لافانی عشق - منیر الدین احمد

موبی

محفلین
‫منیر الدین احمد



لافانی عشق



اگراس روز کوئی واقف کارمجھے اوہلسڈورف کے قبرستان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ، تو یہی سمجھتا کہ میںکسی جنازے میں شرکت کرنے کے لئے آیا تھا۔جب کہ اس چیز کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میری آمد ایک ٹورسٹ کی طرح تھی ، جسے سیاحت کا شوق شہر کے مختلف حصوں میںلئے لئے پھرا تھا اور اب قبرستان کی باری آئی تھی۔ میرے لئے ہمبرگ کے قبرستان اوہلسڈورف میں داخل ہونے کاوہ پہلا موقعہ تھا۔میں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اور کئی بار وہاں پر جانے کا ارادہ بھی باندھ چکا تھا۔مگرہمیشہ کوئی دوسرا کام نکل آتا تھا اور مجھے اپنا پروگرام بدلنا پڑتا تھا۔ یہ بھی نہیں ہے کہ مجھے وہاں پر جانے کی کچھ ایسی جلدی تھی۔ قبرستان میں آخرسب کو ایک روز پہنچنا ہی ہے۔آج نہ سہی ، کل کوہماری باری بھی آ جائے گی۔ مگرمیتوں والی کالی گاڑی میں وہاں پر پہنچائے جانے سے پہلے میں خود اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ سب کچھ سچ ہے، جو اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے ۔یہاں تک کہ بعض لوگ اسے باغ عدن قرار دیتے ہیں۔بہر صورت ہمبرگ کے باغوں میں کوئی اس کا مثیل نہیں ہے۔

اوہلسڈورف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کارقبہ دنیا کے کسی بھی قبرستان سے بڑا ہے۔اتنا بڑا کہ اس میں ایک دو چھوٹے موٹے شہر سما سکتے ہیں۔ اس میں پختہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں ، جن پر موٹر کاریں چلتی ہیں۔چونکہ فاصلے اتنے لمبے چوڑے ہیں کہ کسی دور دراز علاقے میںپائے جانے والے قطعے تک پہنچنے کے لئے پیدل چلنے والوں کوآدھا پونا دن درکار ہوتا ہے۔ اس لئے قبرستان کی اندر اومنی بسیں چلتی ہیں۔ جن کا پھیرا کہیںدو تین گھنٹوں میں جا کر پورا ہوتا ہے ۔ چونکہ بڑے گیٹ سے مختلف سمتوں میں جانے والی بسیں ہر پندرہ منٹوں کے بعد چھوٹتی ہیں ، اس لئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بارہ پندرہ بسیں ہمہ وقت قبرستان کے اندر گھوم رہی ہوتی ہیں۔ البتہ قبرستان کی حرمت کے پیش نظر ان کی رفتار دھیمی رکھی جاتی ہے اور وہ اتنی خاموشی سے چلتی ہیں ، جیسے وہ ماتم کے جلوس کا حصہ ہوں۔ بس پاس سے گذرجائے، تو خبرہی نہیں ہوتی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہوا کا ایک جھونکا سرسراہتا ہوا نکل گیا ہو۔ جرمنی میں یوں بھی سڑکوں پر گاڑیوں کو ہارن بجانے کی ممانعت ہے اور صرف استثنائی حالات میں،مثلاًٹکر لگنے کا خطرہ پیدا ہوجانے پر، ان کو ہلکی سی آواز میں چیں کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ قبرستان میں یہ آزادی بھی سلب کر لی جاتی ہے۔ کیا مجال ہے کہ پورے قبرستان میں کسی قسم کی کھڑکھڑاہٹ یا شور شرابا سننے میں آئے۔ رونے دھونے یا کھلے بندوں ماتم اور واویلا کرنے کا یوں بھی یورپ میں رواج نہیں ہے ۔ بہت ہوا تو پس ماندگان کو اپنی تر آنکھیں پونچھتے ہوئے اوررومال میںناک سڑکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر کوئی فرداپناغم نہیں دکھاتا اور نہ ہی کوئی پچھاڑ کھا کر گرتا ہے۔ جنازے میں شرکت کرنے والے پھول لے کر آتے ہیںاور اس روز اپنا بہترین لباس پہنے ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر شرکاءخاص طور پر اس موقعہ کے لئے نئے کپڑے خریدتے ہیں، جو عام طور سے کالے رنگ کے ہوتے ہیں، جو ماتم کیلئے مخصوص ہے۔

