جاسمن

لائبریرین
جہاد سیف ہو خالدؔ کہ ہو جہاد قلم
کسی زبان میں ہو امتحان ایک سا ہے
خالد یوسف
 

جاسمن

لائبریرین
ہزار بار بھی لٹ کر سبق نہیں سیکھا
وفا کے شہر میں ہر خوش گمان ایک سا ہے
خالد یوسف
 

جاسمن

لائبریرین
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
احمد فراز کی نظم محاصرہ سے
 

جاسمن

لائبریرین
کہیں کاغذوں میں شاید وہ بہار سو رہی ہو
اسی موسمِ خزاں میں اسے ڈھونڈنا پڑے گا
اعتبار ساجد
 

جاسمن

لائبریرین
ان کے اوراق میں پوشیدہ ہیں آنسو میرے
کیا کرو گے مری افسردہ کتابیں پڑھ کر
اعتبار ساجد
 

جاسمن

لائبریرین
کہ میری غزلوں میں میری نظموں میں کرب آ کر سمٹ گیا ہے
مرے قلم سے نکل رہے ہیں جناب آنکھوں کے زندہ نوحے
طاہر حنفی
 
Top