ہم کافی عرصہ سے اس کی تلاش میں ہیں، پر ابھی تک کوئی سرا ہاتھ نہ آیا!!!
کن کارناموں کی بنا پر مقبول ہوئیں!!!
بذات خود ملالہ نے پاکستان میں رہ کر ایسے کون سے کارنامے سرانجام دئیے تھے جن کی بنا پر اسے مقبول کرایا گیا؟؟؟
ملالہ ہی کیوں؟
تحریم عظیم Apr 2, 2018
ملالہ یوسفزئی نے ساڑھے پانچ سال بعد ملک کی سرزمین پر قدم رکھا تو وہ تمام لوگ چپ سے ہوگئے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی کبھی واپس نہیں آئے گی۔ ملالہ اپنے اس مختصر ٹرپ کے دوران سوات بھی گئی، وہی سوات جہاں اس کو سکول جانے کی پاداش میں مارنے کی کوشش کی گئی تھی، آج اسی سوات نے اس کا والہانہ استقبال کیا۔
ملالہ کی واپسی کے بعد سے سوشل میڈیا پر دوبارہ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ملالہ ہی کیوں؟ ایسا کیا کیا ہے ملالہ نے جو اسے دنیا بھر اپنی پلکوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ اور بھی بہت سے بچے اور بچیاں تعلیم کے حصول میں مشکلات اٹھاتے ہیں، وہ کیوں نہیں؟
ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر 2012ء میں اس وقت عالمی شہرت ملی جب طالبان نے انہیں اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ اس وقت ملالہ اپنی سکول وین میں اپنی ساتھیوں کے ہمراہ تھیں۔ ملالہ خوش قسمت تھیں، انہیں بروقت طبی امداد ملی، سرجری کے لیے انہیں برطانیہ بھیجا گیا۔ صحتیابی کے بعد ملالہ نے وہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
جب ملالہ کو گولی لگی تب میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی تھی۔ ایک دن کلاس میں دورانِ لیکچر کسی نے ملالہ یوسفزئی کا موضوع چھیڑ دیا۔ لیکچرار نے ہاتھ اٹھا کر سب کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ‘میں آپ کو ایک آفر دیتا ہوں۔ آپ کو برطانیہ میں مستقل رہائش ملے گی، آپ کی تعلیم اور نوکری بھی وہیں ہوگی، آپ اور آپ کا خاندان آپ کے ساتھ وہاں ہنسی خوشی رہے گا۔ بس ایک شرط ہے۔ آپ کو یہ سب حاصل کرنے کے لیے اپنے سر پر گولی کھانی ہوگی۔ گھبرائیے مت! آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ایک گولی اور آپ دنیا بھر میں مشہور ہو جائیں گے۔ کہیے منظور ہے؟’، ہم سب چپ ہو گئے۔
مجھے تب بھی احساس نہ ہوا کہ ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں پزیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ احساس تو مجھے تب جا کر ہوا جب میں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپس کی درخواستیں جمع کروانی شروع کیں۔ اچانک ہی میری مزید تعلیم کو فالتو سمجھا جانے لگا۔ میری بطور صحافی کرئیر بنانے کی خواہش کو میری ضد قرار دیا جانے لگا۔ مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے مزید تعلیم کی بجائے شادی کے متعلق سوچنا چاہئیے کیونکہ میرے اچھے مستقبل کی گارنٹی میری تعلیم یا علم نہیں بلکہ ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ اب مزید تعلیم یا نوکری شادی کے بعد کرنا اگر تمہارے سسرال والے یا شوہر رضامندی دیں تو۔
مجھے کئی ایسی نامور خواتین کے بارے میں بتایا گیا جن کے شوہروں نے انہیں شادی کے بعد مزید پڑھنے اور کچھ بننے میں مدد کی تھی۔ جواب میں، میں نے انہیں ان لاکھوں بے نام عورتوں کا بتایا جنہیں یہی لارا دے کر سسرال رخصت کیا گیا اور سسرال والوں نے انہیں “یہ سب کام شادی سے پہلے کر لینے تھے” کہہ کر کچن کا راستہ دکھا دیا جہاں سے ان کی لاش ہی باہر نکلی۔ میرے یہ سارے دلائل اس وقت جذباتی باتیں کہہ کر ہوا میں اڑا دیے گئے۔
