قصہ حاتم طائی جدید

کمال کی داستان ہے جناب
یہ قسط وار داستان پڑھ کر مجھے بھی ایک قسط وار موضوع روایات پر مبنی داستان یاد آگئی
بھیا آپ نے تو اس کی قسطیں ہی درمیان میں چھو ڑ دی ہیں ۔ نہ آر نہ پار ۔ کتنے لوگ منتظر ہیں ویلنٹائن کے انجام کے اور آپ کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ہے ۔
 

ربیع م

محفلین
بھیا آپ نے تو اس کی قسطیں ہی درمیان میں چھو ڑ دی ہیں ۔ نہ آر نہ پار ۔ کتنے لوگ منتظر ہیں ویلنٹائن کے انجام کے اور آپ کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ہے ۔
بس آپ زور دیتے رہیں، مکمل کر کے ہی چھوڑیں گے اسی لئے ویلنٹائن ڈے کو انٹری ماری ہے!
 
بھیا آپ نے تو اس کی قسطیں ہی درمیان میں چھو ڑ دی ہیں ۔ نہ آر نہ پار ۔ کتنے لوگ منتظر ہیں ویلنٹائن کے انجام کے اور آپ کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ہے ۔
انشاءاللہ جلد پیش کروں گا اگلی قسط
بس آپ زور دیتے رہیں، مکمل کر کے ہی چھوڑیں گے اسی لئے ویلنٹائن ڈے کو انٹری ماری ہے!
14 فروری کی انٹری محض اتفاق تھا لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ میری کہانی لوگوں ابھی تک یاد تھی۔
احباب کی ذرہ نوازی ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
بہت خوب چوہدری صاحب !!!! خُدا خیر کرے کہ ہم ظفر صاحب کے فنِ تحریرسے زیادہ مولوی صاحب کی حق پرستی سے متاثر ہوئے جا رہے ہیں۔ آپ تو جیسا کہ سُنا ہے ماشاء اللہ مولوی صاحب سے پہلے ہی بیعت ہو چُکے ہیں بابت معاملہ عقد ثانی شریف :)
 

عثمان قادر

محفلین
بہت شدت سے اگلی شادی سوری اگلی قسط کا انتظار ہے ۔۔۔۔ خدارا جلدی کیجئے اس سے پہلے کہ میں بوڑھا ہو جاؤں اور پھر قسط پڑھنے کا فائدہ بھی نہ ہو ۔۔۔۔۔
 
ایک دن بغرض سیرگاہی کھیتوں کی طرف جا نکلا- سبزے کو دیکھ کر طبیعت کو شاداں و فرحاں کر رہا تھا کہ ساگ توڑتی شاداں نظر آ گئی۔ شاداں ایک بیوہ عورت تھی۔ خاوند اس کا دو برس پہلے ٹریکٹر سے گر کر مرا تھا۔ چالیس پچاس کا سن تھا، لیکن تھی بڑی باہمّت۔ اوپر سے نہ تو اولاد کا جھنجھٹ، نہ ہی فکرِ معاش، سو ڈیڑھ ایکٹر زمین پر مہارانی بنی پھرتی تھی۔

شاداں نے مجھے دیکھتے ہی مترنم آواز سے پوچھا۔۔۔ مولبی صاب ۔۔۔ اج کھیتاں دی سیر کردے او !!!

میں نے کہا۔۔ ہاں شاد بی بی ۔۔۔ گھر بیٹھے بیٹھے کچھ اکتاہٹ سی ہو چلی تھی سوچا سبزہ دیکھ کر ہی جی بہلایا جاوے۔

شام ہو چلی تھی، میں نے کھیت سے ایک گنّا توڑا اور واپس گاؤں کی طرف چل دیا۔ شاداں نے لکڑیوں کا گٹّھا سر پر رکھا اور گندلوں کا ساگ ہاتھ میں لئے میرے پیچھے پیچھے چل دی۔

