قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟

یہ دن کاش میری زندگی میں نہ آیا ہوتا۔آج دودن گزرنے کے بعد بھی مُجھے یہ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی کہ اس دن کیا قیامت بیت گئی۔دن چڑھے کیمپ میں بھگدر مچی کہ گھنشام گھاٹ والی پکٹ پہ ناشتہ پہنچانے والی پارٹی پہ حملہ ہوا ہے۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔میں بھاگ کر کوت سے نکلا ،گراونڈ میں لگے مجمعے کو چیر کر بڑھا تو درمیان میں ،زمین پر دو جسم پڑے دیکھے۔ اُستاد سردار اور پُنّوں۔ میری آواز حلق میں ایک نامکمل چیخ بن کر اٹک گئی اور میں بڑھ کر پُنّوں کے گلے لگا تو دیکھا کہ اُسکی گردن کسی تیز دھار آلے سے کانوں کی لو تک کٹی تھی اور خاکی وردی تمام سُرخ تھی۔ “پُنّوں، تُو کیوں مَرا یار؟؟تیرا ماموں کس لئے تھایہاں؟؟” میں چیخا اور مُجھے یہ یاد ہے کہ اُس کے سانولے رُخساروں پر دھیمی سی مُسکراہٹ تھی اور نیم کھُلی آنکھوں میں معصومیت۔پھر مُجھے تو کُچھ ہوش نہیں رہا۔میری سسکیاں رات بھر نہ رُک سکیں۔عشاء کا وقت ہو گا کہ جب میرے حواس کچھ بحال ہوئے۔ کیمپ میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔کسی نے شام کا کھانا نہیں کھایا تھا اور سب مُجھے دلاسہ دینے کو لگے تھے۔میں کسی کو کیا بتاتا کہ سلمیٰ بہن کے مرنے کے بعد میں نے پُنّوں کو کس پیار سے پالا تھا۔وہ پورے گھر والوں کی طر ف سے میرے پاس امانت تھا۔ میں رات تک اُس کی میت کے پاس بیٹھا سسکیاں لیتا رہا پھر نرسنگ اردلی نے زبردستی مُجھے اُٹھا دیا۔ میں وہاں سے اُٹھ کر کیپٹن دُرّانی صاحب کے پاس چلا گیا اور وہ مُجھے دلاسے دیتے رہے۔برگیڈ سے پیغام آیا کہ پاکستانی بحریہ نے دُشمن کا ایک جنگی جہاز ڈبو دیا ہے، تمام جوانوں کو مبارکباد دی جائے تاکہ اُن کا مورال بلند ہو۔ دُرّانی صاحب نے ٹرانسمیٹر بند کرکے ایک بہن کی گالی دی اور چُپ بیٹھ گئے۔ رات پل بھر کو بھی نہ سو سکا۔ وقفے وقفے سے غم کی لہر آ کر دل پہ وار کرتی تھی۔ پُنوں کی اٹھارہ سالہ زندگی کی یادوں میں ہی یاد آیا کہ آج اُسکی فوجی نوکری کا ایک سال بھی مکمل ہوا۔۔۔

(ذکی نقوی)
 
Top