میں نے بھی اس روز کالا سوٹ پہن رکا تھا ۔میں نے بس لینے کی بجائے پیدل چلنے کا ارادہ کیا ، تا کہ گاہے بگاہے سڑک کو چھوڑ کر دائیں بائیں پائی جانے والی قبروں کے قطعات پر نظر ڈالتا چلوں۔ پس ماندگان عام طور سے اپنے عزیزوں کی قبروں پر پھول بوٹے لگاتے ہیں اور مذہبی تہواروں پر یا ان کی برتھ ڈے منانے کے لئے قبروں پر جمع ہوتے اور گویا ان کی معیت میں پکنک کرتے ہیں ۔ اب تو یہ رواج ہو چلا ہے کہ قبرستان کی انتظامیہ یا کسی فرم کو بیس پچیس برسوں کے لئے قبر کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے ۔ یوں بھی قبروں کو پچیس برسوں کے بعد ہموار کر دیا جاتا ہے ، تا کہ نئی قبریں اس جگہ پر بنائی جا سکیں۔

موسم خزاں اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔رات بھر بارش ہوتی رہی تھی اور اگرچہ اس روز صبح سے دھوپ نکلی ہوئی تھی ہوا میں اچھی خاصی خنکی تھی۔قبرستان میں زائرین کی تعداد کچھ ایسی زیادہ نہ تھی۔ عام طور سے جنازے متعلقین کی سہولت کی خاطر دوپہر کے بعد رکھے جاتے ہیں۔ وہاں پر موجود لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کسی جنازے میں شرکت کی خاطر آئے تھے یا میری طرح بس یونہی گھوم پھر رہے تھے۔ آخر میرے وہاں پر ہونے کی بھی تو کوئی خاص وجہ نہ تھی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھ لیتا کہ تم یہاں پر کیا کرنے آئے ہو ، تو میں کیا جواب دے سکتا تھا۔قبرستان میں سیاحت کی خاطر آنے کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ضرور شرمندگی ہوتی، اس لئے کہ وہاں پر لوگ اپنے عزیزوں کو دفن کرنے یا ان کی قبروں پر سوگ منانے کی خاطر آتے ہیں۔ ان کو پتہ چلے کہ میں اپنے سیاحتی مشغلے کو پورا کرنے کے لئے آیا تھا ، تو انہیں یقینا دکھ ہوگا۔ اس لئے میں بھی دوسروں کی طرح سنجیدہ صورت بنائے ہوئے چل رہا تھا۔ بس فرق اتنا تھا کہ سوگواروں کے ہاتھوں میں پھولوں کے گلدستے تھے اور میں خالی ہاتھ تھا۔

پھر میں نے دیکھا کہ مجھ سے آگے چلنے والے لوگ راستے میں پڑنے والے چیپل کی طرف مڑنے لگے، جو سڑک سے تھوڑے فاصلے پر تھا اور جہاں پر پہلے سے بہت سے لوگ موجود تھے۔ میں بھی ادھر کو مڑ گیا، جیسے مجھے وہیں پر جانا تھا۔ میں نے سوچا کہ قبرستان میں آن نکلا ہوں ، تو کیوں نہ لگے ہاتھوں کسی جنازے کی کاروائی بھی دیکھتا چلوں۔ عام طور سے جنازوں میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور جو چاہے ان میں شامل ہو سکتا ہے ۔ آج کل تو لوگ شادی بیاہوں بلکہ عام ہاᄊس پارٹیوں میں بھی بن بلائے آن گھستے ہیں۔ چیپل کے دروازے پر ماتمی کاروباری ادارے کے کارکن لوگوں سے پھولوں کے گلدستے وصول کر رہے تھے ، جن کو قبر تیار ہونے پر مناسب طریق سے سجایا جانا تھا۔ دروازے کے پہلو میں ایک اسٹینڈ بنا ہوا تھا ، جس پر کاغذ اور قلم دھرئے تھے ۔ سب لوگ باری باری اپنے نام ایک فہرست میں درج کرتے جاتے تھے ، جس کو آخر میں پس ماندگان کے حوالے کیا جانا تھا ۔ میں نے بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنا نام فہرست میں درج کر دیا اور گویا باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ماتمی بن گیا ، جس کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا ۔