راستے میں اس نے کہا، مولبی صاب ۔۔۔ ہک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا، ضرور پُچھّو ۔۔ وہ کہنے لگی، میں نے دو دیسی کُکّڑ پال رکھے تھے، اک رب سائیں واسطے دوجا پیر سائیں دے عرس واسطے۔۔۔ دو دن پہلے کوئی جانور آکے اِک کُکّڑ مار گیا ہے، اب سمجھ نہیں آ رہا کہ پیر والا کُکّڑ گیا ہے یا رب سائیں والا ۔۔۔ دونوں ایک جیسے تھے۔

میں نے کہا۔۔۔ شاد بی بی، یہ تو بالکل سیدھا سادھا مسئلہ ہے ۔۔۔ جو بچ گیا ہے اسے بسم اللہ پڑھ کے ذبح کر دو ۔۔۔ دونوں کُکّڑ اوپر جائیں گے تو رب سائیں خود فیصلہ کر لیں گے کہ کون سا رکھنا ہے اور کون سا پیر سائیں کے متّھے مارنا ہے۔

یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور دیر تک میری زود فہمی اور علمی تبحّر پر سر دھنتی رہی۔ اس طرح ہم باتیں کرتے کرتے گاؤں پہنچ گئے۔

شام کو میں نے اپنی زوجہء منکوحہ کو شاد بی بی والی حکایت سنائی تو وہ بھی جی بھر کر ہنسی۔ زوجہ نے کہا ہائے بے چاری۔۔۔ عورت ہو کر سو مردوں کے برابر کام کرتی ہے۔ دن کو بیل کی طرح کھیت میں جُتی رہتی ہے اور ماگھ پوہ کی کالی راتوں میں خود ہی پانی لگاتی پھرتی ہے۔

میں نے کہا۔۔۔ بے شک خاوند کے دم سے ہی گرہستی کا کھیت آباد ہے اور جو بیوہ ہو گئی وہ شاد ہو کر بھی ناشاد ہے۔

اس رات نجانے کیوں میں دیر تلک شاد بی بی کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ شاید بے خیالی میں کچھ زیادہ ہی سوچ بیٹھا اور خواب میں بھی شاداں ہی نظر آئی، یوں کہ میرے سر پر لکڑیوں کا گٹّھا تھا اور شاداں کے ہاتھ میں ساگ کا تھبّہ۔

اگلے دن ظہر کی نماز پڑھا کر نکلا تو بے ساختہ قدم شاد بی بی کے محلّے کی طرف اٹھ گئے، سوچا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری حکم خداوندی ہے، اور جو ایسا نہ کرے، نرا سنگ دل ہے۔

شاداں کے گھر کی کنڈی کھٹکائی تو وہ جھٹ سے سامنے آگئی، رب جانے دنداسہ کیا ہوا تھا کہ آلو بخارا کھا رکھا تھا، نظر پڑتے ہی وسوسہءِ شیطانی سر اٹھانے لگا۔ میں نے دل ہی دل میں لاحول پڑھی اور نظر جھکا کر کہا۔۔ " شاد بی بی ۔۔۔ کل جو آپ نے مسئلہء مرغِ مقتول دریافت کیا تھا اس کی ایک عجب توجیہ ذہن میں آئی ہے ۔۔۔ سوچا عرض کرتا چلوں۔

وہ سمجھی نا سمجھی کی کیفیّت میں چادر سمیٹتی ہوئی واپس مڑی، صحن میں چوکڑیاں بھرتی بکری کو کلے پر باندھا، چارپائی گھسیٹ کر دھریک کے نیچے رکھی اور مجھے اندر آنے کا کہا۔

میں بڑے اعتماد سے چارپائی پر جا بیٹھا، اس نے ایک بالٹی کھٹّی لسّی کی میرے سامنے دھری، اپنے ہاتھوں سے گھول گھول کر اس میں نمک ملایا اور میرے سامنے پیڑھا کھینچ کر بیٹھ گئی-

" ہاں مولبی صاب ---- میرا کُکّڑ قبول ہوسی کہ کوئی ناں ؟

میں نے جان چھڑانے کےلئے کہا۔۔۔ کافی گنجلک مسئلہ ہے، اس کےلئے مجھے رسالہ "تحقیق کوّا حلال حرام" دیکھنا پڑے گا۔ پھر خود ہی موضوع بدلتے ہوئے کہا۔۔۔ بخدا بیوگی سے بڑی کوئی مصیبت نہیں۔ خاوند کی چھاؤں میں ہی عورت کا رنگ روپ ہے اور بنا مجازی خدا کے ہر طرف کڑی دھوپ ہے۔

وہ لہجے میں دنیا جہان کا درد سمیٹ کر بولی۔۔۔ سچ آکھیا جے مولبی صاب ۔۔۔ ہم زندہ ہی کب ہیں۔۔۔ مرنے والا ہمیں بھی مار گیا ۔۔۔ نہ بچّہ اے نہ کاکی ۔۔۔ بس سانس کا رشتہ ہی باقی ہے۔

میں نے کہا رب ہمارے لئے آسانی چاہتا ہے شاد بی بی، اس نے بیوہ کو عدّت کے بعد شادی کی اجازت دی ہے۔

وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔۔۔ مولبی صاب بیوہ کو کون پوچھتا ہے ۔۔۔۔، سر کا سائیں چلا گیا ۔۔۔ اب تو یہ مرغِ مقتول ہی اس تک پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔

میں نے بے ساختہ کہا۔۔شاداں !!! تمہارا مرغِ مقتول تمہارے سامنے بیٹھا ہے۔۔۔ عقد کی چھری سے اسے حلال کر دے۔۔

وہ پریشان سی ہو کر بولی۔۔۔ کی مطبل مولبی صاب ؟؟

میں نے سیدھ سبھاؤ کہا۔۔۔ مجھ سے نکاح کر لو شاداں، دنیا و آخرت سنور جائے گی۔۔۔ کھیت میں بیل کی طرح جت جاؤں گا اور تجھے رانی بنا کر رکھوں گا۔

یہ سنتے ہی وہ خاموشی سے اُٹھی، میرے سامنے سے لسّی کی بالٹی اُٹھا کر بکری کے سامنے جا دھری اور کہا ۔۔۔ کیوں جی ؟؟؟ مینوں پھوڑا نکلیا اے یا کالے کُتّے نے وڈھیا اے ؟؟ ڈیڑھ ایکڑ زمین ویکھ کے تیرا وی عشق جاگ گیا اے ۔۔۔ چل پھُٹ ایتھوں !!!!
 

یوسف سلطان

محفلین
ایک دن بغرض سیرگاہی کھیتوں کی طرف جا نکلا- سبزے کو دیکھ کر طبیعت کو شاداں و فرحاں کر رہا تھا کہ ساگ توڑتی شاداں نظر آ گئی۔ شاداں ایک بیوہ عورت تھی۔ خاوند اس کا دو برس پہلے ٹریکٹر سے گر کر مرا تھا۔ چالیس پچاس کا سن تھا، لیکن تھی بڑی باہمّت۔ اوپر سے نہ تو اولاد کا جھنجھٹ، نہ ہی فکرِ معاش، سو ڈیڑھ ایکٹر زمین پر مہارانی بنی پھرتی تھی۔

شاداں نے مجھے دیکھتے ہی مترنم آواز سے پوچھا۔۔۔ مولبی صاب ۔۔۔ اج کھیتاں دی سیر کردے او !!!

میں نے کہا۔۔ ہاں شاد بی بی ۔۔۔ گھر بیٹھے بیٹھے کچھ اکتاہٹ سی ہو چلی تھی سوچا سبزہ دیکھ کر ہی جی بہلایا جاوے۔

شام ہو چلی تھی، میں نے کھیت سے ایک گنّا توڑا اور واپس گاؤں کی طرف چل دیا۔ شاداں نے لکڑیوں کا گٹّھا سر پر رکھا اور گندلوں کا ساگ ہاتھ میں لئے میرے پیچھے پیچھے چل دی۔

راستے میں اس نے کہا، مولبی صاب ۔۔۔ ہک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا، ضرور پُچھّو ۔۔ وہ کہنے لگی، میں نے دو دیسی کُکّڑ پال رکھے تھے، اک رب سائیں واسطے دوجا پیر سائیں دے عرس واسطے۔۔۔ دو دن پہلے کوئی جانور آکے اِک کُکّڑ مار گیا ہے، اب سمجھ نہیں آ رہا کہ پیر والا کُکّڑ گیا ہے یا رب سائیں والا ۔۔۔ دونوں ایک جیسے تھے۔

میں نے کہا۔۔۔ شاد بی بی، یہ تو بالکل سیدھا سادھا مسئلہ ہے ۔۔۔ جو بچ گیا ہے اسے بسم اللہ پڑھ کے ذبح کر دو ۔۔۔ دونوں کُکّڑ اوپر جائیں گے تو رب سائیں خود فیصلہ کر لیں گے کہ کون سا رکھنا ہے اور کون سا پیر سائیں کے متّھے مارنا ہے۔

یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور دیر تک میری زود فہمی اور علمی تبحّر پر سر دھنتی رہی۔ اس طرح ہم باتیں کرتے کرتے گاؤں پہنچ گئے۔

شام کو میں نے اپنی زوجہء منکوحہ کو شاد بی بی والی حکایت سنائی تو وہ بھی جی بھر کر ہنسی۔ زوجہ نے کہا ہائے بے چاری۔۔۔ عورت ہو کر سو مردوں کے برابر کام کرتی ہے۔ دن کو بیل کی طرح کھیت میں جُتی رہتی ہے اور ماگھ پوہ کی کالی راتوں میں خود ہی پانی لگاتی پھرتی ہے۔

میں نے کہا۔۔۔ بے شک خاوند کے دم سے ہی گرہستی کا کھیت آباد ہے اور جو بیوہ ہو گئی وہ شاد ہو کر بھی ناشاد ہے۔

اس رات نجانے کیوں میں دیر تلک شاد بی بی کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ شاید بے خیالی میں کچھ زیادہ ہی سوچ بیٹھا اور خواب میں بھی شاداں ہی نظر آئی، یوں کہ میرے سر پر لکڑیوں کا گٹّھا تھا اور شاداں کے ہاتھ میں ساگ کا تھبّہ۔

اگلے دن ظہر کی نماز پڑھا کر نکلا تو بے ساختہ قدم شاد بی بی کے محلّے کی طرف اٹھ گئے، سوچا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری حکم خداوندی ہے، اور جو ایسا نہ کرے، نرا سنگ دل ہے۔

شاداں کے گھر کی کنڈی کھٹکائی تو وہ جھٹ سے سامنے آگئی، رب جانے دنداسہ کیا ہوا تھا کہ آلو بخارا کھا رکھا تھا، نظر پڑتے ہی وسوسہءِ شیطانی سر اٹھانے لگا۔ میں نے دل ہی دل میں لاحول پڑھی اور نظر جھکا کر کہا۔۔ " شاد بی بی ۔۔۔ کل جو آپ نے مسئلہء مرغِ مقتول دریافت کیا تھا اس کی ایک عجب توجیہ ذہن میں آئی ہے ۔۔۔ سوچا عرض کرتا چلوں۔

وہ سمجھی نا سمجھی کی کیفیّت میں چادر سمیٹتی ہوئی واپس مڑی، صحن میں چوکڑیاں بھرتی بکری کو کلے پر باندھا، چارپائی گھسیٹ کر دھریک کے نیچے رکھی اور مجھے اندر آنے کا کہا۔

میں بڑے اعتماد سے چارپائی پر جا بیٹھا، اس نے ایک بالٹی کھٹّی لسّی کی میرے سامنے دھری، اپنے ہاتھوں سے گھول گھول کر اس میں نمک ملایا اور میرے سامنے پیڑھا کھینچ کر بیٹھ گئی-

