قوم کی بیٹی ملالہ 21 ویں صدی کی مقبول ترین شخصیت بن گئی

جاسم محمد

محفلین
قوم کی بیٹی ملالہ 21 ویں صدی کی مقبول ترین شخصیت بن گئی
ویب ڈیسک 26 دسمبر 2019
Malala.jpg

واشنگٹن : دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے والی پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسفزئی 21 ویں صدی کی دوسری دہائی میں دنیا کی مقبول ترین نوعمر لڑکی بن گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس جائزے میں اقوام متحدہ کی نیوز سروس نے 21 ویں صدی میں نوعمری میں ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیا۔

سنہ 2010 سے 2019 کے درمیان عالمی سطح پر ملالہ یوسفزئی کی مقبولیت مثبت کہانیوں میں سب سرِفہرست ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ چھوٹی عمر سے پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھانے اور طالبان کے مظالم کی نشاندہی کے لیے جانی جاتی ہیں۔

اس میں نشاندہی کی گئی ہے ملالہ وادی سوات میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں اور اکتوبر 2012 میں اسکول سے گھر جاتے ہوئے انہیں اور ان کے ساتھ موجود لڑکیوں پر طالبان نے فائرنگ کی تھیں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئیں تاہم زندہ بچ گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملالہ کے سرگرمیوں اور پروفائل میں صرف قاتلانہ حملے کے بعد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کئی ہائی پروفائل ایوارڈز بھی جیتے جس میں 2014 میں امن کا نوبیل انعام، لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ کے ساتھ 2017 میں اقوام متحدہ کی سفیر برائے امن مقرر ہونا شامل ہیں۔
Malala most famous teenager of this decade: UN - Newspaper - DAWN.COM
 

سید عمران

محفلین
Gulmakai Network | Malala Fund

خبر میں بھی کچھ وجوہات کی طرف اشارہ ہے۔
یہاں اس کے کارناموں کا تو کوئی ذکر نہیں۔۔۔
کہ کتنی بچیوں کو تعلیم دی، یا انہیں کوئی ہنر سکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا یا انہیں روزگار فراہم کیا یا قرضہ کی سہولت دے کر بزنس شروع کرایا!!!
 

سید ذیشان

محفلین
یہاں اس کے کارناموں کا تو کوئی ذکر نہیں۔۔۔
کہ کتنی بچیوں کو تعلیم دی، یا انہیں کوئی ہنر سکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا یا انہیں روزگار فراہم کیا یا قرضہ کی سہولت دے کر بزنس شروع کرایا!!!
اس لنک پر 2017 کی رپورٹ ہے۔ باقی رپورٹیں بھی ڈھونڈھی جا سکتی ہیں گوگل کی مدد سے۔
 

سید عمران

محفلین
اس لنک پر 2017 کی رپورٹ ہے۔ باقی رپورٹیں بھی ڈھونڈھی جا سکتی ہیں گوگل کی مدد سے۔
یہ تو یونیسکو اور دیگر اداروں کی فنڈنگ ہے۔۔۔
بذات خود ملالہ نے پاکستان میں رہ کر ایسے کون سے کارنامے سرانجام دئیے تھے جن کی بنا پر اسے مقبول کرایا گیا؟؟؟
 

سید ذیشان

محفلین
یہ تو یونیسکو اور دیگر اداروں کی فنڈنگ ہے۔۔۔
بذات خود ملالہ نے پاکستان میں رہ کر ایسے کون سے کارنامے سرانجام دئیے تھے جن کی بنا پر اسے مقبول کرایا گیا؟؟؟
اس پر تو آپ ہی روشنی ڈالئے کہ ملالہ کو کیوں اور کس نے مقبول کروایا۔ ہمیں ان سازشی تھیوریوں سے دور ہی رکھیں۔ جہاں تک پراجیکٹس کا تعلق ہے تو پاکستان میں بھی ملالہ فنڈ کے کافی منصوبے موجود ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہم کافی عرصہ سے اس کی تلاش میں ہیں، پر ابھی تک کوئی سرا ہاتھ نہ آیا!!!
شائد آپ کو اس آیت مبارکہ کی تلاش ہے:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (26آل عمران)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ہم کافی عرصہ سے اس کی تلاش میں ہیں، پر ابھی تک کوئی سرا ہاتھ نہ آیا!!!
کن کارناموں کی بنا پر مقبول ہوئیں!!!
بذات خود ملالہ نے پاکستان میں رہ کر ایسے کون سے کارنامے سرانجام دئیے تھے جن کی بنا پر اسے مقبول کرایا گیا؟؟؟