چیپل اچھاخاصا بھرا ہوا تھا ۔ مجھے آخری قطار میں سیٹ ملی۔حاضرین میں کوئی جانی پہچانی شکل دکھائی نہ دیتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ میں عام طور سے لوگوں کی صورتوں کو بھول جاتا ہوں اور ان کے نقوش اس طرح میری یادداشت کی سلیٹ پر سے مٹ جاتے ہیں ، جیسے کسی نے اس پر گیلا کپڑا پھیر دیا ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مجھے ان کی باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔ بعض اوقات لوگ مجھے ملنے کیلئے آتے ہیں اور اگر مجھے پہلے سے ان کے بارے میں بتایا نہ گیا ہو ، تو میں ان سے کسی اجنبی کی طرح ملتا ہوں۔ پھر جب وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ہماری ملاقات کب ہوئی تھی ، تو مجھے اس ملاقات کی ایک ایک بات یاد آ جاتی ہے،حتیٰ کہ وہ باتیں بھی جنکو میرے ملاقاتی بھلا چکے ہوتے ہیں ۔

جب پادری نے اپنے خطبے میں مرحومہ سبیلے مارکس کے بچپن اور نوجوانی کا ذکر شروع کیااور بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کی یاد تازہ کرانے لگا ،تو مجھے اس کی باتیں جانی پہچانی لگیں۔ میں عین اسی زمانے میں جرمنی میں پہنچاتھا، جہاں پر دولت کی ابھی وہ ریل پیل نہ تھی، جو آج کل دیکھنے میں آتی ہے۔ البتہ اس وقت تک دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی کساد بازاری کا زمانہ گذر چکا تھا اور جرمن پہلی بار چھٹیوں میں غیر ملکوں کی سیاحت کے لئے جانے لگے تھے۔ مگر ملک میں مکانوں کی کمی تھی، جس کے سبب ایک ایک فلیٹ میں دو اور تین فیملیاں رہ رہی تھیں۔ یونیورسٹی کے طالب علموں کی رہائش کے لئے ہوسٹل نہیں پائے جاتے تھے اور انہیں پرائیویٹ فیملیوں کے پاس کمرہ کرائے پر لے کر رہنا پڑتا تھا ۔طالب علموں کوعام طور سے کسی مہمان کو اپنے پاس ٹہرانے کی ممانعت تھی۔ بلکہ اگر کوئی ملنے والا آتا تھا ، تو اس کو شام کے دس بجے سے پہلے فلیٹ سے رخصت ہونا پڑتا تھا۔ بیشتر گھروں میں سرے سے کسی لڑکی کو اپنے ساتھ لانے کی اجازت نہ تھی۔

پادری بتا رہا تھا کہ سبیلے کے ماں باپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کا باپ جنگ کے خاتمے پر روسی قید میں تھا اور ماں کو بیٹی سمیت ایک فیملی کے ساتھ مل کرایک مختصر فلیٹ میں رہنا پڑا تھا ۔ان کے پاس صرف ایک کمرہ تھا،جس میں ان کو نہ صرف سونا ، بلکہ کھانا بھی پکانا ہوتا تھا۔ گویا سبیلے کا واسطہ پہلے دن سے تنگی اور عسرت سے پڑا تھا ، جس پر قابو پانا اس کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج بن گیاتھا۔ وہ سارا دن ایک فرم میں سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کے بعد شام کو ایک ایوننگ اسکول میں پڑھنے کے لئے جاتی تھی، جس کا سلسلہ برسوں تک چلتا رہا۔ تب کہیں جا کروہ جمنازیم کا آخری امتحان ابیٹوᄊر پاس کر سکی تھی، جس کے بغیر جرمنی میں یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ اس طرح اس کی ماں کی عمر بھر کی خواہش پوری ہوئی تھی، جو خود تو یونیورسٹی میںتعلیم حاصل نہ کر سکی تھی، مگر چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کو یہ چانس ملے۔

جرمنی میں لڑکیوں کے ناموں میں سبیلے کچھ ایسا عام نہیں ہے۔ خال خال اس نام کی لڑکیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اتفاق ایسا تھا کہ میں طالب علمی کے دنوں میں اس نام کی ایک لڑکی کوجانتاتھا،جس کو میں نے پہلی بار یونیورسٹی کے کیفے ٹریا میں دیکھا تھا۔میانہ قد، قدرتی بلونڈ ، مضبوط ہاتھ پاᄊں، بلیوں جیسی نیلی آنکھیں ۔ ایک میں ہی نہیں دوسرے طالب علم بھی اس کے حسن پر نثار ہونے کو پھرتے تھے۔مگر وہ ہم سب کو نظر انداز کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔میرے دوستوں میں سے کسی کو پتہ نہ تھا کہ وہ کون تھی اور کیا پڑھتی تھی۔ ہمیں تو یہ شبہ ہونے لگا تھا کہ وہ سرے سے یونیورسٹی کی طالبہ ہی نہیں۔ اس زمانے میں بہت سی لڑکیاں اور لڑکے یونیورسٹی کے کیفے ٹریا میں شام کے وقت جمع ہو جاتے تھے ۔ میں نے جانا کہ وہ بھی ان میں سے ایک ہو گی۔پھر ایک روز میں کیفے ٹریا میںچائے کی پیالی اور کیک اٹھائے ہوئے بیٹھنے کے لئے خالی کرسی کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ اس نے مجھے یہ بتانے کے لئے اشارہ کیا کہ اس کے پہلو میں پڑی ہوئی کرسی خالی ہے ۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ اس نے جواب میں اپنا نام بتایا اور کہا کہ وہ مجھے فلسفہ کے پروفیسر وائیس ایکر کے لیکچروںمیں کئی بار دیکھ چکی ہے۔یہ لیکچرجمعرات کی شام کو یونیورسٹی کے بڑے ہال میں ہوتا تھااور اس میں شمولیت کے لئے ساری یونیورسٹی امڈ پڑتی تھی۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سبیلے بھی ان لیکچروں کو سنتی تھی۔ اس طرح ہمیں بات کرنے کے لئے موضوع مل گیا۔ بلکہ ہم کیفے ٹریا سے اٹھ کر اکھٹے اس روزلیکچر سننے کے لئے گئے، جو دس بجے ختم ہوتا تھا اور جس کے بعد ہر کسی کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی تھی۔ مجھے سحری کے وقت اٹھنا اور مزدوری کی خاطراپنی جاب پر پہنچنا تھا ۔ سبیلے نے کہا کہ اسے بھی سویرے سویرے فرم میں جانا تھا ، جہاں پر وہ سیکرٹری تھی۔ ہم نے اگلے روز شام کے وقت کیفے ٹریا میں ملنے کا وعدہ کیا۔ میں اس رات ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا ۔ مجھے اپنی خوش بختی پر اعتبار نہیں آ رہا تھا ۔

اس کے بعد ہمارا مل بیٹھنا روز کا معمول بن گیا۔ میں نے اندازہ لگایاکہ وہ میرے سوا وہاں پر کسی کو نہیں جانتی تھی اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ اگرمیں نے کسی دوست یارسے اس کا تعارف کرانا چاہا ، تو اس نے کسی قسم کی گرمجوشی نہ دکھائی۔میرے دوستوں کا خیال تھا کہ سبیلے کی ناک بہت اونچی ہے۔ مگراس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا کہ مجھے بھلا کونسا سرخاب کا پر لگا ہوا تھا کہ وہ میرے ساتھ دوستی کرنے کو پھرتی تھی۔

پھر ایک روز اس نے مجھے اپنے دوستوں کے ہاں چلنے کو کہا ، جو ہفتے میں ایک بار ملتے تھے اور ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ ان دنوں میں وہ دیس دیس کی لوک کہانیاں مل کر پڑھ رہے تھے اور اس بارے میں گفتگو کرتے تھے کہ ان کہانیوں کے پیچھے کیا حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ مجھ سے وہ ہندوستان کے فولک کلچر پر بات کرنا چاہتے تھے۔پتہ چلا کہ ان میں سے اکثراسکول کے زمانے میں سبیلے کے کلاس فیلو رہ چکے تھے ۔ ان میں سے دو یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے ، جبکہ دوسرے بنکوں یا دیگر کمرشل اداروں میں ملازم تھے ۔ مگر سبیلے کے سوا وہاں پر اور کوئی لڑکی موجود نہ تھی۔وہاں پر بھی میں نے محسوس کیا کہ سبیلے کی سب کیساتھ دوستی تھی ، مگر یاری کسی کے ساتھ نہ تھی۔ خود میری حیثیت ایک اچھے واقف کار سے بڑھ کر نہ تھی۔میں نے اگر کبھی اس بارے میں اس سے بات کرنابھی چاہی ، تو وہ ٹال گئی۔میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ اسکی توقعات بہت اونچی ہیںاور وہ شاید کسی شہزادے کی راہ تک رہی ہے۔

