قومی زبانوں میں مغربی زبانوں کے دخیل الفاظ

ڈاکٹر سید محمد یوسف

ایک ہزار سال سے اوپر عربی تمام اسلامی دُنیا کی علمی زبان رہی۔ ایران اسلامی دنیا کا ایک اہم اور فعال جزو تھا، نویں صدی عیسوی سے فارسی کو ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ بعد کو تاریخیں بھی فارسی زبان میں لکھی گئیں۔ لیکن شعر و قصائد ہوں یا تاریخی کتابوں کی نثر… دونوں عربی الفاظ سے بھرپور تھے۔ جہاں تک علم و فن کے کارناموں کا تعلق ہے، وہ یا تو عربی زبان میں ہوتے تھے، یا اگر فارسی زبان میں ہوئے تو اُس میں عربی الفاظ اس حد تک ہوتے تھے کہ اس کو فارسی کہنا مشکل ہوتا تھا۔
ایرانیوں کے قریبی تعلقات ترکوں سے رہے۔ ترک بھی اسلامی دُنیا کا ایک جزو تھے اور فارسی زبان کے متعلق جو کچھ کہا گیا وہ کہیں زیادہ ترکی زبان پر صادق آتا ہے۔ اسلامی دُنیا کے باہر ایرانیوں کو روسیوں‘ انگریزوں اور فرانسیسیوں سے واسطہ پڑا۔ جب مغربی تمدن اور مغربی علوم و فنون کی یلغار ہوئی تو ایرانیوں کو بڑے پیمانے پر نئے الفاظ کی تلاش ہوئی۔ اُس وقت اُن کے سامنے دو طریقے تھے: ایک یہ کہ مغربی زبانوں کے الفاظ کو اپنی زبان میں دخیل کی حیثیت سے جگہ دیں۔ دوسرا یہ کہ عربی کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ اُنھوں نے دونوں طریقے استعمال کیے۔کبھی جلدی میں پرائے الفاظ کو اپنا لیا اور کبھی ذرا سی محنت سے عربی مرادف الفاظ ڈھونڈ نکالے۔ لیکن خاص اور قابل ِ لحاظ بات یہ ہے کہ اِس ابتدائی دور میں انھوں نے کبھی اصلی فارسی ذرائع سے کام نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ تھوڑے عرصہ بعد جو نئی نسل اُبھری اُس کا علمی ماحول بہت کچھ بدل چکا تھا۔ عربی کی استعداد کم زور ہوچکی تھی اور راست مطالعہ، نیز تراجم کے واسطے سے مغربی زبانوں بالخصوص فرانسیسی سے ربط اور اُنسیت بڑھ گئی تھی۔ عربی سے بے توجہی اور مغربی زبانوں سے لگاؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرائے الفاظ بلا روک ٹوک فارسی زبان میں داخل ہوگئے۔ حالت یہ ہوگئی کہ عربی سے مرادف ڈھونڈنا تو درکنار خود فارسی میں جو مرادف پہلے سے موجود تھے وہ بھی متروک ہوگئے اور اُن کی جگہ مغربی زبانوں کے الفاظ نے لے لی۔
مغربی زبانوں کے دخیل الفاظ کا یہ سیلاب تھوڑے ہی عرصہ میں بہت آگے بڑھ گیا تاآنکہ ایرانیوں کی قومی حس بیدار ہوئی۔ اس قومی حِس کا سرچشمہ خالص مغربی تصورِ وطنیت تھا، اس کی زد بیک وقت عربی اور مغربی عناصر پر پڑی۔ اب یہ کوشش کی گئی کہ مغربی زبانوں کے الفاظ کے مرادف اصل فارسی زبان میں تلاش کیے جائیں اور ممکن ہو تو عربی الاصل الفاظ کی جگہ بھی فارسی الاصل الفاظ کو دی جائے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ’’مقسوم‘‘ کی بجائے ’’بخشی‘‘ ، ’’سابقہ‘‘ کی بجائے ’’پیشیندہ‘‘ اور ’’استنطاق‘‘ کے بجائے ’’بازپرسی‘‘ کا رِواج ہوا۔ یہ قومیت کے عروج کا زمانہ رضا شاہ پہلوی کا دَور (1921ء تا 1941ئ) تھا۔1935ء میں فرہنگ کا قیام عمل میں آیا اور حکومت کے سارے وسائل اس کی پشت پناہی کے لیے وقف ہوگئے۔ نہ تو عربی سے استغناء ممکن ہوا‘ اور نہ عربی سے استغناء کی صورت میں فارسی کے اصلی ذرائع اتنے کافی ثابت ہوئے کہ مغربی زبانوں کے دخیل الفاظ سے نجات مل سکے، لیکن یہ ذہنیت جو بجائے خود ایک دخیل ذہنیت ہے اب بھی باقی ہے۔
یہ تو ہوئی فارسی کی سرگزشت۔ اِس پر اپنی تاریخ کو قیاس کیجیے۔ ابتدائی دور میں عربی سے مرادِف ڈھونڈ نکالنا اور مانوس ہونے کے سبب اُن کا رِواج پانا آسان تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فورٹ ولیم کالج (Fort William College) اور دہلی کالج (Delhi College) کے عہد میں اُردو تراجم اور تصنیف و تالیف کو خوب فروغ ہوا۔ دوسرے دور میں عربی فارسی کا دامن ہاتھ سے چُھٹا اور یہی سبب ہوا انگریزی کے پاؤں پسارنے کا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ عربی سے بالکل تعلق منقطع ہوچکا ہے اور اپنے شعور اور فکر کی گہرائیوں میں ہم اس قطع تعلق سے خوش اور اس پر مُصر ہیں۔ کہتے یوں ہیں کہ اُردو ایک مستقل زبان ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی مصالح کے پیش نظر قومیت اسلامیت کے جلو میں چلنے پر مجبور ہے، اس لیے جب کوئی عربی فارسی الفاظ استعمال کرتا ہے تو یہ نہیں کہتے کہ ’’عربی سے پاک کرو‘‘ (جیسا کہ ایرانی قومیت کے عروج کے دَور میں کہتے تھے) بلکہ یوں کہتے ہیں کہ ’’بھائی! ذرا آسان، عام فہم اُردو لکھو‘ فارسی مت بگھارو‘‘۔
]مقالہ ’’نئے تصورات اور دخیل الفاظ‘‘ مشتملہ بر’’برگ نخیل‘‘[
 
Top