قیدِ بے اختیاری

بزم خیال

محفلین
چھوٹی چڑیا چھوٹے سے پنجرے میں قید بڑی بے چینی سے جھولے سے نیچے پھر جھولے پہ اُڑ اُڑ جاتی۔بس اتنا سمجھ کر چہچہاتی کہ ایک دن یہاں سے آزادی پا کر اس سے بڑی اُڑان بھروں گی۔اور ایک دن اچانک پنجرہ کی چھوٹی سی کھڑکی کھلا پا کر اُڑان بھر جاتی۔ مگر جسے وہ آزادی سمجھ کر اونچی پرواز سے لطف لینے لگی کچھ توقف کے بعد وہی کمرہ اس بے چاری چڑیا کے لئے بڑے پنجرے میں بدل گیا۔آزادی کے جس دیپ کو وہ جلا کر مدھم ہوتی قید ِ روشنی کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔وہ ایک بار پھر اس کے لئے نا اُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے خوف میں مبتلا ہونے لگتی ہے۔بچوں کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز اب وہ خونخوار بلیوں کے پنجوں کی زد میں چلی گئی۔جہاں اسے خود کے بچاؤ کے لئے اپنے پروں کی طاقت سے زیادہ اندھیرے میں چمکتی آنکھوں سے اوجھل رہنے میں زندہ رہنے کی گارنٹی ملتی ہے۔
سفاری پارک میں ہاتھیوں کو جنگل جیسی مستی کی اجازت نہیں۔شیروں کو چنگھاڑنے کی اتنی اجازت ہوتی ہے وہ بدن کو انگڑائی سے تازہ دم رکھ سکیں۔اُچھل کود کرتے کنگرو ، کانوں سے چوکنا رہنے والےہرن تماشائیوں کے لئے تفریع طبع کا سامان بن کر رہ جاتے ہیں۔جس نے جہاں آنکھ کھولی وہیں وہ اس کا قیدی ہے۔ایک پنجرہ سے دوسرے بڑےپنجرہ میں منتقلی ہی اسے آزادی کے نشہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔پنجرے بدلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ روئے زمین کی قید میں چلا جاتا ہے۔دنیا کا ہر بڑا ملک اس کی دسترس میں آ جاتا ہے۔فاصلے سوچوں سے نکل کر گھڑی کی سوئی سے منسلک ہو جاتے ہیں۔
آزادی پا کر مطمئن نہ ہونا اسے اگلی منزل کی قید میں پہنچا دیتا ہے۔انسان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی قید ختم ہوتی ہے۔جہاں رہ کر وہ آزادی سے مسرور ہوتا ہے وہیں کسی اگلی منزل کے قیدی کو وہ قیدی ہی نظر آتا ہے۔قید کے یہ سلسلے پہاڑوں کے سلسلہ جیسے ہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر دوسرے پہاڑ کا نقطہ آغاز۔
زندگی کی حقیقتوں کو کہانیوں سے تشبیہ دینے والے تو بہت مل جائیں گے۔محبوب کو لفظوں کے ترازو میں تول کر بیش قیمت بنا دیں گے۔محبت کو جگر سے خون لے کر قلب کی روانی میں بہا دیں گے۔جس سراب کے وہ قیدی ہوتے ہیں زمانہ بھی اسی کا قیدی بنا دیتے ہیں۔آبشاروں چشموں سے اُبلتا صاف شفاف پانی پیاس بجھاتا ، سیراب کرتا ہوا،شور مچاتا ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں سے گزر کر پھر سمند ر میں گر کر مٹھاس کھو کر پھر اپنی باری پہ بخارات بن کر پہاڑوں میدانوں میں بادل بن کر برسنے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔
چھوٹی چڑیا پنجرہ کی رہائی سے کمرے کا قیدی ہونے پر فخر سے سینہ نہیں تان سکتی۔قید کے یہ سلسلے ایک پنجرہ سے دوسرے تک بڑھتے چلے جاتے ہیں۔حتی کہ روئے زمین کی قید تک بات چلی جاتی ہے۔ان میں سے بعض ایک قدم آگے بڑھ کر کائنات کی چکاچوند روشنیوں کے قیدی بن جاتے ہیں اور انہیں زمین ان کی تھکن سے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔
جنہیں سچی محبت کی تلاش ہوتی ہے وہ صرف محبوب کے طرز تکلم سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔حالانکہ یہ قید کے سلسلے ایک سے بڑھ کر ایک کی تلاش کے بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔یہ میٹھے رس بھرے آڑو کی مانند ایک وقت کے بعد اپنے ہی وجود سے پیدا ہونے والی سونڈی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جن کا اس خوبصورت چیز سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔جس طرح روزمرہ کے معمولات زندگی دھیرے دھیرے زہر گھولتے ہیں۔آہستہ آہستہ سارا وجود اس کے کرب سے تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے۔
غم دکھ درد وجود کو ایسا قیدی بنا کر رکھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے درد کا احساس کم ہو جائے گا۔جان چھوٹ جانے کو درد چھوٹ جانے کا مداوہ سمجھتے ہیں۔انسان جتنا دل پھینک محبت میں ہوتا ہے خواہشات میں نہیں ہوتا۔ماں باپ کی محبت ،بہن بھائیوں کی محبت، اولاد کی محبت اور محبوب کی محبت۔قید کے یہ سلسلے بھی دل کا چین اور راتوں کا سکون چھین لیتے ہیں۔مریض کبھی لاعلاج نہیں ہوتا مرض لا علاج ہو جاتا ہے۔درد کا علاج دکھ سے ممکن نہیں ہوتا۔مجبوری لاچاری میں ضرورت سے دور رہتی ہے۔دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسانوں سے نیک اعمال خود بخود سرزد نہیں ہونے لگتے۔
جینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانی پڑتی ہے اور پانے کے لئےآگے بڑھنے کی ہمت پیدا کرنی پڑتی ہے۔جو چند لفظوں کے اظہار کی قربانی دے کرہزاروں لفظوں کے نیچے دب جاتے ہیں۔وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جس طرح خیرات میں ملی روٹی اور بخشش میں ملی زندگی سے صرف زندہ رہا جا سکتا ہے۔اُدھار کے الفاظ لاکھوں بھی ہوں تو ایک مسکراہٹ کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں۔
پنجرے میں قیدیوں کے لئے یہ تخیل ہے ۔مگر جو ان سے آزادی پا لیتے ہیں ان کے لئے یہ ایک حقیقت ہے۔