میںاپنی طالب علمی کے دنوں کی یادوں میں ڈوبا ہوا کہیں کا کہیں نکل گیا تھا ۔ پھر میں نے پادری کو کہتے ہوئے سنا کہ سبیلے مارکس نے بہت متنوع زندگی بسر کی تھی۔ مگروہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ آیا وہ اس زندگی سے خوش بھی تھی یا نہیں۔ قرین قیاس تھا کہ اس کے ماں باپ کے درمیان پیدا ہو جانے والی ناچاقی کا اثر سبیلے اور اس کے بھائی پر بھی پڑا ہو گا ، کیونکہ معاملہ طلاق تک پہنچا تھا ۔ بچے ماں کے ساتھ مقیم رہے تھے ، جب کہ باپ ایک دوسری عورت کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ سبیلے کا بھائی اپنے باپ کے بہت قریب تھا ، جب کہ سبیلے نے باپ سے ملنا تک چھوڑ دیا تھا ۔

مجھے یاد آیا کہ میری واقف کار سبیلے کے ماں باپ کے درمیان بھی ناچاقی تھی ۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کا باپ اچھا خاصا مالدار تھا ، مگرماں کو اتنی تھوڑی رقم خرچ کے لئے دیتا تھا کہ اس کو گھر کا خرچ چلانے کے لئے ملازمت کرنی پڑتی تھی۔ اسکول کے دنوں میں سبیلے ایک اخبار اپنے محلے کے خریداروں میں تقسیم کر کے تھوڑے سے پیسے کماتی رہی تھی۔ صرف اس کا بھائی اس طرف نہیں جاتا تھا۔ سبیلے کو شبہ تھا کہ جب وہ ہفتے کے ہفتے باپ کو ملنے کے لئے جاتا تھا ، تو وہاں سے اس کو پیسے مل جاتے تھے، جو اتنے کھلے ہوتے تھے کہ صاحبزادے نے چھوٹی عمر میں ہی سیگریٹ نوشی کی لت ڈال لی تھی۔ ماں کو اس بات کا بہت دکھ تھا۔ اور جب کبھی سبیلے کا باپ ان کے گھر آتا تھا ، تو اس بات پر دونوں کے درمیان خوب جھڑپ ہوتی تھی۔

پادری نے بیان کیا کہ سبیلے مارکس پوری پوری آرٹسٹ تھی۔ بچپن میں اس کو پیانوبجانا سکھایا گیا تھااورخیال کیا جاتا تھا کہ اس میں صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگر وہ باقاعدگی سے مشق کرتی رہی، تو بہت بڑا نام پیدا کرے گی۔ مگر اس نے پیانوبجاناچھوڑ دیا اور بیلے ڈانس کی کلاسیں لینے لگی۔ یہاں بھی اس کو سراہا گیا اور اسے ایک دو بار اوپیرا ہاᄊس میں پرفارمنس کا موقعہ ملا ۔بہت جلد اس سے بھی اس کا جی بھر گیا اور اس نے ڈیزائن اور فیشن کے کپڑوں کی طرف توجہ دینی شروع کی۔ پھر ایک بار کامرانی اسکے قدموں کو چھومنے لگی۔ مگر اس کی طبیعت میں ایسا تلون پایا جاتا تھا کہ اس کام سے بھی اس کا جی اوب گیا۔اس نے ایک امریکن سے شادی کی اور گھر بھی بسایا۔ مگر بے اولاد رہی۔ آخری برسوں میں وہ ہمبرگ لوٹ آئی تھی، جہاں کا وہ پودا تھی اور جہاں پر اس کے دوست بستے تھے۔جنازے میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے شبہ نہ کیا جا سکتا تھا کہ اسکا اپنے دوستوں پر اعتماد غلط نہ تھا۔