" ہاں مولبی صاب ---- میرا کُکّڑ قبول ہوسی کہ کوئی ناں ؟

میں نے جان چھڑانے کےلئے کہا۔۔۔ کافی گنجلک مسئلہ ہے، اس کےلئے مجھے رسالہ "تحقیق کوّا حلال حرام" دیکھنا پڑے گا۔ پھر خود ہی موضوع بدلتے ہوئے کہا۔۔۔ بخدا بیوگی سے بڑی کوئی مصیبت نہیں۔ خاوند کی چھاؤں میں ہی عورت کا رنگ روپ ہے اور بنا مجازی خدا کے ہر طرف کڑی دھوپ ہے۔

وہ لہجے میں دنیا جہان کا درد سمیٹ کر بولی۔۔۔ سچ آکھیا جے مولبی صاب ۔۔۔ ہم زندہ ہی کب ہیں۔۔۔ مرنے والا ہمیں بھی مار گیا ۔۔۔ نہ بچّہ اے نہ کاکی ۔۔۔ بس سانس کا رشتہ ہی باقی ہے۔

میں نے کہا رب ہمارے لئے آسانی چاہتا ہے شاد بی بی، اس نے بیوہ کو عدّت کے بعد شادی کی اجازت دی ہے۔

وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔۔۔ مولبی صاب بیوہ کو کون پوچھتا ہے ۔۔۔۔، سر کا سائیں چلا گیا ۔۔۔ اب تو یہ مرغِ مقتول ہی اس تک پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔

میں نے بے ساختہ کہا۔۔شاداں !!! تمہارا مرغِ مقتول تمہارے سامنے بیٹھا ہے۔۔۔ عقد کی چھری سے اسے حلال کر دے۔۔

وہ پریشان سی ہو کر بولی۔۔۔ کی مطبل مولبی صاب ؟؟

میں نے سیدھ سبھاؤ کہا۔۔۔ مجھ سے نکاح کر لو شاداں، دنیا و آخرت سنور جائے گی۔۔۔ کھیت میں بیل کی طرح جت جاؤں گا اور تجھے رانی بنا کر رکھوں گا۔

یہ سنتے ہی وہ خاموشی سے اُٹھی، میرے سامنے سے لسّی کی بالٹی اُٹھا کر بکری کے سامنے جا دھری اور کہا ۔۔۔ کیوں جی ؟؟؟ مینوں پھوڑا نکلیا اے یا کالے کُتّے نے وڈھیا اے ؟؟ ڈیڑھ ایکڑ زمین ویکھ کے تیرا وی عشق جاگ گیا اے ۔۔۔ چل پھُٹ ایتھوں !!!!
:ohgoon::ohgoon::ohgoon:
اب شاداں كو كون سمجهائے کہ مولوی صاحب ایسے نہیں ہیں جیسا وہ سمجھ رہی ہے۔:lol:
بہت خوب عبدالقیوم بھائی!! اس بار بھی عمدہ انتخاب لائے ہیں:applause: اگلی قسط کا انتظار رہے گا
 

آوازِ دوست

محفلین
میں خاموشی سے اٹھا اور گھر آگیا۔ مجھے امید تھی کہ شاداں اس پرائیویٹ میٹنگ کو راز رکھے گی اور تنہائی میں میری بات پر ضرور غور کرے گی۔ آخر ایک جوان عورت کب تک بیوگی کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔

لیکن جو کچھ ہوا وہ میرے وہم و گماں سے بھی آگے تھا۔ شام تک بچّے بچّے کی زبان پر ایک ہی کہانی تھی ۔۔۔

" معصوم بیوہ اور دل پھینک مولوی کی کہانی !!!"

جاہلوں نے کہا بڑا مولوی بنا پھرتا ہے جو بیواؤں سے عشق لڑاتا ہے۔ کوئی کہتا اجی دیکھو ذات کا مولوی اور بیواؤں سے جپّھے ۔۔۔ توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے۔ مخالف فرقے والوں نے تو پورا جلسہ ہی کر ڈالا۔ شعلہ بیان خطیبوں نے مجھے معاف رکھا البتہ میرے مسلک کو دھو دھو کر نچوڑا اور سکھا سکھا کر دھویا- ہم مسلکوں نے اسے اسلام کے خلاف گہری سازش قرار دیکر اعلانِ جہاد کر دیا۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ چکیاں پولیس کو گاؤں میں باقاعدہ پُلِس چوکی قائم کرنا پڑی۔

دوسری طرف محلے کی خواتین نے میری بیوی کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا۔ زوجہ بھی بھڑک اٹھی کہ مانا گرمیء شوق دستارِ فضیلت سے اونچی ہو گئی ہے مگر بیوہ کو تو معاف کردے۔

میں نے کہا ارادہء عقد ہی کیا ہے ، ارادہ قتل تو نہیں۔

اگلے ہی روز وہ نیک بخت یہ کہتی ہوئی میکے سدھاری کہ میں نے تجھے زندگی کا ہر سُکھ معاف کیا، تیری نیّت شروع سے ہی خراب تھی۔ تیرے خطبات اور وعظ و نصیحت کے پیچھے "شاداں" کا "خفیہ ہاتھ" تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لونگی مگر تجھ جیسے ٹھرک باز کے ساتھ ایک دن نہ گزاروں گی۔

میری تو دنیا ہی ویران ہو گئی- گھر میں تنہائی کاٹتی اور باہر لوگ۔ آخر ایک دن اس جاہل قوم کو سلام کر کے گاؤں سے ستر کوس دور اس باغ میں چلا آیا- مالٹوں کی زیارت سے طبیعت شاداں و فرحاں ہوئی۔ ٹھیکیدار اچھا آدمی ہے، خدا اجر دے، بنا کسی منّت سماجت کے مجھے مالی رکھ لیا۔ اب یہیں شب باشی کرتا ہوں، دل بہلانے کو یہ مرغ پال رکھا ہے۔ رات کا کھانا باغ کا مالک دے جاتا ہے، لوگوں کے ہوش تو اڑا چکا اب صبح شام طوطے اڑاتا ہوں۔ اچھا اب میری صدا کا وقت ہوا چاہتا ہے، ذرا کانوں میں انگلیاں ڈال لو۔

دفعتاً وہ شخص گلا پھاڑ کر چلایا "مافی مافی مافی ۔۔۔ زوجہ ایک ہی کافی" اور باغ سے سارے طوطے اڑ گئے۔

حاتم نے موبائل ریکارڈنگ آف کرتے ہوئے کہا، اے پیرِ مرد۔۔۔ تیری داستانِ پُر الم سُن کر بمشکل ہنسی روکی ہے، افسوس کہ تو نے عرب کا سرمہ سرگودھا میں بیچنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے معاشرے کی آنکھیں باہر آ گئیں۔ جس شخص کو "مالٹے اور کھجور" کا طبیعاتی فرق معلوم نہ ہو اسے مولوی کیا مالی بھی نہیں ہونا چاہیے۔

اے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں، معاشرہ جس حال پہ راضی ہو، یہ مذہب کو اسی رنگ میں ڈھال کر مال سے غرض رکھتے ہیں، انہیں عوامی مولوی کہا جاتا ہے۔

دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا 'کافر' اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے گھسّن مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انہیں ضِدّی مولوی کہا جاتا ہے۔

تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں صالحین کہا جاتا ہے مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔

اس کے بعد حاتم نے جیب سے شہزادی حسن بانو لاٹری فارم نکالا۔ مولوی مقصود کا اس پر انگوٹھا لگوایا۔ اس کے شناختی کارڈ کی تین عدد کاپیاں ہمراہ پاسپورٹ سائز فوٹو لیکر پہلی فلائیٹ سے ہی اسلام آباد روانہ ہو گیا۔
 
Top