محمودالحق
 

نور وجدان

لائبریرین
علامتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
چڑیا کی قید اور بڑی قید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے اچھے ۔۔۔!!!
ان کے درمیان '' قیدِ میخانہ '' اور تیرا پیمانہ ۔۔۔ ٹوٹ جائے، تو اچھا ہے ۔۔۔۔ قید ایسے ختم ہوجائے، تو اچھا ہے ۔۔۔۔۔ ہم قیدی ۔۔۔۔!!! تنگ ہیں اس قیدِ تنہائی سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

خوبصورت انداز میں ۔۔۔سوچ کے قیدی آزاد کردئے آپ نے ۔۔۔!!!
 

نایاب

لائبریرین
اک خوبصورت تحریر
آزادی کے نام پہ بہلائے جانے والوں کا فسانہ
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

بزم خیال

محفلین
علامتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
چڑیا کی قید اور بڑی قید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے اچھے ۔۔۔!!!
ان کے درمیان '' قیدِ میخانہ '' اور تیرا پیمانہ ۔۔۔ ٹوٹ جائے، تو اچھا ہے ۔۔۔۔ قید ایسے ختم ہوجائے، تو اچھا ہے ۔۔۔۔۔ ہم قیدی ۔۔۔۔!!! تنگ ہیں اس قیدِ تنہائی سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

خوبصورت انداز میں ۔۔۔سوچ کے قیدی آزاد کردئے آپ نے ۔۔۔!!!
بے حد نوازش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ کے قیدی آزادی کے لئے ہمیشہ پھڑ پھڑاتے ہیں تاوقتکہ وہ منزلِ مراد پا لیں۔
اُمیدِ جگنو چمک کر اپنی ہی راہ کے راہی ہوتے
فیل کو کنکریاں وار تو پرندے بھی سپاہی ہوتے
لفظ کاغذ پہ رہتے دیکھنے میں قلمِ سیاہی ہوتے
دشتِ تنہائی میں اکیلے ہم سفر ہم راہی ہوتے
محمودالحق
 

نور وجدان

لائبریرین
بے حد نوازش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ کے قیدی آزادی کے لئے ہمیشہ پھڑ پھڑاتے ہیں تاوقتکہ وہ منزلِ مراد پا لیں۔
اُمیدِ جگنو چمک کر اپنی ہی راہ کے راہی ہوتے
فیل کو کنکریاں وار تو پرندے بھی سپاہی ہوتے
لفظ کاغذ پہ رہتے دیکھنے میں قلمِ سیاہی ہوتے
دشتِ تنہائی میں اکیلے ہم سفر ہم راہی ہوتے
محمودالحق
کیا منزل پالی ہے ؟ قیدی ہیں ابھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

بزم خیال

محفلین
کیا منزل پالی ہے ؟ قیدی ہیں ابھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

قید میں ضمیر قفس کے ہے ہجوم تنہائی
پابۂ زنجیر ہے نفس طائر رہائی
موج عمل کو چاہئیے طلاطم ہوش بندگی
غموں کی عادت ہے خوشی میں آنکھ بھر آئی
بہا بہا کر آنسو قطرہ موتی تلاش کروں
خاکی کے اوڑھنے بچھونے کو زندگی ہے پرائی
 

نور وجدان

لائبریرین
قید میں ضمیر قفس کے ہے ہجوم تنہائی
پابۂ زنجیر ہے نفس طائر رہائی
موج عمل کو چاہئیے طلاطم ہوش بندگی
غموں کی عادت ہے خوشی میں آنکھ بھر آئی
بہا بہا کر آنسو قطرہ موتی تلاش کروں
خاکی کے اوڑھنے بچھونے کو زندگی ہے پرائی
موج عمل کو چاہئیے طلاطم ہوش بندگی ۔۔۔۔
انشاء اللہ ۔۔۔ عنقریب تو ہے آپ کی ۔۔ سوچ
 
Top