آخر میںکالے کپڑوں میں ملبوس جنازے کے چھ کہار چیپل کے پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اورتعظیم کی خاطر مرنے والی کے آگے اپنے ہیٹ اتار کر سر جھکانے کے بعد تابوت کو اٹھا کر باہر کی طرف چل دیئے۔پہلی قطار میں بیٹھنے والے انکے پیچھے اور پھر دوسری اور تیسری قطار والے باہر نکلے۔ میں چونکہ آخری قطار میں بیٹھا تھا ، اسلئے میری باری سب سے آخر میں آئی۔ چیپل کے دروازے پر مرنے والی کے پس ماندگان کھڑے تھے ، جنکے ساتھ باہر نکلنے والے اظہار تعزیت کرتے تھے۔ میں نے بھی ایسا کیا اور دوسروں کی طرح میرے ہاتھ میں بھی ایک کارڈتھما دیا گیا ، جو قبرستان کے بڑے گیٹ پر واقع ایک ریستوراں کا تھا ۔ پس ماندگان کی طرف سے سب کو تدفین کے بعد وہاں پر جمع ہونے اورتعزیتی عصرانے میں شامل ہونے کی دعوت تھی۔ میںنے سوچا کہ مجھے وہاں پر جا کر کیا لینا ہے۔ میں ماتم میں شریک ہونے والوں میں سے کسی کو نہیںجانتا اورمرنے والی سے بھی واقفیت نہیں رکھتا۔اس لئے میرا وہاں پر جانا بیکارہے۔ اب اگلا مرحلہ تدفین کا تھا ۔عیسائی رسوم و رواج کے بارے میں مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ اس لئے میں نے سوچا کہ لگے ہاتھوں تدفین بھی دیکھ لی جائے ،تو حرج کی بات نہیں۔ تدفین کے بعد میرا ارادہ چپکے سے وہاں سے کھسک جانے کا تھا۔

جنازے کے پیچھے ماتمی جلوس کھدی ہوئی قبر کی طرف، جو وہاں سے زیادہ دور نہ تھی،بطخوں کی چال میں روانہ ہوا ۔اکثر لوگ دو دو کی جوڑیوں میں جا رہے تھے۔ صرف میں اکیلا تھا اور سب سے آخر میں چل رہا تھا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان عورت میری طرح چھڑی چھانٹ تھی ۔ اس کو بھی شاید کوئی جوڑی نہ ملی تھی۔ عین اس لمحے میں جب میں اس کی طرف تک رہا تھا ، اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے آگے بڑھ کر میرے بازو میں اپنابازو ڈال دیا ، جیسے ہم ایک دوسرے کو ہمیشہ سے جانتے ہوں۔ تابوت کے قبر میں اتارے جانے کے بعدپادری نے بائیبل میں سے چند آیات پڑھ کر سنائیں اورکھلی ہوئی قبر کے پہلو میں پڑے ہوئے ایک کھرپے کو اٹھا کر تین بار مٹی کو قبر پر ڈالتے ہوئے مٹی کے مٹی میں مل جانے کی بات کی۔ اس کی پیروی میں باری باری سارے سوگواروںنے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پھول تابوت پر نچھاور کئے اور پھر تین تین مٹھیاں مٹی کی اس پر ڈالیں۔ اس کاروائی پر بہت سا وقت لگ گیا ۔سب سے آخرمیں ہماری باری آئی اور میں نے اور میری جوڑی والی عورت نے قبر پر مٹی ڈالی۔ اس سارے عرصے میں ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوئی تھی، البتہ اس کے جسم سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو مجھے مسحور کر رہی تھی۔ میں نے قیاس کیا کہ وہ مرحومہ سبیلے مارکس کی سہیلی ہو گی۔اب مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اگرمیری جوڑی والی محترمہ تعزیتی عصرانے میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو پھر میرے لئے وہاں سے چپکے سے کھسک جانا ممکن نہ ہو گا ۔ یوں بھی اب میں اکیلا نہ تھا اور محترمہ کی معیت میںنہ صرف تعزیتی محفل میں ، جہاں پر کافی اور کیک ملنے کی امید کی جا سکتی تھی، بلکہ کہیں بھی جانے کے لئے تیار تھا۔

