اسکین دستیاب قصہ ء اگر گل

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 137
سب حال بیان کیا۔ اس نے کہا " سبحان اللہ! حیوان تک میرے حال کثیر الاختلال سے آگاہ اورآپ ایسے بے پرواہ ہوں!" شہزادے نے کہا " یہاں تک تو کیا، اور آگے کیا چاہتا ہے؟" یہ کہہ کر رخصت ہوا۔ گل بادشاہ نے اس وقت یہ قطعہ کسی استاد کا پڑھا:
قطعہ
سوال یار سے میں نے کیا بہ وقت وداع
کہ اک نشانی کی تجھ سے امیدواری ہے
لگا وہ کہنے کہ تو بیوقوف ہے کتنا
یہ داغ دل پہ تیرے تھوڑی یادگاری ہے

حیران ہونا اگر شاہ معمائے " باز از و طعمہ نیست" سے اور تحقیق اس کی زلیخا سے
ایک دن اگر شاہ نے اپنی ممانی سے کہ نام اس کا زلیخا تھا، پوچھا کہ آپ نے کئی بار یہ سخن مجھے سنا کر کہا کہ " باز است و طعمہ نیست" میری عقل اس چیستان کے دریافت کرنے میں عاجز ہے۔ زلیخا نے کہا " اے عزیز کشورِ خوبی و اے یوسف محبوبی! مجھے یہ تاسف آتا ہے کہ تجھ سا یوسف بے زلیخا اور تجھ سا سلیمان بے پری ہے اور تیرے پیوند کے قابل کوئی نظر میں نہیں سماتا سوائے روشن رائے پری کے۔
بیت
وہ بلقیس ہے گر سلیماں ہے تو
وہ زہر ہہے گر ماہ تاباں ہے تو
حسین اور صاحب جمال، عقل و شعور میں بے مثال، کتنے خسرو اس شیریں ادا کے واسطے فرہاد کی طرح ہلاک ہوئے، بہت وامق اس

ریختہ صفحہ 138
رشک عذر کے غم میں اندوہناک ہیں۔" اگر نے کہا " اور اس کا کچھ نشان، اثر، پتا، خبر معلوم ہو بیان فرمائیے۔" اس نے کہا" یہ سنتی ہوں کہ نقش جہاں آرا ایک قلعہ ہے ۔ طلسمات اور جادو سے معمور، یہاں سے بہت دور ۔ دونوں طرف اس کے بحر عمان جوشاں، آتش ملتہب خروشا ں ہے۔ وہ قلعہ درمیان میں حباب مثال، شرر تمثال نمایاں ہے۔ وہاں کسی کا تھل بیڑا نہیں لگتا۔ آدمی کیا دیو پری کے بھی پر جلتے ہیں۔" اگر شاہ اس سخن کو گوہر وار صدف گوش میں لے کر سمندر کی طرح وہاں کا مشتاق ہوا اور حمید سے کہا " گھوڑا تیار کرو۔" اس نے بہ موجب حکم کے اس فلک سیر کو تیار کیا۔ شہزادہ اس پر سوار ہو کر گل بادشاہ کی طرف آیا۔ دروازے پر کئی بار دستک دی، کسی کی آواز نہ آئی۔ دروازہ توڑ کر اندر گیا۔ گل کو دیکھا کہ بستر بیماری پر پڑا ہے۔ ایک پتھر چھاتی پر، ایک سر کے نیچے دھرا ہے۔ اس نحیف و ناتواں کو پستہ ء لب ، سیب ذقن، بادام چشم، عنبر زلف کی معجون سے تقویت بخشی۔ اٹھایا بٹھایا، کھانا کھلایا، دو چار گھڑی ٹھہرا، پھر اس سے رخصت ہوا۔ چلتے ہوئے یہ پڑھا:
رباعی
گھر بماندیم زندہ، بر دوزیم
پیرہن کز فراق چاک شدہ
ور بمردیم عذر ما بپذیر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
وہ خود رفتہ اس معمے کو نہ سمجھا۔ وہاں سے سر وآسا کے مکان میں آیا۔ کہا کہ میں چند روز کے واسطے چلہ بیٹھوں گا، جو تم سے پوچھے، میرا احوال نہ بتانا۔ اور کان میں کہا کہ گل بادشاہ کی خبر گیری سے غافل نہ رہنا۔ لو خدا حافظ! غرض ہر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 139
یار و آشنا سے رخصت ہوا۔ گھوڑے اور حمید کو اس راز سے مطلع کیا۔ حمید نے کہا " اے بادشاہ! یہ سفر نہایت پرخطر ہے۔ اگر ارشاد ہو، میں اپنے زن و فرزند کو وداع کر آؤں؟" کہا" بہتر۔" وہ جاکر ان کو وداع کر آیا

روشن رائے پوری کے ملک میں جانا اور وہاں پتھر کا ہو جانا اگر صاحب کا

نظم
نہیں عشق، ہے یہ بلائے عظیم
ہر امید ہے مبدع خوف و بیم
گل اس باغ کے سر بہ سر خار ہیں
جو چشمے ہیں ، وہ دید ہ ء زار ہیں
سماعت کے قابل نہیں یہ بیاں
کہ ہوتا ہے گوش اس گوہر سے گراں
زلیخا پشیماں تھی اس بات سے
کہ کھو بیٹھی یوسف کو میں ہات سے
دشت پیما یانِ حکایتِ غربت و مسافرانِ طریقِ مصیبت یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر شاہ نے اسبابِ سفر خرجی میں اور کچھ پانی مشک میں بھر کر گھوڑے پر لگایا۔ حمید کو ساتھ لیا۔ سوار ہو کر منزل مقصود کو روانہ ہوا۔ قطعِ منازل و طے مراحل کرکے ایک مدت کے بعد قلعہ ئ نقش جہاں آرا کی سرحد میں پہنچا۔ ایک جگہ پاکیزہ و بہتر دیکھ کر کوئی دم ٹھہرا، آرام کیا۔ بعد اس کے آگے بڑھا؛ دریائے جوشاں نمودار ہوا۔ گھوڑے نے کہا اے حمید! ایک مشکیزہ اس دریا سے بھر لے، آگے دریائے شور ملے گا۔ حمید نے مشکیزہ لبریز کیا۔ اس دریا سے با عنایت خداوند ناخدا

