتا۔ میرا دکھ اور کم ہو جاتا اگر غازی صاحب کے بڑے بھائی کو قانونی کاروائی کے بعد سزائے موت کا مستحق سمجھ کر پھانسی دے دی گئی ہوتی تو بھی میں سمجھتا کہ کم ازکم حکومت اپنے اس موقف میں سچی ہے کہ وہ اگر کسی کو واقعی دہشت گرد سمجھتی ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا بھی سناتی ہے مگر اپنی کٹھ پتلی سپریم کورٹ کے ساتھ بھی غازی صاحب کے بڑے بھائی کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور اب تک کیس صرف لٹکتا جا رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس معاملے میں کوئی خاص سزا نہیں ہوگی کیونکہ حکومت نے جو کرنا تھا وہ کر لیا اب قانونی کاروائی پوری کرنے کا نہ پہلے شوق تھا نہ اب ہے کیونکہ ایک غیر قانونی صدر کس منہ سے قانون کی پاسداری کروا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ آپ جنگ جمل اور جنگ صفین پر اگر کوئی تحقیقی مقاملہ لکھنا چاہتی ہیں جو تعصب سے پاک ہو تو بسم اللہ کریں میں‌ ضرور اس میں ہاتھ بٹاؤں گا مگر خدارا مشرف جیسے غاصبوں کو حضرت علی جیسے عظیم المرتبت شخص کے ساتھ نہ ملایا کریں مجھے انتہائی شدید اذیت ہوتی ہے جب آپ بار بار یہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

میں پسند کروں گا کہ کوئی میرے کان میں پگھلا ہوا سیسہ پلا دے بجائے اس کے کہ کوئی حضرت علی اور حضرت حسین جیسی بلند پایہ شخصیات سے آج کے فاسقوں اور فاجروں کو ملا دے۔ بحث کے دوران یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ چند مشابہات کی بنیاد پر کسی شخص‌کو کسی عظیم المرتبت شخص سے تشبیہ دے دی جائے تاکہ آپ کے موقف میں جان پڑ جائے اور دوسرا شخص بھی عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں لب نہ کھول سکے مگر میں آج کے دور کے کسی ولی کو بھی ان عظیم المرتبت شخصیات سے تشبیہ دینے کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ میں ان کے بارے میں تو جانتا ہوں کہ وہ مخلص اور دیانتدار تھے مگر آج کے دور کے کسی بھی شخص کے بارے میں ایسی ہمت نہیں پاتا۔
 
OLOR="DarkRed"
یہ کہنے میں کوئی شک و تردد نہیں ہے کہ لال مسجد کی لالی آسانی سے آسمانِ پاکستان سے نہیں جا ئے گی۔[/COLOR]