جب سب لوگ کھلی قبر پر مرحومہ سبیلے سے رخصت لے چکے اور ابھی اس پر مٹی ڈال کر ہموار کرنے کا مرحلہ باقی تھا ، جو بعد میں گورکن سرانجام دیتے ہیں، توسوگواروں کا قافلہ ریستوراں کی طرف چل دیا ۔ میری جوڑی والی محترمہ بدستور میرے بازو میں بازو ڈالے ہوئے تھی۔ اس نے کہا کہ اس کا نا م یوں توکاتھرین ہے ، مگرمیں اس کو کاتھی کے نام سے پکار سکتا ہوں۔ مرحومہ سبیلے کے بارے میں اس نے کہا کہ اس کے ساتھ اس کی دوستی نہیں تھی۔ بس وہ ایک دوسرے کو جانتی تھیں، جیسے ایک ہی بلڈنگ میں رہنے والے ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں۔

جب ہم ریستوراں میں پہنچے ، تو گول میز اور دوسری مرکزی سیٹوں پر لوگ قبضہ جما چکے تھے۔ ہمارے لئے ایک چھوٹے میز پر ، جو جرمن محاورے میں بلیوں کا میز کہلاتا ہے، دو کرسیاں باقی بچی تھیں۔کاتھی میرے پہلو سے لگ کر اس طرح بیٹھی ہوئی تھی، جیسے ہم سچ مچ ایک نوبیاہتا جوڑا ہوں۔ سبیلے کے بھائی نے اپنے خاندان کی طرف سے اور اپنی مرحومہ بہن کے نام پر سب حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔اس کے لئے یہ امر ڈھارس بندھانے کا موجب تھا کہ سبیلے کے دوست یار بڑی تعداد میں اس کی تدفین کے موقعہ پر موجود تھے۔ کاش وہ اس امر کو خود دیکھ سکتی اور اس کا دوستوں کی کمی کا گلہ دور ہو جاتا، جس کا اظہار وہ آخری برسوں میںکیا کرتی تھی۔

پہلا دور کافی اور کیک کا چلا ۔ اکا دکا کونیاک اور وہسکی کے آرڈر بھی دیئے جانے لگے۔ آدھ پون گھنٹے کے اندر اندر ہر طرف شراب کی بوتلیں کھل رہی تھیں اور سوگواروں کی دھیمی آوازیں لطیفوں اور قہقہوں کاروپ دھار چکی تھیں۔ ریستوراں کے ویٹر اس قدر تیزی سے آرڈر لے اور سامان خورد و نوش لا رہے تھے، جیسے ہم قبرستان کے پہلو میں نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ منڈی مویشیاں کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تھے۔ شور بڑھتا جا رہا تھا اورمجھے پہلو میں بیٹھی ہوئی کاتھی کی بات کو سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ جوں جوں شراب کا نشہ لوگوں کے سروں میں چڑھتا جاتا تھا ، تو ں توں ان کی آوازیں بلندسے بلند تر ہوتی جاتی تھیں۔ سوگواری کی فضا عیش کوشی میںڈھل چکی تھی۔

میں اس ماحول سے کسی قدربد مزہ ہو رہا تھا ۔ میں نے کاتھی سے کہا کہ کسی دوسری جگہ پر چل کر بیٹھتے ہیں ۔ مگر وہ وہاں سے اٹھنے کے لئے تیار نہ ہوئی۔ اس نے کہا : کیوں اپنی جیب سے پیسے خرچ کرنے کو پھرتے ہو ۔ یہاں پر ہر چیز مفت میں ملتی ہے ۔ کھاᄊ ، پیᄊ اور عیش کرو۔ سبیلے کا جنازہ روز روز نہیں اٹھتا۔ وہ بھی کیا یاد کرے گی کہ ہم نے اس کے غم کو کس طرح غلط کیا تھا ۔

محفل کہیں آدھی رات کو جا کر ختم ہوئی ۔سوگواروں کا گروپ ریستوراں سے باہر نکلا، تو سب کے پاᄊں لڑکھڑا رہے تھے اور وہ ایک دوسرے کو سہارا دے کر چل رہے تھے۔ کاتھی نے پھر سے میرا بازوسنبھال لیا تھا ۔ مگر اب وہ شراب کے نشے سے جھوم رہی تھی۔ اس نے کہا : جہاں چاہو مجھے لے چلو۔ اور اگر تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ، تو پھر میرے ساتھ آᄊاور آج کی رات میرے گھر پر رہو۔مجھے اس بات کے تصور سے ہی ابکائی آ رہی تھی کہ شراب کے نشے میں چور عورت کے پہلو میں جا کر رات گذاروں۔ میں نے اس کی دعوت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس کی پیش کش کو کسی دوسرے موقعے پر کیش کروں گا ۔