ریختہ صفحہ140
کشتی حباب کی طرح پار ہوا کہ ناگاہ ہوائے تیرہ و تار ایسی اٹھی کہ دن سے رات ہوگئی۔ اسم اعظم کی برکت سے محفوظ رہا۔ آگے بڑھا؛ ایک کوہسار پر کہ وہ رای سخت ترتھی، گزر ہوا۔ گھوڑے نے کہا " حمید! تو بھی سوار ہو لے، نہیں تو گرد کی طرح ہمراہی سے رہ جائے گا، اور وہ پانی کہ دریائے جو شاں سے اٹھایا ہے، ایک قطرہ اس پہاڑ پر چھڑک دے، خدا چاہے تو تاریکی دور ہو جاوے۔" اس پانی کے چھڑکنے سے وہ تاریکی کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا، رفع ہوئی، وہ منزل دشوار بھی قطع ہوئی۔ گھوڑے نے کہا " اب دو چار گھڑی لوٹو پوٹو، کھاؤ پیو۔" شہزادہ مرکب سے اترا، کچھ کھایا، آرام فرمایا۔ گھوڑے نے کہا " اے شہزادے! بارہ کوس زمین چاندی سونے کی ہے، لیکن حشرات الارض سانپ، بچھو لا انتہا ہیں۔ اگر کوئی تمہارا نام لے کر پکارے للکارے، چپ رہنا، جواب نہ دینا۔ آگے بڑھ کر دکانیں خوانچہ والوں کی، میوہ فروشوں کی ملیں گی کہ سرا سر اجزائے بے ہوشی اس میں ملے ہیں۔ وہ تم کو بلائیں گے، بھر بھر دکھائیں گے، زنہار زنہار نہ جانا، بلکہ یہ بھی نہ کہنا کہ ہم نہیں آتے۔ اور یہاں سے دو چار پھول نرگس کے توڑ لو۔" یہ کہہ کر وہ گھوڑا تیز ہوا کی طرح فلک سیرہوا، سینکڑوں کوس نکل گیا۔ وقت دوپہر کا ہوا، دیکھا کہ کوسوں تک تمازتِ آفتاب سے آگ برستی ہے، ریگِ بیابان مثل اخگر چمکتی ہے۔ کوئی درخت سایہ دار نہیں ملتا۔ کوئی جھیل، تالاب، چقر، آبشار نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اور حمید پر غلبہ تشنگی کا اس درجہ ہوا، زبان خشک، منہ میں کانٹے پڑ گئے۔ گھوڑے کا یہ حال کہ زبان منہ سے نکال دی، ہر قدم پر تلملاتا جاتا تھا۔ القصّہ کئی کوس جوں توں نکل آئے۔ کچھ درخت سایہ دار آنبوں کے دکھائی دیے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 141
شعر
برستی تھی دھوپ ان میں یوں ہر گھڑی
کہے تو کہ آموں میں بجلی پڑی
گھوڑے نے کہا" یہاں خوف و خطر نہیں۔ آپ بھی دم لیں، مجھے بھی آرام دیں۔ تھوڑی دیر ٹھہریئے، پھر سوار ہو جئے۔" غرض کچھ دیر وہاں بھی ٹھہرے، آرام کیا، پھر روانہ ہوئے۔ راہ میں دیکھا کہ میوہ فروشوں کی دکانیں آراستہ، بیچنے والے لباس رنگارنگ سے پیراستہ ہیں۔ ہر طرف سے نوشہ نوش کی آوازیں دیتے ہیں، صراحیاں رنگارنگ کی دکھاتے ہیں، پکارتے ہیں
مصرع
آؤ پیو کہ آبِ بقا یہ شراب ہے
شہزادے نے ادھر نگاہ نہ کی، ان کے سوال کے جواب پر آواز نہ دی۔ تھوڑی دور کے تفاوت سے ایک جماعت عورتوں کی نظر آئی کہ شیرمالیں آب دار لال لال لیے بیٹھی ہیں، آواز دیتی ہیں۔ اگر شاہ نے ان کو بھی جواب نہ دیا۔ اس منزل سے بھی سلامت گزر گیا۔ پھر ایک باغ خوش آثار میوہ دار دیکھا؛ لطافت وطراوت سے قوتِ دل و نزہت و نظارت سے بصارتِ چشم حاصل ہوئی۔ ایک درخت میں قفس رنگین خوش آئین، اس میں ایک مینا حکمت کے فن میں طاق، فسانہ کہنے میں شہرہ ءآفاق نظر آئی، انہیں دیکھ کر چہچہائی۔ گھوڑے نے کہا" یہ مینا طلسم جادو ہے۔ اے بادشاہ! بسم اللہ کہہ کر ایک تیر اس کو مار۔ اگر تیر تیرا اس کے لگا تو تو نے یہ طلسم توڑا اور جو خطا کی تو خود اسیر طلسم ہوا۔" اللہ اکبر کہہ کر تیر اس نے چھوڑا۔

ریختہ صفحہ 142
بیت
فقط نہ تیرنے مینا کے جسم کو توڑا
اس ایک تیر نے سارے طلسم کو توڑا
مینا کے مرتے ہی وہ باغ پتے کی طرح اڑ گیا۔ کف دست میدان، جنگل سنسان نظر آیا۔ حمید نے تحسین کی۔ دو چار روز وہاں آرام فرمایا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوا۔ بستی اور آبادی کے نشان دکھائی دیے۔ باشندے قلعہ ءجہاں آرا کے اس کی جوانی پر کف افسوس ملتے تھے کہ ہائے یہ جوان ناحق اپنی جان کے پیچھے پڑا ہے، کیوں اپنا دشمن ہوا ہے۔ ہزاروں بادشاہ سکندر جاہ یہاں آئے، داغ محرومی و ناکامی دلوں پر اٹھائے۔ یہ تن تنہا کیا کر سکے گا۔ شہزادہ سارے جھکائے، گھوڑا اٹھائے چلا جاتا تھا۔ جواب دینا کیسا، آواز بھی نہ سنتا تھا۔ رفتہ رفتہ قلعے کے دروازے پر پہنچا۔ اس پر یہ لکھا تھا: اس قلعے کے اندر جانا حرام ہے، جب تک اس بگلے کو نہ مارے ناکام ہے۔" شہزاد ےنے سر اوپر اٹھایا، ایک بگلا سر پر اڑتا پایا۔ اس کی پرواز سے یہ آواز پیدا تھی کہ بڑے بڑے بادشاہ اس پری کے لینے کو آئے، پر خاک تودہ بن گئے، پتھر کے ہو گئے۔ تُو ایک سوار چاہتا ہے کہ روشن رائے کو لے جائے؟ جب تک مجھے نہ مارے گا، قلعے کے اندر نہ جا سکے گا۔ اگر شاہ نے کمان کو دوش سے اتارا، تیر کو راست کیا۔ حمید اور گھوڑے نے کہا" ہاں ہاں! اس پر تیر نہ لگانا۔ دیکھو سراسر خطا ہے، نہایت بے جا ہے۔ اس پر جس کا تیر خالی جائے گا، مدت تک پچھتائے گا۔ اے بادشاہ! پھر پتھر ہو جاؤ گے، ٹھوکریں کھاؤ گے۔" چلایا کیے، اس نے نہ مانا۔ بگلا پکارا کہ اے ہمارےملک محبوبی! میں بگلہ طلسم کا ہوں، تو کیا غضب کرتا ہے۔ مجھ کو تجھ پر رحم آتا ہے۔ مجھے دشمن نہ جان، میرا کہا مان۔ یہ سچ ہے کہ:
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 143
شعر
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
مگر مقدمہ ءطلسم میں اس کو کیا دخل ہے؟ افسوس تجھ سا پری، طعمہ مجھ سے کم بخت کا ہوتا ہے۔ اگر شاہ نے کہا:
شعر
ندانم کہ سنگ سپہرِ قضا
ترا بشکند پیشتر یا مرا
یہ کہہ کر تیر لگایا، تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ دوسرا چھوڑا، خطا کی، تیسرا بھی خالی گیا۔ فوراً یہ تینوں پتھر کے ہوگئے۔
ابیات
وہ جسمِ نازنیں پتھر ہوا تھا
سراپا سنگ وہ دل بر ہوا تھا
حمید اس کے قدم پر سر بہ پا سنگ
ہوا مرکب بھی اس راکب کا ہم سنگ

ظاہر ہونا حال اگر صاحب کے گم ہونے کا اور بے قراری میں جان کو کھونا ہرایک کا
کہتے ہیں کہ جب اگر شاہ پتھر کا ہوا، حادثہ سخت اس پر گزرا۔ غیروں نے سنگِ تاسف سر پر مارا۔ روشن رائے سنگ دل پر بھی کوہِ الم ٹوٹا:
شعر
ہوئے واں تو ہوتے تھے جو حادثات
اب اس سمت کی کچھ سنو واردات