ملالہ ہی کیوں؟
تحریم عظیم Apr 2, 2018
ملالہ یوسفزئی نے ساڑھے پانچ سال بعد ملک کی سرزمین پر قدم رکھا تو وہ تمام لوگ چپ سے ہوگئے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی کبھی واپس نہیں آئے گی۔ ملالہ اپنے اس مختصر ٹرپ کے دوران سوات بھی گئی، وہی سوات جہاں اس کو سکول جانے کی پاداش میں مارنے کی کوشش کی گئی تھی، آج اسی سوات نے اس کا والہانہ استقبال کیا۔

ملالہ کی واپسی کے بعد سے سوشل میڈیا پر دوبارہ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ملالہ ہی کیوں؟ ایسا کیا کیا ہے ملالہ نے جو اسے دنیا بھر اپنی پلکوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ اور بھی بہت سے بچے اور بچیاں تعلیم کے حصول میں مشکلات اٹھاتے ہیں، وہ کیوں نہیں؟

ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر 2012ء میں اس وقت عالمی شہرت ملی جب طالبان نے انہیں اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ اس وقت ملالہ اپنی سکول وین میں اپنی ساتھیوں کے ہمراہ تھیں۔ ملالہ خوش قسمت تھیں، انہیں بروقت طبی امداد ملی، سرجری کے لیے انہیں برطانیہ بھیجا گیا۔ صحتیابی کے بعد ملالہ نے وہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔

جب ملالہ کو گولی لگی تب میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی تھی۔ ایک دن کلاس میں دورانِ لیکچر کسی نے ملالہ یوسفزئی کا موضوع چھیڑ دیا۔ لیکچرار نے ہاتھ اٹھا کر سب کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ‘میں آپ کو ایک آفر دیتا ہوں۔ آپ کو برطانیہ میں مستقل رہائش ملے گی، آپ کی تعلیم اور نوکری بھی وہیں ہوگی، آپ اور آپ کا خاندان آپ کے ساتھ وہاں ہنسی خوشی رہے گا۔ بس ایک شرط ہے۔ آپ کو یہ سب حاصل کرنے کے لیے اپنے سر پر گولی کھانی ہوگی۔ گھبرائیے مت! آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ایک گولی اور آپ دنیا بھر میں مشہور ہو جائیں گے۔ کہیے منظور ہے؟’، ہم سب چپ ہو گئے۔

مجھے تب بھی احساس نہ ہوا کہ ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں پزیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ احساس تو مجھے تب جا کر ہوا جب میں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپس کی درخواستیں جمع کروانی شروع کیں۔ اچانک ہی میری مزید تعلیم کو فالتو سمجھا جانے لگا۔ میری بطور صحافی کرئیر بنانے کی خواہش کو میری ضد قرار دیا جانے لگا۔ مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے مزید تعلیم کی بجائے شادی کے متعلق سوچنا چاہئیے کیونکہ میرے اچھے مستقبل کی گارنٹی میری تعلیم یا علم نہیں بلکہ ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ اب مزید تعلیم یا نوکری شادی کے بعد کرنا اگر تمہارے سسرال والے یا شوہر رضامندی دیں تو۔

مجھے کئی ایسی نامور خواتین کے بارے میں بتایا گیا جن کے شوہروں نے انہیں شادی کے بعد مزید پڑھنے اور کچھ بننے میں مدد کی تھی۔ جواب میں، میں نے انہیں ان لاکھوں بے نام عورتوں کا بتایا جنہیں یہی لارا دے کر سسرال رخصت کیا گیا اور سسرال والوں نے انہیں “یہ سب کام شادی سے پہلے کر لینے تھے” کہہ کر کچن کا راستہ دکھا دیا جہاں سے ان کی لاش ہی باہر نکلی۔ میرے یہ سارے دلائل اس وقت جذباتی باتیں کہہ کر ہوا میں اڑا دیے گئے۔