یقینا پاکستان اور اہل پاکستان پر "لال مسجد " کے واقعات کے اثرات سے انکار تو ممکن نہیں -اس سفاکانہ اقدام کو بھلانا بہت مشکل امر ہے -
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش تفصیل سے آپ کے ایک ایک نکتہ کا جواب دوں‌گا تاکہ آپ کو بھی یہ گلہ نہ رہے کہ آپ کے سوالات تشنہ رہے اور میری درخواست ہے کہ کچھ حقائق اور ثبوت بھی جمع کر لیجیے گا اس واقعہ کے لیے کیونکہ میں تو خود عینی شاہد ہوں اس پورے واقعہ کا اور سینکڑوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس خونی کھیل کو اپنے سامنے رچتا ہوا دیکھتے رہے اور بے بسی سے روز جیتے اور روز مرتے رہے۔ آپ کے لیے شاید مشرف دوستی انسان دوستی پر مقدم ہے اور مشرف کا محاسبہ آپ کے نزدیک شاید ناجائز ہے مگر یقین کریں کہ جن لوگوں نے سانحہ لال مسجد دیکھا ہے وہ اسے کبھی نہ بھلا سکیں گے اور ان کے دل اس سانحہ پر خون کے آنسو روتے رہیں گے۔ اگر صرف غازی عبدالرشید اور ان کے ساتھ چند اور لوگ جن پر غیر ملکی اور دہشت گرد ہونے کا الزام ہے وہ قتل ہوتے تو میں چند سوال ضرور اٹھاتا مگر اسے سانحہ یا خون فگار واقعہ نہ سمجھتا۔ میرا دکھ اور کم ہو جاتا اگر غازی صاحب کے بڑے بھائی کو قانونی کاروائی کے بعد سزائے موت کا مستحق سمجھ کر پھانسی دے دی گئی ہوتی تو بھی میں سمجھتا کہ کم ازکم حکومت اپنے اس موقف میں سچی ہے کہ وہ اگر کسی کو واقعی دہشت گرد سمجھتی ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا بھی سناتی ہے مگر اپنی کٹھ پتلی سپریم کورٹ کے ساتھ بھی غازی صاحب کے بڑے بھائی کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور اب تک کیس صرف لٹکتا جا رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس معاملے میں کوئی خاص سزا نہیں ہوگی کیونکہ حکومت نے جو کرنا تھا وہ کر لیا اب قانونی کاروائی پوری کرنے کا نہ پہلے شوق تھا نہ اب ہے کیونکہ ایک غیر قانونی صدر کس منہ سے قانون کی پاسداری کروا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ آپ جنگ جمل اور جنگ صفین پر اگر کوئی تحقیقی مقاملہ لکھنا چاہتی ہیں جو تعصب سے پاک ہو تو بسم اللہ کریں میں‌ ضرور اس میں ہاتھ بٹاؤں گا مگر خدارا مشرف جیسے غاصبوں کو حضرت علی جیسے عظیم المرتبت شخص کے ساتھ نہ ملایا کریں مجھے انتہائی شدید اذیت ہوتی ہے جب آپ بار بار یہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

میں پسند کروں گا کہ کوئی میرے کان میں پگھلا ہوا سیسہ پلا دے بجائے اس کے کہ کوئی حضرت علی اور حضرت حسین جیسی بلند پایہ شخصیات سے آج کے فاسقوں اور فاجروں کو ملا دے۔ بحث کے دوران یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ چند مشابہات کی بنیاد پر کسی شخص‌کو کسی عظیم المرتبت شخص سے تشبیہ دے دی جائے تاکہ آپ کے موقف میں جان پڑ جائے اور دوسرا شخص بھی عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں لب نہ کھول سکے مگر میں آج کے دور کے کسی ولی کو بھی ان عظیم المرتبت شخصیات سے تشبیہ دینے کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ میں ان کے بارے میں تو جانتا ہوں کہ وہ مخلص اور دیانتدار تھے مگر آج کے دور کے کسی بھی شخص کے بارے میں ایسی ہمت نہیں پاتا۔


محب دیکھئیے تاریخ کی متعلق آپکا اور میرا نقطہ نگاہ مختلف ہو سکتا ہے۔ تاریخ پر جب بات ہوتی ہے تو میری نظر فقط حقائق و وجوہات جاننے پر ہوتی ہے جبکہ آپکی نظر شخصیات پر ہوتی ہے۔

مجھے اس موقع پر مودودی صاحب یاد آ گئے کہ جن کا موقف بھی یہ تھا کہ تاریخ کا مطالعہ حقائق و وجوہات سیکھنے کے لیے بہت لازمی ہے کہ اسکے بنا ہم پھر وہی غلطیاں کرتے رہیں گے ۔ مگر ایک بہت بڑا طبقہ تھا جو تاریخ کو شخصیات کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس لیے وہ مودودی صاحب کے اتنے خلاف ہوا کہ بس اللہ کی پناہ۔

