قول فیصل صفحہ 50 تا 55

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 50

کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا، گویا ایک بہت بڑے پریشان کن بوجھ سے دماغ ہلکا ہو گیا ہے۔!"

پہلے اسی وارڈ میں مولوی عبد الرزاق ایڈیٹر " پیغام" بابو پدم راج جین، مسٹر داس کے لڑکے اور کئی پولیٹیکل قیدی رکھے گئے تھے، لیکن جب یہ دونوں صاحب یہاں ہائے گئے تو دوسرے دن صبح ہی سب کو دوسرے وارڈ میں بھیج دیا گیا۔

صبح کو کرنیل ہملٹن سپرنٹنڈنٹ اور جیلر وارڈ میں آئے۔ کرنیل ہملٹن اپنی ذات سے ایک شریف سویلین معلوم ہوتا تھا کہ حالات کی نوعیت سے متاثر ہیں اور ایک طرح کی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بالکل واضح تھی مگر پھر بھی وہ بار بار کہتے "مجھے اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں صرف احکام کی تعمیل کر رہا ہوں۔ ہم لوگوں کو جیل میں آپ جیسے لوگوں سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ میں پریشان ہوں کہ کیا کروں؟ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔"

جواب میں ان سے کہا گیا کہ "درخواست، خواہش، شکایت، ان جذبات سے ہمارے دل بالکل خالی ہو چکے ہیں۔"

سپرنٹنڈنت نے یہ بھی کہا کہ میں صرف یہی ایک صورت اپنے اطمینان کی دیکھتا ہوں کہ آپ کو اپنی جگہ دے دوں اور خود آپ کے ان کمروں میں چلا آؤں۔ مسٹر داس نے کہا "لیکن اگر میں سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تو فوارً استغفٰی دے دوں گا۔"

معلوم ہوا کہ ان کے متعلق حکام جیل بلا یچف سیکرٹری گورنمنٹ بنگال کے استصواب کے خود کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ حکم آ چکا ہے کہ ان لوگوں کو کسی شخص سے ملنے نہ دیا جائے۔ حتی کہ عزیز و اقارب سے بھی۔ اخبارات کے دینے کی بھی قطع ممانعت ہے۔ یورپین وارڈ کو انگلش مین دیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے یہ بھی ممنوع قرار پایا کیونکہ باہر کی خبریں اس میں بھی درج ہوتی ہیں۔ صرف بستر اور کھانا لے لیا گیا اور سپرنٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر کے بعد اپنے آفس سے دو کرسیاں بھیج دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 51

لاء اینڈ آرڈر :

"لاء اینڈ آرڈر" کی جیسی پابندی آج کل جاری ہے، وہ ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے معاملہ میں بھی انتداء سے اس کی نمائش سروع ہو گئی۔ گرفتاری جمعہ کے دن سہ پہر کو ہوئی۔ اس دن کورٹ بند نہ تھا۔ وارنٹ لیا جا سکتا ہے لیکن کوئی وارنٹ حاصل نہ کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد حست قاعدہ مجسٹریٹ کے سامے پیش کرنا چاہیے اور جب تک پیش نہ ہوں، پولیس کے چارج میں رہنتا چاہیے نہ کہ جیل میں لیکن انہیں فوراً جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں ظاہر کیا گیا کہ آپ لوگ اس وقت تک گویا جیل میں نہیں ہیں۔ پولیس کے چارج میں ہیں۔

لیکن بہرحال مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ناگزیر تھا۔ پیش کرنے کے لیے کورٹ میں لے جانا پڑتا اور اس میں پبلک کے مظاہرہ کا خدشہ تھا۔ مجبوراً یہ تدبیر آختیار کی گئی کہ چوتھے دن مسٹر کڈ ڈپٹی کمشنر پولیس کو بھیجا گیا اور کہا گیا کہ اس کی موجودگی مجسٹریٹ کی قائم مقامی کا حکم رکھتی ہے۔ خیال یہ تھا کہ نان کواپریشن کے وجہ سے کسی طرح کا قانونی اعتراض تو کیا نہیں جائے گا۔ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے اور مقدمہ کی تاریخ مقرر کرنے کی مشکل سے نجات مل جائے گی، لیکن مسٹر داس نے مذاق کرتے ہوئے کہہ دیا کہ "شاید میرے پریکٹس چھوڑنے کے بعد سے قانون بدل گیا ہے۔" اس سے ایک گونا پریشانی ہوئی اور خوف پیدا ہوا کہ کہیں کاروارئی بالکل بے ضبط مشہور نہ ہو جائے۔ اس لیے مجبوراً تین بجے مسٹر اے زیڈ خاں فورتھ پریذیڈنسی مجسٹریٹ کو ایک پیش کار کے ساتھ جیل میں بھیج دیا گیا۔ اور زیر دفعہ 17-2 کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ وارنٹ بھی تیار کر لیے گئے۔