میرا لیے ایک رشتہ دیکھا گیا اور میری وہاں منگنی کر دی گئی۔ ‘اچھا رشتہ ہے’، ‘اچھا لڑکا ہے’، ‘اچھے لوگ ہیں’، کہہ کر مجھے رام کرنے کی کوشش کی گئی، جب میں نے اس ‘اچھے لڑکے’ سے خود بات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی کو بس گھر کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی شادی کے بعد اس کے گھر کے علاوہ اپنی توجہ کہیں بھی مرکوز رکھے۔ وہ اور میں شادی اور زندگی سے متعلق بہت مختلف نظریے رکھتے تھے۔

اس چکر میں ایک بہت اچھی سکالرشپ میرے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ میرے والد نے میری محبت اور منگنی سے مطمعن ہو کر مجھے چین چلے جانے کی اجازت دی۔ اس تمام دورانیہ میں مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ آنے والا وقت بہت مشکلیں لے کر آنے والا ہے۔ اپنی وہ منگنی توڑنے پر کیسے میں نے اپنے والدین کو راضی کیا اور کیسے انہیں سمجھایا کہ میری خوشی شادی میں نہیں بلکہ اپنی پہچان میں ہے، ایک لمبی کہانی ہے۔

اپنی اس جدوجہد کے دوران مجھے ملالہ کی کوششوں اور ہمت کا اندازہ ہوا۔ میرے مقابل تو میرے وہ پڑھے لکھے والدین تھے جو پاکستان کے ایک بڑے ترقی یافتہ شہر میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے جبکہ ملالہ کا سامنا طالبان سے تھا جو شدت پسند تھے۔ اس وقت سوات میں سکول بند کروائے جا رہے تھے، لڑکیوں کی تعلیم دینے والوں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ان حالات میں ملالہ کے والد اور ملالہ ڈٹے رہے۔ کسی ظالم کے آگے کلمہ حق کہنا کتنا مشکل ہے، یہ تو انہیں ہی سمجھ آ سکتا ہے جو حق کا ساتھ دینا جانتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ ملالہ ہی کیوں؟ اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے اور بچ جانے والے طلباء کیوں نہیں؟ تو جناب عرض یہ ہے کہ اے پی ایس سانحے میں مرنے والا یا بچ جانے ولا کوئی بھی بچہ ملک و قوم کی خاطر قربانی نہیں دے رہا تھا۔ ان معصوموں کا تو قتلِ عام ہوا جسے حکومتِ وقت نے قربانی و شہادت کا رنگ دے کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان معصوموں کے اوپر پڑی شہادت کی چادر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے اوپر کیسی قیامت ٹوٹی تھی۔

ملالہ کو اس مقام تک پہنچانے میں اس کے والد کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے والد تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ علاقے کے پر اثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور بڑے ناموں تک رسائی رکھتے تھے۔ ان کے ذریعے ملالہ تک مواقع پہنچے اور وہ ان مواقعوں کا بہترین استعمال کرتی چلی گئی اب بیشک یہ موقع بی بی سی اردو پر ڈائری لکھنے کا ہو، کسی ٹی وی شو میں جانے کا ہو یا کسی ڈاکیومنٹری کا حصہ بننے کا ہو۔

اگر آپ اپنے بچوں کو بولنا اور لکھنا سکھانے کی بجائے دادی، چچا یا تایا کو کیسے اور کیا جواب دینا ہے سکھاتے ہیں تو اس میں ملالہ کا یا اس کے والد کا کیا قصور؟ جب آپ اپنے بچوں کو چھپ چھپ کر دادی اور پھپھو کی باتیں سننے کا کہہ رہے تھے تب ملالہ کے والد اسے تعلیم کی اہمیت بتا رہے تھے، جب آپ کا بچہ آپ کی توجہ کے لیے چیخ رہا ہوتا تھا تب ملالہ کے والد اس کو لکھنا اور بولنا سکھا رہے تھے۔ محنت کا پھل تو ملا ہی کرتا ہے، اب اس سے جلنا کیسا؟

