ام اویس
محفلین
انیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام الانفطار ہے اس کے علاوہ اسے “اذا السماء انفطرت”، سورة “انفطرت” اور “سورة المنفطرہ” بھی کہا گیا ہے۔
ربط آیات: 1 تا 5
پچھلی سورت میں قیامت کے حالات و ہولناکی کا ذکر تھا اس سورة میں بھی قیامت کا تذکرہ ہے، درمیان میں غفلت پر تنبیہ کی گئی ہے۔
اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ (1)
جب آسمان چر جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہوگا کہ آسمان پھٹ جائے گا۔
فطر کے معنی کسی چیز کو لمبائی میں یوں پھاڑناہے کہ اس میں شگاف پڑجائے اور فطور شگاف کے معنی میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے انفطر کا معنی چِر جانا بھی درست ہے اور پھٹ جانا بھی، جو صورت بھی ہو اس سے آسمان میں شگاف پڑجائیں گے۔
وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْ۔تَثَرَتْ (2)
اور جب ستارے جھڑ پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آسمان پھٹ جائے گا یا چِر جائے گا تو اس پر موجود ستارے بھی ٹوٹ پھوٹ کر جھڑ جائیں گے اور بکھر جائیں گے۔
وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ (3)
اور جب سمندروں کو ابال دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ جب کڑوے اور میٹھے پانی کو آپس میں ملا دیا جائے گا۔ پھر یہ اُبل پڑے گا اور جوش مارے گا۔
سورۃ تکویر میں بتایا گیا کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی ، اور یہاں فرمایا کہ سمندروں کوابال یعنی اچھال دیا جا ئے گا ۔ فجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑنے اور شق کردینے کے ہیں یعنی شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہا دینا۔دونوں آیتوں کے معانی کو ملا کر دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے قیامت کے روز زبردست زلزلے سے پوری زمین ایک ہی وقت ہلا دی جائے گی جس کی وجہ سے سمندروں کی تہہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے لگا جہاں ہر وقت ایک بے انتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے ۔ اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہو جائے گا جن میں سے ایک آکسیجن یعنی جلانے والی ، اور دوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے اور یوں جلنے اور بھڑکنے کا ایک ایسا مسلسل عمل شروع ہو جائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی ۔ صحیح علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔
یہ تینوں حادثات پہلی بار صور پھونکے جانے کے وقت پیش آئیں گے۔
ربط آیات: 1 تا 5
پچھلی سورت میں قیامت کے حالات و ہولناکی کا ذکر تھا اس سورة میں بھی قیامت کا تذکرہ ہے، درمیان میں غفلت پر تنبیہ کی گئی ہے۔
اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ (1)
جب آسمان چر جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہوگا کہ آسمان پھٹ جائے گا۔
فطر کے معنی کسی چیز کو لمبائی میں یوں پھاڑناہے کہ اس میں شگاف پڑجائے اور فطور شگاف کے معنی میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے انفطر کا معنی چِر جانا بھی درست ہے اور پھٹ جانا بھی، جو صورت بھی ہو اس سے آسمان میں شگاف پڑجائیں گے۔
وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْ۔تَثَرَتْ (2)
اور جب ستارے جھڑ پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آسمان پھٹ جائے گا یا چِر جائے گا تو اس پر موجود ستارے بھی ٹوٹ پھوٹ کر جھڑ جائیں گے اور بکھر جائیں گے۔
وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ (3)
اور جب سمندروں کو ابال دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ جب کڑوے اور میٹھے پانی کو آپس میں ملا دیا جائے گا۔ پھر یہ اُبل پڑے گا اور جوش مارے گا۔
سورۃ تکویر میں بتایا گیا کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی ، اور یہاں فرمایا کہ سمندروں کوابال یعنی اچھال دیا جا ئے گا ۔ فجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑنے اور شق کردینے کے ہیں یعنی شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہا دینا۔دونوں آیتوں کے معانی کو ملا کر دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے قیامت کے روز زبردست زلزلے سے پوری زمین ایک ہی وقت ہلا دی جائے گی جس کی وجہ سے سمندروں کی تہہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے لگا جہاں ہر وقت ایک بے انتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے ۔ اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہو جائے گا جن میں سے ایک آکسیجن یعنی جلانے والی ، اور دوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے اور یوں جلنے اور بھڑکنے کا ایک ایسا مسلسل عمل شروع ہو جائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی ۔ صحیح علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔
یہ تینوں حادثات پہلی بار صور پھونکے جانے کے وقت پیش آئیں گے۔