پہلی پیشی :

13 دسمبر یہ گویا پہلی پیشی تھی۔ ملزموں کو عدالت کے سامنے نہ جانا پڑا۔ خود عدالت ملزموں کے دروازے پر آ گئی! ان کے کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے، اسی میں وارڈر (محافظ وارڈ) کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(یہ صفحہ نیچے سے کٹا ہوا ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52

اسٹول تھے۔ اس ساز و سامان کے ساتھ عدالت کا اجلاس شروع ہوا۔

لیکن کاروائی نہایت ہی مختصر تھی اور مجسٹریٹ صاحب کی مضطربانہ عجلت اور زیادہ اختصار کا باعث ہوئی۔ اُنہوں نے کہا "دفعہ 17 کے ماتحت آپ لوگ گرفتار کئے گئے ہیں۔ مقدمہ کی تاریخ 23 دسمبر قرار دی جاتی ہے۔" یہ کہہ کر جلدی سے اُنہوں نے وارنٹ پر مہر لگانے کے لیے کہا اور اُٹھنے لگے۔ لیکن بے چارہ پیش کار زیادہ ہوشمند ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ ضمانت کے لیے تو حسب قائدہ پوچھ لیجیئے۔ مجسٹریٹ صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ واقعی ملزموں کو ضمانت دینے کا بھی حق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اُنہوں نے کہا "یہ حضرات ضمانت نہیں دیں گے اس لیے میں نے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔"

آخر میں مسٹر خان نے معذرت کے لہجہ میں کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان سے یہاں آنے کے لیے کہا گیا، وہ چلے آئے۔

23 تاریخ کے تعین میں مصلحت تھی کہ 24 سے کرسمس کی تعطیل تھی۔ 23 کو جب مقدمہ ملتوی کر دیا جائے گا تو تعطیل کی وجہ سے ایک ہفتہ خود بخود مہلت نکل آئے گی۔

دوسری پیشی :

23 دسمبر کو چار بجے پھر مسٹر اے زیڈ خاں بھیجے گئے لیکن اس مرتبہ سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں عدالت کا اجلاس ہوا۔ میز کے سامنے ملزموں کے لیے بھی کرسیاں رکھ دی گئی تھیں، لیکن کاروائی کے اختصار کے وجہ سے بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ کاروائی صرف اس قدر ہوئی کہ مقدمہ 5 جنوری پر ملتوی کر دیا گیا ہے، مجسٹریٹ نے اپنی لاعلمی اور بے تعلقی کا بار بار اظہار کیا۔

5 جنوری :

5 جنوری کی پیشی کی کارروائی یہ ہے کہ کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ دس بجے مسٹر سی- آر- داس کو پریذیڈنسی کورٹ جانے کے لیے طلب کیا لیکن مولانا کی طلبی نہیں ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(یہ صفحہ نیچے سے کٹا ہوا ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 53

دیدی گئی تھی، لیکن پھر کسی مصلحت سے مولانا کا مقدمہ ایک دن پیچھے ڈال دیا گیا۔ عدالت کے قوانین کی رو سے ضروری تھی کہ یہ التواء بھی عدالت کے حکم و تصدیق سے ہوتا یعنی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا اور پھر کاروائی دوسرے دن کے لیے ملتوی کر دی جاتی، لیکن موجودہ عہد قانون و نظم (لا اینڈ آرڈر) میں ان پابندیوں کے درد سر سے بھی عدالتوں کو نجات مل گئی ہے۔ نہ نان کواپریٹر ڈیفنس کریں گے۔ نہ بچنا چاہیں گے۔ پھر قواعد و ضوابط کی پابندی سے کیا حاصل۔

6 کی کاروائی سے معلوم ہو گا کہ گورنمنٹ نے دفعہ 17-2 کریمنل لا ایمنڈمنٹ ایکٹ واپس لے لیا اور کاروائی ازسر نو دفعہ 124-الف پینل کوڈ کے ماتحت شروع ہوئی۔ گرفتاری کے بعد جو وارنٹ حاصل کیا گیا تھا، وہ دفعہ 17-2 کا تھا۔ اس لیے 124 کا مقدمہ شروع نہیں ہو سکتا تھا جب تک ازسر نو 124 کے ماتحت وارنٹ سرو نہ کیا جائے اور اس کی گرفتاری کا نفاذ نہ ہو۔ لیکن پچھلے لطیفہ سے بھی بڑھ کر یہ لطیفہ ہے کہ 124-الف کے ماتحت کوئی ضابطہ کی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ نہ تو اس کا وارنٹ سرو کیا گیا، نہ ضابطہ کی گرفتاری کا نفاذ ہوا۔ تاہم 6 کو مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا "اس نے پریذیڈنسی جیل میں وارنٹ سرو کیا" مولانا اپنے بیان میں لکھتے ہیں "یہ معاملہ بے قاعدگی اور کذب بیانی" دونوں کا انتہائی نمونہ ہے۔ 6 تاریخ تک تو مجھے اس کا بھی علم نہ تھا کہ 124 کے ماتحت دعویٰ کیا جائے گا؟ وارنٹ کے نفاذ سے کیا تعلق؟ نہ تو جیل میں کوئی شخص اس غرض سے آیا۔ نہ مجھ پر وارنٹ سرو کیا گیا۔

پس گویا 5 جنوری سے مولانا از روئے قانون بالکل آزاد تھے۔ ان کی گرفتاری شام کے بعد کوئی وجود نہیں رکھتی تھی۔ اگر وہ جیل کے افسروں پر ہرجانے کی نالش کر دیں کہ کیوں انہیں 5 کے بعد جیل میں مقید رکھا گیا؟ تو وہ کیا جواب دیں گے؟ البتہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہے جبکہ " ازروئے قانون " کے کوئی معنی ہوں۔ لیکن دراصل اسکے کوئی معنی نہیں ہیں۔

غرض کہ بجائے 5 کے 6 جنوری کو ساڑھے گیارہ بجے مولانا پریذیڈنسی کورٹ میں لائے گئے اور اسی پیشی سے کاروائی شروع ہوئی۔ مولانا جیل کی بند موٹر لاری میں لائے گئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

تھے۔ مسلح فوجی پولیس کا کپتان محافظ تھا۔

تیسری پیشی :

6 تاریخ کو ساڑھے بارہ بجے مولانا کا مقدمہ مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔

کاروائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عدالت کا کمرہ مشتاقان زیارت سے پُر ہو چکا تھا جس میں ہر قوم کے اشخاص مسلمان، ہندو، ماڑواڑی، وغیرہ موجود تھے۔

احاطہ عدالت اور سٹرک پر بھی ایک جم غفیر موجود تھا اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ جس وقت مولانا کٹہرے میں لائے گئے، تمام حاضرین مع وکلا تعظیم کے لیے سروقد کھڑے ہو گئے۔

مولانا نے سب کے سلام کا جوات نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ دیا۔ اس کے بعد مولانا کٹہرے میں ان انداز میں کھڑے ہوئے کہ آپ کا ایک ہاتھ کٹہرے پر تھا اور ہتھیلی پر سر تھا۔ چہرہ پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی اور نہایت ہی بے پروائی کے ساتھ اپنے اردگرد کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔

کاروائی شروع کرتے ہوئے رائے بہادر ناتھ سادھو سرکاری وکیل نے بیان کیا :

"مولانا ابو الکلام آزاد کے خلاف دو مقدمے ہیں۔ ایک دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت۔ دوسرا زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند (بغاوت) چونکہ موخر الذکر جرم نہایت ہی سنگین ہے، لٰہذا میں ان کے خلاف قانون ترمیم شدہ ضابطہ فوجداری کے ماتحت کوئی کاروائی کرنا نہیں چاہتا اور اپنے اس دعویٰ کو واپس لیتا ہوں، مولانا اس دفعہ کے ماتحت آزاد ہیں۔"

مجسٹریٹ (مولانا کو مخاطب کر کے) " آپ رہا کر دیئے گئے ہیں۔"

کورٹ انسپکٹر نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ مولانا انگریزی نہیں جانتے۔

مولانا "میں کچھ نہیں سمجھتا اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 55

لیکن مجسٹریٹ نے ایک اردو مترجم کو بلوایا، بابو بی، سی چٹر جی کے سپرد یہ خدمت ہوئی۔ سرکاری وکیل نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا :

"ملزم کے خلاف موجودہ مقدمہ زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند ہے۔ یہ ان کی ان دو تقریروں کی بناء پر ہے، جو اُنہوں نے پہلی اور 15 جولائی 1921ء کو مرزا پارک کلکتہ میں کی تھیں۔ پہلے جلسہ کا مقصد تین اشخاص حکیم سعید الرحٰمن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدارئے احتجاج بلند کرنا تھا۔ اس کے بع15 جولائی کو ملزم نے اسی جگہ ایک دوسری تقریر کی۔ اس میں مذکورہ بالا شخص کی سزایابی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے موجودہ وقت میں خلافت کے متعلق لوگوں کو ان کا فرض بتایا۔ یہ تقریریں اردو شارٹ ہینڈ میں لی گئیں تھی۔ اس کے بعد انہیں صاف کر کے انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ابھی آپ کے سامنے پیش کیا جائے کا۔ میں نے خود یہ تقریریں پڑھی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تقریریں دفعہ 124 کے ماتحت آتی ہیں۔ لیکن خیر یہ تو میری رائے ہے۔"

میں ان تقریروں کا انگریزی ترجمہ پڑھتا ہوں۔ فیصلہ یور آنر پر منحصر ہے کہ آیا اس دفعہ کے ماتحت آتی ہیں یا نہیں؟ مزید برآں میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ نے زیر دفعہ 196 (تعزیرات ہند) اس مقدمہ کے لیے سینکشن دیدیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے میں سب سے پہلے مسٹر گولڈی کو پیش کرتا ہوں۔"

مسٹر گولڈی :

اس کے بعد مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ شہادت کے لیے بلائے گئے۔ سرکاری وکیل نے دریافت کیا "کیا ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے تمہیں گورنمنٹ آف بنگال سے کوئی اختیار دیا گیا تھا؟"

جواب۔ " ہاں "

سوال۔ "کیا انہی تقریروں کے لیے؟ یہ کن تاریخوں میں کی گئی تھیں؟"
 
پروف ریڈنگ بار اول: قول فیصل صفحہ ۵۰

کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا، گویا ایک بہت بڑے پریشان کن بوجھ سے دماغ ہلکا ہو گیا ہے!"

پہلے اسی وارڈ میں مولوی عبد الرزاق ایڈیٹر " پیغام" بابو پدم راج جین، مسٹر داس کے لڑکے اور کئی پولیٹیکل قیدی رکھے گئے تھے، لیکن جب یہ دونوں صاحب یہاں لائےگئے تو دوسرے دن صبح ہی سب کو دوسرے وارڈ میں بھیج دیا گیا۔

صبح کو کرنیل ہملٹن سپرنٹنڈنٹ اور جیلر وارڈ میں آئے۔ کرنیل ہملٹن اپنی ذات سے ایک شریف سویلین معلوم ہوتا تھا کہ حالات کی نوعیت سے وہ متاثر ہیں اور ایک طرح کی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بالکل واضح تھی مگر پھر بھی وہ بار بار کہتے "مجھے اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں صرف احکام کی تعمیل کر رہا ہوں۔ ہم لوگوں کو جیل میں آپ جیسے لوگوں سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ میں پریشان ہوں کہ کیا کروں؟ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔"

جواب میں ان سے کہا گیا کہ "درخواست، خواہش، شکایت، ان جذبات سے ہمارے دل بالکل خالی ہو چکے ہیں۔"

سپرنٹنڈنٹ نے یہ بھی کہا کہ میں صرف یہی ایک صورت اپنے اطمینان کی دیکھتا ہوں کہ آپ کو اپنی جگہ دے دوں اور خود آپ کے ان کمروں میں چلا آؤں۔ مسٹر داس نے کہا "لیکن اگر میں سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تو فوارً استغفٰی دے دوں گا۔"

معلوم ہوا کہ ان کے متعلق حکام جیل بلا چیف سیکرٹری گورنمنٹ بنگال کے استصواب کے خود کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ حکم آ چکا ہے کہ ان لوگوں کو کسی شخص سے ملنے نہ دیا جائے۔ حتی کہ عزیز و اقارب سے بھی۔ اخبارات کے دینے کی بھی قطع ممانعت ہے۔ یورپین وارڈ کو انگلش مین دیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے یہ بھی ممنوع قرار پایا کیونکہ باہر کی خبریں اس میں بھی درج ہوتی ہیں۔ صرف بستر اور کھانا لے لیا گیا اور سپرنٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر کے بعد اپنے آفس سے دو کرسیاں بھیج دیں۔
 
پروف ریڈنگ بار اول: قول فیصل صفحہ ۵۱

لاء اینڈ آرڈر :

"لاء اینڈ آرڈر" کی جیسی پابندی آج کل جاری ہے، وہ ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے معاملہ میں بھی ابتداء سے اس کی نمائش شروع ہو گئی۔ گرفتاری جمعہ کے دن سہ پہر کو ہوئی۔ اس دن کورٹ بند نہ تھا۔ وارنٹ لیا جا سکتا ہے لیکن کوئی وارنٹ حاصل نہ کیا گیا۔ گرفتاری کے بعدحسب قاعدہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور جب تک پیش نہ ہوں، پولیس کے چارج میں رہنا چاہیے نہ کہ جیل میں لیکن انہیں فوراً جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں ظاہر کیا گیا کہ آپ لوگ اس وقت تک گویا جیل میں نہیں ہیں۔ پولیس کے چارج میں ہیں۔

لیکن بہرحال مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ناگزیر تھا۔ پیش کرنے کے لیے کورٹ میں لے جانا پڑتا اور اس میں پبلک کے مظاہرہ کا خدشہ تھا۔ مجبوراً یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ چوتھے دن مسٹر کڈ ڈپٹی کمشنر پولیس کو بھیجا گیا اور کہا گیا کہ اس کی موجودگی مجسٹریٹ کی قائم مقامی کا حکم رکھتی ہے۔ خیال یہ تھا کہ نان کواپریشن کی وجہ سے کسی طرح کا قانونی اعتراض تو کیا نہیں جائے گا۔ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے اور مقدمہ کی تاریخ مقرر کرنے کی مشکل سے نجات مل جائے گی، لیکن مسٹر داس نے مذاق کرتے ہوئے کہہ دیا کہ "شاید میرے پریکٹس چھوڑنے کے بعد سے قانون بدل گیا ہے۔" اس سے ایک گونا پریشانی ہوئی اور خوف پیدا ہوا کہ کہیں کاروارئی بالکل بے ضبط مشہور نہ ہو جائے۔ اس لیے مجبوراً تین بجے مسٹر اے زیڈ خاں فورتھ پریذیڈنسی مجسٹریٹ کو ایک پیش کار کے ساتھ جیل میں بھیج دیا گیا۔ اور زیر دفعہ 17-2 کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ وارنٹ بھی تیار کر لیے گئے۔

پہلی پیشی :

13 دسمبر یہ گویا پہلی پیشی تھی۔ ملزموں کو عدالت کے سامنے نہ جانا پڑا۔ خود عدالت ملزموں کے دروازے پر آ گئی! ان کے کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے، اسی میں وارڈر (محافظ وارڈ) کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ کی آخری لائن کٹنے کی وجہ سے واضع نہیں ہے
 
پروف ریڈنگ بار اول:‌ قول فیصل صفحہ 52

اسٹول تھے۔ اس ساز و سامان کے ساتھ عدالت کا اجلاس شروع ہوا۔
لیکن کاروائی نہایت ہی مختصر تھی اور مجسٹریٹ صاحب کی مضطربانہ عجلت اور زیادہ اختصار کا باعث ہوئی۔ اُنہوں نے کہا "دفعہ 17 کے ماتحت آپ لوگ گرفتار کئے گئے ہیں۔ مقدمہ کی تاریخ 23 دسمبر قرار دی جاتی ہے۔" یہ کہہ کر جلدی سے اُنہوں نے وارنٹ پر مہر لگانے کے لیے کہا اور اُٹھنے لگے۔ لیکن بے چارہ پیش کار زیادہ ہوشمند ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ ضمانت کے لیے تو حسب قاعدہ پوچھ لیجئے۔ مجسٹریٹ صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ واقعی ملزموں کو ضمانت دینے کا بھی حق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اُنہوں نے کہا "یہ حضرات ضمانت نہیں دیں گے اس لیے میں نے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔"
آخر میں مسٹر خان نے معذرت کے لہجہ میں کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان سے یہاں آنے کے لیے کہا گیا، وہ چلے آئے۔
23 تاریخ کے تعین میں مصلحت تھی کہ 24 سے کرسمس کی تعطیل تھی۔ 23 کو جب مقدمہ ملتوی کر دیا جائے گا تو تعطیل کی وجہ سے ایک ہفتہ خود بخود مہلت نکل آئے گی۔
دوسری پیشی :
23 دسمبر کو چار بجے پھر مسٹر اے زیڈ خاں بھیجے گئے لیکن اس مرتبہ سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں عدالت کا اجلاس ہوا۔ میز کے سامنے ملزموں کے لیے بھی کرسیاں رکھ دی گئی تھیں، لیکن کاروائی کے اختصار کے وجہ سے بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ کاروائی صرف اس قدر ہوئی کہ مقدمہ 5 جنوری پر ملتوی کر دیا گیا ہے، مجسٹریٹ نے اپنی لاعلمی اور بے تعلقی کا بار بار اظہار کیا۔
5 جنوری :
5 جنوری کی پیشی کی کارروائی یہ ہے کہ کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ دس بجے مسٹر سی- آر- داس کو پریذیڈنسی کورٹ جانے کے لیے طلب کیا لیکن مولانا کی طلبی نہیں ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صفحہ کٹنے کی وجہ سے واضع نہیں‌ہے
 
پروف ریڈنگ بار اول: قول فیصل صفحہ ۵۳

6 کی کاروائی سے معلوم ہو گا کہ گورنمنٹ نے دفعہ 17-2 کریمنل لا ایمنڈمنٹ ایکٹ واپس لے لیا اور کاروائی ازسر نو دفعہ 124-الف پینل کوڈ کے ماتحت شروع ہوئی۔ گرفتاری کے بعد جو وارنٹ حاصل کیا گیا تھا، وہ دفعہ 17-2 کا تھا۔ اس لیے 124 کا مقدمہ شروع نہیں ہو سکتا تھا جب تک ازسر نو 124 کے ماتحت وارنٹ سرو نہ کیا جائے اور اس کی گرفتاری کا نفاذ نہ ہو۔ لیکن پچھلے لطیفہ سے بھی بڑھ کر یہ لطیفہ ہے کہ 124-الف کے ماتحت کوئی ضابطہ کی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ نہ تو اس کا وارنٹ سرو کیا گیا، نہ ضابطہ کی گرفتاری کا نفاذ ہوا۔ تاہم 6 کو مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا "اس نے پریذیڈنسی جیل میں وارنٹ سرو کیا" مولانا اپنے بیان میں لکھتے ہیں "یہ معاملہ بے قاعدگی اور کذب بیانی" دونوں کا انتہائی نمونہ ہے۔ 6 تاریخ تک تو مجھے اس کا بھی علم نہ تھا کہ 124 کے ماتحت دعویٰ کیا جائے گا؟ وارنٹ کے نفاذ سے کیا تعلق؟ نہ تو جیل میں کوئی شخص اس غرض سے آیا۔ نہ مجھ پر وارنٹ سرو کیا گیا۔
پس گویا 5 جنوری سے مولانا از روئے قانون بالکل آزاد تھے۔ ان کی گرفتاری شام کے بعد کوئی وجود نہیں رکھتی تھی۔ اگر وہ جیل کے افسروں پر ہرجانے کی نالش کر دیں کہ کیوں انہیں 5 کے بعد جیل میں مقید رکھا گیا؟ تو وہ کیا جواب دیں گے؟ البتہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہے جبکہ " ازروئے قانون " کے کوئی معنی ہوں۔ لیکن دراصل اسکے کوئی معنی نہیں ہیں۔
غرض کہ بجائے 5 کے 6 جنوری کو ساڑھے گیارہ بجے مولانا پریذیڈنسی کورٹ میں لائے گئے اور اسی پیشی سے کاروائی شروع ہوئی۔ مولانا جیل کی بند موٹر لاری میں لائے گئے
 
