قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 1
بہ عون صناع مکین و مکاں و فضل خلاق زمین و مازن
قصہ مقتول جفا
معروف بہ اسم تاریخی
فسانۂ غم آمود
مطبع نامی منشی نول کشوربہ میں طبع مزین مقبول جہاں ہو
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیہا سراجاً و قمراً منیراً نظم :
حمد بے حد اُس خدائے پاک کو
دکھایا جس نے خلق افلاک کو
اور وہ پیدا کیے اس میں بروج
پا نہیں سکتی خرو جن کا عروج
مہر و مہ کو کر دیے جلوے عطا
منہ جن پر ہوے صبح و مسا
اور سواے ان کے کیا کیا چیزیں نادر بنائیں کہ جس کی صنعت کی باریکیاں کسی نے نہ پائیں اور اگر غور کر کے دیکھو تو کون سی شے بیکار ہے۔ جس شے کو سب لوگ بُرا کہتے ہیں اُسے وہ باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ بیان سے باہر ہیں، جیسے کہ فرقہ مستورات کا ہے کہ سب اُس کو بُرا کہتے ہیں اور موم کی ناک جانتے ہیں کہ جدھر پھرا پھر گئی۔ ذرا دم دیا وہ فقرہ میں گھر گئی۔ اللہ جل شانہ کہ وہ شان ہے کہ اُس میں وہ باتیں پختہ مزاجی کی پائی جاتی ہیں کہ بڑے بڑے مرد عالی حوصلہ اُ ن کی جستجو میں چکرا جاتے ہیں۔ غرض کہ جناب باری نے جو شے بنائی ہے ایسی ہی لاثانی بنائی ہے۔ اگر نظر وحدت سے دیکھو تو وہ ہی ہر شے میں موجود ہے۔ بقول میر حسن دہلوی بیت :
نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں پر ہر ایک شے میں ہے
لیکن آنکھیں بینا
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 3
چاہیے ہیں، ہماری آنکھیں اندھی ہیں، ہم کیا دیکھیں گے، پس انسان کو لازم ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آوے، دم نہ مارے، خاموش ہو رہے۔ نعت سرور کائنات خلاصۂ موجودات فخر اولین ختم المرسلین محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبےٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحاب و اہل بیتہ رضوان اللہ تعالٰی علہیم اجمعین میر شمس الدین فقیر نے آپ کی شان مبار میں کیا خوب رباعی کہی ہے۔ رباعی :
پیش از ہمہ شاہان غیور آمدہ
ہر چند کہ آخر بظہور آمدہ
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ زراہ و ورآمدہ
اور شیخ سعدی رلیہ الرحمہ نے جو قطعہ آپ کی شان مبار میں کہا ہے وہ مقبول کبریا ہے اور پسند خواجۂ ہر دوسرا ہے۔ اُس قطعہ کو بھی واسطے برکت کلام کے تحریر کیا ہے۔ اور خوشنودی آنحضرت بھی اُس سے واضح ہے۔ قطعہ :
بلغ العلے بکمالہ
کشف الدجے بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
اور اس بیت سے اوصاف رسالت مآب صاف منکشف ہیں جو سب پیغمبروں میں خوبیاں مجتمع تھیں، وہ اکیلی آپ کی ذات بابرکات میں تھیں۔ بیت
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
انچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور یہ رباعی جناب استاد جی صاحب قبلہ متخلص بہ قلق نے تصنیف فرمائی ہے کہ اکثر صاحبوں کو پسند آئی ہے۔ لہذا وہ بھی لکھنے میں آئی۔ رباعی :
اے ختم رسل تیری ثناے بارز
کیونکر کروں میں جگر فگار عاجز
حق تو یہی ہے کہ کوئی محبوب خداوند
تجھ سا نہ ہوا ہے نہ ہو گا
منقبت اصحاب کبار بزرگوار جن کے باعث آج تک دین محمدی میں رونق ہے اور قیامت تک برابر روشنی دین پیغمبر آخر الزمان میں رہے گی۔ بیت :
چراغ و مسجد و محراب و منبر
ابوبکر و عمر عثمان وہ حیدر
اللہ تعالٰی جے اُن کی تعریف قرآن شریف میں جابجا فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۂ توبہ میں جناب باری نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں یہ آیہ فرمائی ہے۔ " ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّ۔هَ مَعَنَا ۖ ﴿
٤٠﴾ اور سب اصحابوں کی تعریف سورۂ فتحنا میں صاف ہویدا ہے۔ محمد رسول اللہ سے آخر سورہ تک موجود ہے۔ جس کی صفت و ثنا اللہ جل شانہ خود فرماتے، دوسرے کی کیا اصل ہے جو زبان ہلائے۔ آفتاب و مہتاب ہیں کہ جن کی روشنی قیامت تک رہے گی۔ بارک اللہ لنا ولکم اجمعین۔ نظم :
اصحاب رسول پر تحیات و سلام
بے شبہہ ہیں جو اصل فروع اسلام
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 4
اور آل یہ اس کی ہو جیو رحمت حق
جن سے ہوا کشور ہدایت کا نظام
