ام اویس
محفلین
اسماء سورت
انتیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام التکویر ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة کوّرت اور اذا الشمس کوّرت بھی کہا جاتا ہے۔
سورة التکویر کی اہمیت:
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مجھے سورۃ ھود ، الواقعۃ، المرسلات، عم یتساءلون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے۔
(مفہوم اردو) سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن
حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ پسند کرے کہ قیامت کے دن کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اس کو چائیے کہ إذا الشمس كورت اور إذا السماء انفطرت اور إذا السماء انشقت پڑهے، کیونکہ یہ سورتیں قیامت کے احوال واہوال کو بیان کرتی ہیں۔
(مفہوم اردو) سنن ترمذي، كتاب تفسير القُرآن
ربط سورة:
۱- سورة عبس میں بیان کیا گیا تھا کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ اس کی وحشت سے ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی اور وہ اپنے قریبی اور پیارے رشتوں سے بھی دور بھاگے گا۔ سورة التکویر میں قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد اس سے اگلے مرحلے کا بیان ہے کہ میدان حشرمیں ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر مظلوم کی فریاد سنی جائے گی۔
۲- سورة عبس میں عظمتِ قرآن کا بیان تھا، سورة التکویر میں قرآن مجید کی عظمت و صداقت کے ثبوت کے طور پر جس پر نازل ہوا یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور اس کو لانے والے فرشتے یعنی جبرائیل علیہ السلام کی صفات بیان کی گئیں ہیں۔
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1)
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورة التکویر کی ابتدا میں قیامت کی بارہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی چھ جب پہلا صور پھونکا جائے گا اس وقت ظاہر ہوں گی اور آخری چھ دوسرے صور کے پھونکے جانے کے وقت ظاہر ہوں گی۔
قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی اور سب سے بڑا حادثہ سورج کا بے نور ہوجانا ہے۔ کوّرت کے معنی میں مفسرین کرام کے دو قول ہیں۔
۱- “کورت” تکویر سے مشتق ہے اسکے معنی بےنور ہو جانے کے بھی ہیں اور ڈال دینے، پھینک دینے کے بھی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ سورج کو سمندر میں ڈال دیا جائیگا جس کی گرمی سے سارا سمندر آگ بن جائیگا۔ یعنی پہلے سورج کو بےنور کردیا جائے پھر اسے سمندر میں ڈال دیا جائے۔
“۲- کوّر” کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا ہے۔ اس میں گولائی اور جمع، دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے، عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز روشنی کا یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا اور سورج بس ایک بےنور جسم رہ جائے گا۔
سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو ﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج میں روشنی باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ: ’’جب سورج بے نور ہوجائے گا۔‘‘
چونکہ لپیٹنے کو عربی میں ’’تکویر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اس سورت کا نام سورۃ تکویر ہے۔
انتیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام التکویر ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة کوّرت اور اذا الشمس کوّرت بھی کہا جاتا ہے۔
سورة التکویر کی اہمیت:
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مجھے سورۃ ھود ، الواقعۃ، المرسلات، عم یتساءلون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے۔
(مفہوم اردو) سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن
حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ پسند کرے کہ قیامت کے دن کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اس کو چائیے کہ إذا الشمس كورت اور إذا السماء انفطرت اور إذا السماء انشقت پڑهے، کیونکہ یہ سورتیں قیامت کے احوال واہوال کو بیان کرتی ہیں۔
(مفہوم اردو) سنن ترمذي، كتاب تفسير القُرآن
ربط سورة:
۱- سورة عبس میں بیان کیا گیا تھا کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ اس کی وحشت سے ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی اور وہ اپنے قریبی اور پیارے رشتوں سے بھی دور بھاگے گا۔ سورة التکویر میں قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد اس سے اگلے مرحلے کا بیان ہے کہ میدان حشرمیں ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر مظلوم کی فریاد سنی جائے گی۔
۲- سورة عبس میں عظمتِ قرآن کا بیان تھا، سورة التکویر میں قرآن مجید کی عظمت و صداقت کے ثبوت کے طور پر جس پر نازل ہوا یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور اس کو لانے والے فرشتے یعنی جبرائیل علیہ السلام کی صفات بیان کی گئیں ہیں۔
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1)
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورة التکویر کی ابتدا میں قیامت کی بارہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی چھ جب پہلا صور پھونکا جائے گا اس وقت ظاہر ہوں گی اور آخری چھ دوسرے صور کے پھونکے جانے کے وقت ظاہر ہوں گی۔
قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی اور سب سے بڑا حادثہ سورج کا بے نور ہوجانا ہے۔ کوّرت کے معنی میں مفسرین کرام کے دو قول ہیں۔
۱- “کورت” تکویر سے مشتق ہے اسکے معنی بےنور ہو جانے کے بھی ہیں اور ڈال دینے، پھینک دینے کے بھی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ سورج کو سمندر میں ڈال دیا جائیگا جس کی گرمی سے سارا سمندر آگ بن جائیگا۔ یعنی پہلے سورج کو بےنور کردیا جائے پھر اسے سمندر میں ڈال دیا جائے۔
“۲- کوّر” کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا ہے۔ اس میں گولائی اور جمع، دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے، عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز روشنی کا یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا اور سورج بس ایک بےنور جسم رہ جائے گا۔
سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو ﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج میں روشنی باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ: ’’جب سورج بے نور ہوجائے گا۔‘‘
چونکہ لپیٹنے کو عربی میں ’’تکویر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اس سورت کا نام سورۃ تکویر ہے۔