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر ملالہ ایک لڑکا ہوتی تو شائد اس کے خلاف یہ پراپیگنڈا نہ ہوتا یا اگر اس نے ‘گول روٹی بنانے والی مشین عام کی جائے’ کی مہم چلائی جاتی تو اس کی خدمات کو سراہا جاتا کیونکہ ہم عورتوں کو بس یہی کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اب آپ کو ہر طرف تعلیم کا علم ہاتھ میں تھامیں ملالہ ہی نظر آئیں گیں، ان کے ساتھ چلنا سیکھ لیں ورنہ آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ابھی بھی کارناموں کا ذکر ندارد!!!
ملالہ کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نہتے علم کی طاقت سے طالبان کی شدت پسند بندوق کو شکست دی تھی۔
ملالہ کا سامنا طالبان سے تھا جو شدت پسند تھے۔ اس وقت سوات میں سکول بند کروائے جا رہے تھے، لڑکیوں کی تعلیم دینے والوں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ان حالات میں ملالہ کے والد اور ملالہ ڈٹے رہے۔ کسی ظالم کے آگے کلمہ حق کہنا کتنا مشکل ہے، یہ تو انہیں ہی سمجھ آ سکتا ہے جو حق کا ساتھ دینا جانتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
ابھی بھی کارناموں کا ذکر ندارد!!!
درج ذیل حدیث کے مطابق جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔ ملالہ نے ظالم طالبان کے سامنے کلمہ حق کہا اور اللہ نے اسے عزت دی۔
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

18449 مسند أحمد مسند العشرة المبشرين بالجن
 

فرقان احمد

محفلین
ابھی بھی کارناموں کا ذکر ندارد!!!
مفتی صاحب! آج محترمہ بے نظیر کی برسی ہے۔ شاید ان کے اندر بہت زیادہ اہلیت یا خوبیاں نہ ہوں گی، کسی قدر تو خیر ضرور ہوں گی، مگر، ایک سنسناتی گولی، ایک خود کُش حملے نے انہیں کہاں لا کر کھڑا کر دیا؟ شاید ملالہ ایک عام سی لڑکی تھی، مگر ہمارے سماج نے اسے ایک علامت بنا دیا اور اب یہ کہیوں کے لیے ظلم و جبر کے خلاف ایک علامت ہے اور کہیوں کے لیے معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ وہ اس وطن کی بیٹی تھی، اور ہے، اور ہمیں اس کے ساتھ بہت زیادہ دوری نہیں رکھنی چاہیے؛ یہ ہماری رائے ہے تاہم ایک بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے ابا جی ضرورت سے ذرا تیز واقع ہوئے ہیں جس کی روداد، پھر کبھی!
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ہماری رائے ہے تاہم ایک بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے ابا جی ضرورت سے ذرا تیز واقع ہوئے ہیں جس کی روداد، پھر کبھی!
شاید اسی کی وجہ سے آج ان کی بٹیا اس مقام تک پہنچی ہیں۔ کاش پاکستانی معاشرہ ملالہ کے والد جیسے اور پیدا کرے۔ آمین
 

جاسم محمد

محفلین
ممکن ہے، ہماری رائے یا گمان غلط ہو۔
پوری دنیا چوہدری ظفر اللہ خان، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عاطف میاں کے کارناموں کی متعرف ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ تینوں غدار، ملک دشمن قادیانی ہیں۔
پوری دنیا ملالہ یوسفزئی کو طالبان کے خلاف تن تنہا کھڑے ہونے پر ہیرو مانتی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ مغرب کی سازش ہے۔
پوری دنیا عافیہ صدیقی، حافظ سعید اور دیگر جہادیوں کو دہشت گرد مانتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ سب ہیرو ہیں۔
مسئلہ دنیا میں نہیں پاکستان اور صرف پاکستانیوں میں ہے۔
 
Top