محب، چیزوں کا آسان بناتے ہیں۔ مجھے جمل و صفین پر کسی غیر جانبدار مقالہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت سے علمائے حق اپنا قلم حق اس موضوع پر اٹھا چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپکو مودودی صاحب کی غیر جانبداری پر یقین ہو گا۔ تو آپ انکی خلافت و ملوکیت کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر کے دیکھ لیجئیے کہ انہوں نے کتنی تفصیل یے ساتھ ان موضوعات پر بحث کی ہے کہ اصلاح امت کے نام پر کسی چھوٹے گروہ کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ورنہ آخری نتیجہ صرف خون کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی نتیجہ تمام قدیم علما نے نکالا ہے چاہے وہ حنفی ہوں یا مالکی، شافعی ہوں یا حنبلی۔ پھر یہی چیز علمائے دیو بند ہوں یا بریلوی یا اہلحدیث [یاد ہو گا آپکو امام کعبہ کا پاکستان آنا] ۔۔۔۔۔۔ اور اگرچہ کہ علمائے شیعہ اس چیز کو ان معنوں میں نہیں مانتے بلکہ انکے ہاں "تقیہ" کا نظریہ ہے جو کہ اس مسئلے میں تقریبا وہی شکل اختیار کر لیتا ہے جو باقی فقہوں نے کیا ہے۔
["تقیہ" کو اگر ماڈرن زمانے کی اصطلاح میں ڈیفائن کریں تو اسکا مطلب نکلتا ہے "ڈپلومیسی"۔ یعنی حالات کے مطابق فیصلہ کرنا۔ مثلا جب پہلی مرتبہ خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرتے ہوئے یزید کی جانشینی کا اعلان ہوا تو مسلمانوں کی اکثریت کو یہ فیصلہ قبول نہ تھا اور حالات یہ چانسز بتا رہے تھے کہ اگر اس وقت اسکے خلاف اٹھا جائے تو کامیابی کی امید بہت ہے۔ اس لیے حسین ابن علی یہ سفر شروع کرتے ہیں۔ مگر جب کربلا کے میدان میں پہنچتے ہیں تو بہت سی چیزیں واضح ہو چکی ہوتی ہیں مثلا یہ کہ یہ "خاموش اکثریت" اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ سرکاری فوج کا مقابلہ کر سکے۔ اسی لیے حسین جہاد کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ تین شرائط پیش کرتے ہیں کہ انہیں سرحدی علاقوں میں جانے دیا جائے یا مدینہ جانے دیا جائے یا یزید کے پاس جا کر وہ خود اس سے بات چیت کے ذریعے شرائط طے کر لیں۔ مگر انہیں یہ موقع نہیں دیا جاتا اور جنگ شروع کر دی جاتی ہے۔]

بنیادی طور پر علی ابن حسین کا طرز عمل اپنے بڑے بھائی حسن ابن علی سے مختلف نہیں تھا کہ جب حسن ابن علی کو یقین ہو گیا کہ فوج لے کر جنگ کے لیے نکل تو کھڑے ہوئے، مگر جب لگا کہ جنگ سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے اور صرف مسلمانوں کا خون بیکار میں ضائع ہو گا تو انہوں نے صلح کی پیشکش کر دی۔

حسین ابن علی کی تحریک کو غازی برادران سے ملانا اس لیے غلط ہے کیونکہ حسین ابن علی نے کسی مظلوم کی جگہ پر جامعہ حفضہ کی طرح قبضہ نہیں کیا ہوا تھا، نہ ہی حسین عام شہریوں کی املاک و جان پر حملہ آور ہوتے تھے، نہ کسی کو خود کش حملوں اور دھشت گردی کی تحریک دیتے تھے، حسین صرف اس لیے اٹھے کہ انہیں لگا کہ مسلمانوں کی اکثریت انکے ساتھ ہے، جبکہ غازی برادران کو پتا تھا کہ بہت ہی چھوٹی سے جماعت انکی کاروائیوں کی حمایت کر رہی ہے جبکہ قوم کی بڑی اکثریت انکی حرکتوں سے تنگ ہے مگر انہیں اپنے مقاصد کے حصول یعنی جامعہ حفصہ پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے خود کش حملہ آوروں اور دھشت گرد کاروائیوں پر یقین تھا کہ وہ اس طرح حکومت کو بلیک میل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور جب حسین کو یقین ہو گیا کہ اس موقع پر جان گنوانے سے بھی وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے تو انہوں نے بلاوجہ کی خون ریزی سے بچنا چاہا، مگر اُن پر مجبورا جنگ مسلط کر دی گئی۔ جبکہ غازی برادران پر جنگ مسلط نہ کی گئی بلکہ کئی ہفتوں تک انہیں مہلت دی جاتی ہے، اور غازی برادران نے زبردستی یہ جنگ اپنے اوپر، اور اپنے حمایتیوں پر، اور اپنے مدرسے کے طلبہ و طالبات پر مسلط کروائی ہے اور وہ اور انکے اندھے پیروکار طلبہ و طالبات اس خون کے ذمہ دار ہیں۔