وجہ تالیف احقر العباد سراپا قصور گنہگار سیہ کار امیدوار مغفرت غفار حافظ محمد امیر الدین متخلص بہ معنی بن حافظ غلام نظام الدین دہلوی غفر اللہ لنا کہتا ہے کہ دہلی میں ایک بزرگ ہمارے ہیں اور والد ماجد سے بہت محبت قلبی اور اتحا دلی رکھتے ہیں، کبھی زمانۂ سابق میں یہ حکایت جو اس اجزا میں درج ہے، زبانی والد ماجد کی سُنی تھی۔ اُس کو عرصہ دراز ہوا، فی الحال جناب موصوف نے کہ شہرۂ خلق و مروت و حلم و اشفاق والطاف اُن کے از شرق تا غرب ہے۔ بہت عالی خاندان معتمد بارگاہ سلطانی پشت ہا پشت سے قلعۂ مبارک سے تعلق رہا اور دربار میں باعزت و توقیر حاضر رہتے۔ خطاب اور خلعت سے اکثر سرفراز ہوتے۔ چنانچہ آخر زمانہ تک برابر وہی رسوخ حاصل رہا اور فی زمانہ بھی عنایت ایزدی سے حاکم وقت سے ایسی رسائی ہے کہ کسی کی بھی نہ ہو گی۔ جو خطاب بادشاہی ہے مجھ بسبب سہو کے یاد نہیں رہا لیکن دہلی میں کیا تمام ملکوں میں اور قلمرو انگریزی میں بخطاب نواب نبی بخش خان صاحب دور دور مشہور ہیں۔ سبحان اللہ ایسے وضع دار عالی حوصلہ سخاوت اور شجاعت میں یکتا طبع حلیم راے سلیم ہمت و جرأت میں لاثانی ہمہ صفت موصوف اللہ تعالٰی نے اُن کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف مجتمع کیے ہیں۔ زاد اللہ قدرہ و منزلتہ ماہ محرم الحرام 1287 ہجری نبوی میں ایک خط اس مضمون کا بھیجا کہ زمانۂ سابق میں میں نے ایک حکایت عجیب آپ کی زبانی سُنی تھی۔ اگر اب آپ کو یاد ہو تو ازراہ محبت دیرینہ کے نقل کرا کے بھجوا دیجیے۔ حالانکہ طبیعت جناب قبلہ و کعبہ والد ماجد کی عرصۂ دو ماہ سے عارضہ بخار وغیرہ سے علیل تھی۔ لیکن بسبب لکھنے جناب عموی صاحب کے کہ سررشتۂ برادری کے سوا سررشتہ محبت بھی رکھتے تھے۔ اُس حالت میں بھی لکھنا جناب موصور کا بہت غنیمت سمجھ کر اس کمترین سے فرمایا کہ تو دوات و قلم لے کر میرے پاس بیٹھ۔ میں جو زبانی کہتا جاؤں، تو اُس کو لکھتا جا۔ فدوی نے بسبب محروم ہونے نوشت و خواند کے چند در چند عذر کیے کیونکہ اس عاصی کو لکھنے پڑھنے سے بہرہ نہیں اور اس نعمت عظمیٰ سے اپنی سیہ بختی کے سبب محروم ہے لیکن بسبب مصر ہونے جناب حضرت قبلہ گاہی صاحب کے الامرفوق الادب سمجھ کر دل میں اپنے خیال کیا کہ اگر تو بموجب ارشاد حضرت والد ماجد کے
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 5
لکھے تو تیرا یہ سحر کلا یادگار رہے۔ یہ تصور کر کے بتاریخ یکم ماہ محرم الحرام یوم یکشنبہ 1287ھ نبوی کو بموجب ارشاد حضرت موصوف کے اس طرح سے لکھنا شروع کیا اور نام اس داستان کا قصہ مقتول جفا اور تاریخی نام فسانۂ غم آمود رکھا۔ اس سے پہلے ارباب دانش و بینش کی خدمت میں التماس ہے کہ بخداے لایزال یہ عاجز بالکل اجہل مطلق اور پڑھنے لکھنے سے عاجز کچھ تمیز نہیں ہے۔ لیکن بسبب فیض برکت و تاثیر صحبت حضرت جناب استاد جی صاحب کے قدرے شُد بُد اُردو میں ہو گئی۔ ہے۔ اس کا بھی یہ حال ہے کہ خود غلط املا غلط انشا غلط لکھتے تو کیا لکھے۔ دوسرے بقول کسی استاد کے الانسان مرکب من الخطاء والنسیان اگر کسی جا کو کی محاورہ خلاف روزمرہ کے ہو تو للہ عیب پوشی کو کام فرماویں اور بموجب قول سعدی علیہ الرحمہ کے کاربدبند ہوں۔ شعر
تو نیزار بدی بینی اندر سخن
بخلق جہان آفرین کا رکن
اور بنظر اصلاح ملاحظہ کر کے باذوق درست کر دیں۔
داستان عجوبہ بیان بادشاہ کا دربار میں وزیروں سے ایک امر کا سوال کرنا، تین وزیروں کا انکار، چوتھے وزیر کا اقرار کرنا۔
محرر داستان مرکب قلم کو میدان صفحۂ قرطاس پر اس طرح سے جولان کرتا ہے کہ سر زمین ہند میں ایک شہر تھا بارفعت و شان بہت آباد بہشت نژاد، عمار پختہ، دکانیں نفیس، چوپڑ کا بازار، بے آزار، ہموار سڑکیں، صاف بیچ میں نہر، اس میں فواروں سے پانی کا اچھلنا کیفیت دکھاتا تھا۔ دوکاندار جوان جوان خوبصورت قرینے سے ہر شے کا انبار اپنے سامنے رکھے دلکش اداے اور خوش صداے سے بیچتے تھے۔ غرض کہ کوئی شے ایسی نہ تھی جو اُس بازار میں نہ تھی۔ ہر چیز مہیا، ناز و نعمت کا ڈھیر، جابجا رعایا مرفہ الحال و آسودہ ہر ایک شخص بے فکر، کسی سے غرض نہ مطلب، شب و روز اپنے گھروں میں رہنا اور بغلیں بجانا۔ انتظام شہر میں ایسا کہ دیکھا نہ سُنا، رات بھر راستہ چلتا، مجال کیا جو کسی کا ایک تنکا تک چوری جاتا۔ شب بھر دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے تھے۔ چور اور چکار اپنی قسمت کو بیٹھے روتے تھے۔ مقدور نہ تھا کہ کسی کے مال و اسباب کو نگاہ بھر کے دیکھیں اور یہ طاقت کسی کی نہ تھی کہ کوئی ظلم و ستم کسی پر کرے۔ شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ فرغ البالی سے سب وہاں رہتے تھے۔ والی ملک وہاں کا ایک بادشاہ شہنشاہ عالی مقام سلطان بخت نام