ریختہ صفحہ 144
بعد چندےمنصورشاہ کو خیال ہوا کہ اگر صاحب جوگی صاحب پاس ہیں۔ جوگی صاحب کو وہاں کا احتمال رہا، اور سب کو بھی اسی طرح کا دھوکا تھا۔ تا کجا، ایک ایک جا تلاش ہوئی۔ گم ہوئے کا ماتم ہوا، ہر ایک شہر میں تلاطم ہوا۔ ہر ایک شخاص کے دل پر غم و الم نقش کالحجر تھا، ہر ایک بہ سبب نایابی اس پارہ صفت کے خاک بہ سر تھا۔ ہر ایک کی انتظار میں آنکھیں پتھرائیں، ناسور ہوا۔ ہر ایک کا شیشہ ءدل سنگِ مفار قت سے چور ہوا۔ گل بادشاہ، لعل شہزادہ ، محمود ، قریش ، لال دیو ایک سمت، جوگی صاحب، محلات جوگی صاحب بوقلموں ایک سمت۔ منصور شاہ، خوش حال مع وزیروں و مع چالیس بادشاہوں کے ایک جانب ۔ منوچہر، جواہر وبسنت ، شہریار مع محلات ایک طرف۔ اور جس دوست، آشنا، یگانہ ، بیگانہ، رعایا، برایا، نوکر، چاکر نے سنا، ہر ایک روتا پیٹتا خاک اڑاتا اگر صاحب کی تلاش میں اکثر اپنے قالب بدل کر جانور بن کر روانہ ہوا۔ ہزارہا منزل کی خاک چھانی، سر ٹکرایا، شش جہت میں کہیں سراغ و نشان نہ پایا۔ بہت سی تحقیقات میں اتنا معلوم ہوا کہ اس یوسفِ زمانہ نے زلیخا کی زبانی تعریف میں روشن رائے پری کے مثل مشہور" حیف کہ باز است وطعمہ نیست" سنی تھی، شاید ادھر کا قصد کیا ہو۔ سب کے طائرِ ہوش اڑ گئے۔ یقین ہوا کہ وہ ہمائے خوبی طعمہ بگلہ ءطلسم کا ہوا اور وہ چاند سی صورت پتھر کی مورت ہوئی۔ زلیخا کو ہر ایک نے طعن و تشنیع کی، برا بھلا کہا۔ امیدِ وصال قطع ہوئی، ہر کو مایوسی ہوئی، ایک نے کالے کپڑے پہنے، کسی نے گیروے کیے۔ گل بادشاہ نے سر پھوڑا، پچھاڑیں کھائیں، آخرتن بدن کی خبر نہ رہی۔ جوگی شرابِ فرقت سے مدہوش، منصورشاہ ،خوش حال جوش محبت میں بے ہوش، چالیسوں بادشاہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 145
بے آب و دانہ۔ گل بادشاہ کے چاروں وزیر، ہر ایک دیوانہ۔ کوئی پیٹتا، کوئی روتا، تنکے چنتا۔ کہیں کوئی ہاتھ ملتا، کوئی نعرے مارتا، کوئی فریاد کرتا۔ جو اگر صاحب کے مکان اور ٹھکانے بیٹھنے کے تھے، وہاں ہر روز اژدہام ہوتا تھا، ایک عجب کہرام مچتا تھا۔ شہروں میں غدر، ظلم سر بسر۔ مسجد یں بے چراغ و بے اذان، بت خانے شکستہ و ویران، خلقت تباہ ، رعیت بے پشت و پناہ۔ ہر محلے میں ڈاکے اور چوریوں کی دھوم، ہر گلی کوچے میں بدمعاش، خانہ جنگوں کا ہجوم۔ مہاجنوں نے داد و ستد سے ہاتھ کھینچے، سینکڑوں ساہوکاروں کے دیوالے نکلے، صد ہا دکانیں بند ہوگئیں۔ ملک ویران، رعیت نالاں۔ لاکھوں عمارتیں، ہزاروں مکان، سینکڑوں قصرِ عالیشان خرابے بن گئے۔ بارہ دریوں میں گرگ وشغال کے مسکن، صحنوں میں کرگس و بوم کے نشیمن، حجروں میں خاک، تہ خانوں میں خس و خاشاک۔ بنگلوں میں چغد بھٹکتے، چھتوں میں چمگادڑ لٹکتے۔ صحن میں چھوٹی چھوٹی ناگنیں اور سانپ، کالے کوڑیالے پتھر چٹے اور چبوتروں پر رنگ رنگ کے بچھو اور بِس کھپرے۔ کہیں بن بلاؤ لڑتے، کہیں گدھے لوٹتے۔ کہیں بجو پڑے سوتے، دو چار کتے روتے۔ ابابیلیں اڑ تیاں، چمگادڑ منڈلاتیاں۔ چھت پردے پھٹ گئے، فرش خاک میں اٹ گئے۔ ہر ایک جا سنسان، ہوکا مکان۔ ایک مدت یہی عالم رہا، جس کو ہوش آیا، چلّہ بیٹھا۔ کسی نے تعویذ لکھے، فلیتے جلائے، کسی نے بیٹھک دی ، پیر بلائے۔ کوئی عمل پڑھتا، کوئی دوائیں مانگتا، کوئی جبینِ عجز کو زمینِ نیاز پر دھرتا۔ دونا، پڑیا، حاضری ،کونڈے ، صحنک ، طبق، ہر ایک اپنے اپنے موافق منتیں مانتا۔ گل بادشاہ کو زمانے کی خبر نہ تھی۔ اگر کبھی آنکھ کھلی، بجز آہ کے کچھ نہ کہا۔
شعر
آہ صاحب درد را باشد اثر​

ریختہ صفحہ 146
آخر الامر جوگی صاحب نے ماہ تاباں کو تلاش میں اگر صاحب کی روانہ کیا۔
جانا شہباز کا اور ہمرا ہ لے آنا اس کا طاؤس طناز کا
وقتِ روانگی حمید کے مشورے سے اور اس خیال سے کہ یہ اس طرف کا رہنے والا ہے، شاید پابندی سے گھبرا کر ادھر ٹوٹ رہے، شہباز کو نہیں چھوڑا۔ اس حادثہ جہاں گزا میں ہر ایک کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ سب نے اس کے آب و دانہ سے منہ موڑا۔ کئی فاقے گزرے۔ آخرش جوگی صاحب سے کہا" اے بندہ پرور! جس کے رشتہء محبت میں ،میں بندھا تھا، وہ ہمارے اوجِ سعادت آشیاں گم گشتہ ہوا۔ مر غِ روح میرا قفس جسم میں پھڑکتا ہے۔، زندگی وبال ہے۔ اب اس پر سے تصدق کرو، مجھے آزادی دو۔ میں بھی نتیجہء تلاشِ میدان کو جستجو میں کھولوں، پر پرواز کو ہوائے ہمت کے سنگ سے تو لوں۔ شاید:
مصرع
ہمائے اوج سعادت بدام ما افتد"
جوگی صاحب نے پنجرہ توڑا، شہباز کو چھوڑا۔ وہ روتا جاتا تھا اور کہتا تھا:
شعر
جانور جو تیرے صدقے میں رہا ہوتا ہے
اے شہِ حسن! وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے
خدا تجھے صیاد تک پہنچائے، پھر مجھے تیرے دام میں پھنسائے۔"
پہلے وہ اپنے وطن میں گیا، تمام باز اس شہباز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے کہا کہ میرا ولی نعمت روشن رائے پری کی تلاش میں گیا، پتھر ہو گیا۔ اس وقت تم میرے کام آؤ، پتہ لگاؤ۔ یہ سنتے ہی ہزارہا باز اپنے بادشاہ کے ساتھ چلے، ایک پہاڑ پر پہنچے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 147
وہاں زہرہلاہل کے غلولے جا بجا پڑے دیکھے۔ شہباز نے کہا" ہر ایک، ایک غلولہ پنجے میں اٹھا لو۔" جب اس سرزمین پر پہنچے، جہاں اژدہے منہ پھیلائے پڑےتھے، شہباز نے کہا" یہ غلولے زہر کے ان کے منہ میں چھوڑ دو۔" دفعتا وہ موذی زہر کی تاثیر سے ہلاک ہو گئے۔ شہباز مع لشکر آگے بڑھا۔ ایک کنواں دیکھا، اس میں ایک پیرزال دلالہ، شیطان کی خالہ لٹکتی تھی۔ شہباز نے کہا" اس کو اپنی منقاروں سے نکالو، تکہ بوٹی کرو۔" اس کے مرتے ہی ایک طوفان برپا ہوا، قیامت کا سامنا ہوا۔ جب وہ شور موقوف ہوا، لق و دق میدان دیکھا۔ اس دشت کو بھی بہ دقت قطع کیا۔ اکثر اس بیابان میں تھک تھک کر رہ گئے۔ قلعے کے دروازے تک پہنچا۔ دیکھا کہ حمید کے ہاتھ اگر شاہ کے قدم پر اور گھوڑا برابر، تینوں پتھر ہو کر بے دم پڑے ہیں۔ شہباز کئی بار اس کے گرد پھرا، اس کی حالت پر حسرت پر بہت رویا۔ پھر اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ اس قلعہ کے اندر جاؤ۔ ایک بگلا ہے اسے پکڑ لاؤ۔ غول غول وہ باز دفعتا قلعے میں در آئے، بگلے کو ہاتھوں ہاتھ پکڑ لائے۔ شہباز نے کہا" اگر میں بگلے کا خون اپنے پنجے سے اس کے تلے نازنین پر ملوں گا، یہ جسم نازک خراشیدہ ہوگا۔ بگلا تو قابو میں ہے، کسی جن یا انس کو کہیں سے لا یا چاہیے۔"

دریافت ہونا، آنا ماہ تاباں کا شہباز پر اور بگلے کا لہو ملنا اس طاؤس طناز پر اور ہئیت اصلی پر آنا اگر صاحب کا، پھر شادی ہونا روشن رائے سے
وہ شہباز اس تردد میں اڑا پھرتا تھا۔ دیکھا کہ ایک جانور درخت پر بیٹھا ہے۔ ہر چند پر پرواز کو تولتا ہے مگر اس سے اڑا نہیں جاتا۔ شہباز نے پوچھا" تیرا کیا حال ہے؟" اس نے جواب