حسین ابن علی کا ذکر میں نے یہاں کوئی نئی بحث شروع کرنے کے لیے نہیں کیا ہے [نہ ہی میں دیگر انبیاء کی مثالیں پیش کر کے اسے بڑھانا چاہتی ہوں]، بلکہ صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ تاریخ جذباتیت سے ہٹ کر اپنی بالکل صحیح شکل میں پیش کی جائے تاکہ ہم تاریخ سے بالکل صحیح سبق سیکھ سکیں۔
////////////////////


آپ لوگوں کو اپنی آراء کی آزادی ہے، مگر مجھے بھی اپنی رائے کی آزادی ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کئی ہفتوں تک جنگ بندی کی کوششیں ہوتی رہیں، اس میں امام کعبہ سے لیکر تقی عثمانی اور دیوبند کے دیگر بہت سے علماء کی کوششیں بھی شامل ہیں، اور اسکے بعد حکومت وقت کی طرف سے مکمل"اتمام حجت" ہو چکا ہے۔

اور اس "اتمام حجت" کے بعد اس تمام تر خون خرابے کے ذمہ دار صرف اور صرف غازی برادران اور انکے اندھے پیروکار ہیں اور میں حکومت کو ایک فیصد بھی اسکا ذمہ دار نہیں ٹہراتی۔

[یہ پیروکار اسقدر اندھے ہو چکے تھے کہ بعد میں جب انٹرویو میں ایک طالبہ سے مسجد میں موجود دھشت گردی کے لیے لائے جانے والے اسلحہ کے متعلق سوال کیا گیا تو اُس نے کہا یہ مسجد اسلحہ سے بالکل پاک ہے اور یہ اسلحہ تو ایسے ہی آیا ہے جیسا کہ جنگ بدر میں اللہ تعالی نے فرشتوں کی ذریعے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔

اس طالبہ کو اسقدر برین واش کر دیا گیا تھا کہ میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ تو جب برین واشنگ کر کے اپنے ماننے والوں کو کوئی گروہ اس حد تک اندھا کر دے، تو پھر نتائج بہت سنگین نکلتے ہیں۔


/////////////////////

امید سسٹر،

جب آپ لال مسجد میں موجود خود کی لالی پر آواز اٹھائیں، تو میں پھر کہوں گی کہ تاریخ سے منہ نہ پھیریں۔ کیونکہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ تاریخ کا ذکر آتے ہیں انسان اپنا منہ اپنے بغل میں ڈال کر چھپا لے۔

اور بات صرف جمل و صفین و نہروان تک محدود نہیں ہے۔ اگر آپ کو ان کے ذکر سے اختلاف ہے تو خدا کے لیے پوری بنی نوع انسان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اور آپکو نظر آ جائے گا کہ جب بھی یہ حالات پیدا ہوتے ہیں تو خون بہا کر ہی دم لیتے ہیں۔ کیا جب بنی عباس خلیفہ بنے تو مسلمانوں میں جنگ و جدل نہ ہوئی؟ کیا آپکو پتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے کتنا عرصہ صلیبیوں سے جنگ کرتے ہوئے گذارا ہے اور کتنا عرصہ خود مسلمانوں سے جنگ کرتے ہوئے گذارا ہے؟ کیا اورنگزیب عالمگیر نے جو اپنے مخالف مسلمان گروہوں کا قتل عام کیا وہ ہم بھول گئے [ان مسلمان گروہوں میں اورنگزیب عالمگیر کے والد کو اور بھائیوں کو بھی آپ شامل رکھیں]۔