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 6
کئی سلطان تاجدار اُس کے باجگزار تھے اور تابع فرمان بڑے بڑے ذی شان تھے۔ سخاوت اور شجاعت میں یکتا اور رعب و جلال، عدل و انصاف و داد و دہش میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ خزانہ گشیار فوج دریا موج ہزار در ہزار بلکہ بے حد و شمار تھی۔ کچھ شمار نہ تھا۔ ہمیشہ انتظام مالی و ملکی میں مصروف رہتا تھا۔ اور اُس کے چار وزیر نیک تدبیر تھے، جن سے انجام کار بخوبی تمام ہوتا تھااور وہ مشہور بہ وزیر اول، وزیر دوم، وزیر سوم، وزیر چہارم تھے۔ یہ چوتھا وزیر مسمےٰ مسعود علی خان اُن تینوں وزیروں سے عقیل زیادہ تھا۔ جواب معقول باصواب دیتا تھا۔ بات سنجیدہ و پسندیدہ کہتا تھا۔ بادشاہ بھی اکثر اسی کی بات کو پسند فرماتے اور کہا مانتے تھے۔ اور وزیر اسی سبب اس سے جلتے تھے۔ خصوصاً وزیر اول اس سے زیادہ حسد کرتا تھا۔ ایک روز بادشاہ نے دربار میں وزیروں سے مخاطب ہو کر یہ سوال کیا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی ہے جس میں یہ چار وصف ہوں۔ شکیلہ جمیلہ ایسی ہو کہ اپنا ثانی نہ رکھتی ہو اور علم موسیقی میں ایسا کمال رکھتی ہو کہ کوئی دوسرا اس کے مقاب جہاں میں نہ ہو۔ اور علم دینی میں قابل ہو، یعنی فاضل بلکہ اپنے وقت کی علامہ ہو اور صاحب عصمت ایسی ہو کہ کسی نے اُس کی پرچھائیں نہ دیکھی ہو اور نہ آواز اُس کی کسے نے سُنی ہو۔ یہ بات بادشاہ کی سُن کر وزیر اول نے دست بستہ عرض کی کہ جہاں پناہ ایسی عورت دید ہے نہ شنید۔ ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہ دیکھی نہ سنی ہو گی۔ کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ کسی میں ایک صفت ہر گی اور کسی میں دو اور کسی میں تین اور کسی میں ایک بھی نہ ہو گی۔ اگر کوئی خوبصورتی میں یکتا ہو گی تو اس میں فن موسیقی نہ ہو گا اور اگر یہ دونوں وصف ہوے تو عصمت نہ ہو گی اور اگر صاحب عصمت ہو گی تو اُسے گانے بجانے سے کیا نسبت ہے اور عالم اور فاضل راگ و مزامیر کو کب درست رکھتے ہیں۔ کیونکہ شرع شریف میں راگ و مزامیر قطعی حرام ہے۔ جناب عالی یہ چاروں باتیں جو حضور نے فرمائی ہیں، اجتما نقیفین ہیں۔ ان کا ایک جا مجتمع ہونا غیر ممکن ہے۔ پھر بادشاہ عالیجاہ نے وزیر دوم سے یہی سوال کیا۔ چنانچہ وزیر دوم نے بھی بموجب وزیر اول کے حضور اقدس میں یہی التماس کیا بلکہ وزیر اول سے کچھ زیادہ اصرار کیا۔ پھر ٖظل سبحانی وزیر سوم کی طرف مخاطب ہوے اور یہی کلمہ ارشاد فرمایا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی سنی ہو تو عرض کرو۔ وزیر سوم نے عرض کی کہ جہاں پناہ
قصہ مقتول جفا، ریختہ صفحہ 7
وزیر اول و وزیر دوم نے جو سرکار عالی میں التماس کیا ہے راست ہے۔ ذرہ جھوٹ نہیں ہے۔ فی زمانہ کیا بلکہ متقدمین نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہو گی۔ غرض کہ ایک نے ایک کے کلام کو رونق و جلا دی اور بہت سے دلیلیں روبرو بادشاہ کے پیش کیں۔ تاکہ یہ بات بادشاہ کے دل سے جاتی رہے۔ لیکن اُس کے دل سے کب جاتی ہے۔ بعد اس گفتگو کے حضرت عالی وزیر چہارم کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تم کہو اس باب میں کیا کہتے ہو۔ اگر تم نے ایسی عورت دیکھی یا سُنی ہو تو جلد بیان کرو۔ وزیر چہارم سُن کر خاموش سر در گریبان، آنکھیں نیچی کیے بیٹھا رہا۔ کچھ جواب بادشاہ کے سوال کا نہ دیا۔ بادشاہ اس کے جواب نہ دینے سے آزردہ ہوے اور فرمایا کہ تو نے کچھ جواب ہمار بات کا نہ دیا اور چُپ ہو رہا۔ جلد جواب باصواب دے۔ وزیر چہارم نے بادشاہ کی خفگی سے ڈر کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بعد دعا اور ثنا کے یوں گویا ہوا کہ اے گردوں بارگاہ کیا عرض کروں، خاموشی باعثِ شرم و حیا کی تھی۔ امیدوار عفو کا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ بس عبارت ہو چکی۔ مطلب کہہ۔ وزیر ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگا، کہ خداوند نعمت، سنیے، اللہ تعالٰی نے ایک سے ایک کو فوق دیا ہے۔ وہ چاہے سو کرے۔ اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ آپ تو بشر میں فرماتے ہیں، وہ چاہے تو حیوان مطلق کو ہمہ صفت موصوف کر دے۔ بادشہ نے کہا کہ اللہ جل شانہ کی تو ایسی ہی قدرت ہے جیسی تو بیان کرتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ، لیکن یہ بتا کہ تو نے کہیں دیکھی ہے یا نہیں۔ وہ نقشہ نہ کر کہ سوال دیکر جواب دیگر وزیر چہارم نے عرض کی کہ حضور اس وقت یہ بات دریافت نہ فرمائیں۔ تنہائی میں یہ فدوی بے کم و کاست التماس کرے گا۔ مجمع عام ہے، ابھی معاف فرمائیے۔ بادشاہ نے مجوز ہو کر فرمایا کہ ہم تو اسی وقت دریافت کریں گے، بعد استفسارِ حال دربار سے اٹھیں گے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ تریاہٹ بالک ہٹ راج ہٹ، یہ تینوں ہٹیں ٹالے سے نہیں ٹلتیں۔ یہ انکار کرتا تھا، اُدھر سے اصرار تھا۔ جب وزیر نے دیکھا کہ اب بے کہے گزر نہیں، التماس کیا کہ حضور والا نے جو یہ چاروں باتیں فرمائی ہیں، اکثر مستوراتوں میں سننے میں آئی ہیں۔ چنانچہ اس خانہ زاد موروثی کی جو بی بی ہے، اللہ تعالٰی نے اس کی ذات میں یہ چاروں
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 8
وصف عطا فرمائے ہیں۔ یہ بیان کر کے خاموش ہو رہا، لیکن اس بیان سے بادشاہ کی سیری نہ ہوئی۔ پھر فرمایا کہ مفصل اس مجمل کو بیان کر تاکہ یقین کلی ہو، ورنہ دعویٰ بیجا۔ میری زبان سے نکلا اگر مفصل نہیں کہتا تو بادشاہ نہیں مانتا اور جو کہتا ہوں تو پاس حیا مانع تفصیل ہے۔ ناچار نگاہ غضب بادشاہ کی دیکھ کر خوف جان سے اسطرح زبان پر لایا کہ پیر و مرشد وہ کنیز خانہ زاد صورت میں تو ایسی حسین اور زہرہ جبین ہے اور وہ حُسن خداداد ہے کہ اُ کا ہمسر از قسم جن و بشر پیدا نہیں۔ حور و پری اُس کے مقابل ہوں تو سکتہ ہو۔ رعب حُسن سے منہ سے نہ بات نکلے۔ ششدر وع حیران ہو کر اُسی کے منہ کو تکتی رہیں۔ بدر کامل اس سے شرمندہ ہے۔ آسمان کا رارا یا چودھویں رات کا چاند ہے، بلکہ اُس کے چہرہ کی چمک کے آگے وہ بھی ماندہے۔ میری زبان میں طاقت اور دہان میں طلاقت ایسی نہیں جو شمہ خوبی شکل و شمائل اُس ماہ پیکر سراسر نور انور کی بیان کر سکوں۔ بشر تو کیا ہے، باوجودیکہ فلک عینک مہر و ماہ کی شب و روز لگائے، چکر کرتا پھرتا ہےئ، اُس نے بھی تو ایسی صورت دلچسپ نہ دیکھی ہو گی۔ اور حالانکہ قلم دو زبان رکھتا ہے، مگر کیا مجال ہے جو ذرہ تعریف اُس کے حُسن کی لکھ سکے۔ احاطہ تحریر و تقریر سے خوبی شکل و شمائل اُسد کی مبرا ہے۔ اور علمیت کا یہ حال ہے۔ ادنیٰ سی صفت فضیلت کی بیان ہوتی ہے کہ جو زمانہ میں بڑے بڑے عالم و فاضل ہیں، اُن کی یہ مجال نہیں جوع کسی علم میں اُس سے بحث کر سکیں۔ ایک سوال میں سب کا ناطقہ بند ہوتا ہے۔ تمام کتابیں منطق و نحو و صرف وغیرہ ازبر یاد ہیں۔ ماورا ان علموں کے طب و نجوم و ریاضی و سیاق و قرآن شریف ہع ہفت قرأت خوب یاد ہے۔ غرض جہر علم میں استاد ہے اور عصمت و عفت کا یہ حال ہے کہ ایام طفولیت میں میرے ساتھ عقد ہوا تھا، اُس دن سے آج تک اپنے والدین کے گھر نہیں گئی اور جو اُسکے بھائی حقیقی میرے یہاں آئے تو اُس نے اُن سے بھی پردہ کیا، سامنے نہیں ہوئی، سواے اطاعت اور خوشنودی میری کے کچھ اُس کو کام نہیں اور علم موسیقی کا کیا حال بیان کروں، ذرہ سی صفت یہ ہے کہ اگر اُس کے سامنے تان سین بھی ہوتے اور آواز گانے کی سنتے تو اپنی تان بھول جاتے، کان پکڑتے اور جو بجو باورا ہوتا تو وہ بھی اُس کی آواز گانے بجانے کی سُن کر
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 9
باولا ہو جاتا۔ کبھی گانے کا نام نہ لیتا۔ کہاں تک تعریف کروں، ہمہ صفت موصوف ہے۔ خصوصاً جو حضور اقدس نے یہ چاروں باتیں تخصیص کی ہیں، اُن میں ایسی یکتائے زمانہ ہے، بلکہ اپنے وقت کی ہر فن میں یگانہ ہے۔ یہ کہہ کر وزیر نیک تدبیر چپ ہو رہا اور بادشاہ بھی وزیر چہارم کا جواب باصواب معقول سُن کر خاموس ہوا۔ لیکن وزیر اول بڑا حاسد تھا اور وزیر چہارم سے بسبب دانائی اُس کی کے بغض اور عداوت قلبی رکھتا تھا۔ یہ گفتگو جو بادشاہ کے سامنےوزیر چہارم سے سُنی اور بھی جل گیا اور کمال ناراض ہو کر اپنے جی میں حسد کی راہ سے کہنے لگا کہ دیکھ تو اس بدلا میں تجھ سے کیسا لیتا ہوں۔ تو نے ہمہ سب کو بادشاہ کے روبرو ذلیل تو کیا ہے سمجھا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالٰی یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا چُپ ہو کر وقت کا منتظر رہا۔
