قصہ ایک لڑائی کا (محمد حسن کے قلم سے)

نسبتاً مروَّتاً کنايتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً قدرتاً حقيقتاً حکايتاً طبيعتاً وقتاً فوقتاً شريعتاً طاقتاًاشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقيدتاً وضاحتاً شرارتاً
السلام علیکم ۔


زندگی میں کبھی لڑائ نہ ہوئ تھی مگر پتہ نہیں اس دن کچھ اوباش لڑکوں کے اور میرے ستارے شاید گردش میں تھے...
آج کا موسم بہت ہی سہانا تھا شاید بارش ہونے والی تھی میں اپنی کلاس فیلو سے ملنے کامن روم کی طرف رواں دواں تھا یاد رہے کہ کامن روم میں صرف ہماری کلاس کی لڑکیاں فری ٹائم میں بیٹھا کرتی تھیں مگر مجھے وہاں جانے کی اجازت ایک لڑکی نے ہی دی ہوئ تھی ورنہ ایچ او ڈی یا کوئ بھی پروفیسر اگر مجھے دیکھ لیتا تو میں کالج سے باہر ہوتا خیر جان جوکھوں میں ڈال کر میں آمنہ سے ملنے کامن روم میں پہنچا غلطی یہ تھی کہ ڈور ناک کیئے بنا ہی میں اندر گھس گیا دروازہ کھولتے ہی مجھے دھچکا سا محسوس ہوا سب لڑکیاں مجھے دیکھ کر ساکت ہو گئیں جبکہ میں بھی اپنا دوسرا قدم بھی آگے نہ بڑھا سکا اور میں دروازہ فورا بند کر کے باہر نکل آیا اور زور زور سے سانس لینے لگا اندر کا ماحول ٹوٹل عورتانہ تھا کوئ لڑکی بال کھولے کنگھا کر رہی تھی تو کوئ میک اپ کا جادو آزما رہی تھی مطلب کامن روم میں کمبائن سٹڈی اور اکٹھے بیٹھ کر کھانا پینا، گپیں لگانا تو سنا تھا مگر جو ماحول میں نے اس دن کامن روم میں دیکھا اس نے کامن روم سے میرا اعتبار اٹھا دیا... اب مجھے ڈر تھا کہ اگر کسی ایک لڑکی نے بھی میری شکایت کی تو میں کالج سے باہر گندے انڈوں کی طرح پھینک دیا جاوں گا اور اوپر سے سالانہ امتحان بھی سر پر تھے، میں ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ آمنہ باہر آئ اور غصے میں بولی کہ کیا ضرورت تھی یوں منچلوں کی طرح اندر گھسنے کی؟ میں نے منع کیا تھا نا کہ آج کامن روم میں نہیں آنا بلکہ گارڈن میں بیٹھ کر میرا انتظار کرنا؟
آمنہ منہ بنا کر آگے آگے چلنے لگی اور میں اس کے پیچھے پیچھے سوری سوری کا ورد کرتے لمبے ویرانڈے میں چل رہا تھا کہ اچانک آمنہ نے رائٹ ٹرن لیا اور گارڈن میں لگے پانی کے نلکے کے پاس جا کر بیٹھ گئ....
یہاں سب لڑکے اور لڑکیاں اکثر پانی پینے اور گپیں لگانے کے لیئے جمع رہتے تھے مگر آج یہاں لڑکیاں نہیں تھیں بس سول ڈیپارٹمنٹ کے کچھ لڑکے ایکدوسرے پر پانی پھینک رہے تھے اور بھاگ دوڑ کر رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکے نے پانی جب دوسرے لڑکے پر پھینکا تو وہ اس لڑکے کی بجائے آمنہ پر آ گرا آمنہ نے بہت غصے سے میری طرف دیکھا مگر مین نے مسکرا کر ان لڑکوں سے کہا کہ بھائ ذرا خیال کرو پانی ہمارے اوپر مت گرائیں اور تھوڑا دور چلے جائیں مگر وہ لڑکے ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنا کھیل جاری رکھا اور دوسری بار بھی آمنہ پر پانی پھینک دیا اور ظاہر یہ کیا کہ بس کھیلتے کھیلتے غلطی سے گر گیا اور سوری کہا میں نے کہا ٹھیک ہے آپ تھوڑا دور چلے جاو یہاں سے مگر ان میں سے ایک لڑکا بہت زیادہ اچھل رہا تھا اور بار بار ہمارے گرد بندر کی طرح اچھل رہا تھا اور اسی کیوجہ سے تیسری بار پانی میرے منہ پر آ کر گرا اس بار آمنہ سے چپ نہ رہا گیا اس نے ان لڑکوں پر بہت غصہ کیا جس پر وہ لڑکے بھی فضول بولنے لگ گئے میں انکی فصول بات سن کر غصے میں آ گیا اور وہ جو ایک لڑکا بندر کی طرح اچھل رہا تھا اسکو گھسنوں سے دھو ڈالا اس کے باقی ساتھی ڈر کر بھاگ نکلے تھے آمنہ نے بھی اس لڑکے کو ایک تھپڑ رسید کیا اور اپنے اوپر گرے پانی کا بدلا لیا اب وہ لڑکا بھی بھاگ نکلا مگر میری ماڑی قسمت کلاس کی کھڑکی میں سے ایک پروفیسر صاحب نے مجھے لڑتے ہوئے دیکھ لیا اور مجھے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا اور گندے انڈے کی طرح کالج سے باہر پھینکنے کی دھمکی دی گئ اور پیپرز میں بھی نہ بیٹھنے کا کہا گیا مگر بھلا ہو آمنہ کے ابو کا جو اس وقت وزیر اعلی پنجاب کے سیکرٹری تھے آمنہ نے ان سے کہلوا کر میری ساری سزا معاف کروائ اور اس طرح اس لڑائ کا اختتام ہوا ۔
اور میں نے بھی توبہ کر لی کہ آج کے بعد کسی لڑکی کے چکر میں لڑائی نہیں کروں گا اب ہر لڑکی کے رشتے دار اتنے اثرورسوخ والے تھوڑی ہوتے ہیں ویسے بھی کچھ عرصہ بعد اس کی شادی ہوگئی تھی اور میں نے خود اس کی شادی کے کارڈ ڈیزائننگ کے لیے دیے تھے ۔
 
Top