تو امید سسٹر،

ہو سکتا ہے کہ جب آپ خون کی لالی کا ذکر کریں تو آپ ٹھیک ہوں، مگر مجھے بھی اجازت دیں کہ میں تاریخ کی ان سب خون کی لالیوں کی طرف آپ لوگوں کو متوجہ کرواوں تاکہ آپ لوگوں کی توجہات صرف لالی سے ہٹ کر اصل حقائق و واقعات تک بھی جا سکے۔ انشاء اللہ۔ [کیونکہ صرف لالی لالی کرتے رہ جانے سے یہ لالی افقِ پاکستان پر بڑھ تو سکتی ہے، مگر اگر اسکا تدارک کرنا ہے تو اپنا قبلہ و کعبہ درست کر کے اصل حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے]

والسلام۔
 

ابوشامل

محفلین
مہوش صاحبہ آپ کو بہت عرصے بعد سیاست کے موضوع پر بات کرتے دیکھ کر اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ انتہا پسند صرف اِدھر نہیں بلکہ اُدھر بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اگر اِس انتہا پر کھڑا ہے تو دوسرا اُس انتہا پر۔
آپ نے درست کہا کہ اصلاح امت کے نام پر ہمیشہ فتنہ ہی کھڑا ہوا ہے اور اصلاح امت کے اس وقت سب سے بڑے علم بردار آپ کے پیر و مرشد پرویز مشرف ہیں۔ بیانات یہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں وہ ہر روز عوام کو نئے اسلام سے روشناس کرانے کے نام پر اصلاح امت کر رہے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ کیا ایک ٹیلی فون کال پر ملک کے بک جانے سے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ چند سالوں میں ملک کا یہ حشر ہو جائے گا؟ پتھر کے دور میں بھیج دینے کی دھمکی سے ڈر جانے والے ملک کو ایسے خطرناک دور میں لے آئے ہیں جہاں سے بہتر تھا کہ ہم پتھر کے دور میں ہی ہوتے۔
آخری بات کاش مودودی صاحب آج زندہ ہوتے اور لال مسجد کے معاملے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے تو مجھے یقین ہے کہ آپ اتنے اچھے الفاظ میں ان یاد نہ کرتیں بلکہ شاید ویسے القابات سے نوازتیں جن سے آپ نے مضمون نگار کو نوازا ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
فھد بھائی بڑے دنوں بعد محفل پر آپ کا پوسٹ دیکھا امید ہے کہ نہ آنے کی وجہ مصروفیت ہی ہوگی
 
جو لوگ مندرجہ بالا واقعہ کو یکطرفہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں انہیں مسجد کے اندرونی حقائق کا علم نہیں۔ نیز غازی برادران کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اصل دہشتگرد ہیں سراسر نا انصافی ہے۔

جو ان کو ذاتی طور پر پہچانتے‌ تھے وہ تو اس بات سے‌انکاری ہیں۔

دہشتگرد اصل امریکہ ہے اور پھر اس کے بعد اس کے‌ یکے‌ بعد دیگر حواری

پاکستان نہیں بلکہ پاکستانی مردہ ضمیر سیاستدان پیش پیش

خدا کا غضب نہ آئے تو کیا آئے‌؟

رحمت کے سارے دروازے بند کرکے اسلام آباد کے نائٹ کلبوں میں کیا ہوتا ہے؟

اور پاکستان کی گلیوں کوچوں میں ما تحتوں پر ظلم ہوتا ہے یا نہیں؟

رحمت کے‌ دروازے‌ ہم نے خود بند کئے‌ ہوئے‌ ہیں

پھر رحمت کہاں سے‌ آئے؟

لیکن خدا پھر بھی ہمارے لولے‌ لنگڑے پاکستان کو چلا رہا ہے

اور ان شاء اللہ

یہ ستارہ ایک نہ ایک دن ضرور چمکے‌ گا
 

مہوش علی

لائبریرین
آخری بات کاش مودودی صاحب آج زندہ ہوتے اور لال مسجد کے معاملے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے تو مجھے یقین ہے کہ آپ اتنے اچھے الفاظ میں ان یاد نہ کرتیں بلکہ شاید ویسے القابات سے نوازتیں جن سے آپ نے مضمون نگار کو نوازا ہے۔