ریختہ صفحہ 148
دیا کہ ابھی میں اڑتے اڑتے یہاں بیٹھ گیا، کسی سوختہ دل نے ایک نعرہ ء جگر سوز ایسا مارا کہ اس شعلے سے میرے پر جلے۔" شہباز سمجھا کہ جوگی صاحب نے اپنے محلوں میں سے کسی کو خبر کے لئے بھیجا ہے۔ آواز دی کہ اے سوختہ ءآتش فراق! تیرے دم گرم سے طائر ہوا کے بال وںپر جلے جاتے ہیں۔ خدا نے تیری بے قراری پر رحم کیا۔ مجھ کو تیرے فرزند کا سراغ ملا۔ اب زمین پر آ، بگلے کا خون اس کے بدن پر لگا۔ جب شہباز کا کہنا ماہ تاباں نے سنا، چیل کی طرح آسمان سے زمین پر آئی، بے قراری دل کو زبان پر لائی۔ شہباز نے قصہ اپنے آنے کا تمام وکمال ماہ تاباں کو سنایا، وہاں لایا۔ اس تصویر کو گلے لگایا، خوب روئی، آنسو کا دریا بہایا۔ بگلے کا لہو اس کے بدن پر ملا، خدا کی قدرت کاملہ سے وہ بت ہئیت اصلی پر آیا۔ پھر خود شہزادے نے حمید اور گھوڑے کو جلایا۔ شہباز کے آنے سے تعجب کیا۔ اس نے اپنے آنے کی، ماہ تاباں کے بلانے کی سرگزشت سب بیان کی۔ اگر شاہ دوڑ کر ماہ تاباں سے قدم بوس ہوا۔ اس نے چھاتی سے لگایا، کل احوال جوگی صاحب کی بے قراری کا سنایا۔ اگر صاحب نے کہا" میں تو سمجھا تھا کہ اب قیامت تک میرا یہی حال رہے گا، میری مفارقت سے ہر ایک کو ملال رہے گا، مگر خدا نے میری مشکل کو آسان کیا، تمہارا ممنون احسان ہوا۔" بعد اس کے ماہ تاباں کو ایک پالکی زر دو زی منگا کر سوار کیا، خود رونقِ بخش خانہء زبن ہوا، بارہ ہزار شہباز قطارقطار ہمراہ چلے۔
نظم
کہا، جس نے دیکھا اسے اک نگاہ
سلیمان ثانی ہے یہ بادشاہ
اسی گھر کے قابل یہ مہمان ہے
وہ بلقیس ہے، یہ سلیمان ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 149
کہا ایک نے کچھ تجھے ہے خبر؟
اٹھائی ہے اس نے جفا کس قدر
مہینںوں ر ہا صورت سنگ یہ
رہا دیکھتا روز نیرنگ یہ
کسے اس کی تھا زندگی کا گماں
خداوند عالم نے دی بت میں جاں
خلقت تو یہ کہتی تھی، روشن رائے پری منتظر آمد آمد تھی۔ نظارہ کرتی تھی، چٹ چٹ بلائیں لیتی تھی۔ کہتی تھی " سبحان اللہ! یہ شخص عجب صاحب اقبال ہے۔ اس بے سر و سامانی میں مجھ پر مبتلا ہوا۔ ہزاروں بادشاہ میری تمنا میں یہاں آئے، مگر کسی کی قسمت نے یاوری نہ کی۔" ایسی ایسی باتیں کرتی تھی اور حکایت گیتی آراکی کہ اس کی خالہ زاد بہن تھی، یاد کرتی تھی۔
حکایت یہ ہے کہ گیتی آرا پر مسعود شاہ شیفتہ و فریفتہ ہوا۔ چودہ برس اس ماہ چہاردہ کے غم میں کاہیدہ رہا۔ آخرکار اس ہلال کا ماہ کامل کے ساتھ قرآن اور اس کے وصل سے شادمان ہوا۔ تھوڑے دنوں میں وہ آدم زاد اس سے برخاستہ خاطر ہوکر اور کسی سے طالب وصال ،اس کے در پےء ملال ہوا۔ قصہ کوتا ہ گیتی آرا مبتلائے فراق، اس کی بے وفائی شہرہ آفاق ہوئی۔ میں نے اسی واسطے یہ طلسم بنایا تھا کہ یہاں کوئی آدم زاد نہ آئے، میرے دل کو شعلہء حسن سے نہ بھڑکائے ۔
ابیات
یہ انسان مطلب کے ہیں آشنا
نہیں پائیدار ان کی مہر و وفا
وفا بستہ ہیں اپنے ہم جنس سے
پری زاد کو نفع کیا انس سے

ریختہ صفحہ 150
پری لاکھ ہو ان کی خاطر تباہ
یہ ہم جنس کی اپنے کرتے ہیں چاہ
پھر جی میں خیال آیا کہ منجمین سے دریافت کیا چاہیے کہ آیا خالق شمس و قمر نے مجھ زہرہ طالع کو بھی کسی آفتاب سے شرف بخشا ہے یا نہیں۔ منجموں نے کہا " البتہ وہ زہرہ جبیں کسی ماہ سے ہم قرآن بلکہ مواصلت انسان سے شادمان ہوگی۔" یہ سن کر روشن رائے پر ی نے تقریب مناکحت کی تیاری کی۔ ماہ تاباں کو باعزت تمام اپنے مکان میں اتر وایا۔ اہلکار طرفین کے سرگرم کار ہوئے۔
ساعت سعید میں شہزادے کو دولہا بنایا۔ قاضی بڑے کروفر سے جوڑا نارنجی گلے میں، سر پر سہرا بندھا، خود دولہا بنا، نکاح پڑھنے کو آیا۔ حمید نے کہا" قاضی صاحب آپ تو خوب بنے ہیں؟" قاضی صاحب نے کہا" جس طرح تمہارے بادشاہ کی نظر میں روشن رائے پری کے تصور سے جہان روشن سیاہ تھا، میں بھی اس کی کلانوت بچی کے خیال عشق میں تباہ ہوں۔
شعر
ناچ نچاتا ہے مجھے اسی کا عشق
جب سے میرے پاس وہ دم ساز ہے
قاعدہء نجوم سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر شاہ اس مقام پر آئیں گے۔ مضراب غم کی خلش سے مجھے نجات دیں گے۔ امیدوار ہوں کہ جب حضرت کا عقد روشن رائے کے ساتھ بندھ چکے، لگے ہاتھ میرا بھی نکاح اس کے ساتھ ہو وے۔" حمید نے چھیڑنے کے واسطے کہا" معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلامت کو بھی شوق گانے بجانے کا ہے۔" قاضی نے کہا" جبسے اس کے عشق میں مبتلا ہوں، اکثر یاروں نے ظرافت سے میرا خطاب شادی کی ڈومنی رکھا ہے۔"
القصہ شہزادے کا سہرا اٹھایا، نام پوچھا۔ شہزادے نے کہا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 151
نام منوچہر ہے اور اگر شاہ اس لیے کہتے ہیں کہ میرے بدن میں تابش آفتاب و شمع کی آب و تاب سے خوشبوئے اگر آتی ہے۔" قاضی نے منوچہر کے ساتھ عقد روشن رائے پری کا پڑھا۔ پھر قاضی کا نکاح مفتی مفت کلانوت بچی کے ساتھ ہوا۔ بعد اس کے اگر شاہ نے با فتح و نصرت اپنے ملک کی طرف معاودت کی۔
معاودت اگر شاہ کی اپنے شہر میں اور پہلے جانا گل بادشاہ کے گھر میں
جب اگر بادشاہ بعد قطع منازل کے اپنے شہر کے نزدیک پہنچا، شہریار اور بسنت نالاں وگر یاں را ہ میں ملے۔ بادشاہ نے ان کو فقیروں کی صورت دیکھ کر غصہ فرمایا۔ کہا" اے بیوقوفو! تم نے ترک لباس کیا، کیا حال بنایا؟ میری بہنوں کو کہاں کھویا؟ " انہوں نے کہا:
شعر
" انہیں بھی اسی طرح کیجیے قیاس
ہر اک ہے پریشان ہر اک بے حواس"
اتنے منوچہر بھی اسی حال سے آیا، شہزاد نے اسے چھاتی سے لگایا۔ وہ رخت دامادی اسے پہنایا، روشن رائے پری کو اسے بخش دیا۔
شعر
ملی وہ پری اس منوچہر کو
تمنا تھی جس کی مہ و مہر کو
اسی عرصے میں لعل شہزادہ، محمود وزیر زادہ حال پریشاں، چاک گریباں ملے۔ اگر بادشاہ انہیں دیکھ کر خوب رویا، آنسوؤں

