ام اویس
محفلین
اسماء سورة
عم پارے کی دوسری سورة النازعات کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نام اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة الساھرہ اور سورة الطامہ بھی کہا جاتا ہے۔ مکی سورة ہے اورچھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔
روابط
اس سے پہلی سورة یعنی “النباء” میں قیامت کے متعلق کفار کے انکار اور سوال کا جواب دیا گیا ہے اور قیامت کے واقع ہونے کو دلائل سے ثابت کرکے منکرین کی سزا اور متقین کی جزا کا بیان کیا گیا۔ اب سورة النازعات میں قسم کے ساتھ، قیامت کی ابتداء یعنی موت کی کیفیت کا بیان ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی قیامت شروع ہوجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے “ من مات فقد قامت قیامتہ” (جو شخص مرگیا گویا اس کے لیے قیامت واقع ہو گئی)۔ یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موت قیامت کا ایک سبب ہے اور جس طرح انسان سے اس کی موت زیادہ دور نہیں اسی طرح قیامت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔
ربط آیات: 1 تا 5
سورت کے شروع میں فرشتوں کی ان پانچ صفات کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کی موت اور نزع کے عالم سے ہے۔ فرشتوں کی قسم اس لیے کھائی گئی کہ فرشتے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے الله تعالی کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب دنیا کے تمام اسباب ختم ہو جائیں گے فرشتے ہی الله تعالی کے حکم سے مختلف کام انجام دیں گے۔
وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١﴾
قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی صفت: نازعات کا لفظ “نزع “ سے نکلا ہے جس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں اور غرقاً اس کی تاکید ہے جس کا معنی ہے، ڈوب کر یعنی پوری شدت کے ساتھ۔
اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو کافروں کی روح نکالتے ہیں۔ کافر کی روح آخرت کی مصیبتوں سے گھبرا کر اس کے بدن میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، اس لیے فرشتے اس کے بدن میں گُھس کر سختی سے کھینچ کر اس کی روح کو باہر نکالتے ہیں، جس سے اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔
بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کافر کی جان بہت آسانی سے نکل گئی ہے لیکن یہ آسانی صرف ظاہری ہوتی ہیں اس کی روح کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ الله تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ اس سختی سے روحانی تکلیف اور سختی مراد ہے ، دیکھنے والے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا (2)
اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو مؤمن کی جان نکالنے آتے ہیں۔ فرشتے مؤمنوں کی روح کو نہایت آسانی اور سہولت سے نکالتے ہیں، شدت اور سختی نہیں کرتے؛ کیونکہ مؤمن روح کے سامنے برزخ کا انعام اور ثواب ہوتا ہےجسے دیکھ کر وہ جلدی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہوا یا پانی، کسی چیز میں بند ہو اور اس کا ڈھکن کھول دیا جائے، وہ نہایت آسانی اور تیزی سے باہر نکل جاتی ہے، اسی طرح مؤمن کی روح نکلتی ہے۔ یہاں بھی آسانی سے مراد روحانی آسانی ہے۔ بعض اوقات مؤمن پر موت کی سختی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا (3)
پھر (فضا میں) تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو انسان کی روح نکالنے کے بعد تیزی سے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص دریا میں تیرتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اسی طرح فرشتے بھی آسانی اور تیزی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۔ (4)
پھر تیزی سے لپکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھی صفت: اس سے مراد یہ ہے کہ جو روح ان فرشتوں کے قبضے میں ہے اسے لے کر اچھے یا برے ٹھکانے پر تیزی سے پہنچاتے ہیں۔ روح کے بارے میں جو بھی حکم ہوتا ہے یعنی مؤمن کی روح کو جنت کی فضا اور نعمتوں کے مقام پر اور کافر کی روح کو دوزخ کی فضا اور عذاب کی جگہ پر فوراً پہنچا دیتے ہیں۔
فائدہ: قرآنِ کریم میں اصل لفظ، صرف اتنا ہے کہ ’’قسم اُن کی جو سختی سے کھینچتے ہیں‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتے ہیں جو کسی کی (عام طور سے کافروں کی) رُوح کو سختی سے کھینچتے ہیں، اور کسی کی ( عام طور سے مومنوں کی) روح کو آسانی سے اس طرح کھینچ لیتے ہیں جیسے کوئی گرہ کھول دی ہو۔ پھر وہ ان رُوحوں کو لے کر تیرتے ہوئے جاتے ہیں، اور جلدی جلدی اُن کی منزل پر پہنچا کر ان احکام کے مطابق اُن کا انتظام کرتے ہیں جو ﷲ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں دئیے ہوتے ہیں۔
پہلی چار آیتوں کا یہی مطلب ہے۔
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا (5)
پھر جو حکم ملتا ہے اس (کو پورا کرنے) کا انتظام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچویں صفت: فرشتوں کا آخری کام یہ ہوتا ہے کہ الله تعالی کے حکم کا انتظام کرتے ہیں جس روح کو ثواب اور راحت کا حکم ہو اس کے لیے راحت کے اسباب جمع کر دیتے ہیں اور جس روح کے لیے تکلیف اور عذاب کا حکم ہو اس کے لیے عذاب کے اسباب کا انتظام کرتے ہیں۔
فائدہ: موت کے وقت فرشتوں کا آنا اور انسان کی روح نکال کر آسمان کی طرف لے جانا پھر اس کے اچھے یا برے ٹھکانے پر جلدی سے پہنچا دینا اور وہاں ثواب یا عذاب اور راحت یا تکلیف کا انتظام کرنا ان آیات سے ثابت ہے۔ یہ ثواب و عذاب، قبر یعنی برزخ میں ہوگا۔ حشر کا عذاب و ثواب اس کے بعد ہوگا۔صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
سوال: غیر الله کی قسم کھانا جائز نہیں۔ الله تعالی نے خود یہاں غیر الله کی قسم کھائی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
۱- الله تعالی کی ذات کسی حکم اور قانون کی پابند نہیں، یہ حکم مخلوق کے لیے ہے۔ مخلوق کو غیر الله کی قسم سے اس لیے منع کیا گیا کہ کہیں قسم کھانے والا اس چیز کو ایسا عظیم اور بڑا نہ سمجھنے لگے جیسا الله کو سمجھنا چاہیے۔
۲- یہاں مضاف محذوف ہے۔ اصل عبارت یوں ہے “ و ربُّ النّٰزِعٰتِ “ روح کھینچنے والے فرشتوں کے رب کی قسم۔
فائدہ : بعض مفسرینِ کرام نے فرمایا ہے کہ نازعات سے مراد ستارے ہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق ستارے رات کے وقت اپنے آپ کو کھینچ کر لاتے ہیں۔ جس طرح الله کی قدرت انہیں ڈوب جانے کے بعد دوبارہ طلوع اور روشن کر دیتی ہے اسی طرح یہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ ان مفسرین کے قول کے مطابق ناشطات سے مراد ایسے ستارے ہیں جو چلنے والے ہیں اور السابحات سے مراد وہ ستارے ہیں جو اپنے دائرے میں تیرتے ہیں اور فالسابقات سے مراد ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ستارے ہیں؛ البتہ المدبرات فرشتوں کی صفت ہے ستاروں کی نہیں ہے۔
آخری تدوین: