محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 75


وہ تو وہی کرے گی جو کر رہی ہے اور جو ہمیشہ استبداد نے آزادی کے مقابلہ میں کیا ہے۔ پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لیے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔


گورنمنٹ بنگال اور میری گرفتاری:

2) میں یہ بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا معاملہ جو کچھ تھا، گورنمنٹ آف انڈیا سے تھا۔ وہ کسی خاص معین الزام کی بنا پر نہیں بلکہ موجودہ تحریک کی عام مشغولیت کی وجہ سے مجھے گرفتار کر سکتی تھی اور جیسا کہ قاعدہ ہے گرفتاری کے لیے کوئی حیلہ پیدا کر لیتی ہے۔ چنانچہ ملک میں عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ علی برادرز سے مجھے زیادہ مہلت دی گئی مگر اب زیادہ عرصہ تک تغافل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ گورنمنٹ بنگال کے سامنے اس وقت میرا معاملہ نہ تھا۔ نہ وہ دفعہ 124-الف کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی، اس دفعہ کے ثبوت میں جو تقریریں پیش کی گئی ہیں وہ نصف سال پہلے کلکتہ میں کی گئی ہیں اور گورنمنٹ نے مقدمہ کی اجازت 22 دسمبر کو دی ہے، یعنی میری گرفتاری سے 12 دن بعد۔ اگر فی الواقع ان تقریروں میں سڈیشن تھا تو کیوں مجھے 6 ماہ تک گرفتار نہیں کیا گیا؟ اور اب گرفتار کیا بھی تو گرفتاری کے بارہ دن بعد؟ ہر شخص ان دو واقعات سے صاف صاف سمجھ سکتا ہے کہ صورتِ حال کیا ہے؟ خصوصاً جب یہ تیسرا واقعہ بھی بڑھا دیا جائے کہ ابتدا میں جو دفعہ ظاہر کی گئی وہ 124 نہ تھی، 17 ترمیم ضابطہ فوجداری تھی۔ پچیس دن کے بعد مجھ سے کہا جاتا ہے کہ وہ واپس لے لی گئی ہے!


گرفتاری کا اصل باعث:

حقیقت یہ ہے کہ میری گرفتاری میں اس دفعہ کو کوئی دخل نہیں۔ یہ قطعی ہے کہ مجھے انہی حالات کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا جو 17 نومبر کے بعد رونما ہوئے ہیں، اگر میں پہلی
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 76


دسمبر کو کلکتہ نہ آتا یا 10 دسمبر سے پہلے باہر چلا جاتا جس کی جلسہ جمعیۃ العلماء بدایوں کی وجہ سے واقع تھی تو گورنمنٹ بنگال مجھ سے کوئی تعرض نہ کرتی۔

17 نومبر کے بعد دنیا کی تمام چیزوں میں سے جو چاہی جا سکتی ہیں، وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ 24 نومبر کو جب پرنس کلکتہ پہنچیں تو ہڑتال نہ ہو اور جو جابرانہ بے وقوفی ترمیم ضابطہ فوجداری 1908ء کے نفاذ میں ہو گئی ہے، وہ ایک دن کے لیے قبول کر لی جائے۔ وہ خیال کرتی تھی کہ میری اور مسٹر سی۔ آر۔ داس کی موجودگی اس میں حارج ہے۔ اس لیے کچھ عرصہ کے تذبذب اور غور و فکر کے بعد ہم دونوں گرفتار کر لیے گئے۔ گرفتاری بلا وارنٹ کے ہوئی تھی لیکن جب دوسرے دن ضابطہ کی نمائش پوری کرنے کے لیے مجسٹریٹ جیل میں بھیجا گیا تو مسٹر داس کی طرح میری گرفتاری کے لیے بھی دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت وارنٹ پیش کیا گیا۔

میں گذشتہ دو سال کے اندر بہت کم کلکتہ میں رہ سکا ہوں۔ میرا تمام وقت زیادہ تر تحریکِ خلافت کی مرکزی مشغولیت میں صرف ہوا یا ملک کے پیہم دوروں میں۔ اکثر ایسا ہوا کہ مہینے دو مہینے کے بعد چند دنوں کے لیے کلکتہ آیا اور بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کے کاموں کی دیکھ بھال کر کے پھر چلا گیا۔ وسط نومبر سے بھی میں سفر میں تھا۔ 16 کو کلکتہ سے روانہ ہوا تا کہ جمعیۃ العلماء الہند کے سالانہ اجلاس لاہور میں شریک ہوں۔ وہاں مہاتما گاندھی کے تار سے بمبئی کی شورش کا حال معلوم ہوا اور میں بمبئی چلا گیا۔ جنوری تک میرا ارادہ واپسی کا نہ تھا کیونکہ 10 دسمبر کو جمعیۃ العلماء کا اسپیشل اجلاس بدایوں میں تھا، اس میں شرکت ضروری تھی۔ اسکے علاوہ مجھے تمام وقت انگورہ فنڈ کی فراہمی میں صرف کرنا تھا، لیکن یکا یک گورنمنٹ بنگال کے تازہ جبر و تشدد اور 18 کمیونک کی اطلاع بمبئی میں ملی اور میرے لیے نا ممکن ہو گیا کہ ایسی حالت میں کلکتہ سے باہر رہوں۔ میں نے مہاتما گاندھی سے مشورہ کیا، انکی بھی یہی رائے ہوئی کہ مجھے تمام پروگرام ملتوی کر کے کلکتہ چلا جانا
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 77


چاہئے۔ زیادہ خیال ہمیں اس بات کا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو گورنمنٹ کا جبر و تشدد لوگوں کو بے قابو کر دے اور کوئی بات صبر و ضبط کے خلاف کر بیٹھیں۔ علی الخصوص جبکہ "سول گارڈ" کے قیام کی خبریں بھی آ چکی تھیں اور اس بارے میں ہمیں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی تھی کہ یہ نئی اسلحہ بندی کن شریفانہ اور پر امن اغراض کے لیے وجود میں آئی ہے؟

میں پہلی دسمبر کو کلکتہ پہنچا، میں نے ظلم اور برداشت، دونوں کے انتہائی مناظر اپنے سامنے پائے!

میں نے دیکھا کہ 17 نومبر کی یادگار ہڑتال سے بے بس ہو کر گورنمنٹ اس آدمی کی طرح ہو گئی ہے جو جوش اور غصہ میں آپے سے باہر ہو جائے اور غیظ و غضب کی کوئی حرکت بھی اس سے بعید نہ ہو۔ 1908ء کے کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت قومی رضاکاروں کی تمام جماعتیں "مجمع خلافِ قانون" (ان لا فُل) قرار دے دی گئی ہیں، پبلک اجتماعات یک قلم روک دیئے ہیں، قانون صرف پولیس کی مرضی کا نام ہے، وہ "ان لا فل جماعت" کی تشویش اور شبہ میں جو حتیٰ کہ راہ چلتوں کی جان و آبرو بھی محفوظ نہیں۔ گورنمنٹ نے پہلے 18 نومبر کے کمیونک میں صرف سابق و موجودہ رضا کار جماعتوں کا ذکر کیا تھا، لیکن 24 کو دوسرا کمیونک جاری کر کے تمام آئندہ جماعتیں بھی خلاف قانون قرار دی گئیں اور پولیس نے بلا امتیاز ہر شخص کو جو اس کے سامنے آ گیا، گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ کوئی بات بھی جس سے 24 کی ہڑتال کے رکنے کا امکان ہو، پولیس اور پولیس سے بھی زیادہ "شریف قوم" سول گارڈ کے لیے ناجائز نہیں۔ سول گارڈ گویا قومی رضا کاروں کا جواب ہے۔ وہ بالکل نہتے ہونے پر بھی "جبر و تشدد" سے ہڑتال کرا دیتے تھے، یہ ریوالور سے مسلح ہونے پر بھی "امن و صلح" کے ذریعہ ہڑتال روک دیں گے!

اسکے مقابلہ میں لوگوں نے بھی برداشت اور استقامت، دونوں کا گویا آخری عہد کر لیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ اپنی راہ سے ہٹیں گے، نہ تشدد کا مقابلہ کریں گے!
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 78


ان حالات میں میرے لیے فرض کی راہ بالکل صاف اور یک سو تھی۔ میں نے اپنے سامنے دو حقیقتیں بے نقاب دیکھیں: ایک یہ کہ گورنمنٹ کی تمام طاقت کلکتہ میں سمٹ آئی ہے، اسلیے فتح و شکست کا پہلا فیصلہ یہیں ہوگا، دوسری یہ کہ ہم کل تک پوری آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے لیکن موجودہ حالت نے بتلا دیا کہ ہماری آزادی کی مبادیات تک محفوظ نہیں ہیں۔ "آزادیٔ تقریر اور آزادیٔ اجتماع" انسان کے پیدائشی حقوق ہیں۔ انکی پامالی مشہور فلاسفر "مل" کی زبان میں "انسانیت کے قتل عام سے کچھ ہی کم" کہی جا سکتی ہے، لیکن یہ پامالی بلا کسی جھجک کے علانیہ ہو رہی ہے۔ پس میں نے باہر کا تمام پروگرام منسوخ کر دیا اور فیصلہ کر لیا کہ اس وقت تک کلکتہ ہی میں رہونگا جب تک دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ظہور میں نہ آ جائے: یا گورنمنٹ اپنا کمیونک اور آڈر واپس لے لے یا مجھے گرفتار کر لے۔

گورنمنٹ نے 10 دسمبر کو مجھے گرفتار کر لیا، میں پورے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جیل کی طرف روانہ ہوا کیونکہ میں اپنے پیچھے ایک فتح مند میدان چھوڑ رہا تھا۔ میرا دل خوشی سے معمور ہے کہ کلکتہ اور بنگال نے میری توقعات پوری کر دی۔ وہ پہلے جس قدر پیچھے تھا اتنا ہی آج سب سے آگے ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کامیابی کے لیے گورنمنٹ کی امداد کا ہمیں پوری طرح اعتراف کرنا چاہئے۔ اگر وہ 17 نومبر کے بعد یہ طرز عمل اختیار نہ کرتی تو فی الواقع ہمارے لیے آئندہ کاموں کے انتخاب میں چند در چند مشکلات تھیں، ہم 22 کو بمبئی میں انہی مشکلات پر باہم غور و خوض کر رہے تھے۔


دو حقیقتیں!

حقیقت یہ ہے کہ ان گذشتہ ایام نے بیک وقت دونوں حقیقتیں صفحاتِ تاریخ کے لیے مہیا کر دیں۔ اگر ایک طرف گورنمنٹ کے چہرے سے ادّعا نمائش کے تمام (اس صفحے کی آخری لائن اسکین میں کٹ گئی ہے جو بعد میں درست کر دی جائی گی۔ م-و)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 79


نمایاں ہو گئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اگر گورنمنٹ ہر طرح کے جبر و تشدد میں بالکل بے حجاب اور بے لگام ہے تو ملک میں بھی صبر و برادشت کی طاقت روز افزوں نشوونما پا رہی ہے جیسا کہ ہمیشہ انکار کیا گیا ہے، آج بھی اس کا موقع حاصل ہے کہ انکار کر دیا جائے، لیکن کل تاریخ کے لیے یہ ایک نہایت ہی عبرت انگیز داستان ہوگی۔ یہ مستقبل کی راہنمائی کرے گی کہ کیونکر اخلاقی مدافعت، مادی طاقت کے جارحانہ گھمنڈ کو شکست دے سکتی ہے؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف برداشت اور قربانی کے ذریعہ خونریز اسلحہ کا مقابلہ کیا جائے؟ البتہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں فریقوں میں سے کس فریق کے اندر اس بڑے انسان کی تعلیم تلاش کی جائے جو برائی کے مقابلہ میں صبر و عفو کی تعلیم لیکر آیا تھا؟ گورنمنٹ میں یا ملک میں؟ میں خیال کرتا ہوں کہ بیوروکریسی کے احکام اسکے نام سے ناواقف نہ ہونگے۔ اسکا نام "مسیح" تھا۔


گورنمنٹ کا فیصلہ اور شکست!

3) فلسفۂ تاریخ ہمیں بتلاتا ہے کہ نادانی اور ناعاقبت اندیشی ہمیشہ زوال پذیر طاقتوں کی رفیق ہوتی ہے۔ گورنمنٹ نے خیال کیا کہ وہ جبر و تشدد سے تحریکِ خلافت و سوراج کو پامال کر دے گی اور 24 کی ہڑتال رک جائے گی۔ اس نے والنٹیر کورز کو خلافِ قانون قرار دیا اور بلا امتیاز تمام کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ وہ سمجھتی تھی کہ والنٹیرز کی ممانعت اور کارکنوں کی گرفتاری کے بعد خلافت اور کانگریس کا نظام معطل ہو جائے گا اور اسطرح خود بخود ہڑتال رک جائے گی لیکن بہت جلد گورنمنٹ کو معلوم ہو گیا کہ جبر و تشدد جب قومی بیداری کے مقابلہ میں نمایاں ہو تو وہ کوئی مہلک چیز نہیں ہوتی۔ نہ ہڑتال رک سکی، نہ خلافت اور کانگریس کمیٹیاں معطل ہوئیں اور نہ والنٹیرز کا کام ایک دن کے لیے بند ہوا، بلکہ ہماری غیر موجودگی میں یہ ساری چیزیں زیادہ طاقتور اور غیر مسخر ہو گئیں۔ میں نے 8 دسمبر کو جو پیغام ملک کے نام لکھا تھا، اس میں گورنمنٹ بنگال کے لیے
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 80


بھی یہ پیغام تھا کہ "میری اور مسٹر سی - آر داس کی گرفتاری کے بعد کام زیادہ طاقت اور مستعدی کے ساتھ جاری رہے گا اور 24 کو مکمل ہڑتال ہوگی، جس قدر ہماری موجودگی میں ہو سکتی تھی" چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ گورنمنٹ خود اپنے پسند کئے ہوئے میدان میں ہار گئی۔ اب وہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور جن لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے، انہیں کسی نہ کسی طرح سزا دلانا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بالکل بے سود ہے، طاقتور آدمی کو شکست کے بعد زیادہ غصہ آتا ہے لیکن کوئی شکست اس لیے فتح نہیں بن سکتی کہ ہم بہت زیادہ جھنجھلا سکتے ہیں!


دفعہ 124-الف

غرضیکہ میری گرفتاری صریح طور انہی واقعات کا نتیجہ ہے اور اسی لیے دو ہفتہ تک میرے خلاف دفعہ 17-ترمیم ضابطہ فوجداری ہی کا دعویٰ قائم رہا، لیکن جب اس بارے میں کوئی سہارا نہ ملا تو میرے پریس اور مکان کی تلاشی لی گئی، تا کہ میری کوئی تحریر حاصل کر کے بنائے مقدمہ قرار دی جائے۔ جب وہاں سے بھی کوئی مواد ہاتھ نہ آیا تو مجبوراً سی۔آئی۔ڈی کے محفوظ ذخیرہ کی طرف توجہ کی گئی۔ یہ ذخیرہ ہمیشہ اس شریفانہ کام کے لیے مستعد رہتا ہے اور ضرورت کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ پس اس طرح بہ ہزار زحمت دفعہ 124-الف دعویٰ تیار ہو گیا۔


اجتماعِ ضدّین:

4) یہ پریشانی گورنمنٹ کو خود اسی کی منافقانہ روش کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ چاہتی ہے کہ شخصی حکمرانوں کی طرح بے دریغ جبر و تشدد کرے، دوسری طرف چاہتی ہے کہ نمائشی قانون و عدالت کی آڑ بھی قائم رہے۔ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں، جمع نہیں ہو سکتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی پریشانی و درماندگی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 81


جو لوگ اس کے خیال میں سب سے زیادہ مستحقِ تعزیر ہیں انہی کو سزا دلانا اس کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ابھی چند ہی مہینے گزرے ہیں کہ ہم کراچی میں گورنمنٹ کی سراسیمگی و درماندگی کا تمسخر انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جو سرکاری استغاثہ اس دعویٰ اور اہتمام کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اس سے خود گورنمنٹ کی پسندیدہ اور انتخاب کردہ جیوری بھی اتفاق نہ کر سکی!

لطف یہ ہے کہ یہ مشکلات گورنمنٹ کو ایسی حالت میں پیش آ رہی ہیں کہ جب وہ چاہتی ہے کہ نان کوآپریٹرز کی جانب سے ڈیفنس نہیں کیا جائے گا اور سخت سے سخت غلط بیانی اور قانون شکنی کی حالت میں بھی پردہ دری اور شکست کا کوئی کھٹکا نہیں ہے۔


نئی قانونی تشریحات:

گورنمنٹ نے اس اطمینان سے پوری طرح کام لینے میں کوئی کوتاہی بھی نہیں کی ہے۔ نان کوآپریٹرز کے مقدمات آج کل جس طرح چکائے جا رہے ہیں، اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ "لاء" اور "آرڈر" کے معنی بیوروکریسی کی اصطلاح میں کیا ہیں؟ "لاء" اور "آرڈر" کی طرح اب دعویٰ، ثبوت، شہادت، تشخیص (آئی ڈینٹی فائی) وغیرہ تمام عدالتی مصطلحات کے معنی میں بھی انقلاب ہو گیا ہے۔ گویا نان کوآپریٹرز کو جلد سزا دینے کے لیے ہر طرح کی بے قاعدگی اور قانون شکنی جائز ہے۔ حتی کہ اس بات کی بھی تحقیق ضروری نہیں کہ جس انسان کے ملزم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، کٹہرے کا ملزم وہی آدمی ہے بھی یا نہیں؟ ابھی اسی ہفتہ جوڑا بگان کی عدالت سے ایک شخص "عبدالرحمٰن ہاشم" کو اس پرزور قانونی اور منطقی ثبوت پر چھ ماہ کی سزا دی گئی ہے کہ "اعظم ہاشم" نامی ایک خلافت والنٹیر دنیا میں وجود رکھتا ہے اور دونوں کے نام میں لفظ "ہاشم" مشترک ہے! خود میرے مقدمہ میں جو صریح بے ضابطگیاں کی گئی ہیں انکا ذکر لا حاصل سمجھ کر نہیں کرنا چاہتا، ورنہ وہی اس حقیقت کے انکشاف کے لیے کافی تھیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 82


واقعہ کا ذکر کرونگا جو بے قاعدگی اور غلط بیانی، دونوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے دفعہ 17 ترمیم ضابطہ فوجداری سے بری کر دیا گیا اور دفعہ 124-الف کے ماتحت وارنٹ حاصل کیا گیا۔ قاعدہ کی رو سے رہائی اور ازسر نو گرفتاری، دونوں باتیں وقوع آنی چاہئیں تھیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ 124-الف کا کوئی وارنٹ مجھ پر تعمیل نہیں کیا گیا۔ حتی کہ 6 جنوری تک مجھے اسکا علم بھی نہیں ہوا۔ لیکن میرے ساتھ مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر پولیس نے یہ حلفیہ شہادت دی ہے کہ اسکے پریذیڈنسی جیل میں مجھ پر وارنٹ سرو کیا ہے!

یہ سچ ہے کہ نان کوآپریٹر کسی طرح کا ڈیفنس نہیں کرتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ آدمی اپنے تمام کپڑے اتار ڈالے، اس لیے کہ شریف آنکھیں بند کر لیں گے۔ شریف آدمیوں نے تو سچ مچ آنکھیں بند کر لی ہیں لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔


قانون کا ڈرامہ:

فی الحقیقت "لاء" اور "آرڈر" کا ایک ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے جسے ہم کامیڈی اور ٹریجڈی دونوں کہہ سکتے ہیں۔

وہ تماشہ کی طرح مضحک بھی ہے اور مقتل کی طرح درد انگیز بھی، لیکن میں ٹریجڈی کہنا زیادہ پسند کرونگا۔ حسنِ اتفاق سے اس کا چیف ایکٹر انگلستان کا سابق چیف جسٹس ہے۔


میری تقریریں:

5) پراسکیوشن کی جانب سے میری دو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں جو میں نے پہلی اور پندرھویں جولائی کو مرزا پور پارک کے جلسے میں کی تھیں۔ اس زمانہ میں گورنمنٹ بنگال نے گرفتاریوں کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اور چار مبلغینِ خلافت پر مقدمہ چلا کر سزائیں دلائی تھیں۔ میں اس وقت سفر سے بیمار واپس آیا تھا، میں نے دیکھا
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 83


کہ لوگوں میں بے حد جوش پھیلا ہوا ہے اور ہر طرح کے مظاہرے کے لیے لوگ بیقرار ہیں، چونکہ میرے خیال میں گرفتاریوں پر مظاہرہ کرنا نان کوآپریشن کے اصول کے خلاف تھا، اس لیے میں نے ہڑتال اور جلوس یک قلم روک دیئے۔ اس پر عوام کو شکایت ہوئی تو میں نے یہ جلسے منعقد کئے اور لوگوں کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ نان وایلنس، نان کوآپریشن کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ گرفتاریوں پر صبر و سکون کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ اگر فی الواقع ان گرفتاریوں کا تمھارے دل میں درد ہے تو چاہئے کہ اصلی کام کرو اور بیرونی کپڑا ترک کرکے دیسی گاڑھا پہن لو۔

استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے، وہ نہایت ناقص، غلط اور مسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ اسکے پڑھنے سے ہر شخص سمجھ لے سکتا ہے۔ تاہم میں اسکے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر (کیونکہ اسکے اعتراف سے میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے) باقی وہ تمام حصہ تسلیم کر لیتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے، یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔

استغاثہ کی جانب سے صرف تقریریں پیش کر دی گئی ہیں، یہ نہیں بتلایا ہے کہ ان کے کن جملوں کو وہ ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہے؟ یا اسکے خیال میں "مائی ڈیئر برادران" سے لیکر آخر تک سب 124-الف ہے؟ میں نے بھی دریافت نہیں کیا کیونکہ دونوں صورتیں میرے لیے یکساں ہیں، تاہم ان نقول کو دیکھتا ہوں تو استغاثہ کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ قابلِ ذکر جملے حسبِ ذیل ہیں:

"ایسی گورنمنٹ ظالم ہے جو گورنمنٹ ناانصافی کے ساتھ قائم ہو۔ ایسی گورنمنٹ کو یا


صفحہ 84

تو انصاف کے آگے جھکنا چاہیے یا دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔"

"اگر فی الحقیقت تمھارے دلوں میں اپنے گرفتار بھائیوں کا درد ہے تو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ آج سوچ لے۔ کیا وہ اس بات کے لیے راضی ہے کہ جس جابرانہ قوت نے انہیں گرفتار کیا ہے وہ اس براعظم میں اسی طرح قائم رہے جس طرح انکی گرفتاری کے وقت تھی؟"

"اگر تم ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہو تو اسکا راستہ یہ ہے کہ جن چالاک دشمنوں کے پاس خونریزی کا بے شمار سامان موجود ہے، انہیں رائی کے برابر بھی اسکے استعمال کا موقع نہ دو اور کامل امن و برداشت کے ساتھ کام کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچاؤ کا سامان کر لے ورنہ اسکی دلی خواہش یہ نہیں ہوتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ آج تمھارے لیے کام کر رہے ہیں، تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ ماننے کیلیے تیار نہ ہوگا کہ وہ جیل جانے یا نظر بند ہونے سے ڈرتے ہیں۔ (پس) اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ امن و نظم کے ساتھ کام کرنا چاہئے تو انکا مطلب یہ نہیں (ہو سکتا) کہ اس ظالمانہ گورنمنٹ (کے ساتھ) وفاداری کرنی چاہتے ہیں۔ جو گورنمنٹ، اس کی طاقت اور (اس کا) تخت آج دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے، یقیناً وہ اس گورنمنٹ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔"

اسکے بعد میں نے کہا ہوگا، مگر کاپی میں نہیں ہے۔

"وہ تو صرف اس لیے یہ کہتے ہیں کہ خود تمھاری کامیابی باامن رہنے پر موقوف ہے۔ تمھارے پاس وہ شیطانی ہتھیار نہیں ہیں جن سے یہ گورنمنٹ مسلح ہے۔ تمھارے پاس صرف ایمان ہے، دل ہے، قربانی کی طاقت ہے۔ تم انہی طاقتوں سے (اصل میں "ہتھیاروں سے" ہوگا) کام لو۔ اگر تم چاہو کہ اسلحہ کے ذریعہ فتح کرو، تو تم نہیں


صفحہ 85

کر سکتے۔ آج امن و سکون سے بڑھ کر (تمھارے لیے) کوئی چیز نہیں۔"

"اگر تم صرف چند گھڑیوں کے لیے گورنمنٹ کو حیران کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے میرے پاس بہت سے نسخے ہیں۔ اگر خدانخواستہ میں اس گورنمنٹ کا استحکام چاہتا تو وہ نسخے بتلا دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(لیکن) میں تو ایسی جنگ چاہتا ہوں (جو) ایک ہی دن میں ختم نہ ہو جائے بلکہ فیصلہ کے آخری دن تک (جاری رہے) اور جب فیصلہ کی گھڑی آ جائے تو پھر یا تو یہ گورنمنٹ باقی نہ رہے، یا تیس کروڑ (انسان) باقی نہ رہیں۔"

جو الفاظ بریکٹ کے اندر ہیں وہ تقریر کی پیش کردہ کاپیوں میں نہیں ہیں لیکن عبارت کے بامعنی ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ میں نے اس لیے تصحیح کر دی کہ پراسیکیوشن کو استدلال میں مدد ملے۔ اگر اسکے مقصد کے لیے پوری تقریر کی تصحیح و تکمیل ضروری ہو تو میں اسی طرح کر دینے کے لیے تیار ہوں۔

انکے علاوہ دونوں تقریروں میں لوگوں کو نان کوآپریشن کی دعوت دی ہے، مطالباتِ خلافت اور سوراج کو دہرایا ہے، پنجاب کے مظالم کو وحشیانہ کہا ہے، لوگوں کو بتلایا ہے کہ جو گورنمنٹ جلیانوالہ باغ امرتسر میں چند منٹوں کے اندر سینکڑوں انسانوں کو قتل کر ڈالے اور اس کو جائز فعل بتلائے، اس سے ناانصافی کی کوئی بات بھی بعید نہیں۔


اقرار:

6) میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے نہ صرف انہی دو موقعوں پر بلکہ گزشتہ دو سال کے اندر اپنی بے شمار تقریروں میں یہ اور اسی مطلب کے لیے اس سے زیادہ واضح اور قطعی جملے کہے ہیں۔ ایسا کہنا میرے اعتقاد میں میرا فرض ہے۔ میں فرض کی تعمیل سے اس لیے باز نہیں رہ سکتا کہ وہ 124-الف کا جرم قرار دیا جائے گا۔ میں اب بھی ایسا ہی کہنا چاہتا ہوں اور جب تک بول سکتا ہوں ایسا ہی کہتا رہوں گا۔ اگر میں ایسا نہ کہوں تو اپنے آپ کو خدا


صفحہ 86

اور اس کے بندوں کے آگے بدترین گناہ کا مرتکب سمجھوں۔


موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے:

7) یقیناً میں نے کہا ہے "موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے" لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں؟ میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔

میں کم سے کم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں یہی ہے، ایسی ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو، میرے علم میں کوئی نہیں۔

میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں: گورنمنٹ ناانصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اسکے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہو جانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسری بات کیا ہو سکتی ہے؟ جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا ہوں تو یقیناً یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اسکی عمر بھی دراز ہو!


میرا یہ اعتقاد کیوں ہے؟

8 ) میرا اور میرے کروڑوں ہم وطنوں کا ایسا اعتقاد کیوں ہے؟ اسکے وجوہ و دلائل اب اس قدر آشکارا ہو چکے ہیں کہ ملٹن کے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے "سورج کے بعد دنیا کی ہر چیز سے زیادہ واضح اور محسوس"۔ محسوسات کے لیے ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ انکار نہ کرو، تاہم میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ اعتقاد اس لیے ہے کہ میں ہندوستانی ہوں، اس لیے ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس لیے ہے کہ میں انسان ہوں۔


صفحہ 87

شخصی اقتدار بالذات ظلم ہے:

میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور ہر قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوش نما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں لیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور اسکے قانون کے خلاف ہے۔ پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اسکی محکومی سے ملک اور قوم کو نجات دلاؤں۔

"اصلاحات" اور "بتدریج توسیع اختیارات" کا مشہور مغالطہ میرے اس صاف اور قطعی اعتقاد میں کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کر سکتا۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور کسی انسان کو اختیار نہیں کہ حقوق کی ادائیگی میں حد بندی اور تقسیم کرے۔ یہ کہنا کہ کسی قوم کو اسکی آزادی بتدریج ملنی چاہیے بعینیہ ایسی ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مالک کو اسکی جائیداد اور قرضدار کو اسکا قرض ٹکڑے ٹکڑے کر کے دینا چاہیے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر مقروض سے ایک ہی دفعہ قرضہ واپس نہ مل سکے تو قرضدار کو یہی کرنا پڑے گا کہ قسط کی صورت میں وصول کرے لیکن یہ ایک مجبوری کا سمجھوتہ ہوگا، اس سے بہ یک دفعہ وصولی کا حق زائل نہیں ہو سکتا۔

"ریفارم" کی نسبت میں روس کے عظیم الشان لیو ٹالسٹائی کے لفظوں میں کہوں گا "اگر قیدیوں کو اپنے ووٹ سے اپنا جیلر منتخب کر لینے کا اختیار مل جائے تو اس سے وہ آزاد نہیں ہو جائیں گے۔"

میرے لیے اسکے اچھے برے کاموں کا سوال ایک ثانوی سوال ہے۔ پہلا سوال خود اسکے وجود کا ہے۔ میں ایسے حاکمانہ اقتدار کو بہ اعتبار اسکی خلقت ہی کے ناجائز یقین کرتا ہوں۔ اگر وہ تمام ناانصافیاں ظہور میں نہ آتیں جو اس کثرت سے واقع ہو چکی ہیں، جب بھی میرے اعتقاد میں وہ ظلم تھا کیونکہ اسکی ہستی ہی سب سے بڑی


صفحہ 88

ناانصافی ہے اور اسکی برائی کے لیے اس قدر کافی ہے کہ وہ موجود ہو۔ اگر وہ اچھے کام کرے تو اچھائی تسلیم کر لی جائے گی لیکن اسکا وجود ناجائز اور ناانصافی ہی رہے گا۔ اگر ایک شخص ہماری جائیداد پر قابض ہو کر بہت سے اچھے اور نیک کام انجام دے تو اسکے کاموں کی خوبی کی وجہ سے اسکا قبضہ جائز نہیں ہو سکتا۔

برائی میں کم و کیفیت کے اعتبار سے تقسیم کی جا سکتی ہے لیکن حسنِ قبح کے اعتبار سے اسکی ایک ہی قسم ہے۔ یعنی اس اعتبار سے تقسیم ہو سکتی ہے کہ وہ کتنی اور کیسی ہے؟ اس اعتبارسے نہیں ہو سکتی کہ وہ اچھی ہے یا بری ہے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "زیادہ بری چوری" اور "کم بری چوری" لیکن یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ "اچھی چوری" اور "بری چوری"؟ پس میں بیوروکریسی کی اچھائی اور جائز ہونے کا کسی حال میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ نفسہ ایک ناجائز عمل ہے البتہ اسکی برائی کم اور زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان کی بیوروکریسی تو اتنا بھی نہ کر سکی کہ اپنی خلقی برائی پر ہی قانع رہتی۔ جب اسکی خلقی برائی پر اسکی بے شمار عملی برائیوں کا بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے تو پھر کیوں کر اسکا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس ظلم کا اعلان نہ کیا جائے؟


اسلام اور بیوروکریسی

9) میں مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان ہونے کے بھی میرا مذہبی فرض یہی ہے۔ اسلام کسی ایسے اقتدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو یا چند تنخواہ دار حاکموں کی بیوروکریسی ہو۔ وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوعِ انسانی کو اسکی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لیے آیا تھا۔ یہ آزادی بادشاہوں، اجنبی حکومتوں، خود غرض مذہبی پیشواؤں اور سوسائٹی کی طاقتور جماعتوں نے غصب کر رکھی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ حق طاقت اور قبضہ ہے لیکن اسلام نے ظاہر ہوتے ہی اعلان کیا کہ حق طاقت نہیں بلکہ خود حق ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگانِ خدا کو اپنا محکوم اور غلام


صفحہ 89

بنائے۔ اس نے امتیاز اور بالادستی کے تمام قومی اور نسلی مراتب یک قلم مٹا دیئے اور دنیا کو بتلا دیا کہ سب انسان درجہ میں برابر ہیں اور سب کے مساوی حقوق ہیں۔ نسل، قومیت، رنگ، معیار فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف عمل ہے اور سب سے بڑا وہی ہے جس کے کام سب اچھے ہوں: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ہ (سورہ حجرات، آیت 13)


اسلام ایک جمہوری نظام ہے:

انسانی حقوق کا یہ وہ اعلان ہے جو انقلابِ فرانس سے گیارہ سو برس پہلے ہوا، یہ صرف اعلان ہی نہ تھا بلکہ ایک عملی نظام تھا جو مشہور مورخ گبن کے لفظوں میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا۔

پیغمبرِ اسلام (ص) اور ان کے جانشینوں کی حکومت ایک مکمل جمہوریت تھی اور صرف قوم کی رائے، نیابت اور انتخاب سے اسکی بناوٹ ہوتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں جیسے جامع اور عمدہ الفاظ اس مقصد کے لیے موجود ہیں شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں پائے جائیں۔ اسلام نے "بادشاہ" کے اقتدار اور شخصیت سے انکار کیا ہے اور صرف ایک رئیسِ جمہوریت (پریزیڈنٹ آف ری پبلک) کا عہدہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی "خلیفہ" کا لقب تجویز کیا، جسکے لغوی معنی نیابت کے ہیں۔ گویا اسکا اقتدار محض نیابت ہے، اس سے زیادہ کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اسی طرح قرآن نے نظامِ حکومت کے لیے "شوریٰ" کا لفظ استعمال کیا: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (38:42) چنانچہ ایک پوری سوۃ اسی نام سے قرآن میں موجود ہے۔ "شوریٰ" کے معنی باہم مشورہ کے ہیں یعنی جو کام کیا جائے، جماعت کی باہم رائے اور مشورہ سے کیا جائے، شخصی رائے اور حکم سے نہ ہو۔ اس سے زیادہ صحیح نام جمہوری نظام کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 90

قومی اور مسلم بیوروکریسی ظلم ہے:

جب اسلام مسلمانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کو بھی منصفانہ تسلیم نہ کریں جو قوم کی رائے اور انتخاب سے نہ ہو تو پھر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی بیوروکریسی کیا حکم رکھتی ہے؟ اگر آج ہندوستان میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے مگر اسکا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہو تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس وقت بھی میرا فرض یہی ہوگا کہ اس کو ظلم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ اسلام کے علماء حق نے ہمیشہ جابر مسلمان بادشاہوں کے خلاف ایسا ہی اعلان و مطالبہ کیا ہے۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نظام بعد کو قائم نہ رہ سکا، مشرقی رومی حکومت اور ایرانی شہنشاہی کے پر شوکت افسانوں نے مسلمان حکمرانوں کو گمراہ کر دیا۔ اسلامی خلیفہ کی جگہ، جو بسا اوقات پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک عام فرد کی طرح ملبوس ہوتا تھا، انہوں نے قیصر و کسریٰ بننے کو ترجیح دی۔ تاہم تاریخِ اسلام کا کوئی عہد بھی ایسے مسلمانوں سے خالی نہیں رہا ہے جنہوں نے علانیہ حکامِ وقت کے استبداد و شخصیت کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو اور ان تمام تکلیفوں کو خوشی خوشی جھیل نہ لیا ہو جو اس راہ میں پیش آئی ہیں۔


مسلمانوں کا قومی وظیفہ:

ایک مسلمان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ حق کا اعلان نہ کرے اور ظلم کو ظلم نہ کہے، بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ وہ اسلامی زندگی سے دست بردار ہو جائے۔ اگر تم کسی آدمی سے اس مطالبہ کا حق نہیں رکھتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دے تو یقیناً ایک مسلمان سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ظلم کو ظلم نہ کہے، کیونکہ دونوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے۔

یہ تو اسلامی زندگی کا وہ عنصر ہے جس کے الگ کر دینے کے بعد اسکی سب سے


صفحہ 91

بڑی مابہ الامتیاز خصوصیت معدوم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ وہ دنیا میں سچائی اور حقیقت کے گواہ ہیں۔ ایک گواہ کا فرض ہوتا ہے کہ جو کچھ جانتا ہے بیان کرے۔ ٹھیک اسی طرح ہر مسلمان کا بھی وظیفہ (ڈیوٹی) ہے کہ جس سچائی کا اسے علم و یقین دیا گیا ہے، ہمیشہ اسکا اعلان کرتا رہے اور ادائے فرض کی راہ میں کسی آزمائش اور مصیبت سے نہ ڈرے۔ علی الخصوص جب ایسا ہو کہ ظلم و جور کا دور دورہ ہو جائے اور جبر و تشدد کے ذریعہ اعلانِ حق کو روکا جائے تو پھر یہ فرض اور زیادہ لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر طاقت کے ڈر سے لوگوں کا چپ ہو جانا گوارا کر لیا جائے اور "دو اور دو" کو اس لیے "چار" نہ کہا جائے کہ ایسا کہنے سے انسانی جسم مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر سچائی اور حقیقت ہمیشہ کے لیے خطرہ میں پڑ جائے اور حق کے ابھرنے اور قائم رہنے کی راہ باقی نہ رہے۔ حقیقت کا قانون نہ تو طاقت کی تصدیق کا محتاج ہے نہ اس لیے بدلا جا سکتا ہے کہ ہمارے جسم پر کیا گزرتی ہے؟ وہ تو حقیقت ہے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اسکے اظہار سے ہمارا جسم آگ کے شعلوں کے اندر جھونک دیا جائے۔ صرف اس لیے کہ ہمیں قید کر دیا جائے گا، آگ میں ٹھنڈک اور برف میں گرمی نہیں پیدا ہو سکتی۔


شہادۃ علی النّاس:

یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کتابِ شریعت (قرآن) میں مسلمانوں کو بتلایا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میں "شاہد" ہیں، یعنی سچائی کی گواہی دینے والے ہیں۔ بحیثیت ایک قوم کے یہی ان کا وظیفہ (نیشنل ڈیوٹی) ہے اور یہی انکی قومی خصلت (نیشل کریکٹر) ہے جو ان کو تمام پچھلی اور آئندہ قوموں میں ممتاز کرتی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاس (143:2) اسی طرح پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: انتم شھداء اللہ فی الارض (بخاری) تم خدا کی زمین پر خدا کی طرف سے سچائی کے گواہ


صفحہ 92

ہو۔ پس ایک مسلمان جب تک مسلمان ہے اسکی گواہی کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا۔


کتمانِ شہادت:

اگر وہ باز رہے تو یہ قرآن کی اصطلاح میں "کتمانِ شہادت" ہے یعنی گواہی کو چھپانا۔ قرآن نے ایسا کرنے والوں کو خدا کی پھٹکار کا سزاوار بتلایا ہے اور بار بار کہا ہے کہ اسی کتمانِ شہادت کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی قومیں برباد و ہلاک ہو گئیں:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَ۔ئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ہ

(سورۃ البقرہ - آیت 159)

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ ہ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ ہ

(سورۃ مائدہ - آیت 78 -79)


امر بالمعروف و نہی عن المنکر:

اسی لیے اسلام کے واجبات و فرائض میں ایک اہم فرض "امر بالمعروف" اور "نھی عن المنکر" ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ قرآن کریم نے عقیدۂ توحید کے بعد جن کاموں پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک کام یہ ہے۔ قرآن نے بتلایا ہے کہ مسلمانوں کی تمام قومی بڑائی کی بنیاد اسی کام پر ہے۔ وہ سب سے بڑی اور اچھی قوم اسی لیے ہیں کہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی کو روکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اپنی ساری بڑائی کھو دیں۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ہ (سورۃ آل عمران - آیت 110)۔


صفحہ 93

قرآن سچے مسلمانوں کی پہچان یہ بتلاتا ہے کہ "وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہیں ڈرتے، نہ دنیا کی لالچ ان پر غالب آ سکتی ہے، نہ کوئی خوف۔ وہ طمع بھی رکھتے ہیں تو صرف خدا سے اور ڈرتے بھی ہیں تو صرف خدا سے۔"

پیغمبرِ اسلام (ص) کے بے شمار قولوں میں جو اس بارے میں ہیں، ایک قول یہ ہے:

"نیکی کا اعلان کرو، برائی کو روکو، اگر نہ کرو گے تو ایسا ہوگا کہ نہایت برے لوگ تم پر حاکم ہو جائیں گے اور خدا کا عذاب تمھیں گھیر لے گا۔ تم دعائیں مانگو گے کہ یہ حاکم ٹل جائیں مگر قبول نہ ہونگی۔" (ترمذی و طبرانی عن حذیفتہ و عمر)

لیکن یہ فرض کیوں کر انجام دیا جائے؟ تو اسلام نے تین مختلف حالتوں میں اس کے تین مختلف درجے بتلائے ہیں۔ چنانچہ پیغمبرِ اسلام (ص) نے فرمایا" "تم میں جو شخص برائی کی بات دیکھے تو چاہیے اپنے ہاتھ سے درست کر دے، اگر اسکی طاقت نہ پائے تو زبان سے اعلان کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ پائے تو اپنے دل میں اس کو برا سمجھے۔ لیکن یہ آخری درجہ ایمان کی بڑی ہی کمزوری کا درجہ ہے۔" "مسلم" ہندوستان میں ہمیں یہ استطاعت نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے گورنمنٹ کی برائیاں دور کر دیں، اس لیے ہم نے دوسرا درجہ اختیار کیا جس کی استطاعت حاصل ہے، یعنی زبان سے اسکا اعلان کرتے ہیں۔


ارکانِ اربعہ:

قرآن نے مسلمانوں کی اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے اور بتلایا ہے کہ ہر طرح کی انسانی ترقی اور کامیابی انہی کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے، ایمان، عملِ صالحہ، توصیہ حق، توصیہ صبر۔

"توصیۂ حق" کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ حق اور سچائی کی ایک دوسرے کو وصیت کرنا۔ "توصیۂ صبر" کے معنی یہ ہیں کہ ہر طرح کی مصیتوں اور رکاوٹوں کو جھیل لینے کی وصیت کرنا۔ چونکہ حق کے اعلان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مصیبتیں پیش آئیں، اس لیے حق کے


صفحہ 94

ساتھ صبر کی وصیت بھی ضروری تھی تا کہ مصیبتیں اور رکاوٹیں جھیل لینے کے لیے ہر حق گو تیار ہو جائے:

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ہ

(سورۃ العصر)


اسلامی توحید اور امر بالمعروف:

اسلام کی بنیاد عقیدۂ "توحید" پر ہے اور توحید کی ضد "شرک" ہے جس سے بیزاری اور نفرت ہر مسلمان کی فطرت میں داخل کی گئی ہے۔ توحید سے مقصود یہ ہے کہ خدا کو اسکی ذات اور صفات میں ایک ماننا۔ شرک کے معنی یہ ہیں کہ اسکی ذات اور صفتوں میں کسی دوسری ہستی کو شریک کرنا۔ پس سچائی کے اظہار میں بے خوفی اور بے باکی ایک مسلمان زندگی کا مایۂ خمیر ہے۔ توحید مسلمان کو سکھلاتی ہے کہ ڈرنے اور جھکنے کی سزاوار صرف خدا کی عظمت و جبروت ہے۔ اسکے سوا کوئی نہیں جس سے ڈرنا چاہیئے یا جس کے آگے جھکنا چاہیئے۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے ڈرنا، خدا کے ساتھ اس کو شریک کرنا اور اپنے دل کے خوف و اطاعت کا حقدار ماننا ہے، یہ بات توحید کے ساتھ اکھٹی نہیں ہو سکتی۔

اس لیے اسلام تمام تر بے خوفی اور قربانی کی دعوت ہے، قرآن جا بجا کہتا ہے:

"مسلمان وہ ہے جو خدا کے سوا کسی اور سے نہ ڈرے، ہر حال میں سچی بات کہے۔" (ولم یخش الا اللہ)۔

پیغمبرِ اسلام (ص) نے فرمایا: "سب سے بہتر موت اس آدمی کی ہے جو کسی ظالم حکومت کے سامنے حق کا اظہار کرے اور اسکی پاداش میں قتل کیا جائے۔" (ابوداؤد) وہ جب کسی آدمی سے اسلام کا عہد اور اقرار کر لیتے تھے تو ایک اقرار یہ ہوتا تھا "میں ہمیشہ حق کا اعلان کروں گا، خواہ کہیں ہوں اور کسی حالت میں ہوں۔" (بخاری و مسلم)۔


صفحہ 95

اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں حق گوئی اور حق گوئی کے لیے قربانی کی ایسی مثالیں نہیں مل سکتیں جن سے تاریخِ اسلام کا ہر باب معمور ہے، اسلام کے عالموں، پیشواؤں، بزرگوں، مصنفوں کے تراجم (Biography) تمام تر اسی قربانی کی سرگذشت ہیں۔

جن مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ موت قبول کر لیں مگر حق گوئی سے باز نہ آئیں، ان کے لیے دفعہ 124-الف کا مقدمہ یقیناً کوئی بڑی ڈراؤنی چیز نہیں ہو سکتا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات برس کی قید ہے۔



اسلام میں کوئی دفعہ 124 نہیں:

تاریخِ اسلام کے دو دور ہیں، پہلا دور پیغمبرِ اسلام (ص) اور انکے چار جانشینوں کا ہے۔ یہ دور خالص اور کامل طور پر اسلامی نظام کا تھا۔ یعنی اسلامی جمہوریت (ری پبلک) اپنی اصلی صورت میں قائم تھی۔ ایرانی شہنشاہی اور رومی امارت (Aristocracy) کا کوئی اثر ابھی اسلامی مساواتِ عامہ (Democracy) پر نہیں پڑا تھا۔ اسلامی جمہوریت کا خلیفہ خود بھی طبقہ عوام (ڈیمو کریٹ) کا ایک فرد ہوتا تھا اور ایک عام فرد قوم کی طرح زندگی کا بسر کرتا تھا۔ وہ دارالخلافت کے ایک خس پوش چھپر میں رہتا تھا اور چار چار پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا، اسلام کے دارالخلافت میں امریکن ری پبلک کا کوئی قصرِ سفید (وائٹ ہاؤس) نہ تھا۔

دوسرا دور شخصی حکمرانی اور شہنشاہی کا ہے جو خاندانِ بنو امیہ سے شروع ہوا۔ اس دور میں اسلامی جمہوریت درہم برہم ہو گئی۔ قوم کے انتخاب کی جگہ طاقت و تسلط کا دور شروع ہو گیا۔ شاہی خاندان سے طبقۂ امراء (ارسٹوکریٹ) کی بنیاد پڑی اور اسلام کے گلیم پوش خلیفہ کی جگہ شہنشاہیت کا تاج و تخت نمودار ہو گیا۔

تاہم مسلمانوں کی زبانیں جس طرح پہلے دور کی آزادی میں بے روک تھیں، اسی طرح دوسرے دور کے جبر و استبداد میں بے خوف رہیں۔ میں بتلانا چاہتا ہوں کہ تعزیزاتِ ہند

----------------

(ختم شد صفحات 56 تا 95، الحمدللہ)
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

پروف ریڈنگ، بار اول

[font=&quot]صفحہ 56[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں، یکم اور 15 جولائی 1921ء کو۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "کیا یہی سینکشن تمھیں ملا تھا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "کیا اسی کے ذریعہ سے تمھیں مولانا ابوالکلام آزاد کو گرفتار کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "کیا اس پر گورنمنٹ آف بنگال کے چیف سیکرٹری کا دستخط ثبت ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں، میں ان کے دستخط کو پہچانتا ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "سینکشن کس تاریخ کو دیا گیا تھا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "22 دسمبر 1921ء کو۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "کیا سینکشن ملنے کے بعد تم نے چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی خدمت میں کوئی درخواست پیش کی تھی؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]سوال۔ "تو پھر کیا تمھیں کوئی وارنٹ ملا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں، میں نے پریذیڈنسی جیل میں سرو کیا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "عام طور پر جب تمھیں کسی جلسہ کی اطلاع ملتی ہے تو کیا تم کوئی رپورٹر وہاں بھیجتے ہو؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سوال۔ "کیا یہی وہ رپورٹ اور اسکی نقل ہے جو تمھیں دکھائی گئی تھی؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "ہاں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]ابواللّیث محمد[/font][font=&quot]:[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]اسکے بعد سرکاری شارٹ ہینڈ رپورٹر ابواللّیث محمد پیش ہوا، اس نے بیان میں کہا، "میں گورنمنٹ آف بنگال کا شارٹ ہینڈ رپورٹر ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]صفحہ 57[/font]​
[font=&quot]یہاں مجسٹریٹ نے مولانا کو مخاطب کر کے کہا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لیے گواہی کا ترجمہ کرایا جائے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]جواب میں مولانا نے فرمایا۔ "مجھے کسی ترجمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر عدالت کو ضرورت ہو تو وہ خود ایسا کر سکتی ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ انگریزی سمجھتے ہیں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "نہیں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "مترجم، بہتر ہے کہ تم ترجمہ کرتے جاؤ۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]گواہ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا[/font][font=&quot]:[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں، تقریباً 18 مہینے تک لکھنؤ کرسچین کالج میں رہ چکا ہوں، وہاں میں نے اردو مختصر نویسی میں ایک آنر سرٹیفیکیٹ اور سند حاصل کی۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"160 [/font][font=&quot]حروف فی منٹ میری رفتار ہے، میں اردو سمجھتا ہوں، اردو مختصر نویسی میں نے لکھنؤ میں سیکھی ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]یکم جولائی مجھے یاد ہے، اس روز میں مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں مقرر ہوا تھا، اردو میں وہاں جو تقریریں ہوئیں ان کے میں نے نوٹ لیے تھے، ملزم نے وہاں اردو میں تقریر کی تھی اور وہی اس جلسہ کے صدر تھے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]حتی الامکان میں نے بہتر نوٹ لیے اور حسبِ معمول مسٹر گولڈی کمشنر کے پاس بھیج دیا، مسٹر گولڈی نے اس پر 25 تاریخ کو دستخط کیا، اسکے بعد میں نے اسی تقریر کی نقل اردو لانگ ہینڈ میں لی اور مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کیا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]اس پر مسٹر گولڈی کا 14 دسمبر 1921ء کا دستخط موجود ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]بابو باما چرن چٹر جی[/font][font=&quot]:[/font]
[font=&quot]اسکے بعد مسٹر باما چرن چٹر جی سرکاری مترجم پیش ہوا، اس نے بیان کیا "وہ اردو [/font]​
[font=&quot]صفحہ 58[/font]​
[font=&quot]اور ہندی کا مترجم ہے اور الہ آباد یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سرکاری وکیل۔ "پہلی جولائی کی اردو تقریر ذرا دیکھو؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]گواہ۔ "میں نے ہی اسکا ترجمہ کیا تھا، اس پر میرا دستخط موجود ہے، میں نے حتی الامکان اسکا بہتر ترجمہ کیا ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سرکاری وکیل۔ "دوسری تقریر کو بھی دیکھو جو 15 جولائی کی ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]گواہ۔ "میں نے اسکا بھی صحیح ترجمہ کیا ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]انسپکٹر محمد اسماعیل[/font][font=&quot]:[/font]
[font=&quot]اسکے بعد محمد اسماعیل انسپکٹر اسپیشل برانچ بلوایا گیا۔ اس نے بیان کیا: "میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا۔ وہاں میں نے ملزم کو دیکھا، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی۔ میں نے لانگ ہینڈ میں پہلی جولائی کی تقریر کا نوٹ لیا تھا۔ ملزم اس جلسہ کے صدر تھے اور اسی حیثیت سے تقریر کی تھی۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]گواہ۔ "مبلغینِ خلافت: حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے متعلق۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]جلسہ میں تقریباً [/font][font=&quot]12 [/font][font=&quot]ہزار آدمیوں کا مجمع تھا۔ ہر قسم کے لوگ جلسہ میں موجود تھے، لیکن پچاس فیصدی مسلمان تھے۔ میں نے صحیح نوٹ لیے تھے۔ انسپکٹر کے-ایس گھوسال اور دوسرے افسر میرے ہمراہ تھے اور یہ (مولانا ابوالکلام آزاد) صدر جلسہ کی اردو تقریر کا نوٹ ہے۔ اس کے بعد بابو پچکوری بنر جی نے تقریر کی تھی۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]بابو پچکوری بنر جی کی تقریر صدر جلسہ کی تقریر کے ساتھ شامل ہے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]"15 [/font][font=&quot]جولائی کو بھی میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، میں وہاں گیا تھا، میں نے وہاں کی تقریر کے نوٹ لیے۔ انسپکٹر مکر جی اور مسٹر کر بھی میرے ہمراہ تھے۔ مولوی نجم الدین اور[/font]​
[font=&quot]صفحہ 59[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]ملزم نے اس جلسہ میں تقریر کی تھی، میں نے ان تقریروں کا نوٹ لانگ ہینڈ میں لیا۔ میں نے تقریر کے صرف انہی حصوں کا صحیح نوٹ لیا جنہیں میں نے ضروری سمجھا تھا۔ میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ اور بی-ایس-سی ہوں۔ میں اردو سمجھتا ہوں۔ تقریباً 10 اور 12 ہزار کے درمیان جلسہ میں لوگوں کا مجمع تھا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]یہاں سرکاری وکیل نے گواہ سے کہا۔ "نوٹ دیکھ کر ذرا اپنے حافظہ کو درست کرو۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]گواہ نے نوٹ دیکھ کر بتایا۔ "10 ہزار کا مجمع تھا اور ہم نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]پولیس انسپکٹر کے-ایس گھوسال[/font][font=&quot]:[/font]
[font=&quot]اسکے بعد کے-ایس گھوسال، انسپکٹر اسپیشل برانچ کی شہادت لی گئی، اس نے بیان کیا[/font][font=&quot]:[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]میں کلکتہ یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہوں، یکم جولائی 1921ء کو مرزا پور پارک اسکوائر کے جلسہ میں میں گیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے۔ میں نے تقریروں کے نوٹ شارٹ ہینڈ میں لیے تھے۔ میں تقریر کے صرف انہی حصوں کا نوٹ لیا کرتا ہوں جنہیں میں ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے ان کے صحیح نوٹ لیے تھے، (نوٹ پیش کرتے ہوئے) یہ پہلی جولائی کی متفقہ رپورٹ ہے۔ اس میں صدر (ملزم) کی تقریر بھی شامل ہے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے تھے، جن پر انہوں نے اپنا دستخط کر دیا تھا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]جواب۔ "سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے۔ تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ اس میں شریک تھے، لیکن نصف کے قریب ہندوستانی مسلمان تھے، بقیہ نصف ہندوستانی ہندو اور بنگالی تھے۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]انسپکٹر بی-بی مکر جی[/font][font=&quot]:[/font]
[font=&quot]اسکے بعد بی-بی مکر جی انسپکٹر سی-آئی-ڈی پیش ہوا۔ اس نے بیان کیا[/font][font=&quot]:[/font]​
[font=&quot]صفحہ 60[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں نوٹ لینے کے لیے مقرر ہوا تھا، میں نے نوٹ لیے اور پندرہ جولائی 1921ء کو ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں پیش کر دیئے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]ملزم اس جلسہ کے صدر تھے، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے اسکے صحیح نوٹ لیے تھے۔ یہ نوٹ اسی روز شام کو مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دیئے گئے تھے۔ اس پر ان کا دستخط موجود ہے۔ محمد اسماعیل اور میں، دونوں نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا، ملزم نے اردو میں تقریر کی تھی، میں کچھ کچھ اس زبان کو سمجھتا ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]یہ جلسہ تین مبلغینِ خلافت، حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور لوگوں کو جیل جانے کی ترغیب دینے اور شوق دلانے کی غرض سے ہوا تھا۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]تقریباً دس ہزار کا مجمع تھا، مسلمان، ہندو اور ہوڑا اور للوا کے ملوں کے بہت سے مزدور اس میں شریک تھے، تقریباً 50 والنٹیر بیج لگائے ہوئے تھے، جس پر یہ لکھا تھا۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]


[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]مسٹر گولڈی (دوبارہ):[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مسٹر گولڈی پھر بلوائے گئے، انہوں نے رپورٹ اور نوٹ پر، جو وہاں پیش کئے گئے تھے، اپنے دستخط ہونے کی تصدیق کی۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اسکے بعد سرکاری وکیل نے پہلی جولائی کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا اور کہا۔ "15 جولائی کو بھی اس قسم کی تقریر ہوئی تھی۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]پھر اس نے چارج مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا۔ اسکے بعد لنچ کے لیے کاروائی ملتوی کی گئی۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]لنچ کے بعد کی کاروائی[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]3 [/font][font=&quot] بج کر 20 منٹ پر مجسٹریٹ عدالت میں داخل ہوا، مولانا کو بلوایا گیا۔ جس وقت[/font]​
[font=&quot]صفحہ 61[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا صحن سے ہو کر عدالت کے کمرے میں جا رہے تھے تو باہر کے عظیم الشان مجمع نے جو سڑک پر کھڑا تھا، مولانا کی ایک ذرا سی جھلک دیکھ پائی اور اللہ اکبر کی گونج سے در و دیوار ہلنے لگے۔[/font]​
[font=&quot]جب مولانا کمرے میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین سرو قد اٹھ کھڑے ہوئے اور بلا قصد انکی زبان سے بھی اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اگرچہ خود مولانا ہاتھ کے اشارے سے روکتے رہے۔ مجسٹریٹ نے گھبرا کر فوراً سارجنٹ کو کمرہ خالی کرا دینے کا حکم دیا، جس پر فوراً عمل کیا گیا، صرف چند آدمی جو کرسیوں پر بیتھے ہوئے تھے اندر رہ گئے۔[/font]​
[font=&quot]شارٹ ہینڈ اردو رپورٹر نے ان دونوں تقریروں کو جن کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے، پڑھ کر سنایا۔[/font]​
[font=&quot]اسکے بعد 124-الف کے ماتحت فرد قرارداد جرم لگا دی گئی۔[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ (مولانا سے)۔ "کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "نہیں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کوئی گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "نہیں، اگر میں نے ضرورت دیکھی تو آخر میں اپنا تحریری بیان پیش کر دوں گا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو کاغذ کی ضرورت ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "نہیں[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "میں اپنی تقریروں کی نقل چاہتا ہوں۔" (جو انہیں دے دی گئی)۔[/font]​
[font=&quot]یہاں سرکاری وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ عرضی دعویٰ کی ایک نقل ملزم کو دے دی جائے۔[/font]​
[font=&quot]اس کے بعد مقدمہ 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا، مقدمہ کے تمام دوران میں[/font]​
[font=&quot]صفحہ 62[/font]​
[font=&quot]عدالت کے احاطہ اور سڑک پر عظیم الشان مظاہرہ جاری تھا۔ قومی نعروں کی آوازیں برابر بلند ہو رہی تھیں۔ جونہی مولانا جیل کی گاڑی میں سوار ہونے لگے، ابوالکلام کی جے، بندے ماترم، مہاتما گاندھی کی جے، ہندو مسلمان کی جے اور اللہ اکبر کے پر شکوہ نعروں سے تمام فضا گونج اٹھی[/font][font=&quot]![/font][font=&quot] لوگوں کی اس قدر کثرت تھی کہ کچھ عرصہ تک گاڑیوں کی آمد و رفت بھی رک گئی تھی۔[/font]​
[font=&quot]***[/font]
[font=&quot]
[/font]
 
[font=&quot]صفحہ 63[/font]​
[font=&quot]نقل استغاثہ[/font]
[font=&quot]بعدالت چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کلکتہ[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]برائے گرفتاری زیر دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]
[/font][font=&quot]جے۔ اے۔ ایم گولڈی، ڈپٹی کمشنر آف پولیس[/font][font=&quot]
[/font][font=&quot]اسپیشل برانچ، کلکتہ، مدعی[/font][font=&quot]
[/font][font=&quot]مولانا ابوالکلام آزاد، مدعا علیہ[/font]​
[font=&quot]مذکورہ بالا مدعی کا بیان حسبِ ذیل ہے۔[/font]​
[font=&quot]1-[/font][font=&quot]یکم جولائی 1921ء کو مدعا علیہ نے مرزا پور پارک میں نان کواپریشن اور بائیکاٹ کے مضمون پر اردو میں ایک تقریر کی تھی۔[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]ایک اردو مختصر نویس نے انکی پوری تقریر کے نوٹ اردو میں لیے، مذکورہ بالا نوٹ کے نقل کی ایک اردو کاپی جس پر انگریزی حرف "اے" کا نشان بنا ہے، منسلک درخواستِ ہذا ہے۔ مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ نوٹ کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے، جسے گورنمنٹ آف بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا ہے، اس پر انگریزی حرف "بی" کا نشان ہے۔[/font]​
[font=&quot]2-[/font][font=&quot]پھر 15 جولائی [/font][font=&quot]1921[/font][font=&quot]ء کو ملزم مذکور نے اردو میں ایک دوسری تقریر اسی جگہ اور اسی مضمون پر کی اور ایک اردو رپورٹر نے انکی پوری تقریر کا اردو شارٹ ہینڈ میں نوٹ لیا۔ اس [/font]​
[font=&quot]صفحہ 64[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]نوٹ کی ایک نقل جس پر انگریزی حرف [/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]سی" کا نشان منسلک ہے اور دوسرا کاغذ جس پر حرف "ڈی" کا نشان ہے مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ کا انگریزی ترجمہ ہے، جسے گورنمنٹ بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا۔[/font][font=&quot]


[/font]​
[font=&quot]3-[/font][font=&quot]دونوں موقعوں پر اسپیشل برانچ کے تین اور افسروں نے بھی لانگ ہینڈ میں نوٹ لیے تھے اور وہ اس شارٹ ہینڈ رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں۔[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]4-[/font][font=&quot]تقریروں کے دیکھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مقرر نے اپنی ان تقریروں سے گورنمنٹ قائم شدہ بروئے قانون کے خلاف لوگوں میں حقارت و نفرت پھیلانے کی کوشش کی اور اس طرح ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے 124-الف تعزیراتِ ہند کے ماتحت سزا کا مستوجب قرار پا سکتا ہے۔[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]5-[/font][font=&quot]گورنرانِ کونسل نے مدعی کو یہ حکم و اختیار دیا ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو مذکورہ بالا جرم کی بنا پر زیرِ دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند گرفتار کرے اور انکے خلاف چارہ جوئی کرے۔ سینکشن کی اصل کاپی منسلک ہے اور اس پر حرف "ای" کا نشان ہے۔[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]لہذا مدعی یہ درخواست کرتا ہے کہ ملزم کے خلاف حکم نامہ جاری کیا جائے کہ وہ مذکورہ بالا الزامات کی جوابدہی کرے اور اسکے حاضر ہونے پر مقدمہ چلایا جائے ۔نیز قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائی۔[/font]​
[font=&quot]***[/font]
[font=&quot]
[/font]
[font=&quot]صفحہ 65[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]چوتھی پیشی[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]11 [/font][font=&quot]جنوری کو مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں چوتھی پیشی ہوئی۔ حسبِ ممعمول کمرہ اور احاطۂ عدالت لوگوں سے پر تھا۔ لیکن قبل اسکے کہ کاروائی شروع ہو، سارجنٹ نے کمرہ لوگوں سے خالی کرا لیا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی نہ رہنے دیا جو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد مولانا لائے گئے۔ جونہی انہوں نے کٹہرے میں قدم رکھا، تمام وکلاء جو وہاں موجود تھے ، تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ نے مولانا سے دریافت کیا[/font][font=&quot]:[/font]​
[font=&quot]"[/font][font=&quot]کیا آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "ہاں، اگر عدالت کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں ایک تحریری بیان پیش کروں گا۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا وہ آپ کے ساتھ ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "ہاں۔ یہ اردو میں ہے لیکن میں چاہتا ہوں اس کا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کروں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ :تو کیا آپ خود اس کا ترجمہ کرا لیں گے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "ہاں اگر عدالت کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہو۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "اگر کوئی حرج نہ ہو تو میں اپنی اس تقریر کا جسے مغویانہ (باغیانہ؟) بتایا گیا ہے، انگریزی ترجمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا بیان کے لیے اسکی ضرورت ہے؟[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مولانا۔ "میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font]​
[font=&quot]مجسٹریٹ نے عدالت سے دریافت کیا کہ انگریزی ترجمہ ملزم کو پہلے ہی کیوں نہ دیا[/font]​
[font=&quot]صفحہ 66[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]گیا؟ اب انہیں فوراً دے دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے ایک پولیس افسر سے کہا۔ اس نے بیان کیا کہ اس وقت وہ وہاں موجود نہیں ہے۔ جیل میں بھیج دیا جائے گا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اس کے[/font][font=&quot] بعد مقدمہ 17 جنوری 1922ء تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]سابق کی طرح آج بھی ایک بہت بڑا مجمع سڑک پر موجود تھا اور برابر قومی نعرے لگا رہا تھا۔[/font][font=&quot]

[/font]​
[font=&quot]
[/font]
[font=&quot]پانچویں پیشی[/font][font=&quot]:[/font]
[font=&quot]17[/font][font=&quot]جنوری کو مولانا کے مقدمہ کی سماعت پریذیڈنسی سول جیل میں ہوئی۔ حسبِ معمول ہزاروں آدمی وقتِ مقرر پر پریذیڈنسی کورٹ پہنچ گئے تھے۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ مقدمہ کورٹ کی بجائے جیل میں ہوگا تو اپنے اپنے گھروں کو مایوس واپس گئے۔ پھر بھی ایک معقول تعداد ہندو مسلمانوں کی فوراً ٹیکسیوں میں سوار ہو کر جیل پہنچ گئی۔ مگر وہاں انہیں احاطۂ جیل کے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ مولانا کے اعزاء اور اخبارات کے نمائندوں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ عدالت کے اندر مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ اور چند سی آئی ڈی پولیس آفیسر موجود تھے۔ بارہ بجے مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ بمعیت رائے بہادر تارک ناتھ سادھو سرکاری وکیل آئے۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اخبارات کے نمائندوں نے اندر جانے کی پھر کوشش کی لیکن عدالت کے پیش کار نے کہا کہ حکام جیل سے اسکی درخواست کرنی چاہیے۔ وہی اسکی اجازت دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اسکی تعمیل کے لیے جیلر سے کہا گیا۔ اس نے کہا وہ کمرہ اب عدالت کو دے دیا گیا ہے۔ ان کا اس میں کوئی اختیار باقی نہیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ کو اسکی اطلاع دی گئی۔ لیکن جواب ملا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے پاس درخواست دی جائے۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]سپرنٹنڈنٹ اس وقت موجود نہ تھا ،اس لیے ملاقات نہ ہو سکی لیکن بعد کو سپرنٹنڈنٹ نے مولانا سے کہا کہ نہ تو اسکی طرف سے کوئی روک تھی اور نہ وہ روکنے کا مجاز تھا۔ اسکا اختیار تو صرف مجسٹریٹ کو تھا۔[/font]​
[font=&quot]صفحہ 67[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot]ٹھیک پونے بارہ بجے جیلر کے ہمراہ مولانا آئے۔ مولانا نے کمرہ عدالت کے اندر قدم رکھتے ہی دریافت کیا: "یہ کاروائی پبلک ہے یا پرائیویٹ؟"۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "پرائیویٹ، آپ تشریف رکھیں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا۔ "کیا آپ نے یہ مجھ سے کہا ہے؟ غالباً آپ کو یاد نہیں رہا کہ پہلے بھی میں دو مرتبہ آپ کے سامنے پیش ہو چکا ہوں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "مجھے یاد ہے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا۔ "گذشتہ موقعوں پر جب میں دو تین گھنٹے تک مسلسل کھڑا رہ سکا۔ تو آج بھی کھڑا رہنے میں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "افسوس ہے کہ مجھے ان موقعوں پر یاد نہ رہا۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا۔ "(آپ کے اس اعتراف کا) شکریہ۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ اپنا بیان لائے ہیں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا نے اپنا اردو بیان پیش کر دیا اور کہا کہ ان کے سیکرٹری کی عدم موجودگی کی وجہ سے انگریزی ترجمہ مکمل نہ ہو سکا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ اسکے ترجمے کے لیے اور مہلت چاہتے ہیں؟[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا۔ "نہیں، میں نہیں چاہتا کہ محض ترجمہ کے لیے مقدمہ میں تاخیر ہو۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مجسٹریٹ۔ "لیکن اگر اسکا انگریزی ترجمہ ہو جاتا تو عدالت کے لیے اس میں بڑی آسانی ہوتی۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اسکے بعد مقدمہ 19 تاریخ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن بعد کو خود بخود 19 کی بجائے 24 تاریخ کر دی گئی۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]چھٹی پیشی[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]24 [/font][font=&quot]جنوری کو مولانا کا مقدمہ سول جیل میں چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا۔ آج خلافِ معمول پبلک کی ایک معقول تعداد کو اندر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔[/font]​
[font=&quot]صفحہ 68[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]ایک بجے کے قریب مولانا تشریف لائے اور صرف یہ کاروائی ہوئی کہ مولانا کا بیان عدالت نے لے لیا اور 31 جنوری آئندہ پیشی کے لیے قرار پائی۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]ساتویں پیشی[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]مولانا کی طبیعت کئی دن سے علیل تھی۔ جگر کا فعل ناقص ہو جانے کی وجہ سے اسہال کی شکایت لاحق ہو گئی تھی۔ 31 کو ایک مرتبہ استفراغ بھی ہوا۔ جیل کے ڈاکٹر نے کہا۔ ایسی حالت میں ان کا عدالت جانا نہایت مضر ہوگا۔ سپرنٹنڈنٹ تیار ہے کہ عدالت کو اطلاع دے کر پیشی ملتوی کرا دی جائے۔ لیکن مولانا نے پسند نہ کیا کہ انکی وجہ سے کاروائی میں کسی طرح کا التواء یا تاخیر ہو۔ انہوں نے کہا[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]جب کاروائی جیل ہی کے احاطہ میں ہوتی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے چند قدم چلا جانا کچھ دشوار نہ ہوگا، جیل سے کوئی اطلاع عدالت کو نہ دی جائے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]لیکن تھوڑی دیر کے بعد سپرنٹنڈنٹ جیل، مسٹر سونیہو پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی چٹھی لیکر آئے جو 30 کی لکھی ہوئی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مولانا کا مقدمہ 9 فروری پر ملتوی کر دیا گیا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]5 [/font][font=&quot]جنوری کی کاروائی کے مقابلہ میں یہ کاروائی غنیمت تھی، کم از کم اطلاع تو دے دی گئی مگر سوال یہ کہ کیا اسطرح کی چٹھی مجسٹریٹ کی موجودگی اور ملزم کی حاضری کے قائم مقام ہو سکتی ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو یہ گویا قانونی مسئلہ عدالت میں ایک نئے قاعدہ کا اضافہ ہوگا۔ ہم اسے "ترمیم" بھی کہہ سکتے تھے ۔مگر جہاں تک معلوم ہے، 1908ء میں صرف ضابطہ فوجداری ہی کی "ترمیم" ہوئی تھی، ضابطہ عدالت کی نہیں ہوئی تھی[/font][font=&quot]![/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اب ہم پہلے مولانا کا بیان درج کرتے ہیں۔ اس کے بعد آخری پیشی کی روداد اور عدالت کا فیصلہ نقل کریں گے۔[/font]​
[font=&quot]__________________________________________________________________________________________________________‏02‏/05‏/2009[/font]​
 
[FONT=&quot]صفحہ 69[/FONT]​
[FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]مولانا ابوالکلام آزاد کا تحریری بیان[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]بہ بدمستی سزد گر مہتم سازد مرا ساقی[/FONT][FONT=&quot]
[/FONT][FONT=&quot]ہنوز از بادۂ پارینہ ام پیمانہ بردارد[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]الحمدللہ وحدہ[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT]​
[FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]عارضی وقفہ[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میرا ارادہ نہ تھا کہ کوئی تحریری یا تقریری بیان یہاں پیش کروں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے لیے نہ تو کسی طرح کی امید ہے، نہ طلب ہے، نہ شکایت ہے۔ یہ ایک موڑ ہے جس سے گزرے بغیر ہم منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے تھوڑی دیر کے لیے اپنی مرضی کے خلاف یہاں دم لینا پڑتا ہے، یہ نہ ہوتی تو ہم سیدھے جیل چلے جاتے۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو سال کے اندر میں نے ہمیشہ اسکی مخالفت کی کہ کوئی نان کواپریٹر کسی طرح کا بھی حصہ عدالت کی کاروائی میں لے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی، سنٹرل خلافت کمیٹی اور جمعیۃ العلماء ہند نے اگرچہ اس کی اجازت دے دی ہے کہ پبلک کی واقفیت کے لیے تحریری بیان دیا جا سکتا ہے، لیکن ذاتی طور پر میں لوگوں کو یہی مشورہ دیتا رہا کہ خاموشی کو ترجیح ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس لیے بیان دیتا ہے کہ مجرم نہیں، اگرچہ اسکا مقصد پبلک کی واقفیت ہو، تاہم وہ اشتباہ سے محفوظ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے بچاؤ کی ایک ہلکی سی خواہش اور سماعتِ حق کی ایک کمزور سی توقع اسکے اندر کام کر[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 70[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]رہی ہو، حالانکہ نان کوآپریشن کی راہ بالکل قطعی اور یک سو ہے۔ وہ اس بارے میں اشتباہ بھی گوارہ نہیں کر سکتی۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]کامل مایوسی، اس لیے کامل تبدیلی کا عزم[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]نان کوآپریشن" موجودہ حالت سے کامل مایوسی کا نتیجہ ہے اور اسی مایوسی سے کامل تبدیلی کا عزم پیدا ہوا ہے۔ ایک شخص جب گورنمنٹ سے نان کوآپریشن کرتا ہے[/FONT][FONT=&quot]،[/FONT][FONT=&quot] تو گویا اعلان کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے انصاف اور حق پسندی سے مایوس ہو چکا ہے۔ وہ اسکی غیر منصف طاقت کے جواز سے منکر ہے اور اس لیے تبدیلی کا خواہشمند ہے۔ پس جس چیز سے وہ اس درجہ مایوس ہو چکا کہ تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا، اس سے کیوں کر امید کر سکتا ہے کہ ایک منصف اور قابلِ بقا طاقت کی طرح اسکے ساتھ انصاف کرے گی؟[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اس اصولی حقیقت سے اگر قطع نظر کر لیا جائے ، جب بھی موجودہ حالت میں بریّت کی امید رکھنا ایک بے سود زحمت سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ گویا اپنی معلومات سے انکار ہوگا۔ گورنمنٹ کے سوا کوئی ذی حواس اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ بحالتِ موجودہ سرکاری عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایسے اشخاص سے مرکب ہیں جو انصاف کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ ایسے نظام (سسٹم) پر مبنی ہیں جن میں رہ کر کوئی مجسٹریٹ ان ملزموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا جن کے ساتھ خود گورنمنٹ انصاف کرنا پسند نہ کرتی ہو۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ "نان کوآپریشن" کا خطاب صرف گورنمنٹ، گورنمنٹ کے سسٹم اور موجودہ حکومتی اور قومی اصولوں سے ہے، افراد اور اشخاص سے نہیں ہے۔[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 71[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]عدالت گاہ ناانصافی کا قدیم ترین ذریعہ ہے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں، تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی، دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے ل[/FONT][FONT=&quot]ے[/FONT][FONT=&quot]کر[/FONT][FONT=&quot] سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسط (مڈل ایجز) کی پراسرار "انکویزیشن" وجود نہیں رکھتیں، لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور ناانصاف کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں؟[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]ایک عجیب مگر عظیم الشان جگہ[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 72[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]آتا ہے، جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک انکا اظہار جرم تھا۔ میں نے حضرت مسیح کو انسان کہا، کیونکہ میرے اعتقاد میں وہ ایک مقدس انسان تھے جو نیکی اور محبت کا آسمانی پیام لے کر آئے تھے۔ لیکن کروڑوں انسانوں کے اعتقاد میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں؟ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے، جہاں سب سے اچھے اور سب سے بُرے، دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں؟ اتنی بڑی ہستی کے لیے بھی یہ ناموزوں جگہ نہیں[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]حمد و شکر[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اس جگہ کی عظیم الشان اور عمیق تاریخ پر جب میں غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اسی جگہ کھڑے ہونے کی عزت آج میرے حصہ میں آئی ہے، تو بے اختیار میری روح خدا کے حمد و شکر میں ڈوب جاتی ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے کہ میرے دل کے سرور و نشاط کا کیا عالم ہوتا ہے؟ میں مجرموں کے اس کٹہرے میں محسوس کرتا ہوں کہ بادشاہوں کے لیے قابلِ رشک ہوں۔ ان کو اپنی خواب گاہِ عیش میں وہ خوشی اور راحت کہاں نصیب جس سے میرے دل کا ایک ایک ریشہ معمور ہو رہا ہے؟ کاش غافل اور نفس پرست انسان اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائے! اگر ایسا ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ لوگ اس جگہ کے لیے دعائیں مانگتے[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]میں بیان کیوں دیتا ہوں؟[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]بہرحال میرا ارادہ نہ تھا کہ بیان دوں۔ لیکن 6 جنوری کو جب میرا مقدمہ پیش ہوا، تو میں نے دیکھا کہ گورنمنٹ مجھے سزا دلانے کے معاملہ میں نہایت عاجز اور پریشان[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 73[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]ہو رہی ہے، حالانکہ میں ایسا شخص ہوں جس کو اس کی خواہش اور خیال کے مطابق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سزا ملنی چاہئے۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]پہلے میرے خلاف دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن جب اس کا ویسا ثبوت بھی بہم نہ ہو سکا، جیسا آج کل اثباتِ جرم کے لیے کافی تصور کیا جاتا ہے، تو مجبوراً واپس لے لی گئی۔ اب 124-الف کا مقدمہ چلایا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بھی مقصد براری کے لیے کافی نہیں، کیونکہ جو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں وہ ان بہت سی باتوں سے بالکل خالی ہیں جو اپنی بے شمار تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور جو شاید گورنمنٹ کے لیے زیادہ کارآمد ہوتیں۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]یہ دیکھ کر میری رائے بدل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ جو سبب بیان نہ دینے کا تھا، وہی اب متقاضی ہے کہ خاموش نہ رہوں اور جس بات کو گورنمنٹ باوجود جاننے کے دکھلا نہیں سکتی، اسے خود کامل اقرار کے ساتھ اپنے قلم سے لکھ دوں۔ میں جانتا ہوں کہ قانونِ عدالت کی رو سے یہ میرے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ میری جانب سے پراسکیوشن کے لیے یہی بہت بڑی مدد ہے کہ میں نے ڈیفنس نہیں کیا۔ لیکن حقیقت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیں ہے۔ یقیناً یہ سچائی کے خلاف ہوگا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدہ رہنے دی جائے کہ مخالف اپنی عاجزی کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]اقرارِ "جرم[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT]​
[FONT=&quot]۱۔[/FONT][FONT=&quot]ہندوستان کی موجودہ بیوروکریسی ایک ویسا ہی حاکمانہ اقتدار ہے جیسا اقتدار ملک و قوم کی کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور انسان حاصل کرتے رہے ہیں۔ قدرتی طور پر یہ اقتدار قومی بیداری کے نشو و نما اور آزادی و انصاف کی جد و جہد کو مبغوض رکھتا ہے، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ اس کی غیر منصفانہ طاقت کا زوال ہے اور کوئی وجود اپنا زوال پسند نہیں کر سکتا اگرچہ از روئے انصاف کتنا ہی ضروری ہو۔ یہ گویا تنازع للبقا [/FONT][FONT=&quot](Struggle for Existence) [/FONT][FONT=&quot]کی[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 74[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]ایک جنگ ہوتی ہے جس میں دونوں فریق اپنے اپنے فوائد کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ قومی بیداری چاہتی ہے کہ اپنا حق حاصل کرے۔ قابض طاقت چاہتی ہے کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے فریق کی طرح آخر الذکر بھی قابلِ ملامت نہیں۔ کیونکہ وہ بھی اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسکا وجود انصاف کے خلاف واقع ہوا ہو۔ ہم طبعیت کے مقتضیات سے تو انکار نہیں کر سکتے؟ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں نیکی کی طرح برائی بھی زندہ رہنا چاہتی ہے، وہ خود کتنی ہی قابلِ ملامت ہو، لیکن زندگی کی خواہش کو قابلِ ملامت نہیں۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]ہندوستان میں بھی یہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اگر بیوروکریسی کے نزدیک آزادی اور حق طلبی کی جدوجہد جرم ہو اور وہ ان لوگوں کو سخت سزاؤں کا مستحق خیال کرے جو انصاف کے نام سے اس کی غیر منصفانہ ہستی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نہ صرف اس کا مجرم ہوں، بلکہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس جرم کی اپنی قوم کے دلوں میں تخم ریزی کی ہے اور اس کی آبیاری کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہے۔ میں مسلمانانِ ہند میں پہلا شخص ہوں جس نے [/FONT][FONT=&quot]1912[/FONT][FONT=&quot]ء میں اپنی قوم کو اس جرم کی عام دعوت دی اور تین سال کے اندر اس غلامانہ روش سے انکا رخ پھیر دیا جس میں گورنمنٹ کے پر پیچ فریب نے مبتلا کر رکھا تھا۔ پس اگر گورنمنٹ مجھے اپنے خیال میں مجرم سمجھتی ہے اور اس لیے سزا دلانا چاہتی ہے، تو میں پوری صاف دلی کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں ہے جس کے لیے مجھے شکایت ہو۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں جانتا ہوں کہ گورنمنٹ فرشتہ کی طرح معصوم ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے کیونکہ اس نے خطاؤں کے اقرار سے ہمیشہ انکار کیا، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے مسیح ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ پھر میں کیوں امید کروں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 75[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]وہ تو وہی کرے گی جو کر رہی ہے اور جو ہمیشہ استبداد نے آزادی کے مقابلہ میں کیا ہے۔ پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لیے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]گورنمنٹ بنگال اور میری گرفتاری[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]۲۔ [/FONT][FONT=&quot]میں یہ بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا معاملہ جو کچھ تھا، گورنمنٹ آف انڈیا سے تھا۔ وہ کسی خاص معین الزام کی بنا پر نہیں بلکہ موجودہ تحریک کی عام مشغولیت کی وجہ سے مجھے گرفتار کر سکتی تھی اور جیسا کہ قاعدہ ہے گرفتاری کے لیے کوئی حیلہ پیدا کر لیتی ہے۔ چنانچہ ملک میں عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ علی برادرز سے مجھے زیادہ مہلت دی گئی مگر اب زیادہ عرصہ تک تغافل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ گورنمنٹ بنگال کے سامنے اس وقت میرا معاملہ نہ تھا۔ نہ وہ دفعہ 124-الف کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ اس دفعہ کے ثبوت میں جو تقریریں پیش کی گئی ہیں، وہ نصف سال پہلے کلکتہ میں کی گئی ہیں اور گورنمنٹ نے مقدمہ کی اجازت 22 دسمبر کو دی ہے، یعنی میری گرفتاری سے 12 دن بعد۔ اگر فی الواقع ان تقریروں میں سڈیشن تھا، تو کیوں مجھے 6 ماہ تک گرفتار نہیں کیا گیا؟ اور اب گرفتار کیا بھی تو گرفتاری کے بارہ دن بعد؟ ہر شخص ان دو واقعات سے صاف صاف سمجھ سکتا ہے کہ صورتِ حال کیا ہے؟ خصوصاً جب یہ تیسرا واقعہ بھی بڑھا دیا جائے کہ ابتدا میں جو دفعہ ظاہر کی گئی، وہ 124 نہ تھی۔ 17 ترمیم ضابطہ فوجداری تھی پچیس دن کے بعد مجھ سے کہا جاتا ہے کہ وہ واپس لے لی گئی ہے[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]گرفتاری کا اصل باعث[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]حقیقت یہ ہے کہ میری گرفتاری میں اس دفعہ کو کوئی دخل نہیں۔ یہ قطعی ہے کہ مجھے انہی حالات کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا جو 17 نومبر کے بعد رونما ہوئے ہیں، اگر میں پہلی[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 76[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]دسمبر کو کلکتہ نہ آتا، یا 10 دسمبر سے پہلے باہر چلا جاتا۔ جس کی جلسہ جمعیۃ العلماء بدایوں کی وجہ سے واقع تھی، تو گورنمنٹ بنگال مجھ سے کوئی تعرض نہ کرتی۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]17 [/FONT][FONT=&quot]نومبر کے بعد دنیا کی تمام چیزوں میں سے جو چاہی جا سکتی ہیں، وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ 24 نومبر کو جب پرنس کلکتہ پہنچیں تو ہڑتال نہ ہو اور جو جابرانہ بے وقوفی ترمیم ضابطہ فوجداری 1908ء کے نفاذ میں ہو گئی ہے، وہ ایک دن کے لیے قبول کر لی جائے۔ وہ خیال کرتی تھی کہ میری اور مسٹر سی۔ آر۔ داس کی موجودگی اس میں حارج ہے۔ اس لیے کچھ عرصہ کے تذبذب اور غور و فکر کے بعد ہم دونوں گرفتار کر لیے گئے۔ گرفتاری بلا وارنٹ کے ہوئی تھی، لیکن جب دوسرے دن ضابطہ کی نمائش پوری کرنے کے لیے مجسٹریٹ جیل میں بھیجا گیا، تو مسٹر داس کی طرح میری گرفتاری کے لیے بھی دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت وارنٹ پیش کیا گیا۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں گذشتہ دو سال کے اندر بہت کم کلکتہ میں رہ سکا ہوں۔ میرا تمام وقت زیادہ تر تحریکِ خلافت کی مرکزی مشغولیت میں صرف ہوا یا ملک کے پیہم دوروں میں۔ اکثر ایسا ہوا کہ مہینے دو مہینے کے بعد چند دنوں کے لیے کلکتہ آیا اور بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کے کاموں کی دیکھ بھال کر کے پھر چلا گیا۔ وسط نومبر سے بھی میں سفر میں تھا۔ 16 کو کلکتہ سے روانہ ہوا تا کہ جمعیۃ العلماء الہند کے سالانہ اجلاس لاہور میں شریک ہوں۔ وہاں مہاتما گاندھی کے تار سے بمبئی کی شورش کا حال معلوم ہوا اور میں بمبئی چلا گیا۔ جنوری تک میرا ارادہ واپسی کا نہ تھا کیونکہ 10 دسمبر کو جمعیۃ العلماء کا اسپیشل اجلاس بدایوں میں تھا۔ اس میں شرکت ضروری تھی۔ اس کے علاوہ مجھے تمام وقت انگورہ فنڈ کی فراہمی میں صرف کرنا تھا۔ لیکن یکا یک گورنمنٹ بنگال کے تازہ جبر و تشدد اور 18 کمیونک کی اطلاع بمبئی میں ملی اور میرے لیے نا ممکن ہو گیا کہ ایسی حالت میں کلکتہ سے باہر رہوں۔ میں نے مہاتما گاندھی سے مشورہ کیا، انکی بھی یہی رائے ہوئی کہ مجھے تمام پروگرام ملتوی کر کے کلکتہ چلا جانا[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 77[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]چاہئے۔ زیادہ خیال ہمیں اس بات کا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو، گورنمنٹ کا جبر و تشدد لوگوں کو بے قابو کر دے اور کوئی بات صبر و ضبط کے خلاف کر بیٹھیں۔ علی الخصوص جبکہ "سول گارڈ" کے قیام کی خبریں بھی آ چکی تھیں اور اس بارے میں ہمیں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی تھی کہ یہ نئی اسلحہ بندی کن شریفانہ اور پر امن اغراض کے لیے وجود میں آئی ہے؟[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں پہلی دسمبر کو کلکتہ پہنچا، میں نے ظلم اور برداشت، دونوں کے انتہائی مناظر اپنے سامنے پائے[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں نے دیکھا کہ 17 نومبر کی یادگار ہڑتال سے بے بس ہو کر گورنمنٹ اس آدمی کی طرح ہو گئی ہے جو جوش اور غصہ میں آپے سے باہر ہو جائے اور غیظ و غضب کی کوئی حرکت بھی اس سے بعید نہ ہو۔ 1908ء کے کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت قومی رضاکاروں کی تمام جماعتیں "مجمع خلافِ قانون[/FONT][FONT=&quot]" ([/FONT][FONT=&quot]ان لا فُل) قرار دے دی گئی ہیں، پبلک اجتماعات یک قلم روک دیئے ہیں، قانون صرف پولیس کی مرضی کا نام ہے، وہ "ان لا فل جماعت" کی تشویش اور شبہ میں جو حتیٰ کہ راہ چلتوں کی جان و آبرو بھی محفوظ نہیں۔ گورنمنٹ نے پہلے [/FONT][FONT=&quot]18 [/FONT][FONT=&quot]نومبر کے کمیونک میں صرف سابق و موجودہ رضا کار جماعتوں کا ذکر کیا تھا، لیکن 24 کو دوسرا کمیونک جاری کر کے تمام آئندہ جماعتیں بھی خلاف قانون قرار دی گئیں اور پولیس نے بلا امتیاز ہر شخص کو جو اس کے سامنے آ گیا، گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ کوئی بات بھی جس سے 24 کی ہڑتال کے رکنے کا امکان ہو، پولیس اور پولیس سے بھی زیادہ "شریف قوم" سول گارڈ کے لیے ناجائز نہیں۔ سول گارڈ گویا قومی رضا کاروں کا جواب ہے۔ وہ بالکل نہتے ہونے پر بھی "جبر و تشدد" سے ہڑتال کرا دیتے تھے۔ یہ ریوالور سے مسلح ہونے پر بھی "امن و صلح" کے ذریعہ ہڑتال روک دیں گے[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اسکے مقابلہ میں لوگوں نے بھی برداشت اور استقامت، دونوں کا گویا آخری عہد کر لیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ اپنی راہ سے ہٹیں گے، نہ تشدد کا مقابلہ کریں گے[/FONT][FONT=&quot]![/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 78[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]ان حالات میں میرے لیے فرض کی راہ بالکل صاف اور یک سو تھی۔ میں نے اپنے سامنے دو حقیقتیں بے نقاب دیکھیں: ایک یہ کہ گورنمنٹ کی تمام طاقت کلکتہ میں سمٹ آئی ہے، اس لیے فتح و شکست کا پہلا فیصلہ یہیں ہوگا، دوسری یہ کہ ہم کل تک پوری آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے لیکن موجودہ حالت نے بتلا دیا کہ ہماری آزادی کی مبادیات تک محفوظ نہیں ہیں۔ [/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]آزادیٔ تقریر اور آزادیٔ اجتماع" انسان کے پیدائشی حقوق ہیں۔ انکی پامالی مشہور فلاسفر "مل" کی زبان میں "انسانیت کے قتل عام سے کچھ ہی کم" کہی جا سکتی ہے، لیکن یہ پامالی بلا کسی جھجک کے علانیہ ہو رہی ہے۔ پس میں نے باہر کا تمام پروگرام منسوخ کر دیا اور فیصلہ کر لیا کہ اس وقت تک کلکتہ ہی میں رہونگا جب تک دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ظہور میں نہ آ جائے: یا گورنمنٹ اپنا کمیونک اور آڈر واپس لے لے یا مجھے گرفتار کر لے۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]گورنمنٹ نے 10 دسمبر کو مجھے گرفتار کر لیا۔ میں پورے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جیل کی طرف روانہ ہوا۔ کیونکہ میں اپنے پیچھے ایک فتح مند میدان چھوڑ رہا تھا۔ میرا دل خوشی سے معمور ہے کہ کلکتہ اور بنگال نے میری توقعات پوری کر دی۔ وہ پہلے جس قدر پیچھے تھا، اتنا ہی آج سب سے آگے ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کامیابی کے لیے گورنمنٹ کی امداد کا ہمیں پوری طرح اعتراف کرنا چاہئے۔ اگر وہ 17 نومبر کے بعد یہ طرز عمل اختیار نہ کرتی تو فی الواقع ہمارے لیے آئندہ کاموں کے انتخاب میں چند در چند مشکلات تھیں۔ ہم 22 کو بمبئی میں انہی مشکلات پر باہم غور و خوض کر رہے تھے۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]دو حقیقتیں[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]حقیقت یہ ہے کہ ان گذشتہ ایام نے بیک وقت دونوں حقیقتیں صفحاتِ تاریخ کے لیے مہیا کر دیں۔ اگر ایک طرف گورنمنٹ کے چہرے سے ادّعا و نمائش کے تمام (اس صفحے کی آخری لائن اسکین میں کٹ گئی ہے جو بعد میں درست کر دی جائی گی۔ م-و)۔[/FONT]​
[FONT=&quot]صفحہ 79[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]نمایاں ہو گئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اگر گورنمنٹ ہر طرح کے جبر و تشدد میں بالکل بے حجاب اور بے لگام ہے، تو ملک میں بھی صبر و برادشت کی طاقت روز افزوں نشوونما پا رہی ہے جیسا کہ ہمیشہ انکار کیا گیا ہے، آج بھی اس کا موقع حاصل ہے کہ انکار کر دیا جائے، لیکن کل تاریخ کے لیے یہ ایک نہایت ہی عبرت انگیز داستان ہوگی۔ یہ مستقبل کی راہنمائی کرے گی کہ کیوں کر اخلاقی مدافعت، مادی طاقت کے جارحانہ گھمنڈ کو شکست دے سکتی ہے؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف برداشت اور قربانی کے ذریعہ خونریز اسلحہ کا مقابلہ کیا جائے؟ البتہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں فریقوں میں سے کس فریق کے اندر اس بڑے انسان کی تعلیم تلاش کی جائے جو برائی کے مقابلہ میں صبر و عفو کی تعلیم لے کر آیا تھا؟ گورنمنٹ میں یا ملک میں؟ میں خیال کرتا ہوں کہ بیوروکریسی کے احکام اسکے نام سے ناواقف نہ ہونگے۔ اسکا نام "مسیح[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]تھا۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]گورنمنٹ کا فیصلہ اور شکست[/FONT][FONT=&quot]![/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]3۔ [/FONT][FONT=&quot]فلسفۂ تاریخ ہمیں بتلاتا ہے کہ نادانی اور ناعاقبت اندیشی ہمیشہ زوال پذیر طاقتوں کی رفیق ہوتی ہے۔ گورنمنٹ نے خیال کیا کہ وہ جبر و تشدد سے تحریکِ خلافت و سوراج کو پامال کر دے گی اور 24 کی ہڑتال رک جائے گی۔ اس نے والنٹیر کورز کو خلافِ قانون قرار دیا اور بلا امتیاز تمام کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ وہ سمجھتی تھی کہ والنٹیرز کی ممانعت اور کارکنوں کی گرفتاری کے بعد خلافت اور کانگریس کا نظام معطل ہو جائے گا اور اس طرح خود بخود ہڑتال رک جائے گی۔ لیکن بہت جلد گورنمنٹ کو معلوم ہو گیا کہ جبر و تشدد جب قومی بیداری کے مقابلہ میں نمایاں ہو، تو وہ کوئی مہلک چیز نہیں ہوتی۔ نہ ہڑتال رک سکی، نہ خلافت اور کانگریس کمیٹیاں معطل ہوئیں اور نہ والنٹیرز کا کام ایک دن کے لیے بند ہوا، بلکہ ہماری غیر موجودگی میں یہ ساری چیزیں زیادہ طاقتور اور غیر مسخر ہو گئیں۔ میں نے 8 دسمبر کو جو پیغام ملک کے نام لکھا تھا، اس میں گورنمنٹ بنگال کے لیے [/FONT]​
 
[font=&quot]صفحہ 80[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]بھی یہ پیغام تھا کہ "میری اور مسٹر سی - آر داس کی گرفتاری کے بعد کام زیادہ طاقت اور مستعدی کے ساتھ جاری رہے گا اور 24 کو مکمل ہڑتال ہوگی، جس قدر ہماری موجودگی میں ہو سکتی تھی" چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ گورنمنٹ خود اپنے پسند کئے ہوئے میدان میں ہار گئی۔ اب وہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور جن لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے، انہیں کسی نہ کسی طرح سزا دلانا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بالکل بے سود ہے، طاقتور آدمی کو شکست کے بعد زیادہ غصہ آتا ہے لیکن کوئی شکست اس لیے فتح نہیں بن سکتی کہ ہم بہت زیادہ جھنجھلا سکتے ہیں[/font][font=&quot]![/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]دفعہ 124-الف[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]غرضیکہ میری گرفتاری صریح طور انہی واقعات کا نتیجہ ہے اور اسی لیے دو ہفتہ تک میرے خلاف دفعہ 17-ترمیم ضابطہ فوجداری ہی کا دعویٰ قائم رہا، لیکن جب اس بارے میں کوئی سہارا نہ ملا تو میرے پریس اور مکان کی تلاشی لی گئی۔ تا کہ میری کوئی تحریر حاصل کر کے بنائے مقدمہ قرار دی جائے۔ جب وہاں سے بھی کوئی مواد ہاتھ نہ آیا تو مجبوراً سی۔آئی۔ڈی کے محفوظ ذخیرہ کی طرف توجہ کی گئی۔ یہ ذخیرہ ہمیشہ اس شریفانہ کام کے لیے مستعد رہتا ہے اور ضرورت کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ پس اس طرح بہ ہزار زحمت دفعہ 124-الف دعویٰ تیار ہو گیا۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]اجتماعِ ضدّین[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۴۔ [/font][font=&quot]یہ پریشانی گورنمنٹ کو خود اسی کی منافقانہ روش کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ چاہتی ہے کہ شخصی حکمرانوں کی طرح بے دریغ جبر و تشدد کرے، دوسری طرف چاہتی ہے کہ نمائشی قانون و عدالت کی آڑ بھی قائم رہے۔ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں، جمع نہیں ہو سکتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی پریشانی و درماندگی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔[/font]​
[font=&quot]صفحہ 81[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]جو لوگ اس کے خیال میں سب سے زیادہ مستحقِ تعزیر ہیں، انہی کو سزا دلانا اس کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ابھی چند ہی مہینے گزرے ہیں کہ ہم کراچی میں گورنمنٹ کی سراسیمگی و درماندگی کا تمسخر انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جو سرکاری استغاثہ اس دعویٰ اور اہتمام کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اس سے خود گورنمنٹ کی پسندیدہ اور انتخاب کردہ جیوری بھی اتفاق نہ کر سکی[/font][font=&quot]![/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]لطف یہ ہے کہ یہ مشکلات گورنمنٹ کو ایسی حالت میں پیش آ رہی ہیں کہ جب وہ چاہتی ہے کہ نان کوآپریٹرز کی جانب سے ڈیفنس نہیں کیا جائے گا اور سخت سے سخت غلط بیانی اور قانون شکنی کی حالت میں بھی پردہ دری اور شکست کا کوئی کھٹکا نہیں ہے۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]نئی قانونی تشریحات[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]گورنمنٹ نے اس اطمینان سے پوری طرح کام لینے میں کوئی کوتاہی بھی نہیں کی ہے۔ نان کوآپریٹرز کے مقدمات آج کل جس طرح چکائے جا رہے ہیں، اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ "لاء" اور "آرڈر" کے معنی بیوروکریسی کی اصطلاح میں کیا ہیں؟ "لاء" اور "آرڈر" کی طرح اب دعویٰ، ثبوت، شہادت، تشخیص (آئی ڈینٹی فائی) وغیرہ تمام عدالتی مصطلحات کے معنی میں بھی انقلاب ہو گیا ہے۔ گویا نان کوآپریٹرز کو جلد سزا دینے کے لیے ہر طرح کی بے قاعدگی اور قانون شکنی جائز ہے۔ حتی کہ اس بات کی بھی تحقیق ضروری نہیں کہ جس انسان کے ملزم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، کٹہرے کا ملزم وہی آدمی ہے بھی یا نہیں؟ ابھی اسی ہفتہ جوڑا بگان کی عدالت سے ایک شخص [/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]عبدالرحمٰن ہاشم" کو اس پرزور قانونی اور منطقی ثبوت پر چھ ماہ کی سزا دی گئی ہے کہ "اعظم ہاشم" نامی ایک خلافت والنٹیر دنیا میں وجود رکھتا ہے اور دونوں کے نام میں لفظ "ہاشم" مشترک ہے! خود میرے مقدمہ میں جو صریح بے ضابطگیاں کی گئی ہیں ان کا ذکر لا حاصل سمجھ کر نہیں کرنا چاہتا، ورنہ وہی اس حقیقت کے انکشاف کے لیے کافی تھیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک[/font]​
[font=&quot]صفحہ 82[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]واقعہ کا ذکر کرونگا جو بے قاعدگی اور غلط بیانی، دونوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے دفعہ 17 ترمیم ضابطہ فوجداری سے بری کر دیا گیا اور دفعہ [/font][font=&quot]124-[/font][font=&quot]الف کے ماتحت وارنٹ حاصل کیا گیا۔ قاعدہ کی رو سے رہائی اور ازسر نو گرفتاری، دونوں باتیں وقوع آنی چاہئیں تھیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ 124-الف کا کوئی وارنٹ مجھ پر تعمیل نہیں کیا گیا۔ حتی کہ 6 جنوری تک مجھے اسکا علم بھی نہیں ہوا۔ لیکن میرے ساتھ مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر پولیس نے یہ حلفیہ شہادت دی ہے کہ اسکے پریذیڈنسی جیل میں مجھ پر وارنٹ سرو کیا ہے[/font][font=&quot]![/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]یہ سچ ہے کہ نان کوآپریٹر کسی طرح کا ڈیفنس نہیں کرتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ آدمی اپنے تمام کپڑے اتار ڈالے، اس لیے کہ شریف آنکھیں بند کر لیں گے۔ شریف آدمیوں نے تو سچ مچ آنکھیں بند کر لی ہیں لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]قانون کا ڈرامہ[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]فی الحقیقت "لاء" اور "آرڈر" کا ایک ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے جسے ہم کامیڈی اور ٹریجڈی دونوں کہہ سکتے ہیں۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]وہ تماشہ کی طرح مضحک بھی ہے اور مقتل کی طرح درد انگیز بھی، لیکن میں ٹریجڈی کہنا زیادہ پسند کرونگا۔ حسنِ اتفاق سے اس کا چیف ایکٹر انگلستان کا سابق چیف جسٹس ہے۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]میری تقریریں[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۵۔ [/font][font=&quot]پراسکیوشن کی جانب سے میری دو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں جو میں نے پہلی اور پندرھویں جولائی کو مرزا پور پارک کے جلسے میں کی تھیں۔ اس زمانہ میں گورنمنٹ بنگال نے گرفتاریوں کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اور چار مبلغینِ خلافت پر مقدمہ چلا کر سزائیں دلائی تھیں۔ میں اس وقت سفر سے بیمار واپس آیا تھا۔ میں نے دیکھا[/font]​
[font=&quot]صفحہ 83[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]کہ لوگوں میں بے حد جوش پھیلا ہوا ہے اور ہر طرح کے مظاہرے کے لیے لوگ بیقرار ہیں۔ چونکہ میرے خیال میں گرفتاریوں پر مظاہرہ کرنا نان کوآپریشن کے اصول کے خلاف تھا، اس لیے میں نے ہڑتال اور جلوس یک قلم روک دیئے۔ اس پر عوام کو شکایت ہوئی تو میں نے یہ جلسے منعقد کئے اور لوگوں کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ نان وایلنس، نان کوآپریشن کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ گرفتاریوں پر صبر و سکون کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ اگر فی الواقع ان گرفتاریوں کا تمھارے دل میں درد ہے تو چاہئے کہ اصلی کام کرو اور بیرونی کپڑا ترک کرکے دیسی گاڑھا پہن لو۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے، وہ نہایت ناقص، غلط اور مسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ اسکے پڑھنے سے ہر شخص سمجھ لے سکتا ہے۔ تاہم میں اسکے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر (کیونکہ اسکے اعتراف سے میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے[/font][font=&quot]) [/font][font=&quot]باقی وہ تمام حصہ تسلیم کر لیتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے، یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]استغاثہ کی جانب سے صرف تقریریں پیش کر دی گئی ہیں، یہ نہیں بتلایا ہے کہ ان کے کن جملوں کو وہ ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہے؟ یا اسکے خیال میں "مائی ڈیئر برادران" سے لیکر آخر تک سب 124-الف ہے؟ میں نے بھی دریافت نہیں کیا کیونکہ دونوں صورتیں میرے لیے یکساں ہیں، تاہم ان نقول کو دیکھتا ہوں تو استغاثہ کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ قابلِ ذکر جملے حسبِ ذیل ہیں[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]ایسی گورنمنٹ ظالم ہے۔ جو گورنمنٹ ناانصافی کے ساتھ قائم ہو۔ ایسی گورنمنٹ کو یا [/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 84[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]تو انصاف کے آگے جھکنا چاہیے یا دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]اگر فی الحقیقت تمھارے دلوں میں اپنے گرفتار بھائیوں کا درد ہے تو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ آج سوچ لے۔ کیا وہ اس بات کے لیے راضی ہے کہ جس جابرانہ قوت نے انہیں گرفتار کیا ہے وہ اس براعظم میں اسی طرح قائم رہے جس طرح انکی گرفتاری کے وقت تھی؟[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]اگر تم ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہو تو اسکا راستہ یہ ہے کہ جن چالاک دشمنوں کے پاس خونریزی کا بے شمار سامان موجود ہے، انہیں رائی کے برابر بھی اسکے استعمال کا موقع نہ دو اور کامل امن و برداشت کے ساتھ کام کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچاؤ کا سامان کر لے ورنہ اسکی دلی خواہش یہ نہیں ہوتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ آج تمھارے لیے کام کر رہے ہیں، تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ ماننے کیلیے تیار نہ ہوگا کہ وہ جیل جانے یا نظر بند ہونے سے ڈرتے ہیں۔ (پس) اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ امن و نظم کے ساتھ کام کرنا چاہئے تو انکا مطلب یہ نہیں (ہو سکتا[/font][font=&quot]) [/font][font=&quot]کہ اس ظالمانہ گورنمنٹ (کے ساتھ) وفاداری کرنی چاہتے ہیں۔ جو گورنمنٹ، اس کی طاقت اور (اس کا) تخت آج دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے، یقیناً وہ اس گورنمنٹ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اسکے بعد میں نے کہا ہوگا، مگر کاپی میں نہیں ہے۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]وہ تو صرف اس لیے یہ کہتے ہیں کہ خود تمھاری کامیابی باامن رہنے پر موقوف ہے۔ تمھارے پاس وہ شیطانی ہتھیار نہیں ہیں جن سے یہ گورنمنٹ مسلح ہے۔ تمھارے پاس صرف ایمان ہے، دل ہے، قربانی کی طاقت ہے۔ تم انہی طاقتوں سے (اصل میں "ہتھیاروں سے" ہوگا) کام لو۔ اگر تم چاہو کہ اسلحہ کے ذریعہ فتح کرو، تو تم نہیں[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 85[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]کر سکتے۔ آج امن و سکون سے بڑھ کر (تمھارے لیے) کوئی چیز نہیں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]اگر تم صرف چند گھڑیوں کے لیے گورنمنٹ کو حیران کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے میرے پاس بہت سے نسخے ہیں۔ اگر خدانخواستہ میں اس گورنمنٹ کا استحکام چاہتا تو وہ نسخے بتلا دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]([/font][font=&quot]لیکن) میں تو ایسی جنگ چاہتا ہوں (جو) ایک ہی دن میں ختم نہ ہو جائے، بلکہ فیصلہ کے آخری دن تک (جاری رہے) اور جب فیصلہ کی گھڑی آ جائے تو پھر یا تو یہ گورنمنٹ باقی نہ رہے، یا تیس کروڑ (انسان) باقی نہ رہیں۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]جو الفاظ بریکٹ کے اندر ہیں وہ تقریر کی پیش کردہ کاپیوں میں نہیں ہیں لیکن عبارت کے بامعنی ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ میں نے اس لیے تصحیح کر دی کہ پراسیکیوشن کو استدلال میں مدد ملے۔ اگر اس[/font][font=&quot]کے[/font][font=&quot] مقصد کے لیے پوری تقریر کی تصحیح و تکمیل ضروری ہو تو میں اسی طرح کر دینے کے لیے تیار ہوں۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]انکے علاوہ دونوں تقریروں میں لوگوں کو نان کوآپریشن کی دعوت دی ہے، مطالباتِ خلافت اور سوراج کو دہرایا ہے، پنجاب کے مظالم کو وحشیانہ کہا ہے، لوگوں کو بتلایا ہے کہ جو گورنمنٹ جلیانوالہ باغ امرتسر میں چند منٹوں کے اندر سینکڑوں انسانوں کو قتل کر ڈالے اور اس کو جائز فعل بتلائے، اس سے ناانصافی کی کوئی بات بھی بعید نہیں۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]اقرار[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۶۔ [/font][font=&quot]میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے نہ صرف انہی دو موقعوں پر بلکہ گزشتہ دو سال کے اندر اپنی بے شمار تقریروں میں یہ اور اسی مطلب کے لیے اس سے زیادہ واضح اور قطعی جملے کہے ہیں۔ ایسا کہنا میرے اعتقاد میں میرا فرض ہے۔ میں فرض کی تعمیل سے اس لیے باز نہیں رہ سکتا کہ وہ 124-الف کا جرم قرار دیا جائے گا۔ میں اب بھی ایسا ہی کہنا چاہتا ہوں اور جب تک بول سکتا ہوں ایسا ہی کہتا رہوں گا۔ اگر میں ایسا نہ کہوں تو اپنے آپ کو خدا [/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 86[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]اور اس کے بندوں کے آگے بدترین گناہ کا مرتکب سمجھوں۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۷۔[/font][font=&quot] یقیناً میں نے کہا ہے "موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے" لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں؟ میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]میں کم سے کم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں یہی ہے۔ ایسی ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو، میرے علم میں کوئی نہیں۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں: گورنمنٹ ناانصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے۔ اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس کے ہم عمر کہے جا سکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے، اسے یا تو درست ہو جانا چاہیے، یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسری بات کیا ہو سکتی ہے؟ جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا ہوں، تو یقیناً یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اسکی عمر بھی دراز ہو[/font][font=&quot]![/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]میرا یہ اعتقاد کیوں ہے؟[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۸۔ [/font][font=&quot]میرا اور میرے کروڑوں ہم وطنوں کا ایسا اعتقاد کیوں ہے؟ اسکے وجوہ و دلائل اب اس قدر آشکارا ہو چکے ہیں کہ ملٹن کے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے "سورج کے بعد دنیا کی ہر چیز سے زیادہ واضح اور محسوس"۔ محسوسات کے لیے ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ انکار نہ کرو۔ تاہم میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ اعتقاد اس لیے ہے کہ میں ہندوستانی ہوں، اس لیے ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس لیے ہے کہ میں انسان ہوں۔[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 87[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]شخصی اقتدار بالذات ظلم ہے[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور ہر قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوش نما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں، لیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور اسکے قانون کے خلاف ہے۔ پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اسکی محکومی سے ملک اور قوم کو نجات دلاؤں۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]اصلاحات" اور "بتدریج توسیع اختیارات" کا مشہور مغالطہ میرے اس صاف اور قطعی اعتقاد میں کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کر سکتا۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور کسی انسان کو اختیار نہیں کہ حقوق کی ادائیگی میں حد بندی اور تقسیم کرے۔ یہ کہنا کہ کسی قوم کو اس کی آزادی بتدریج ملنی چاہیے، بعینیہ ایسی ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مالک کو اس کی جائیداد اور قرضدار کو اس کا قرض ٹکڑے ٹکڑے کر کے دینا چاہیے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر مقروض سے ایک ہی دفعہ قرضہ واپس نہ مل سکے تو قرضدار کو یہی کرنا پڑے گا کہ قسط کی صورت میں وصول کرے۔ لیکن یہ ایک مجبوری کا سمجھوتہ ہوگا۔ اس سے بہ یک دفعہ وصولی کا حق زائل نہیں ہو سکتا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]ریفارم" کی نسبت میں روس کے عظیم الشان لیو ٹالسٹائی کے لفظوں میں کہوں گا "اگر قیدیوں کو اپنے ووٹ سے اپنا جیلر منتخب کر لینے کا اختیار مل جائے تو اس سے وہ آزاد نہیں ہو جائیں گے۔[/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]میرے لیے اسکے اچھے برے کاموں کا سوال ایک ثانوی سوال ہے۔ پہلا سوال خود اس کے وجود کا ہے۔ میں ایسے حاکمانہ اقتدار کو بہ اعتبار اس کی خلقت ہی کے ناجائز یقین کرتا ہوں۔ اگر وہ تمام ناانصافیاں ظہور میں نہ آتیں جو اس کثرت سے واقع ہو چکی ہیں، جب بھی میرے اعتقاد میں وہ ظلم تھا کیونکہ اس کی ہستی ہی سب سے بڑی[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 88[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]ناانصافی ہے اور اس کی برائی کے لیے اس قدر کافی ہے کہ وہ موجود ہو۔ اگر وہ اچھے کام کرے تو اچھائی تسلیم کر لی جائے گی، لیکن اس کا وجود ناجائز اور ناانصافی ہی رہے گا۔ اگر ایک شخص ہماری جائیداد پر قابض ہو کر بہت سے اچھے اور نیک کام انجام دے تو اس کے کاموں کی خوبی کی وجہ سے اس کا قبضہ جائز نہیں ہو سکتا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]برائی میں کم و کیفیت کے اعتبار سے تقسیم کی جا سکتی ہے، لیکن حسنِ قبح کے اعتبار سے اس کی ایک ہی قسم ہے۔ یعنی اس اعتبار سے تقسیم ہو سکتی ہے کہ وہ کتنی اور کیسی ہے؟ اس اعتبارسے نہیں ہو سکتی کہ وہ اچھی ہے یا بری ہے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "زیادہ بری چوری" اور "کم بری چوری[/font][font=&quot]" [/font][font=&quot]لیکن یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ "اچھی چوری" اور "بری چوری"؟ پس میں بیوروکریسی کی اچھائی اور جائز ہونے کا کسی حال میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ فی نفسہ ایک ناجائز عمل ہے۔ البتہ اس کی برائی کم اور زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان کی بیوروکریسی تو اتنا بھی نہ کر سکی کہ اپنی خلقی برائی پر ہی قانع رہتی۔ جب اس کی خلقی برائی پر اس کی بے شمار عملی برائیوں کا بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے، تو پھر کیوں کر اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس ظلم کا اعلان نہ کیا جائے؟[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]اسلام اور بیوروکریسی[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]۹۔ [/font][font=&quot]میں مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان ہونے کے بھی میرا مذہبی فرض یہی ہے۔ اسلام کسی ایسے اقتدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو، یا چند تنخواہ دار حاکموں کی بیوروکریسی ہو۔ وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے، جو نوعِ انسانی کو اس کی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لیے آیا تھا۔ یہ آزادی بادشاہوں، اجنبی حکومتوں، خود غرض مذہبی پیشواؤں اور سوسائٹی کی طاقتور جماعتوں نے غصب کر رکھی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ حق طاقت اور قبضہ ہے۔ لیکن اسلام نے ظاہر ہوتے ہی اعلان کیا کہ حق طاقت نہیں بلکہ خود حق ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگانِ خدا کو اپنا محکوم اور غلام[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]صفحہ 89[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]بنائے۔ اس نے امتیاز اور بالادستی کے تمام قومی اور نسلی مراتب یک قلم مٹا دیئے اور دنیا کو بتلا دیا کہ سب انسان درجہ میں برابر ہیں اور سب کے حقوق مساوی ہیں۔ نسل، قومیت، رنگ، معیار فضیلت نہیں ہے، بلکہ صرف عمل ہے اور سب سے بڑا وہی ہے، جس کے کام سب اچھے ہوں: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ہ (سورہ حجرات، آیت 13[/font][font=&quot])[/font][font=&quot]


[/font][font=&quot]اسلام ایک جمہوری نظام ہے[/font][font=&quot]:[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]انسانی حقوق کا یہ وہ اعلان ہے جو انقلابِ فرانس سے گیارہ سو برس پہلے ہوا۔ یہ صرف اعلان ہی نہ تھا، بلکہ ایک عملی نظام تھا جو مشہور مورخ گبن کے لفظوں میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا۔[/font][font=&quot]

[/font][font=&quot]پیغمبرِ اسلام اور ان کے جانشینوں کی حکومت ایک مکمل جمہوریت تھی اور صرف قوم کی رائے، نیابت اور انتخاب سے اس کی بناوٹ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں جیسے جامع اور عمدہ الفاظ اس مقصد کے لیے موجود ہیں، شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں پائے جائیں۔ اسلام نے [/font][font=&quot]"[/font][font=&quot]بادشاہ" کے اقتدار اور شخصیت سے انکار کیا ہے اور صرف ایک رئیسِ جمہوریت [/font][font=&quot]([/font][font=&quot]پریزیڈنٹ آف ری پبلک) کا عہدہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی "خلیفہ[/font][font=&quot]" [/font][font=&quot]کا لقب تجویز کیا، جس کے لغوی معنی نیابت کے ہیں۔ گویا اس کا اقتدار محض نیابت ہے۔ اس سے زیادہ کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اسی طرح قرآن نے نظامِ حکومت کے لیے "شوریٰ" کا لفظ استعمال کیا: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ [/font][font=&quot](38:42) [/font][font=&quot]چنانچہ ایک پوری سوۃ اسی نام سے قرآن میں موجود ہے۔ "شوریٰ" کے معنی باہم مشورہ کے ہیں۔ یعنی جو کام کیا جائے، جماعت کی باہم رائے اور مشورہ سے کیا جائے۔ شخصی رائے اور حکم سے نہ ہو۔ اس سے زیادہ صحیح نام جمہوری نظام کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟[/font]​
[font=&quot]
[/font][font=&quot][/font]
 
[FONT=&quot]صفحہ 90[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]قومی اور مسلم بیوروکریسی ظلم ہے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]جب اسلام مسلمانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کو بھی منصفانہ تسلیم نہ کریں[/FONT][FONT=&quot]،[/FONT][FONT=&quot] جو قوم کی رائے اور انتخاب سے نہ ہو تو پھر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی بیوروکریسی کیا حکم رکھتی ہے؟ اگر آج ہندوستان میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے مگر اس کا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہو، تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس وقت بھی میرا فرض یہی ہوگا کہ اس کو ظلم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ اسلام کے علماء حق نے ہمیشہ جابر مسلمان بادشاہوں کے خلاف ایسا ہی اعلان و مطالبہ کیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نظام بعد کو قائم نہ رہ سکا۔ مشرقی رومی حکومت اور ایرانی شہنشاہی کے پر شوکت افسانوں نے مسلمان حکمرانوں کو گمراہ کر دیا۔ اسلامی خلیفہ کی جگہ، جو بسا اوقات پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک عام فرد کی طرح ملبوس ہوتا تھا، انہوں نے قیصر و کسریٰ بننے کو ترجیح دی۔ تاہم تاریخِ اسلام کا کوئی عہد بھی ایسے مسلمانوں سے خالی نہیں رہا ہے جنہوں نے علانیہ حکامِ وقت کے استبداد و شخصیت کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو اور ان تمام تکلیفوں کو خوشی خوشی جھیل نہ لیا ہو جو اس راہ میں پیش آئی ہیں۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]مسلمانوں کا قومی وظیفہ[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]ایک مسلمان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ حق کا اعلان نہ کرے اور ظلم کو ظلم نہ کہے، بالکل ایسی ہی بات ہے، جیسے یہ کہا جائے کہ وہ اسلامی زندگی سے دست بردار ہو جائے۔ اگر تم کسی آدمی سے اس مطالبہ کا حق نہیں رکھتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دے، تو یقیناً ایک مسلمان سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ظلم کو ظلم نہ کہے۔ کیونکہ دونوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]یہ تو اسلامی زندگی کا وہ عنصر ہے جس کے الگ کر دینے کے بعد اس کی سب سے[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]صفحہ 91[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]بڑی مابہ الامتیاز خصوصیت معدوم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ وہ دنیا میں سچائی اور حقیقت کے گواہ ہیں۔ ایک گواہ کا فرض ہوتا ہے کہ جو کچھ جانتا ہے بیان کرے۔ ٹھیک اسی طرح ہر مسلمان کا بھی وظیفہ (ڈیوٹی) ہے کہ جس سچائی کا اسے علم و یقین دیا گیا ہے، ہمیشہ اس کا اعلان کرتا رہے اور ادائے فرض کی راہ میں کسی آزمائش اور مصیبت سے نہ ڈرے۔ علی الخصوص جب ایسا ہو کہ ظلم و جور کا دور دورہ ہو جائے اور جبر و تشدد کے ذریعہ اعلانِ حق کو روکا جائے تو پھر یہ فرض اور زیادہ لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر طاقت کے ڈر سے لوگوں کا چپ ہو جانا گوارا کر لیا جائے اور "دو اور دو" کو اس لیے [/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]چار" نہ کہا جائے کہ ایسا کہنے سے انسانی جسم مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو پھر سچائی اور حقیقت ہمیشہ کے لیے خطرہ میں پڑ جائے اور حق کے ابھرنے اور قائم رہنے کی راہ باقی نہ رہے۔ حقیقت کا قانون نہ تو طاقت کی تصدیق کا محتاج ہے نہ اس لیے بدلا جا سکتا ہے کہ ہمارے جسم پر کیا گزرتی ہے؟ وہ تو حقیقت ہے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اس کے اعلان سے ہمیں پھولوں کی سیج ملے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اس کے اظہار سے ہمارا جسم آگ کے شعلوں کے اندر جھونک دیا جائے۔ صرف اس لیے کہ ہمیں قید کر دیا جائے گا، آگ میں ٹھنڈک اور برف میں گرمی نہیں پیدا ہو سکتی۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]شہادۃ علی النّاس[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کتابِ شریعت (قرآن) میں مسلمانوں کو بتلایا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میں "شاہد" ہیں۔ یعنی سچائی کی گواہی دینے والے ہیں۔ بحیثیت ایک قوم کے یہی ان کا وظیفہ (نیشنل ڈیوٹی) ہے اور یہی انکی قومی خصلت (نیشل کریکٹر) ہے۔ جو ان کو تمام پچھلی اور آئندہ قوموں میں ممتاز کرتی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاس (143:2) اسی طرح پیغمبر اسلام [/FONT][FONT=&quot]نے فرمایا: انتم شھداء اللہ فی الارض (بخاری) تم خدا کی زمین پر خدا کی طرف سے سچائی کے گواہ [/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]صفحہ 92[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]ہو۔ پس ایک مسلمان جب تک مسلمان ہے[/FONT][FONT=&quot]،[/FONT][FONT=&quot]اس[/FONT][FONT=&quot]کی[/FONT][FONT=&quot] گواہی کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]کتمانِ شہادت[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اگر وہ باز رہے، تو یہ قرآن کی اصطلاح میں "کتمانِ شہادت[/FONT][FONT=&quot]" [/FONT][FONT=&quot]ہے۔ یعنی گواہی کو چھپانا، قرآن نے ایسا کرنے والوں کو خدا کی پھٹکار کا سزاوار بتلایا ہے اور بار بار کہا ہے کہ اسی کتمانِ شہادت کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی قومیں برباد و ہلاک ہو گئیں[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَ[/FONT][FONT=&quot]۔[/FONT][FONT=&quot]ئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ہ[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]سورۃ البقرہ - آیت 159[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ ہ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ ہ[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]سورۃ مائدہ - آیت 78 -79[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]امر بالمعروف و نہی عن المنکر[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اسی لیے اسلام کے واجبات و فرائض میں ایک اہم فرض "امر بالمعروف" اور "نھی عن المنکر" ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ قرآن کریم نے عقیدۂ توحید کے بعد جن کاموں پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، ان میں سے ایک کام یہ ہے۔ قرآن نے بتلایا ہے کہ مسلمانوں کی تمام قومی بڑائی کی بنیاد اسی کام پر ہے۔ وہ سب سے بڑی اور اچھی قوم اسی لیے ہیں کہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی کو روکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اپنی ساری بڑائی کھو دیں۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ہ (سورۃ آل عمران - آیت 110)۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]صفحہ 93[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]قرآن سچے مسلمانوں کی پہچان یہ بتلاتا ہے کہ "وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہیں ڈرتے۔ نہ دنیا کی لالچ ان پر غالب آ سکتی ہے، نہ کوئی خوف، وہ طمع بھی رکھتے ہیں تو صرف خدا سے اور ڈرتے بھی ہیں تو صرف خدا سے۔[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]پیغمبرِ اسلام کے بے شمار قولوں میں جو اس بارے میں ہیں، ایک قول یہ ہے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]نیکی کا اعلان کرو۔ برائی کو روکو۔ اگر نہ کرو گے تو ایسا ہوگا کہ نہایت برے لوگ تم پر حاکم ہو جائیں گے اور خدا کا عذاب تمہیں گھیر لے گا۔ تم دعائیں مانگو گے کہ یہ حاکم ٹل جائیں مگر قبول نہ ہوں گی۔[/FONT][FONT=&quot]" ([/FONT][FONT=&quot]ترمذی و طبرانی عن حذیفتہ و عمر[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]لیکن یہ فرض کیوں کر انجام دیا جائے؟ تو اسلام نے تین مختلف حالتوں میں اس کے تین مختلف درجے بتلائے ہیں۔ چنانچہ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا: "تم میں جو شخص برائی کی بات دیکھے تو چاہیے، اپنے ہاتھ سے درست کر دے۔ اگر اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے اعلان کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ پائے تو اپنے دل میں اس کو برا سمجھے۔ لیکن یہ آخری درجہ ایمان کی بڑی ہی کمزوری کا درجہ ہے۔" "مسلم" ہندوستان میں ہمیں یہ استطاعت نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے گورنمنٹ کی برائیاں دور کر دیں۔ اس لیے ہم نے دوسرا درجہ اختیار کیا جس کی استطاعت حاصل ہے۔ یعنی زبان سے اس کا اعلان کرتے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]ارکانِ اربعہ[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]قرآن نے مسلمانوں کی اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے اور بتلایا ہے کہ ہر طرح کی انسانی ترقی اور کامیابی انہی کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے۔ ایمان، عملِ صالح، توصیہ حق، توصیہ صبر۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]توصیۂ حق" کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ حق اور سچائی کی ایک دوسرے کو وصیت کرنا۔ "توصیۂ صبر" کے معنی یہ ہیں کہ ہر طرح کی مصیتوں اور رکاوٹوں کو جھیل لینے کی وصیت کرنا۔ چونکہ حق کے اعلان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مصیبتیں پیش آئیں، اس لیے حق کے [/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]صفحہ 94[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]ساتھ صبر کی وصیت بھی ضروری تھی تا کہ مصیبتیں اور رکاوٹیں جھیل لینے کے لیے ہر حق گو تیار ہو جائے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ہ[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]سورۃ العصر[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]اسلامی توحید اور امر بالمعروف[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اسلام کی بنیاد عقیدۂ "توحید" پر ہے اور توحید کی ضد [/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]شرک" ہے جس سے بیزاری اور نفرت ہر مسلمان کی فطرت میں داخل کی گئی ہے۔ توحید سے مقصود یہ ہے کہ خدا کو اس کی ذات اور صفات میں ایک ماننا۔ شرک کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات اور صفتوں میں کسی دوسری ہستی کو شریک کرنا۔ پس سچائی کے اظہار میں بے خوفی اور بے باکی ایک مسلمان زندگی کا مایۂ خمیر ہے۔ توحید مسلمان کو سکھلاتی ہے کہ ڈرنے اور جھکنے کی سزاوار صرف خدا کی عظمت و جبروت ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس سے ڈرنا چاہیئے یا جس کے آگے جھکنا چاہیئے۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے ڈرنا، خدا کے ساتھ اس کو شریک کرنا اور اپنے دل کے خوف و اطاعت کا حقدار ماننا ہے۔ یہ بات توحید کے ساتھ اکھٹی نہیں ہو سکتی۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اس لیے اسلام تمام تر بے خوفی اور قربانی کی دعوت ہے۔ قرآن جا بجا کہتا ہے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot]مسلمان وہ ہے جو خدا کے سوا کسی اور سے نہ ڈرے، ہر حال میں سچی بات کہے۔" (ولم یخش الا اللہ)۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]پیغمبرِ اسلام نے فرمایا: "سب سے بہتر موت اس آدمی کی ہے جو کسی ظالم حکومت کے سامنے حق کا اظہار کرے اور اس کی پاداش میں قتل کیا جائے۔" (ابوداؤد) وہ جب کسی آدمی سے اسلام کا عہد اور اقرار کر لیتے تھے تو ایک اقرار یہ ہوتا تھا "میں ہمیشہ حق کا اعلان کروں گا، خواہ کہیں ہوں اور کسی حالت میں ہوں۔" (بخاری و مسلم)۔[/FONT][FONT=&quot]


[/FONT][FONT=&quot]صفحہ 95[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں حق گوئی اور حق گوئی کے لیے قربانی کی ایسی مثالیں نہیں مل سکتیں، جن سے تاریخِ اسلام کا ہر باب معمور ہے، اسلام کے عالموں، پیشواؤں، بزرگوں، مصنفوں کے تراجم[/FONT][FONT=&quot] (Biography) [/FONT][FONT=&quot]تمام تر اسی قربانی کی سرگذشت ہیں۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]جن مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ موت قبول کر لیں مگر حق گوئی سے باز نہ آئیں، ان کے لیے دفعہ 124-الف کا مقدمہ یقیناً کوئی بڑی ڈراؤنی چیز نہیں ہو سکتا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات برس کی قید ہے۔[/FONT][FONT=&quot]



[/FONT][FONT=&quot]اسلام میں کوئی دفعہ 124 نہیں[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]تاریخِ اسلام کے دو دور ہیں۔ پہلا دور پیغمبرِ اسلام اور ان کے چار جانشینوں کا ہے۔ یہ دور خالص اور کامل طور پر اسلامی نظام کا تھا۔ یعنی اسلامی جمہوریت (ری پبلک) اپنی اصلی صورت میں قائم تھی۔ ایرانی شہنشاہی اور رومی امارت[/FONT][FONT=&quot] (Aristocracy) [/FONT][FONT=&quot]کا کوئی اثر ابھی اسلامی مساواتِ عامہ[/FONT][FONT=&quot] (Democracy) [/FONT][FONT=&quot]پر نہیں پڑا تھا۔ اسلامی جمہوریت کا خلیفہ خود بھی طبقہ عوام (ڈیمو کریٹ) کا ایک فرد ہوتا تھا اور ایک عام فرد قوم کی طرح زندگی کا بسر کرتا تھا۔ وہ دارالخلافت کے ایک خس پوش چھپر میں رہتا تھا اور چار چار پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا۔ اسلام کے دارالخلافت میں امریکن ری پبلک کا کوئی قصرِ سفید (وائٹ ہاؤس) نہ تھا۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]دوسرا دور شخصی حکمرانی اور شہنشاہی کا ہے جو خاندانِ بنو امیہ سے شروع ہوا۔ اس دور میں اسلامی جمہوریت درہم برہم ہو گئی۔ قوم کے انتخاب کی جگہ طاقت و تسلط کا دور شروع ہو گیا۔ شاہی خاندان سے طبقۂ امراء (ارسٹوکریٹ) کی بنیاد پڑی اور اسلام کے گلیم پوش خلیفہ کی جگہ شہنشاہیت کا تاج و تخت نمودار ہو گیا۔[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]تاہم مسلمانوں کی زبانیں جس طرح پہلے دور کی آزادی میں بے روک تھیں، اسی طرح دوسرے دور کے جبر و استبداد میں بے خوف رہیں۔ میں بتلانا چاہتا ہوں کہ تعزیزاتِ ہند[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]----------------[/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]ختم شد صفحات 56 تا 95، الحمدللہ[/FONT][FONT=&quot])[/FONT]
 
Top