ریختہ صفحہ 152
سے غبار سفر دھویا۔ دیر تک دفتر مصیبت کو فردا فردا کھولا۔ گل بادشاہ کا ذکر آیا، لعل شہزادے نے کہا:
قطعہ
" کیا کروں شرح سخت جانی کی
اس نے مر مر کے زندگانی کی
حال بد گفتنی نہیں ا س کا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
غش ہے، حالت نزع ہے، آنکھ کھل گئی تو جزع و فزع ہے۔" اگر شاہ نے کہا " عیادت عبادت ہے، چلو پہلے اسے دیکھیں۔" لعل شہزادے کو مع محمود ادھر رخصت کیا، تنہا گل بادشاہ کے خانہ باغ میں داخل ہوا۔ دیکھا کہ عجب رنگ ہے؛ حوض بے آب و فوارے شکستہ، چمن خراب، آبشاریں خستہ۔ روشوں پر سوکھے پتے جھڑے ہوئے، کیار یوں میں گل کی جگہ کانٹوں کے انبار پڑے ہوئے۔ فاختہ اور قمری کی صدائے کو کو کے سوا اور کوئی مرغ نغمہ سرا مثل عنقا۔
بیت
حسرت پرواز بلبل کی گواہی کے لیے
اڑتے پھرتے تھے چمن میں جا بجا دو چار پر
کولے رنگترے، بیٹھے کے درخت جہاں تہاں لولے لنگڑے کھڑےتھے۔ کہیں بھٹ کٹیا ارنڈ کے پھول و پھل پڑے تھے۔ سوکھے ہوئے انگوروں کی ٹٹیاں اور کچھ بیلیں زمین پر لوٹتیاں، خاک اڑاتیاں۔ سبزہ ءفیروزہ گون عشرت فزا تو کہیں نظر نہ آتا تھا، جابجا ہل ہل کے درختوں کا تعفن اور کروندا پھیلا ہوا تھا۔ یہ حال خانہ باغ کا دیکھ کر اگر شاہ بے اختیار رویا، یہ اشعار زبان پر لایا:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 153
ترجیح بند
اے مقیمان تہِ سقفِ سپہر غدار
تا بہ کہ حسرتِ فرزند و زن و شہر و دیار
آیہء " فاعتبروا یا اولی الابصار" پڑھو
ہو خرابی یہ اگر قصرِ فریدو ں کے گزار
اس مکاں میں کبھی دربار رہا کرتا تھا
جلوہ فرما تھا کوئی خسرو یا عز و وقار
رات دن چہلیں رہا کرتی تھیں سرداروں میں
عیش و عشرت کا وہاں گرم تھا ہر سُو بازار
شاخ گُل زمزمہ سنجوں کا نشیمن تھا مدام
ارغنوں وار صدا گونجتی تھی صوت ہزار
بار واں تھی نہ خزاں کو تو کسی موسم میں
کبھی گُل مہندی کا عالم کبھی لالے کی بہار
واہ نیرنگ فلک! آفریں ! سبحان اللہ!
واہ ری تیری تنک ظرفی بہ ایں عز و وقار
جن پہ رہتا تھا پری زادوں کے جھومر کا عکس
آج وہ گل لبِ جُو چغد کا ہے آئینہ دار
گھونسلے سقف میں لاکھوں ہیں ابابیلوں کے
مسکن فاختہ ہے قصر کا ہر نقش و نگار
چیلیں منڈلاتی ہیں اڑتے ہیں بگولے ہر سمت
ہیں خیاباں میں پرِ زاغ و زغن کے انبار
قصر کو جانے دو، باشندوں کو واں کے دیکھو
تکیہ ء گور و گوزن آج ہے ہر اک کا مزار
سینہ لب ریز تمنا و بہ لب مہر سکوت
نہ کوئی دوست نہ مونس نہ کوئی ہے غم خوار

ریختہ صفحہ 154
نہ وہ ترکیب نہ وہ منہ نہ وہ رنگت نہ وہ حسن
نہ وہ آنکھیں نہ وہ نقشہ نہ وہ طرز رفتار
نہ وہ چہلیں نہ ترنگیں نہ خود آرائی ہے
کنج تاریک ہے اور عالم تنہائی ہے
یہ حال دیکھ کر حیران و ششدر بارہ دری میں گیا۔ گل بادشاہ کو گویا بیدم پایا، بہت رویا۔ گھبرایا: سینے سے سینہ ، منہ سے منہ ملایا۔ پاؤں دبائے، شانہ ہلایا۔ بارے آنکھ کھولی، مصحف رخسار کی زیارت کی۔ خواب سمجھا۔ ٹکٹکی باندھ نے کا قصد کیا ، فرط نقاہت سے آنکھیں بند ہو گئیں۔ شہزاد ےنے ساغر آب حیات لب اس کے لب سے لگایا، اپنے پہلو کا تکیہ دے کر اٹھایا۔ پھر آنکھیں کھولیں، معشوق کے قدموں پر سارا جھکایا۔ اگر شاہ نے کہا" میں تو سمجھا تھا کہ میری جستجو میں صبا کی طرح خاک اڑاتا ہوگا۔ خوب حیلہ نکالا، اپنے تئیں بیمار ڈالا۔" گلوں نے آہستہ سے کہا" میں نے اپنے تئیں تمہاری جستجو میں کھویا، مشت غبار کو برباد کیا۔" شہزادے نے اپنی روداد مفصل بیان کرکے کہا" آپ کے چاروں وزیروں کو چار پریاں ایسی دیں کہ چار سوئے عالم میں انتخاب تھیں، یہ آپ کا بوجھ ہٹایا۔ سلطنت ایسی کی کہ شاہان او لوالعزم کا نام صفحہء عالم سے مٹایا۔ اب فقط یہی خیال ہے کہ آپ کی مہم کے انصرام کو پہنچوں، پھر پائے تر دد کو گوشہ ءعافیت میں کھینچوں۔ یہ کہہ کر اٹھا، ایک آہ دردناک کھینچ کر:
رباعی
کہا اس نے خدا حافظ ہے جاؤ
مگر مجھ کو نہ خاطر سے بھلانا
اٹھائے ہیں تمہارے ناز میں نے
بھلا میرا جنازہ تو اٹھانا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 155
یہ سن کر پھر پھرا، بہت سی تسلی و تشفی کر کے رخصت ہوا۔ جوگی صاحب کے مکان پر آیا۔ اس کو بھی نہایت سقیم، تیغ فرقت سے دو نیم پایا۔ خاک سے اٹھایا، مرہم وصل زخم پر لگایا۔ شہر خشخاش میں گیا، بادشاہ کے قدموں پر گرا، وزیر کے سینے سے لگا۔ سامان جشن ہوا۔ ہر مریض محبت کو اس رشک مسیح نے جان تازہ دی۔ گل بادشاہ نے اور ہر ایک خیر خواہ نے جشن کی شادی کی۔
چوگان بازی کرنا اگر شاہ کا اور تخت ہوا سے زمین پر گرنا گل بادشاہ کا
ایک دن اگر شاہ نے اپنے دوستوں سے کہا" جی چاہتا ہے چوگان بازی کیجیے۔" گل بادشاہ کے چاروں وزیر اور سب امیر جمع ہوئے۔ یہ خبر گل بادشاہ کو پہنچی۔ تخت پر سوار ہوکر آیا، معشوق کو مصروف بازی پایا۔ عاشق شعبدہ بازی فلک سے غافل اس کے کرشمہ و انداز کی طرف مائل ہوا۔ ناگاہ تخت ہوا سے گیند کی طرح زمین پر گرا۔ شیشے کی طرح چور، اس افتاد سے بہت رنجور ہوا۔ چار وزیر کہ چوگان بازی میں مصروف تھے، بے تابانہ اس طرف دوڑے۔ اگر شاہ نے حیران و ششدر ہوکر وزیروں سے کہا" ہاتھوں ہاتھ ان کو لے جاؤ، پھر میرے پاس خبر لاؤ۔" اس ناتوان زارنے شہزادے کا اضطر اب دیکھ کر وزیر وں سے کہا" کیوں گھبراتے ہو، میں اچھا ہوں۔"
شعر
افتادگی بر آورد از خاک دانہ را
گردن کشی بخاک نشاند نشانہ را
الحمداللہ کہ اپنے بادشاہ کی نظروں سے نہیں گرا۔ اگر یہ جان و تن اس پر تصدق ہو تو عین تمنا ہے۔ وہ ادھر روانہ ہوا۔اگر شاہ

ریختہ صفحہ 156
نے ماہ تاباں کی خدمت میں جا کر پوچھا کہ جو شخص بلندی سے گرے اور استخوان اس کے خستہ شکستہ ہو جائیں، آپ کو دوا کچھ اس کی معلوم ہے؟" ماہ تاباں نے کہا" بلندی کیا افتادگان سقف گردوں نے میری دوا سے شفا پائی ہے۔" اگر شاہ نے کہا" اس میں سے کچھ عنایت کیجیے، اس کی ترکیب بتا دیجئے۔" اس نے دو چار گولی کہ نام اس کا حب حیات تھا، دے کر کہا کہ اس کو شیر میں ترکیب دے کر کھلانا، روغن شیریں کی مالش کرنا۔ یہ گولی دوا اور چوزہ مرغ کی غذا ہے۔" شہزادے نے آکے قالب بدلا، حکیم بنا، اس کے شہر میں آیا۔
جانا اگر صاحب کا طبیب کے بھیس میں گل بادشاہ کے دیس میں
نظم
مریض محبت ہے وہ خوش نصیب
کہ عیسی نفس جس کا ہووے طبیب
جسے دیکھنا یار کا ہو شفا
دوا وصل ہے، فصل ہے لا دوا
جب وہ طبیب کامل وہاں پہنچا، شہر ہ ہوا۔ سب نے کہا" مبارک ہو، حکیم مطلق نے اپنے شفاخانہ ء رحمت سے طبیب حاذق بھیجا۔اس کی طرف رجوع کی، اس نے انکار کیا۔ لال دیو بڑی دوادوش اور تدبیر و حکمت سے ہاتھوں ہاتھ لایا۔ طبیب نے ہاتھ بیمار کا نبض کے دیکھنے کو ہاتھ میں لیا۔ تسلی اور دلاسہ دے کر دست شفا بڑھا کر دعا کی کہ اے حکیم حاذق! اس عاشق صادق کو میرے ہاتھ سے شفائے عاجل عطا کر! پھر دانہ ہائے اشک پر استخارہ دیکھ کر وہی دوا کھلائی، یخنی پلائی۔ ہوش میں آیا، بے ساختہ یہ شعر پڑھا:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 157
شعر
از سر بالین من بر خیز اے ناداں طبیب
دردمند عشق را دارو بجز دیدار نیست
طبیب نے کہا" اے کشتہ ءشمشیر غمزہ و ناز و اے خستہء سنگ کرشمہ و انداز! سچ بتا کہ تو بیمار ہے یا کسی کے سنگ جفا سے مسمار ہے؟" اس نے جواب میں کہا" حکیم صاحب! برائے خدا دوا سے ہاتھ اٹھاؤ، میرے واسطے موت بجائے حیات سمجھو، کچھ نہ پوچھو۔"
شعر
کھا کے کچھ مر رہوں یہ جی میں ہے
خیریت ہے تو کچھ اسی میں ہے"
حکیم نے کہا" اے عزیز! موسم جوانی سرمایہ ءعیش و زندگانی ہے، اس میں مرنے کی تمنا عین نادانی ہے۔ وہ کون ہے کہ جس نے تجھ ایسے گل کو یوں برباد اور وصل سے اپنے ناشاد اور نامراد کیا ہے؟
رباعی
دیکھو کروڑ گل کا گریباں ہوا ہے چاک
گو عندلیب اک اجل اپنی سے مر گئی
پروانا کون سا نہ جلا شام کو کہ شمع
روتی ہوئی نہ بزم سے وقت سحر گئی
جو شمع کہ پروانے کے حال پر گھل گھل کر نہ جلے، اس کا پروانہ ہونا حکمت و فطرت سے دور ہے اور جس گل کا فریاد بلبل پر گریباں چاک نہ ہو، اس پر شیفتہ و دیوانہ ہونا محض عقل کا قصور ہے۔ اے بادشاہ! مثل مشہور ہے کہ جی ہے تو جہان ہے،

ریختہ صفحہ 158
تو عبث اور مفت اپنے در پےء جان ہے۔" ایسی ایسی باتوں سے اس کے دل کو ایسا گداز کیا، آخر ضبط نہ ہو سکا، یہ شعر پڑھا:
شعر
" درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
حکیم صاحب تم شفیق بیمار معلوم ہوتے ہو اور میں درد آزار؛ اس سے حال اپنا کہتا ہوں کہ میں مدت مدید سے اگر شاہ کی آتش فراق میں عود کی طرح سوزاں اور دود کی مانند پریشاں تھا۔ چھ مہینے اس کے گم ہونے کے غم سے بے آب و دانہ رہا، دیوانہ مشہور ہوا۔ از بس کہ ضعیف و ناتواں ہوں، کل اس کی چوگان بازی کا تماشہ دیکھتا تھا، ناگاہ تخت ہوا پر سے گرا، ہر استخوان چور چور ہوا۔" حکیم نے کہا " لا حول ولا قوتہ! حضرت سلامت ! وہ نوجوان رعنا ایک مرد صبیح ہے، یہ عادت ہونا تو بہت قبیح ہے۔" گل بادشاہ نے کہا " عادت کیسی؟ کیا کہتے ہو؟ آہ ! کیا کہوں۔ اے صاحب وہ فتنہء زمانہ مرد نہیں ہے بلکہ زن نا زنین ہے۔" اس نے کہا" بالفرض، تو کیا اس سے بہتر کوئی اور عورت نہیں؟" اس نے کہا " اول تو فی الحقیقت وہ سراپا نور ہے بلکہ شعلہء شمع طور ہے۔ اس کے سوا ' لیلی را بچشم مجنوں باید دید' مثل مشہور ہے، جو اس میں کلام کرے، اس کی حکمت اور تجربے میں فتور ہے۔" حکیم نے کہا " میں تو یہی کہوں گا کہ اس جوگی بچے کے واسطے ہلاک ہونا آپ کی دانائی سے بہت دور ہے۔" گل بادشاہ نے یہ سن کر ایک دم سرد کھینچا کہ اس کے صدمے سے حکیم صاحب کا بھی رنگ زرد ہو گیا۔ حکیم نے کہا" اے عاشق صادق! تیری آہ کے صدمے سے دل میرا ہل گیا اور میں نے یقین صداقت کو محک امتحان سے حاصل کیا۔ بظاہر اس
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 159
وقت تجھے وہی یاد آیا، جس نے تیرے دل کو ایسا ستایا۔" گل نے حکیم صاحب کے ہاتھ آنکھوں سے لگا کر کہا کہ حکیم صاحب! سچ تو یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ اس کے دست ناز نین سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔
شعر
سر دست اس سے ہوئی ہے شفا
نہیں تو اثر کچھ نہ کرتی دوا
حکیم صاحب نے اس حرکت سے تیوری چڑھائی، ناگ بھوں بنائی، نظر بدلی۔کہا " سبحان اللہ! مجھ کو ایک امرد سے تشبیہ دیتے ہو؟" گل بادشاہ اس ر کھائی پر رویا۔کہا " واللہ باللہ! زندگی سے ملول ہوں، مرنا قبول ہے۔ برائے خدا کچھ ایسی دوا دو یہ رشتہ ءحیات ٹوٹ جائے اور مرغ روح میرا کش مکش تن سے چھوٹ جائے۔ ہرگز دوائی صحت نہیں کھانے کا، عزم بالجزم ایڑیاں رگڑ کے مر جانے کا ہے۔" حکیم نے کہا" لو سبحان اللہ! آپ تو غم و غصہ سے چھوٹیں اور بدنامی و رسوائی سے بچیں، روز قیامت کو باز پرس خون نا حق کی مفت میرے ذمے ہو۔" گل نے کہا " حکیم صاحب! اول تو بہ موجب:
مصرع
خون عاشق کی نہ یاں دید نہ پرسش ہے وہاں
اور بالفرض میں نے آپ پر بہت سہل کیا، خون اپنا بہل کیا۔ برائے خدا آپ ہفت گنج لیجئے اور وہ دوا دیجئے کہ غم کے ہاتھوں سے میرا چھٹکارا کیجیے۔" اس نے کہا " بعد آپ کے وہ مال مجھے کون دے گا؟" بادشاہ نے کہا " ایک دستاویز با طریق تمسک کے میری مہر سے لکھوا کر اپنے پاس رکھئیے۔" خادم کو پکارا، قلمدان منگایا۔ لال دیو نے کہا " حکیم صاحب! میں آپ کا

ریختہ صفحہ 160
ممنون ہوا، گل بادشاہ ہوش میں آیا۔ الحمداللہ اب کے جس وقت یہ غسل صحت کرے گا، نصف محاصل ممالک محروسہ آپ کی نذر ہے۔" حکیم صاحب نے کہا" آپ خاطر جمع رکھیں، ہرگز نہ گھبرائیں، یہ رو بہ صحت ہیں۔" غرض بادشاہ نے تمسک حکیم صاحب کو لکھ دیا۔ اس نے دوسری گولی زہر کے بہانے سے کھلائی، خدام حرم کو ہوشیاری کی تاکید فرمائی۔ حکیم صاحب رخصت ہوکر اپنے مکان میں آئے۔ جوگی صاحب بھی اس کی عیادت کو گئے تھے، رخصت ہوئے۔ اگر صاحب نے گھر میں آکر جوگی صاحب سے انجان بن کر استفسار حال کیا۔ اس نے کہا" کام تمام ہو چکا تھا لیکن ایک طبیب نے مسیحائی کی، جان ڈالی۔" دوسرے دن پھر وہ طبیب گیا، ہر ایک نے خاطرداری اس کی بدرجہء اتم کی۔ حکیم صاحب نے بیمار کا مزاج پوچھا۔" اس نے کہا" الحمدللہ، بدن میں تو درد اس قدر اور بے چینی نہیں ہے، مگر دل میں جیسا درد تھا، ویسا ہی ہے۔
شعر
اس کا کوئی علاج نہیں،آہ کیا کروں
سنتانہیں وہ نالہء جاں کا، کیا کروں
حکیم نے کہا، اس مرض کی اس سے پرہیز کرنے کے سوا کوئی دوا نہیں۔ جوں جوں تصور کو اس کے اپنے دل سے دور کیجئے گا، اپنے تئیں صحت سے مسرور کیجئے گا۔" گل بادشاہ نے رو رو کر کہا:
قطعہ
خاطر اغیار کے کیوں کر نہ ہوویں بار ہم
وہ عیادت کو نہ آیا جس کے تھے بیمار ہم
آہ کیونکر محو ہو اس خال ابرو کا خیال
زہر کھا لیں یا گلے پہ پھیرلیں تلوار ہم
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 161
پھر حکیم صاحب نے یہی کہا کہ میری تشخیص میں یہی آتا ہے کہ اس شخص کی محبت سے ہاتھ اٹھاؤ، نہیں رفتہ رفتہ گھٹاؤ۔ صاحب کے خیال میں نہیں آتا، مختار ہو۔ بادشاہ نے کہا"آہ! نہ تم کو محبت کا مزہ حاصل، نہ الفت آب و گل میں دخل، تم کیا جانو۔ اپنا تو یہ حال ہے:
شعر
اس نے تلواریں جڑیں فریاد پر جوں جوں ہمیں
ہر دہانِ زخم سے کرنے لگے فریاد ہم
اگر سو مرتبہ آسیائے چرخ دانہ ءگندم کی طرح مجھے اس کے انتقام عشق میں پیسے، یا ہزار مرتبہ جلاد فلک آرہ ء کند عوض میں اس کی محبت کے مجھ پر کھینچے، یا لاکھ مرتبہ کلال قدرت خاک سے پتلا بنائے اور مٹائے، اگر کروڑ مرتبہ وجود خاکی اس کی محبت میں مثل منصور دارپرکھینچا جائے، تب بھی اس کی آرزو سے دستبردار نہ ہوں ۔ اور مرنے کی تمنا فقط اس واسطے ہے کہ مبادا میرے ولولہء سودا سے اس کے دشمن بد نام اور خدانخواستہ رسوائے عام نہ ہوں۔
شعر
زیست ضبط آہ سے ہو یا نہ ہو
پاس ہے ہم کو کہ وہ رسوا نہ ہو"
جب طبیب نے دریافت کیا کہ فی الوقت وہ محبت میں صادق ہے اور شمع جمال پر پروانے کی طرح عاشق ہے، کہا کہ اے بادشاہ! آج پھر تیرا امتحان کرتا تھا۔ ہزار آفرین تیری ہمت پر۔!باوجود اس بے اعتنائی کے، اگر کے واسطے اگر کی طرح جلتا ہے اور دل ستم زدہ

ریختہ صفحہ 162

اس کے ذکر سے بہلتا ہے۔ اغلب ہے کہ عنقریب اس کے سر چشمہ ءوصال سے غنچہ ء خاطر پژ مردہ تر و تازہ اور غبار دامن اس کا تیرے رخ زرد کا غازہ ہو۔" گل نے کہا " اے مسیحا نفس ! البتہ اس نسخے سے مجھے صحت کامل، شفائے عاجل ہوئی۔" تھوڑے عرصے میں بادشاہ نے غسل صحت کیا، طبیب نے سارے گھر کو ممنون منت کیا۔

اگر صاحب کا جشن ترتیب دینا، صحبت احباب سے حظ اٹھانا، گل شاہ کو عورت بنانا
کہتے ہیں کہ جب گل بادشاہ نے غسل صحت کیا، اگر شاہ نے تصدق بھیجا۔ وزیر نے مبارک باد دی، جنس تصدق پیش کی۔ گل بادشاہ نے کہا" جوگی صاحب کو تسلیمات عرض کرنا اور شہزادے سے کہنا" صدقے اس آپ کی عنایت کے، قربان اس مرحمت کے۔ تصدق تو بھیجا مگر یہ توفیق نہ ہوئی کہ کسی دن عیادت کی تقریب سے آپ تشریف لاتے۔
مصرع
مہربانی اس قدر نا مہربانی اس قدر"
وہ رخصت ہوا۔ اتنے میں شہزادہ بھی تشریف لایا۔ گل بادشاہ نے عارفانہ تجاہل کیا۔ یہ شعر زبان پر لایا:
شعر
واہ واہ صاحب! تمہیں صد آفریں
خوب آئے تم عیادت کے لیے
اگر صاحب نے جب وزیروں کو ہر ایک بہانے سے ٹالا، تخلیہ کیا، گل سے کہا" آپ کی طبیعت مجھ سے نہایت خفا ہے۔ جواب سلام کیسا؟ میری صورت دیکھنا ناروا ہے۔" گل بادشاہ بے تابانہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 163
قدم پر گرا، بہت رویا، قصور معاف کروایا۔ اگر شاہ نے کہا" کہئیے طبیب کو کیا دیا؟ " گل نے کہا" سوائے انعام اور خلعت کے ہفت گنج جواہر اسے دیے۔" شہزادے نے کہا" غلط کہتے ہو، اگر وہ یہ پاتا تو میرے پاس جھینکتا کیوں آتا؟ تمسک آپ کی مہر کا موجود ہے، لیجئے۔" گل نے کہا " اے شہزادے! مجھے یقین ہوا کہ طبیب اپنے بیمار کا تو ہی تھا۔" اگر نے کہا " پاپوش کو کیا غرض تھی کہ ایسے سفلے کا علاج کرتا جو طبیب کے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے تشبیہ دے اور میرا نام اس کے آگے لے۔" اتنے میں دونوں وزیر کہ جن کو بہانے سے بھیجا تھا، حاضر ہوئے۔ جھجھک رہے، دو چار گھڑی لطف صحبت اٹھایا۔ ناگاہ افلاطون نے آکر التماس کیا کہ میں نے آپ کو کہاں کہاں ڈھونڈ ا۔ گل بادشاہ کو افلاطون کا آنا نہایت ناگوار ہوا، شہزادہ اٹھنے کو تیار ہوا۔ وزیروں کو اگر شاہ نے اپنے ساتھ لیا۔ گل کو مفارقت کا خار دے کر دولت سرا میں آیا۔ دو چار گھڑی شغل چوگان بازی میں مصروف رہا۔ وقت خاصے کا آیا، رفیقوں کے ساتھ خاصہ تناول فرمایا اور کچھ حمید کے ہاتھ گل بادشاہ کو بھیجا۔ بادشاہ اس عنایت سے عذب البیان رہا۔ حمید کو خلعت فاخرہ دے کر رخصت کیا۔ شہزادے نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ روشن رائے پری کے لانے کی بزم نشاط ترتیب دو۔ جابجا رقعے طلب کے بھیجے۔ لعل دیو کو مع گل بادشاہ بلایا، منصورشاہ وزیروں کو لے کر آیا۔ لعل شہزادہ مع ماہ پرور ، محمود مع گلنار جلوہ گر ہوا۔ شہریار وزیر موتی رانی کے ساتھ، جواہر کے ہاتھ میں عجوبہ کا ہاتھ، بسنت سر و آساکے ہاتھ میں ہاتھ دیے، منوچہر روشن رائے پری کو لئے حاضر ہوئے۔

