عبدالرزاق قادری
معطل
"زندہ رود" کے مقدمے کے مطابق جاوید نے ایک بار اقبال کو پنڈت کہہ ڈالا۔ وہ صاحب خواب میں آگئے۔ پھر روزگار فقیر یا کسی اور کتاب نے موصوف کو بتایا کہ مرحوم ھذا کو پنڈت کہلوانا نا پسند تھا۔ پنڈتوں اور برہمنوں کو اگر البیرونی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ خود کو سردار اور باقی بدیشی لوگوں کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ مسلمانوں کے سید ہی ہوں۔ اسی طرح کے ایک اور برہمن کے آباء اجداد نے اسلام قبول کر لیا۔ اور وہ کہتے ہیں نا کہ "عادتاں سراں نال ای جاندیاں نیں" اس کا مصداق بننے کی ناتمام کوشش موصوف کرتے رہتے ہیں۔ محفل پر کون کس طرح آیا اور اس کو کیسا پایا۔ یہ کیا ہونی چاہیئے تھی اور اس اردو محفل کی کیا حالت ہے ان سب سوالات کے جوابات اگر کسی بندے کی سمجھ میں آسکے ہیں تو اس کا نام عاطف بٹ ہے۔ جس نے کم عرصے میں عرصے سے بے راہ رو، بے منزل محفل کا عمیق مطالعہ کیا۔ اور تمام تر کسرنفسی کے ساتھ اپنے علم و فن کی بناء پر پُرکھوں کی نشانی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اردو محفل کی رہی سہی قوت کو مجتمع کرنے میں ایک طویل منصوبہ بندی کرکے آکٹوپس کی طرح محفلین کو شکنجے میں لینے کی سعیِ تمام بلکہ اتمامِ حجت کی۔ مغفور بغیر مرحوم کو رسمی نوک جھوک سے واسطہ نہیں تھا۔ لیکن غیر رسمی ہونے کی بناء پر غیر رسمی قسم کے کام سر انجام دینے کا بار اُٹھانا پڑا۔ آپ کسی کا لحاظ نہیں کرتے تو کوئی بھی آپ کا لحاظ نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی مجلسی تبسم ان کا ترجمان بنا ہی رہتا ہے۔ عاطف بٹ اندر سے کیا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں فواد کو ٹیگ کرنا پڑے گا۔ مؤمن کی فراست اور بٹ کی شرافت سے ڈرنا چاہیئے۔ بٹ وہی اچھا ہے جس کا نام یونس نہ ہو۔ ہزار کشمیریوں کے بعد بٹ پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس طرح بٹ پڑھتے لکھتے رہے جس طرح موصوف کا حال ہے تو ہر یونی ورسٹی اور مدرسے میں موٹی موٹی توندوں کا سٹاک ملا کرے گا۔ برا وقت بتا کر نہیں آتا۔ اپنے آباء سے رجوع کرنے کے لیے موصوف کو ان کی بھاشا سے بھی رغبت ہے۔ اس گناہ میں راقم برابر کا شریک ہے۔ شرک پر فتویٰ لگنے کا بھی خطرہ ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ کسی بٹ پر انگلی نہ اٹھائی جائے۔ ورنہ یاسر ہوٹل میں تکے اور کوک سے تواضع کر دی جائے گی۔ تاکید مزید کے ساتھ ساجد ،@باباجی ، پردیسی اور حسیب نذیر گِل جٹ کو تکلیف کرنا پڑے گی