میرا لیے ایک رشتہ دیکھا گیا اور میری وہاں منگنی کر دی گئی۔ ‘اچھا رشتہ ہے’، ‘اچھا لڑکا ہے’، ‘اچھے لوگ ہیں’، کہہ کر مجھے رام کرنے کی کوشش کی گئی، جب میں نے اس ‘اچھے لڑکے’ سے خود بات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی کو بس گھر کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی شادی کے بعد اس کے گھر کے علاوہ اپنی توجہ کہیں بھی مرکوز رکھے۔ وہ اور میں شادی اور زندگی سے متعلق بہت مختلف نظریے رکھتے تھے۔
اس چکر میں ایک بہت اچھی سکالرشپ میرے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ میرے والد نے میری محبت اور منگنی سے مطمعن ہو کر مجھے چین چلے جانے کی اجازت دی۔ اس تمام دورانیہ میں مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ آنے والا وقت بہت مشکلیں لے کر آنے والا ہے۔ اپنی وہ منگنی توڑنے پر کیسے میں نے اپنے والدین کو راضی کیا اور کیسے انہیں سمجھایا کہ میری خوشی شادی میں نہیں بلکہ اپنی پہچان میں ہے، ایک لمبی کہانی ہے۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران مجھے ملالہ کی کوششوں اور ہمت کا اندازہ ہوا۔ میرے مقابل تو میرے وہ پڑھے لکھے والدین تھے جو پاکستان کے ایک بڑے ترقی یافتہ شہر میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے جبکہ ملالہ کا سامنا طالبان سے تھا جو شدت پسند تھے۔ اس وقت سوات میں سکول بند کروائے جا رہے تھے، لڑکیوں کی تعلیم دینے والوں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ان حالات میں ملالہ کے والد اور ملالہ ڈٹے رہے۔ کسی ظالم کے آگے کلمہ حق کہنا کتنا مشکل ہے، یہ تو انہیں ہی سمجھ آ سکتا ہے جو حق کا ساتھ دینا جانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ ملالہ ہی کیوں؟ اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے اور بچ جانے والے طلباء کیوں نہیں؟ تو جناب عرض یہ ہے کہ اے پی ایس سانحے میں مرنے والا یا بچ جانے ولا کوئی بھی بچہ ملک و قوم کی خاطر قربانی نہیں دے رہا تھا۔ ان معصوموں کا تو قتلِ عام ہوا جسے حکومتِ وقت نے قربانی و شہادت کا رنگ دے کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان معصوموں کے اوپر پڑی شہادت کی چادر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے اوپر کیسی قیامت ٹوٹی تھی۔
ملالہ کو اس مقام تک پہنچانے میں اس کے والد کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے والد تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ علاقے کے پر اثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور بڑے ناموں تک رسائی رکھتے تھے۔ ان کے ذریعے ملالہ تک مواقع پہنچے اور وہ ان مواقعوں کا بہترین استعمال کرتی چلی گئی اب بیشک یہ موقع بی بی سی اردو پر ڈائری لکھنے کا ہو، کسی ٹی وی شو میں جانے کا ہو یا کسی ڈاکیومنٹری کا حصہ بننے کا ہو۔
اگر آپ اپنے بچوں کو بولنا اور لکھنا سکھانے کی بجائے دادی، چچا یا تایا کو کیسے اور کیا جواب دینا ہے سکھاتے ہیں تو اس میں ملالہ کا یا اس کے والد کا کیا قصور؟ جب آپ اپنے بچوں کو چھپ چھپ کر دادی اور پھپھو کی باتیں سننے کا کہہ رہے تھے تب ملالہ کے والد اسے تعلیم کی اہمیت بتا رہے تھے، جب آپ کا بچہ آپ کی توجہ کے لیے چیخ رہا ہوتا تھا تب ملالہ کے والد اس کو لکھنا اور بولنا سکھا رہے تھے۔ محنت کا پھل تو ملا ہی کرتا ہے، اب اس سے جلنا کیسا؟
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر ملالہ ایک لڑکا ہوتی تو شائد اس کے خلاف یہ پراپیگنڈا نہ ہوتا یا اگر اس نے ‘گول روٹی بنانے والی مشین عام کی جائے’ کی مہم چلائی جاتی تو اس کی خدمات کو سراہا جاتا کیونکہ ہم عورتوں کو بس یہی کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اب آپ کو ہر طرف تعلیم کا علم ہاتھ میں تھامیں ملالہ ہی نظر آئیں گیں، ان کے ساتھ چلنا سیکھ لیں ورنہ آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