ابو شامل برادر،

مودودی صاحب تو زندہ نہیں، مگر کیا آپ بتائیں گے آپکے قیاس کا ماخذ کیا ہے جو آپ کو یہ یقین دلا رہا ہے کہ مودودی صاحب زندہ ہوتے تو وہ لال مسجد کے معاملے میں ڈبل سٹینڈرڈز کا مظاہرہ کرتے اور جو کچھ انہوں نے خود لکھا ہے اُس کے خلاف جاتے؟

تو یاد رکھئیے کہ یہ ایک "عالمگیر سچائی" ہے کہ جس معاشرے میں بھی چھوٹے چھوٹے گروہ سٹیٹ کے خلاف ہتھیار اٹھا کر کھڑے ہو جائیں گے وہیں پر خون بہے گا۔

مودودی صاحب تو موجود نہیں، مگر اُن علماء کو آپ کیوں گول کر جاتے ہیں جو کہ زندہ ہیں اور انہوں نے کھل کر لال مسجد کے اس اقدام کو غلط قرار دیا؟ مفتی تقی عثمانی سے لیکر فضل الرحمان اور طاہر القادری سے لیکر امام کعبہ نے لال مسجد کے ان اقدامات کی ویسے ہی مخالفت کی جیسا کہ مودودی صاحب نے اپنے تحریریوں میں ذکر کی، مگر کیا ہے کہ آپ کو شاید اپنے قیاس کے ہوائی قلعے کھڑے کرنے کی وجہ سے یہ حقیقت نظر نہیں آ رہی۔

خدارا اس قیاسات سے باہر نکل آئیں اور حقیقت سے نظریں نہ چرائیں ورنہ ملک عزیز مزید لہو لہو ہوتا جائے گا۔

/////////////////////////

مزید آپ لکھتے ہیں:

کیا ایک ٹیلی فون کال پر ملک کے بک جانے سے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ چند سالوں میں ملک کا یہ حشر ہو جائے گا؟ پتھر کے دور میں بھیج دینے کی دھمکی سے ڈر جانے والے ملک کو ایسے خطرناک دور میں لے آئے ہیں جہاں سے بہتر تھا کہ ہم پتھر کے دور میں ہی ہوتے۔
بھائی جی، آج آپ کے لیے کمپیوٹر پر بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارے لیے بہتر ہوتا کہ طالبان کا ساتھ دیتے ہوئے ہم پتھر کے دور میں پہنچ چکے ہوتے۔

مگر یقین کریں کہ آپ جیسے حضرات کے لیے اس بات میں بہت بڑا سبق ہونا چاہیے کہ جب طالبان اپنی نہتی عورتوں و بچوں کو امریکہ کے بمبار جہازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں و غاروں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔ مگر کیا ہے کہ آپ لوگوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ اپنے گریبانوں میں کبھی نہیں جھانکنا اور نہ کوئی سبق حاصل کرنا ہے۔

////////////////////////////

راسخ برادر،

مجھے نہیں علم کہ آپ کون سے غازی برادران کا ذکر کر رہے ہیں۔ کیا آپ اُن غازی برادران کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے جانتے بوجھتے دوسرے معصوموں کی زمین غضب کر لی تھی؟ یا آپ اُن غازی برادران کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے مسجد کو غیر قانون اسلحہ و بارود کا ڈھیر بنا دیا تھا؟ یا پھر آپ اُن غازی برادران کا ذکر کر رہے ہیں جو کھل کر دھمکیاں دے رہے تھے کہ جامعہ حفصہ کی غیر قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کیا گیا تو اُن کے پاس خود کش حملہ آوروں کی فوج ظفر موج موجود ہے اور یہ ان کی اُس شب و روز محنت و کاوش و تبلیغ کا نتیجہ ہے جو سالوں تک انہوں نے اپنے خود کش حملہ آوروں پر کی ہے اور اسکے نتیجے میں وہ انہیں خود کش حملوں کے لیے برین واش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟

////////////////////

راسخ برادر،

اسلام آباد کے نائٹ کلبوں کی موجودگی بھی جامعہ حفصہ کی غصب شدہ زمین پر قبضے کو پاک و صاف نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی بھی اور دھشت گرد کاروائی کو جائز قرار دے سکتی۔ آپ ان دیگر غلط کاموں کو آڑ بناتے ہوئے کبھی بھی ان فتنوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

پاکستانی معاشرے میں ایک نہیں ایک ہزار دیگر برائیاں ہیں، مگر اگر میں مختصرا اسکا حل بیان کروں تو وہ ہے عوام میں تبلیغ کر کے اس کے خلاف شعور پیدا کرنا ہے۔ اور جب عوام میں شعور پیدا ہو گا تو پھر وہ لوگ حکومت میں آئیں گے جو اس برائیوں کا حکومت میں رہتے ہوئے خاتمہ کریں گے۔

مگر اگر آپ ان برائیوں کی آڑ میں خود کش حملوں اور لال مسجد کے دیگر تمام فتنوں کو جائز قرار دے دیں گے تو یہ آپکی جذباتیت ہے اور اس سے صرف فساد ہی پھیل سکتا ہے۔
 

ابوشامل

محفلین
مودودی صاحب تو زندہ نہیں، مگر کیا آپ بتائیں گے آپکے قیاس کا ماخذ کیا ہے جو آپ کو یہ یقین دلا رہا ہے کہ مودودی صاحب زندہ ہوتے تو وہ لال مسجد کے معاملے میں ڈبل سٹینڈرڈز کا مظاہرہ کرتے اور جو کچھ انہوں نے خود لکھا ہے اُس کے خلاف جاتے؟

تو یاد رکھئیے کہ یہ ایک "عالمگیر سچائی" ہے کہ جس معاشرے میں بھی چھوٹے چھوٹے گروہ سٹیٹ کے خلاف ہتھیار اٹھا کر کھڑے ہو جائیں گے وہیں پر خون بہے گا۔

مودودی صاحب تو موجود نہیں، مگر اُن علماء کو آپ کیوں گول کر جاتے ہیں جو کہ زندہ ہیں اور انہوں نے کھل کر لال مسجد کے اس اقدام کو غلط قرار دیا؟ مفتی تقی عثمانی سے لیکر فضل الرحمان اور طاہر القادری سے لیکر امام کعبہ نے لال مسجد کے ان اقدامات کی ویسے ہی مخالفت کی جیسا کہ مودودی صاحب نے اپنے تحریریوں میں ذکر کی، مگر کیا ہے کہ آپ کو شاید اپنے قیاس کے ہوائی قلعے کھڑے کرنے کی وجہ سے یہ حقیقت نظر نہیں آ رہی۔

خدارا اس قیاسات سے باہر نکل آئیں اور حقیقت سے نظریں نہ چرائیں ورنہ ملک عزیز مزید لہو لہو ہوتا جائے گا۔

محترمہ! سب سے پہلے تو آپ نے میرے بارے میں جو دو قیاس کر لیے ہیں ان کے بارے میں اپنا موقف واضح کر دوں اول یہ کہ میں نے مودودی صاحب کو اس لیے بیچ میں نہیں ڈالا کہ وہ (اگر زندہ ہوتے تو) لال مسجد کے اقدامات کی حمایت کرتے، میں پہلے بھی بارہا یہ عرض کر چکا ہوں کہ لال مسجد کے غازی برادران کے خلوص کو تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کا طرز عمل ہر گز درست نہ تھا، لیکن صرف طرز عمل کی عدم درستگی اتنا سنگین جرم نہیں کہ ان کا ساتھ دینے والے سینکڑوں طلبہ و طالبات کو زندہ جلا دیا جاتا۔ آپ نے جن علمائے کرام کا ذکر کیا ہے (اگر آپ ان کے بیانات بھی پیش کر دیتیں تو زیادہ بہتر ہوتا) ان تمام نے بھی لال مسجد کے مطالبات سے مکمل اتفاق کیا تھا اور صرف ان کے طریقہ کار کو غلط قرار دیا، کیا آپ بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟ میں ان تمام علمائے کرام کے بیانات سے مکمل متفق ہوں اور مودودی صاحب کی تعلیمات سے یہ بات عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ بھی انہی علمائے کرام میں شامل ہوتے اور لال مسجد میں بہائے جانے والے خون ناحق کی بھرپور مخالفت کرتے۔