داستان نادر بیان وزیر اول کا بادشاہ سے شکار میں کہنا اور زوجۂ وزیر چہارم کے خراب کرنے میں ترغیت دے کر چھ مہینے کی مہلت لے کر بادشاہ سے رخصت ہو کر اُس کے وطن جانا اور وہاں پہنچ کر کنٹی سے تصویریں اور نشانیاں منگا کر پھر آنا
حاکیان غم اندوز و راویان جگر ہوز اس داستان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حسب اتفاق ایک روز بادشاہ شکار کو تشریف فرما ہوئے۔ اس سواری میں سواے وزیر اول کے اور وزیر نہ تھا۔ یہی تنہا خواصی میں بیٹھا تھا اور یہ تین وزیر کاروبار مالی و ملکی میں یہاں مصروف تھے۔ اس حاسد نے جب میدان خالی پایا تو یہ جعل پھیلایا کہ راہ میں بادشاہ سے اِدھر اُدھر کا ذکر کر کے وزیر چہارم کا مذکور کر اُنہیں باتوں کا تذکرہ کیا۔ بادشاہ کو جب اپنی طرف متوجہ پایا، تو اس طرح سے عرض کرنے لگا کہ اے خداوند نعمت وزیر چہارم نے جو اپنی زوجہ کی اس قدر تعریف بیان کی ہے، سراسر خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کسی عورت کو اس درجہ باوفا نہیں دیکھا اور نہ زبانی کسی کی سُنا۔ اُس کی زیادہ تعریف کرنے سے فدوی کو معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اُس نے اپنی زوجہ کی عصمت بیان کی ہے، اُسی قدر وہ فاحشہ و بدکار ہو گی اور اُس کو الو کا گوشت کھلا کر اُلو بنا رکھا ہے۔ اور یہ بھی اُس کے مکر کے دام میں پھنسکر اپنے اختیار میں نہیں رہا۔ ویا یہ کہ اُس نے ہمیں آپ کے روبرو ذلیک و شرمندہ کرنے کے واسطے یاوہ گوئی
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 10
کی ہے۔ کیونکہ ہم تین وزیروں نے آپ کے سامنے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہو گی، اُس نے آپ کے سامنے ایسی تعریف بیان کی کہ ہم سب کے ہوش بران ہو گئے۔ پس فدوی کو اُس کے بیان سے صاف منکشف ہو گیا کہ وہ عورت بڑی فاحشہ ہے اور یہ جھوٹا ہے۔ اگر حضور فدوی کو کچھ دنوں کی مہلت دے کر رخصت فرما ویں تو یہ فدوی اُس کے وطن جا کر کل ماہیت دریافت کر آوے تو سب قلعی کھل جاوے۔ بلکہ اغلب ہے کہ یہ عاجز اُس کی زوجہ کو خراب کر آوے اور اُس کو علانیہ جھوٹا بناوے۔ جھوٹ بولنا معاذ اللہ منہا بڑا ہی شدید گناہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ علی الخصوص بادشاہوں کے سامنے دروغ گوئی بہت ہی بُری بات ہے۔ جب بادشاہ نے وزیر اول کا کلام بد سنا تو فرمایا کہ وزیر چہارم دروغ گو نہیں ہے ۔، کیا عجب ہے جو اُس کی بی بی ایسی ہی ہو جیسی وہ بیان کرتا ہے۔ جب وزیر اول خصومت شعار نے پھر عرض کی کہ حضور کیا فرماتے ہیں، سلف سے آج تک کسی نے ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی۔ اکثر لوگوں نے مستوراتوں کا امتحان کیا ہے، کسی کو بھی خالی از کید نہیں پایا۔ چنانچہ قول کسی استاد کا ہے۔ حضور نے سنا ہو گا۔ مصرع :
اسپ او زن و شمشیر وفادار کہ دید
بادشاہ نے فرمایا کہ یہ بھی تو قول کسی استاد کا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ کیا، ارشاد فرمائیے، تب بادشاہ نے فرمایا۔ شعر :
نہ ہر زن زن بہت و نہ ہر مرد مرد
خدا نیج انگشت یکساں نکرد
وزیر نے بادشاہ سے یہ قول سُن کر عرض کی کہ حضور یہ دونوں قول بشر ہیں۔ جو آپ نے ارشاد فرمایا اور فدوی نے التماس کیا لیکن مستورات کی مذمت قرآن شریف میں جناب باری نے سورۂ یوسف میں بیان فرمائی ہے۔ آیہ اِن کید کُن عظیم۔ یہ آیہ پڑھ کر کہا جناب عالی یہ فرقہ ایسا ہی بُرا ہے۔ خدا سب کو اس کے مکر سے بچائے۔ بادشاہ تو یہ سن کر پچ ہوئے، لیکن یہ کمبخت بکے ہی گیا۔ چُپ نہ ہوا۔ آخر کار بادشاہ نے فرمایا کہ اگر تو اُس کی زوجہ کو خراب نہ کر سکا تو تیری کیا سزا ہو۔ اُس نے عرض کی کہ حضور چھ مہینے کی مہلت فدوی کو دیں۔ اگر اس مدت میں میں اُس کی زوجہ کو جس کی وہ عصمت ازحد بیان کرتا ہے، خراب کر آیا اور وجہ ثبوت حضور میں لایا تو وہ کاذب دروغ گو گردن مارا جاوے اور درصورتیکہ یہ فدوی اُس کو نہ خراب کر سکا اور وجہ ثبوت سرکار عالی میں نہ لایا تو اس خانہ زاد کو آدھا زمین میں گڑا کر تیروں سے چھدوا دیجیے گا۔ بادشاہ نے فرمایا کہ تو
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 11
کہتا ہے یا یوں ہی بکتا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ حضور فدوی سے پہلے مچلکہ مہری لکھوا لیجیے۔ جب مہلت و رخصت دیجیے، بادشاہ نے کہا، اچھا دیکھا جائے گا۔ جب بادشاہ شکار سے پھر آئے اور کئی روز گزرے کہ اس نے تنہائی میں بادشاہ سے التماس کیا کہ عالیجاہہ فدوی سے مچلکہ مہری مع گواہان حاشیہ لکھوا لیجیے اور چھ مہینے کی مہلت دیجیے۔ بادشاہ نے پھر واسطے حجت تمام کرنے کے کہا کہ اگر تو نے وجہ ثبوت اس کے خراب کرنے کی نہ پیش کی تو یاد رکھنا، اُس وقت ذرا تامل نہ ہو گا۔ فوراً گردن مارا جائے گا۔ اُس نے کہا بہتر ہے۔ اور جو وجہ ثبوت پیش نظر کیجاوے تو کیا ہو۔ بادشاہ نے کہا کہ اُس صوورت میں وزیر چہارم کی وہ ہی سزا ہو گی جو تیرے واسطے ٹھہری ہے۔ اُس نے دست بستہ عرض کی کہ بہتر۔ یہ کہہ کر ایک دست آویا اسی شرط کی لکھی اور ہاتھ سے انگشتری اُتار فوراً اُسی دست آویز پر مُہر کر دی۔ اور دو چار گواہیاں اپنے عزیزوں کو حاشیہ پر لکھوا دیں۔ اور چھ مہینے کی مہلت لے کر اور سامان سفر درست کر کے روپیہ بہت سا اپنے ہمرا لے وزیر چہارم کے وطن کو خفیہ روانہ ہوا۔ یہاں کچھ اور مشہور بہانہ ہوا۔ لیکن وزیر اول کچھ مسرور کچھ غمزدہ درگاہ جناب باری میں گریہ و زاری سے التجا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یا اللہ میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔ مجھے بادشاہ اور سب دربار کے روبرو ذلیل نہ کرنا۔ تیری ہی بھروسے پر نوشتہ کر گھر سے نکل روانہ ہوا ہوں۔ یہ دعا امید سے مانگتا ہوا اور روپیہ محتاجوں کو بانٹتا ہوا، منزل بمنزل کوچ در کوچ مقام در مقام کرتا ہوا اور راہ خدا میں زر خطیر خیرات کرتا ہوا برابر چلا گیا۔ اللہ جل شانہ تو بڑا بے پروا ہے اور بُرے بھلے کا مواخذہ روز قیامت پر موقوف ہے۔ چنیا میں وہ حاجت روا سب کی مراد دیتا ہے۔ تضرع و زاری اور وہ خیرات سیر چشمی سے اُس کی جناب باری میں منظور ہوئی۔ جو وہاں داخل ہوتے ہی برائے نام آرزوے ہوا۔ مراد پوری ہوئی جب یہ وزیر اول بیس روز کے عرصہ میں وزیر چہارم کے وطن میں داخل ہوا اور ایک مکان رفیع الشان امیروں کے قابل چاندنی چوک میں کرایہ لیکر سکونت پذیر ہوا۔ اور اُس مکان کو فرش و شیشہ آلات وغیرہ سے آراستہ کر کے پانچ چار آدمی وہاں کے رئیس خدمت کے واسطے نوکر رکھے اور صبح و شام بڑے کر و فر سے سوار ہر کو ہوا کھانے کو جایا کرتا۔ جب کئی روز اُسے وہاں گزرے پھر تو اُس نے کٹنیاں تلاش کیں اور بلوائیں۔ جو کٹنی آتی تھی اس سے پہلے جوہر فن دریافت کرتا تھا، کوئی کہتی تھی کہ میں زمین پھاڑوں اور اندر
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 12
جا کر پھیر چلی آؤں اور کوئی کہتی کہ اگر حکم ہو تو آسمان کے تارے توڑ لاؤں۔ کوئی کہتی تھی کہ اگر آپ فرمائیں تو قاف سے دم دیگر پری لے آؤں، اسی طرح ہر روز ہزاہا کٹنیاں آئیں اور اپنے اپنے ہنر بیان کرتیں، لیکن اُس کے پسند نہ آئیں۔ ایک روز ایک بڑھیا دلالہ شیطان کی خالہ خدا کرے مُنہ اس کالا، سب کٹنیوں کی استاد اور بھروپیوں اور مصوروں کے کان کاٹنے والی ہر فن میں طاق نوشت و خواند میں بہت مشاق، بڑی شتاہ و عیارہ و مکارہ جس سے شیطان پناہ مانگے، شبیہ کشی میں ایسی استاد کہ جس کو ایکبار دیکھے، اُس کی تصویر بعینہ ہو بہو ایسی کھینچے کہ اصل صورت میں سرمو فرق باقی نہ رہے۔ فقط بول اُٹھنے کی دیر ہے اور جس کی چاہے فوراً شکل بنجا کے بہروپ ایسا بے نظیر بدلے کہ نقل کو اصل سے فوق ہو۔ یہ آجکل جتنے بہروپیے ہیں، اُس کے چیلے چاٹے ہیں۔ اس عیارہ نے سب کے کان کاٹے ہیں۔ آسمان کو پھاڑے اور پھر تھکلی لگائے۔ خدا سب کو اُس کے جال سے بچائے۔ اس وزیر کے پاس آئی۔ اُس نے بموجب دستور کے اُس سے بھی ہنر دریافت کیا۔ اُس نے وہ ہوا کے گھوڑے اڑائے، بلکہ زمین آسمان کے قلابے ملائے کہ وزیر دنگ ہو گیا۔ اور جی میں اپنے بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ اس سے مطلب دل بخوبی حاصل ہو گا۔ پھر تو اُس کٹنی سے اُس نے کہا کہ ایک کام ہمارا ہے جو تو اُسے کر دے گی تو میں تجھ کو اتنا روپیہ دوں گا کہ تمام عمر کو بلکہ سات پشت تیری کو کافی ہو گا۔ اس نے کہا کہ بلا کون وہ کام تو بیان کرو کیا ہے۔ تب وزیر نے اُس سے کہا کہ یہاں جو وزیر مسعود علی خان رہتے ہیں اور قدیم یہیں کے رئیس ہیں، اُن کی بی بی سے بے تکلفی کی ملاقات کرا دے۔ میں فقط اُسی کے اشتیاق میں تادیدہ مبتلا ہو ہوش و حواس کھو یہاں آیا ہوں۔ روپیہ کا اندیشہ نہیں۔ جسقدر صرف ہو، بلا سے لیکن وہ نازنین میرے ہم پہلو ہو او رشب باشی رہے۔ یہ میرا مطلب ہے۔ اُس نے یہ سُن کر وزیر سے کہا کہ تم نے اُس بی بی کی تصویر دیکھی ہے۔ یا کہ کسی سے اُس کی تعریف سُنی ہے جو اس قدر مبتلا ہو کر یہاں آئے ہو۔ سب ماجرا من و عن مجھے بیان کر دو۔ وزیر نے اُس حرافہ سے کہا کہ تجھے اس سے کیا غرض ہے، تو ہم سے خاطر خواہ روپیہ لے اور ہمارا کام کر۔ اُس نے بیان کیا کہ میاں جب تک کل ماہیت دریافت نہ ہو، تو اُس کی جستجو نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر کسی سے بحث ہو گئی ہو تو نشانی وغیرہ سے بھی بات رہ جائے گی اور جو فقط اُس کے دیکھنے یا رکھنے
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 13
کی تمنا ہو تو ویسی ہی جستجو کی جاوے۔ اب آپ سب حال بیان کر دیں تاکہ بخوبی تمام حسب خواش آپ کے کوشش کی جاوے۔ پھر یہ وزیر نے اُس کو جواب دیا کہ وہ وزیراور میں ایک ہی بادشاہ کے یہاں بعہدۂ وزارت ملازم ہیں۔ ایک دن اُس وزیر نے اپنی زوجہ کی صورت و سیرت عصمت و عفت کی تعریف حد سے زیادہ بیان کی۔ اُس دن سے میرے دل پر ایسی چوٹ سی لگی کہ بغیر دیکھے اُس کے قرار نہیں ہے۔ علاوہ اس کے میں نے اُس وزیر کی غیبت میں بادشاہ سے اقرار کیا اور مچلکہ لکھ دیا کہ میں اُس کی زوجہ کو خراب کر آؤں گا اور جو نہ خراب کر آیا تو میری گردن جلادوں سے اڑوا دیجیے گا۔ تو نے سنا اگر وہ مجھ سے ملی اور میں نے اُسے اپنے پاس شب پاس کیا تو ہم بستر ہوا تو تو لطف زندگی ہے، ورنہ مفت میں جان جاتی ہے۔ اب جس قدر چاہے روپیہ لے اور محنت و مشقت سے جستجو کر کے اُس نازنین زہرہ جبین کو میرے پاس لاؤ اور بے تکلف مجھ سے ملا۔ دلالہ حرافہ نے جو یہ درخواست اور روپیہ بے اندازہ کا وعدہ دینے کا سُنا، کمال خوش ہوئی اور اپنے دل میں کہنے لگی کہ مدت مدید و عرصۂ بعید کے بعد میرے مکر کے جال میں ایسا اُلو پھنسا جسے دلولہ شیطانی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ پھر اُس سے کہا کہ بلا لوں۔ اب اندیشہ نہ کر۔ یہ کون ایسا مشکل کام ہے جس کے واسطے تم گھبراتے ہو۔ شکر کرو تمہارے قسمت بہت زبردست تھی جو مجھ سی عورت ذوفنون ہر فن میں طاق سے ملاقات ہو گئی۔ اب ہر طرے خاطر جمع رکھو۔ دل محزون کو خوش و خرم رکھو۔ وزیر کی بی بی کو تم سے ملا دینا میرے نزدیک کتنی بڑی بات ہے۔ اگر آپ فرماویں تو آسمان سے زہرہ و مشتری کو ایک آن واحد میں یہاں لے آؤں۔ یہ عورت تو یہیں ہے۔ آپ دیکھیے گا میری چالاکی و استادی، لیکن جو آپ زر خطیر دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس میں فرق نہ ہو۔ وزیر نے کہا کہ یہ کیا بات ہے، جو کہا وہ جان کے ساتھ ہے۔ پہلے لے لو، بعد میرے کام میں دخل دو، لیکن بہت جلد اُس سے ملا دے۔ میری زیست اُس کے ملنے سے ہے کیونکہ میں نے بادشاہ سے چھ مہینے کی مہلت لی ہے اور مچلکہ لکھ دیا ہے۔ اُس نے یہ سُن کے کہا کہ لائیے اب تو کچھ دلوائیے۔ وزیر نے ایک ہزار روپئے کی تھیلی اُس کے آگے رکھ دی اور بہت سی چاپلوسی کی گفتگو کر کے کہا لو اب جلد جاؤ۔ وہ حرافہ ایک ہزار روپیہ کا توڑا لے کر وزیر سے رخصت ہوئی اور گھر میں جا توڑہ رکھا۔ دوسرے روز فجر کو اپنے مکان سے باہر نکلی
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 14