پروف ریڈنگ بار اول: قول فیصل صفحہ ۵۴

تھے۔ مسلح فوجی پولیس کا کپتان محافظ تھا۔
تیسری پیشی :
6 تاریخ کو ساڑھے بارہ بجے مولانا کا مقدمہ مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔
کاروائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عدالت کا کمرہ مشتاقان زیارت سے پر ہو چکا تھا جس میں ہر قوم کے اشخاص مسلمان، ہندو، ماڑواڑی، وغیرہ موجود تھے۔
احاطہ عدالت اور سڑک پر بھی ایک جم غفیر موجود تھا اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ جس وقت مولانا کٹہرے میں لائے گئے، تمام حاضرین مع وکلا تعظیم کے لیے سروقد کھڑے ہو گئے۔
مولانا نے سب کے سلام کا جوات نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ دیا۔ اس کے بعد مولانا کٹہرے میں اس انداز میں کھڑے ہوئے کہ آپ کا ایک ہاتھ کٹہرے پر تھا اور ہتھیلی پر سر تھا۔ چہرہ پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی اور نہایت ہی بے پروائی کے ساتھ اپنے اردگرد کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔
کاروائی شروع کرتے ہوئے رائے بہادر تارک ناتھ سادھو سرکاری وکیل نے بیان کیا :
"مولانا ابو الکلام آزاد کے خلاف دو مقدمے ہیں۔ ایک دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت۔ دوسرا زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند (بغاوت) چونکہ موخر الذکر جرم نہایت ہی سنگین ہے، لٰہذا میں ان کے خلاف قانون ترمیم شدہ ضابطہ فوجداری کے ماتحت کوئی کاروائی کرنا نہیں چاہتا اور اپنے اس دعویٰ کو واپس لیتا ہوں، مولانا اس دفعہ کے ماتحت آزاد ہیں۔"
مجسٹریٹ (مولانا کو مخاطب کر کے) " آپ رہا کر دیئے گئے ہیں"
کورٹ انسپکٹر نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ مولانا انگریزی نہیں جانتے۔
مولانا "میں کچھ نہیں سمجھتا اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔"
 
پروف ریڈنگ بار اول: قول فیصل صفحہ ۵۵

لیکن مجسٹریٹ نے ایک اردو مترجم کو بلوایا، بابو بی، سی چٹر جی کے سپرد یہ خدمت ہوئی۔ سرکاری وکیل نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا :
"ملزم کے خلاف موجودہ مقدمہ زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند ہے۔ یہ ان کی ان دو تقریروں کی بناء پر ہے، جو اُنہوں نے پہلی اور 15 جولائی 1921ء کو مرزا پارک کلکتہ میں کی تھیں۔ پہلے جلسہ کا مقصد تین اشخاص حکیم سعید الرحٰمن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائےاحتجاج بلند کرنا تھا۔ اس کے بعد 15 جولائی کو ملزم نے اسی جگہ ایک دوسری تقریر کی۔ اس میں مذکورہ بالا اشخاص کی سزایابی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے موجودہ وقت میں خلافت کے متعلق لوگوں کو ان کا فرض بتایا۔ یہ تقریریں اردو شارٹ ہینڈ میں لی گئیں تھی۔ اس کے بعد انہیں صاف کر کے انگریزی ترجمہ کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ابھی آپ کے سامنے پیش کیا جائے کا۔ میں نے خود یہ تقریریں پڑھی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تقریریں دفعہ 124 کے ماتحت آتی ہیں۔ لیکن خیر یہ تو میری رائے ہے۔"
میں ان تقریروں کا انگریزی ترجمہ پڑھتا ہوں۔ فیصلہ یور آنر پر منحصر ہے کہ آیا اس دفعہ کے ماتحت آتی ہیں یا نہیں؟ مزید برآں میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ نے زیر دفعہ 196 (تعزیرات ہند) اس مقدمہ کے لیے سینکشن دیدیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے میں سب سے پہلے مسٹر گولڈی کو پیش کرتا ہوں۔"
مسٹر گولڈی :
اس کے بعد مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ شہادت کے لیے بلائے گئے۔ سرکاری وکیل نے دریافت کیا "کیا ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے تمہیں گورنمنٹ آف بنگال سے کوئی اختیار دیا گیا تھا؟"
جواب۔ " ہاں "
سوال۔ "کیا انہی تقریروں کے لیے؟ یہ کن تاریخوں میں کی گئی تھیں؟"
 
Top