چند روز کے بعد کاتھی کا فون آیا اور اس نے مجھے اپنے گھر پرآنے کی دعوت دی۔ ساتھ ہی اس نے بتایا کہ سبیلے کا ذاتی سامان، جو آخر دم تک اسی بلڈنگ میں مقیم رہی تھی، بک رہا تھا ۔ اس غرض کے لئے اس کے فلیٹ کو‭"‬ اوپن ہاᄊس ‭"‬ قراردے دیا گیا تھا ۔ جو کوئی چاہے اس روز فلیٹ میں گھوم پھر کر اپنی پسند کی چیزیں چن لے اور قیمت ادا کر کے ان کو ساتھ لیتا جا ئے ۔ میں نے کہا کہ ایک خاتون کے فلیٹ میں بھلا ایک مرد کیلئے کونسی چیز ہو گی ، جس کو حاصل کرنے کی مجھے خواہش ہو سکتی ہے ۔ کاتھی نے کہا کہ چیزوں پرایک نظر ڈالنے میں کیا حرج ہے ۔ اور پھر مجھے اس کی دعوت کا پاس کرنا چاہیئے، جو ابھی تک قائم ہے ۔ مجھے یاد آیا کہ سچ مچ اس نے مجھے اپنے گھر پرآنے کی دعوت دی تھی اور میں نے اسے قبول کر تے ہوئے کہا تھا کہ وقت اور دن ہم بعد میں طے کر لیں گے ۔

میں کاتھی کے ہاںپہنچا، تو وہ سبیلے کے فلیٹ میں جانے کے لئے تیار بیٹھی تھی۔میرا خیال تھا کہ وہاں پر لوگوں کی خوب ریل پیل ہو گی۔ مگر میری توقع کے برعکس بس ایک دو ہمسائے گھر کی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے ۔ ہم نے سارے کمروں کا چکر لگانے کے بعد ڈرائینگ روم کی ایک الماری میں رکھی ہوئی کتابوں کو دیکھنا شروع کیا ۔ کاتھی کا خیال تھا کہ مجھے کوئی نہ کوئی نادر کتاب ضرور مل جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ کتابیں زیادہ تر جرمن ادب سے متعلق تھیںاور سب میری پڑھی ہوئی تھیں۔یوں بھی بیشتر کتابیں پیپر بیک تھیںاور ان کا کاغذ پیلا پڑ چکا تھا ۔ کتابیں انسان اس سے بہتر حالت میں کسی بھی اسٹور میں خرید سکتا ہے ، جہاں پر نیا ایڈیشن چھپنے سے پہلے سابقہ ایڈیشن کی باتی ماندہ کتابیں ردی کے بھاᄊ بکتی ہیں۔

اس دوران میں کاتھی نے دوسری الماری میں رکھے ہوئے فوٹو البم نکال لئے تھے اور ان کی ورق گردانی کر رہی تھی۔ اچانک وہ ایک تصویر پر آن کر رک گئی۔ لگتا تھا کہ وہ کسی کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں کتابوں کو الماری میں واپس رکھنے کے بعد اس کی طرف گیا ، تو کاتھی نے مجھ پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور پوچھا: کیا یہ تصویر تمہاری نہیں ہے؟

میں نے فوٹو البم کو اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے تصویر پر نظر ڈالی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سچ مچ میری تصویر تھی، جو اس شام کھینچی گئی تھی ، جب میں سبیلے کے ساتھ اسکے دوستوں کی محفل میں شامل ہونے کیلئے گیا تھا ، جو دیس دیس کی لوک کہانیاں مل کر پڑھتے تھے اور مجھ سے ہندوستان کے فولک کلچر پر بات کرنا چاہتے تھے ۔

اب اس بات میں کوئی شبہ باقی نہ تھا کہ میں اسی سبیلے کے جنازے میں شریک ہوا تھا ، جس کے ساتھ مجھے طالب علمی کے زمانے میں پیار تھا ۔ تصویر کے نیچے سبیلے نے لکھ رکھا تھا:‭"‬ لافانی عشق، جس کو میں ساری عمر نہ بھلا سکوں گی‭"‬ ۔



(کمر فیلڈ۔ جرمنی۔ ۷ اگست ء۲۰۰۲


















‭‬
 
Top