اور وزیر مسعود علی خان کے دروازے پر گئی تو دیکھا مکان رفیع الشان مانند قلعۂ کلان کے ہے۔ اور بلندی اُس کی اسقدر ہے کہ پرند جانور بھی اُس کے اوپر سے پرواز نہیں کر سکتے اور بند و بست ایسا ہے کہ ہوا بھی بار نہیں پاتی اور بے اجازت اندرون محل نہیں جا سکتی۔ چاروں طرف پہرہ چوکی کو سوار و پیدل جابجا مہیا و معین ہیں اور بہت ہوشیار ہر سمت بیٹھے رہتے ہیں اور اس مکان کی سات ڈیوڑھیاں ہیں، لیکن ہر وقت دروازے بند رہتے ہیں۔ اُس بڑھیا نے قریب کے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس محل کے دروازے کیوں بند رہتے ہیں۔ اُن لوگوں نے جواب دیا کہ اس محل کا دستور ہے کہ جب تک صاحب خانہ یہاں رہتے ہیں یعنی وزیر مسعود علی خان صاحب تب تک دروازے بخوبی تمام کُھلے رہتے ہیں۔ جب وہ اپنی نوکری وزارت پر جاتے ہیں، دروازے بند رہتے ہیں۔ جیسے تم دیکھتی ہو۔ یہ سُن کر اُس نے پھر پوچھا کہ میاں آٹھ پہر میں کسی وقت بھی کھلتے ہیں یا ہر وقت یوں ہی بند رہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جا اپنا کام کر۔ تجھے اس بات کے دریافت کرنے سے کیا غرض ہے۔ بڑھیا افسردہ خاطر ہو کر بولی کہ مجھے یہ تعجب ہے کہ اگر آٹھوں پہر دروازے نہیں کھلتے تو کھانے پینے کی چیز کیونکر اندر جاتی ہو گی۔ یہ بات سُن کر اُنہوں نے کہا کہ ان کے یہاں ایک اصیل ہی بہت امانت دار اور بڑی دیانت دار اُس کا اُن کے یہاں بڑا اعتبار ہے۔ آٹھ پہر میں وہ نیک بخت ایک بار باہر آتی ہے۔ جو کچھ سودا سلف منگوانا منظور ہوتا ہے رونہ کے ہاتھ منگا پھر دروازے بند کرتی ہوئی اندر چلی جاتی ہے جبکہ اُس علامہ نے یہ حال سُنا، طوطے عقل کے اُڑے، گم صم بکم کا نقشہ ہوا، مایوس ہو کر وہاں سے پھری اور سیدھی وزیر کے پاس جا کر یہ سب ماہیت بیان کر کے کہنے لگی کہ میاں بڑے مشکل کی بات ہے کہ جہاں پرند جانور کا مقدور نہ ہو کہ پر مارے۔ وہاں آدمی کیا کر سکے۔ وزیر نے پھر بڑھیا سے باتیں عاجزی کر کے بہت لالچ دیا اور کہا کہ جس طرح ہو سکے میرا کام کر۔ بڑھیا دام زر میں تو پھنس رہی ہی تھی، اُس سے پھر خرچ طلب کیا، وزیر نے پھر ایک توڑا ہزار روپیہ کا بے تامل حوالہ کر دیا اور کہا کہ تو اب جو جا اور جلد کوئی تجویز نکال۔ بڑھیا روپیہ لے کر اپنے گھر روانہ ہوئی۔ گھر جا روپیہ رکھ مکر تازہ کی فکر کرنے لگی، بعد تامل کے اُس قحبہ نے یہ نیا جال کیا۔ سننے کے قابل ہے کہ پانچ روپیہ کی مٹھائی اور دونا پھولوں کا ہمراہ
قصہ مقتول جفا
، ریختہ صفحہ 15
اپنے لے وزیر کی ڈیوڑھی پر گئی اور پہرہ والوں سے یہ فقرہ بنا کہنے لگی کہ عرصہ بارہ برس کا ہوا، لڑکا میرا گھر سے نکل گیا تھا۔ میں نے اُس کی مفارقت میں بہت خاک چھانی اور دربدر خاک بسر دیوانی سی ماری ماری پھری اور ہزاروں منتیں مانیں۔ سیکڑوں جگہ فال کھلوائی۔ گنڈہ تعویذ حاضراتین بہت جا کرائیں، کچھ حال نہ معلومہوا کہ وہ کس سمت گیا ہے۔ آخر کار میں تھک کر بیٹھ رہی اور شب و روز گریہ سے کام رکھا۔ ایک روز رات کو اُس کے تصور میں روتے روتے سو گئی تو خواب میں ایک پیر مرد بزرگ صورت نیک سیرت مجھ سے فرماتے ہیں کہ تو جو اپنے بیٹے کی مفارقت میں عمر کو ضائع کرتی پھری اور جھک مارتی رہی، کیا حاصل ہوا۔ اب تو میری بات سُن اور اُس کو عمل میں لا۔ اللہ چاہے تو تیرا لڑکا تجھ سے جل مل جاوے۔ وہ بات یہ ہے کہ اس شہر کے جو مسعود علی خان رئیس ہیں، اُن کی بی بی عابدہ زاہدہ پریزگار و بزرگوار گویا کہ زندہ پیر ہے۔ تُو ان کی منت مان۔ جب تیرا لڑکا تجھ سے ملے تو شیرینی اور پھول اُن کو چڑھائیو۔ یہ کہہ میرا ہاتھ پکڑ اُٹھا بٹھایا۔ اور آپ غائب ہو گئے۔ میں نے اُس وقت یہ منت مانی کہ اے اللہ تو ایسی نیک بی بی کے صدقے سے میرے بچھڑے ہوئے لڑکے سے مجھ کو ملا دے تو میں بموجب پیر مرد کے فرمانے کے نذر نیاز کر کے اُس بی بی زندہ پیر کو چڑھاؤن بارے قربان اپنے اللہ کے اور نثار اُس کی قدرت کے کہ اُس نے ایسی نیک بی بی کے تصدق سے مجھ دکھیا کے لڑکے کو بارہ برس کے بعد ملایا کہ وہ کل کے دن سلامتی سے مع الخیر گھر آیا۔ میں اُس سے مل کر بہت شاد غم سے آزاد ہوئی۔ نامرادوں میں بامراد ہوئی ، دور دوری ہوئی، آرزو پوری ہوئی۔ سبحان اللہ کیا کہنا ہے۔ حقیقت میں میری بی بی تو زندہ پیر ہے۔ مجھے سچ بشارت پیر مرد نے دی تھی۔ اب میں منت بڑھانے آئی ہوں۔ اس واسطے پھول مٹھائی لائی ہوں۔ اسی طرح تین روز برابر لاؤں گی، اُس بی بی تک تو میر رسائی کاہے کو ہو گی، لیکن تم کو مٹھائی کھلاؤں گی اور پھولوں کا دونا دروازے پر چڑھاؤں گی۔ پھر دونا دہلیز پر چڑھا، مٹھائی سبکو تقسیم کر دی اور اپنے گھر کو چلی گئی۔ دوسرے دن دروازہ محل کا موافق معمول کے کھلا اور وہ اصیل کہ حقیقت میں اصیل تھی، باہر آئی اور پھول دروازے پر پھیلے ہوے دیکھ کر کہنے لگی کہ آج یہ پھو دروازے پر کیسے پڑے ہیں، جلد بتاؤ۔ سپاہیوں نے سب داستان بڑھیا کی