قطعہ

La Alma

لائبریرین
قطعہ

اُس کیف و مستی کو مری ہستی سوالی ہو گئی
وحدت لگی انڈیلنے تو ذات پیالی ہو گئی
اے ہم نفس ! روحِ رواں ! میرے دروں کا پوچھ مت
مجھ میں ہے کوئی بھر گیا ، میں خود سے خالی ہو گئی

 
واہ۔ اچھے عرفانی (شاید صوفی) شعر ہیں۔
کچھ تکنیکی باتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
وحدت لگی انڈیلنے تو ذات پیالی ہو گئی
وحدت لگی انڈیلنے میں تعقید معنوی ہے۔ یعنی معنی میں گرہ پڑ رہی ہے۔ انیس اپنے مرثیے "نمک خوان تکلم ہے" میں فصاحت کی یوں تعریف کرتے ہیں:
لفظ مغلق نہ ہوں، گنجلک نہ ہوں، تعقید نہ ہو!
بہر کیف، تو اس مصرع میں انڈیلنا فعل ہے، اس کا فاعل بھی ہونا چاہیے اور مفعول بھی۔ کیوں کہ یہ فعل متعدی ہے۔ یعنی فاعل کے علاوہ مفعول بھی چاہتا ہے۔ (متعدی کے مقابلے میں جو فعل ہوتا ہے اسے فعل لازم کہتے ہیں، اس میں مفعول کا تقاضا نہیں ہوتا۔ جیسے سونا۔)
اب وحدت فاعل ہے تو مفعول کیا ہے؟ یعنی انڈیلنی والی وحدت ہے تو انڈیلا جانے والا کون ہے یا کیا ہے؟
اگر وحدت مفعول ہے یعنی وحدت کو انڈیلا جا رہا ہے تو لگی کے اندر جو چھپا ہوا فاعل ہے وہ کسی کی طرف ہے، آپ کی طرف یا ذات کی طرف؟
ان دو سوالوں کا جواب مصرعے میں مفقود ہے۔ لہٰذا یہ تعقید کا شکار ہے۔
مجھ میں ہے کوئی بھر گیا ، میں خود سے خالی ہو گئی
مجھ میں ہے کوئی بھر گیا! ٹھیک ہے، بالکل غلط یہ جملہ بھی نہیں لیکن اردو میں ترتیب یوں فصیح ہے:
فاعل پھر مفعول پھر فعل۔ آپ نے مفعول فی کو فاعل پر مقدم کر دیا، یعنی کوئی، جو بھرنے والا ہے، کو مجھ میں، جو مفعول واقع ہو رہا ہے سے مؤخر کر دیا۔ جائز ہے البتہ حسن جاتا رہا جملے کا۔
یوں ہوتا تو: کوئی ہے مجھ میں بھر گیا! (البتہ اب بھی "ہے" کی جگہ سے قانع نہیں ہوں میں لیکن بہر حال ترتیب کی رعایت ہوئی)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مہدی میاں سے متفق ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ’انڈیلنا‘ میں نون غنہ ہے، معلنہ نہیں، یہاں معلنہ باندھا گیا ہے۔
پہلے مصرع میں کس کیف و مستی کی بات ہے، یہ بھی تو واضح نہیں۔
کچھ الفاظ بھرتی کے بھی ہیں طویل بحر کے اوزان پورے کرنے کی وجہ سے۔ جن سے بچا جا سکتا تھا۔
 

La Alma

لائبریرین
واہ۔ اچھے عرفانی (شاید صوفی) شعر ہیں۔
کچھ تکنیکی باتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

وحدت لگی انڈیلنے میں تعقید معنوی ہے۔ یعنی معنی میں گرہ پڑ رہی ہے۔ انیس اپنے مرثیے "نمک خوان تکلم ہے" میں فصاحت کی یوں تعریف کرتے ہیں:
لفظ مغلق نہ ہوں، گنجلک نہ ہوں، تعقید نہ ہو!
بہر کیف، تو اس مصرع میں انڈیلنا فعل ہے، اس کا فاعل بھی ہونا چاہیے اور مفعول بھی۔ کیوں کہ یہ فعل متعدی ہے۔ یعنی فاعل کے علاوہ مفعول بھی چاہتا ہے۔ (متعدی کے مقابلے میں جو فعل ہوتا ہے اسے فعل لازم کہتے ہیں، اس میں مفعول کا تقاضا نہیں ہوتا۔ جیسے سونا۔)
اب وحدت فاعل ہے تو مفعول کیا ہے؟ یعنی انڈیلنی والی وحدت ہے تو انڈیلا جانے والا کون ہے یا کیا ہے؟
اگر وحدت مفعول ہے یعنی وحدت کو انڈیلا جا رہا ہے تو لگی کے اندر جو چھپا ہوا فاعل ہے وہ کسی کی طرف ہے، آپ کی طرف یا ذات کی طرف؟
ان دو سوالوں کا جواب مصرعے میں مفقود ہے۔ لہٰذا یہ تعقید کا شکار ہے۔

مجھ میں ہے کوئی بھر گیا! ٹھیک ہے، بالکل غلط یہ جملہ بھی نہیں لیکن اردو میں ترتیب یوں فصیح ہے:
فاعل پھر مفعول پھر فعل۔ آپ نے مفعول فی کو فاعل پر مقدم کر دیا، یعنی کوئی، جو بھرنے والا ہے، کو مجھ میں، جو مفعول واقع ہو رہا ہے سے مؤخر کر دیا۔ جائز ہے البتہ حسن جاتا رہا جملے کا۔
یوں ہوتا تو: کوئی ہے مجھ میں بھر گیا! (البتہ اب بھی "ہے" کی جگہ سے قانع نہیں ہوں میں لیکن بہر حال ترتیب کی رعایت ہوئی)
بہت شکریہ . آپ کے تعقید والے اعتراض سے متفق ہوں . لیکن فاعل، مفعول اور فعل کی ترتیب سے متعلق ھنوز الجھن برقرار ہے . اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ ترتیب شستہ نثر کے لوازمات میں سے ہے لیکن اگر شعری رعایت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو جب تک تعقید نہ در آئے یہ درست ابلاغ نہ ہو رہا ہو اس رعایت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے . الفاظ کی نشست و برخاست بدلی جا سکتی ہے .واللہ اعلم .
 

La Alma

لائبریرین
مہدی میاں سے متفق ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ’انڈیلنا‘ میں نون غنہ ہے، معلنہ نہیں، یہاں معلنہ باندھا گیا ہے۔
پہلے مصرع میں کس کیف و مستی کی بات ہے، یہ بھی تو واضح نہیں۔
کچھ الفاظ بھرتی کے بھی ہیں طویل بحر کے اوزان پورے کرنے کی وجہ سے۔ جن سے بچا جا سکتا تھا۔
شکریہ سر . انڈیلنا کا متبادل سوچنا پڑے گا .
 
اچھا قطعہ ہے۔ مندرجہ ذیل رائے شاید آپ کے کام آئے:
اُس کیف و مستی کو مری ہستی سوالی ہو گئی
وحدت لگی بھرنے تو میری ذات پیالی ہو گئی
اے ہم نفس ! روحِ رواں ! میرے دروں کا پوچھ مت
مجھ میں سمایا کوئی اور میں خود سے خالی ہو گئی
 
Top