لیکن اگر آپ کے کہے کو مان بھی لیا جائے اور لال مسجد والوں کو "فتنہ پھیلانے والے مفسدین" سمجھ لیا جائے تب بھی اس مسئلے کو مودودی صاحب سورہ منافقون میں یوں بیان کرتے ہیں (واقعہ: عبد اللہ بن ابی کو قتل کر دینے کی اجازت طلب کرنے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روک دینا)

(وضاحت: مندرجہ ذیل پیرا "قیاسات کی دنیا" سے تحریر کیا گیا ہے، اس سے ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں لال مسجد والوں کو مفسد اور منافق سمجھتا ہوں۔)
اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرزِ عمل ابن ابی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحقِ قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بند کر کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل الٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھی جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپ اسے سزا دینے پر قادر تھے، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا
(تفسیر سورۂ منافقون)

بھائی جی، آج آپ کے لیے کمپیوٹر پر بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارے لیے بہتر ہوتا کہ طالبان کا ساتھ دیتے ہوئے ہم پتھر کے دور میں پہنچ چکے ہوتے۔

مگر یقین کریں کہ آپ جیسے حضرات کے لیے اس بات میں بہت بڑا سبق ہونا چاہیے کہ جب طالبان اپنی نہتی عورتوں و بچوں کو امریکہ کے بمبار جہازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں و غاروں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔ مگر کیا ہے کہ آپ لوگوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ اپنے گریبانوں میں کبھی نہیں جھانکنا اور نہ کوئی سبق حاصل کرنا ہے۔

آپ کے دوسرے سوال کے ضمن میں اتنا عرض کروں گا کہ کوئی محب وطن کم از کم اس جہالت کا قائل نہیں ہو سکتا کہ غیروں کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑے اور اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھ اپنے ہی عوام کے خون سے رنگے۔ آپ ہی بتائیے اس جنگ میں آخر نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ صرف اور صرف ایک جانب پاکستانی عوام اور افواج کا اور دوسرا پاکستان کی سالمیت کا۔ اس کے علاوہ کوئی تیسرا فریق آپ کو گھاٹے میں نظر آتا ہے؟

میرا طالبان سے کچھ لینا دینا نہیں، نہ ہی میں ان کے کسی فعل یا عمل کا جوابدہ ہوں لیکن کم از کم ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگا کر سبز باغ دکھانے (اور ان کی تقلید و تائید کرنے) والوں سے اتنا پوچھنے کا ضرور حق رکھتا ہوں کہ کیا تم نے پاکستان کا یہ حشر کرنے کے لیے ہمیں "پتھر کے دور" میں جانے سے بچایا تھا؟ وطن سے دور بیٹھے شاید آپ کو اس درد، کرب و مایوسی کا احساس نہ ہو جس سے ہم یہاں گزر رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال سے نمٹنے اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان وسیع تر ہونے والی خلیج کو پاٹنے کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات کیے جائیں بصورت دیگر اس خلیج کے دونوں دونوں کناروں کے درمیان عوام کے خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔ اس سلسلے میں پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نئی حکومت عوامی قربت حاصل کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے اور ان تمام غیر ملکی احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرے جس کے باعث ملک کو اتنے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ اس وقت وطن عزیز کو دہشت گردی کے علاوہ بجلی، توانائی، گیس کے بحران، مہنگائی، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور قوم پرستی جیسے مسائل کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم نے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہے یا یہاں امریکی مفادات کی جنگ لڑنی ہے؟ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔
 
Top