ریختہ صفحہ 164
بیت
ہر اک کی تھی خاطر علی قدر حال
ہر اک کا تصور ہر اک کا خیال
کسی کو نذر، کسی کو خلعت، ہر ایک سے لطف،ہر ایک پر عنایت۔ انواع اقسام کے طعام، خوش گوار شراب کے جام، ہر ایک نے خوشی اور خرمی کے ساتھ نوش کئے۔ جب دعوت احباب سے فراغت حاصل ہوئی، طبیعت نغمہ ءخوش آواز مطربان پر مائل ہوئی پری پیکران نازک ادا خوش صدا سرگرم نغمہ پردازی ، اہل محفل محو خوش آوازی ہوئے۔ گل بادشاہ سب راگ رنگ بھولا تھا، فقط اپنے دل کو اگر شاہ کی چشم بد کے واسطے اسپندوار شعلہء حسن پر جلاتا تھا۔ ناگاہ ایک نالہء جاں سوز دل سے کھینچا، بے ہوش ہوا۔ اگر شاہ نے ایک پھول حمید کو دیا کہ لال دیو کی نظر بچا کے گل کو سنگھا دے۔ اس نے سنگھا دیا، فورا افاقہ پایا، لیکن آثار مرد می غائب ہوئے۔ ہاتھ دوڑایا، گھبرا کر ٹٹولا، غریق چاہ ندامت ہوا۔ ہاتھ اٹھایا، غفلت و خواب سمجھا، آنکھیں ملنے لگا۔ پھر سنبھل کر دیکھا، ندامت سے نہایت حیران خفقان ہلاکت کا سامان کیا۔ حمید نے ایک اور پھول سنگھایا، جیسا تھا ویسا پایا۔ وہ ندامت تو رفع ہوئی لیکن دم بہ دم ہاتھ چلا جاتا تھا کہ پھر خوشہء جو، گندم نہ ہو جائے۔ اگر شاہ اس کو متوحش دیکھ کر بے اختیار ہنستا تھا۔ اس عرصے میں حمید نے شہزادے سے کہا" آپ ادھر آئیے، تماشہ دیکھیے کہ منوچہر سا زندےکے بھیس میں زنگولہ بجاتا ہے۔" شہزادے نے کہا" جلد ادھر لاؤ۔" جب وہ روبرو آیا، حمید سے ارشاد کیا" اس قاضی کی طرح کے جس کی کلاونت بچی سے شادی کی تھی، اسے بھی ہماری چنچل بائی سے منعقد کرو۔" حمید نے اس مطربہ کو حاضر کیا۔ منوچہر آنکھ بچا کر بھاگا، اس صورت اصلی بنا کر شہزادے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 165
کے پاس حاضر ہوا۔ اس کی بہت ہنسی رہی۔ کتنے دن تک جیسا چاہیے، سامان عیش مہیا رہا۔ جب فراغت ہوئی، ہر ایک کو رخصت کیا۔
افلاطون کا مبتلا ہونا اس گل اندام سے اور منعقد ہونا اس خوش خرام سے
کہتے ہیں کہ جب اگر شاہ روشن رائے پری کے ملک کو گیا تھا، افلاطون کو کہ ماموں زاد بھائی تھا، قائم مقام کر گیا تھا۔ حسب اتفاق طبعیت اس کی ایک خواص پر کہ گل اندام نام اور حقیقت میں گل اس کی نزاکت سے بد نام تھا، بلبل کے مانند آئی۔ آخر کو دونوں طرف سے شعلہء عشق بھڑکا، مدت تک افلاطون نے شرر عشق کو آتش کدہ ءدل میں چھپایا، تا کجا:
شعر
میتواں عشق نہاں داشت ز مردم لیکن
زردی رنگ رخ و خشکی لب را چہ علاج
اس کی آشفتگی و پریشانی دیکھ کر ایک دن اگر شاہ نے کہا " تیرے اطوار سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی آئینہء عذار کا حیران اور زلف مسلسل کا پریشان ہے۔"
مصرع
منہ سے نہ کچھ کہا مگر آنسو نکل پڑے
شہزاد نے بہت دل داری اور تشفی سے کہا کہ تو نے آج تک شمع کی مانند ناحق آپ کو گھلایا اور پروانے کی طرح جلایا، اے نادان! میں نے تو غیروں کے واسطے جاں فشانیاں کیں، مہینوں اپنے تئیں پتھر کا بنایا، صدہا طرح کی صعوبتیں اٹھائیں۔ تو میرا برادر اور قوت بازو ہے، تیری مشکل کیوں کر آسان نہ کرتا۔" افلاطون نے

ریختہ صفحہ 166
کہا " مجھے خجالت ہے، کیا کہوں، ندامت ہے۔ حال میرا قابل اظہار نہیں۔ سچ ہے کہ دل پر اختیار نہیں۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ شاید میری خواص سے احتصاص رکھتا ہے۔ معشوقہ اس کی محشر خرام گل اندام ہے۔
ابیات
اسی کا داغ ہے جرم قمر میں
سمائی ہے وہی سب کی نظر میں
پری پیکر ہے اور نازک ادا ہے
یہ مفتوں اس پہ، وہ اس پر فدا ہے
پھر ان دونوں گلوں کو رشتہ ءمناکحت میں منسلک کیا۔ افلاطون اس خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ محفل کے پردے میں دل کو دمساز عشرت کیا۔ ستار ہاتھ میں لیا، ساری محفل کو صورت دیوانہ محو کر دیا۔ ہر چند اس شادی میں کسی کو مہمان نہ کیا تھا مگر اس کے نغمے کی ایسی ہوا بندھی کہ دور دور کی خلقت حاضر ہوئی۔ گل بادشاہ اور لال دیو آئے، جوگی صاحب بھی تشریف لائے۔ وحوش و طیور نے اس کے گرد حلقہ کیا، افلاطون نے ہار اپنے گلے کا ایک آہو کی گردن میں ڈال دیا۔ ستار ہاتھ سے رکھ دیا، آہو چلا گیا۔ اگر شاہ سے کہا" آپ میرا ہار منگوا دیں۔ میں نے جانا تھا کہ یہ ہرن آپ کا پالا ہوا تھا۔" شہزادے نے کہا" تیری نغمہ پردازی اسے کھینچ لائی تھی۔ اسی طرح پھر کشش رشتہ ءشوق سے وابستہ کر، اپنا ہار اس سے منگا۔" اس نے کہا" اس وحشی صحرائی پر کیا اختیار ہے، اب اس کا بلانا اپنی طاقت سے دشوار ہے۔ آپ اس فن میں مشّاق اور اس کرتب میں طاق ہیں۔ میرے کار ناتمام کو سر انجام دیجئے۔" شہزاد ےنے ہر چند انکار کیا، لیکن اس نے نہ مانا۔ چار و ناچار ناگوار گوارا کر کے وہ غیرت زہرہ نغمہ پرداز ہوا۔ لب نازک کو
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ167
اس غزل سے مترنم کیا:
غزل میر درد
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لخت جگر کی لاش کو آگے دھرے ہوئے

ہنوز وہ غزل تمام نہ ہوئی تھی کہ وہ آہو رمیدہ آیا، سر اپنا شہزادے قدم پر رکھ دیا۔ اس نے افلاطون کا ہار گلے سے نکال کر اپنا ہار پہنا دیا۔ وہ گل کی طرح شگفتہ ہوکر صحرا کو گیا۔ گل بادشاہ اس ہار کے رشک سے وحشی تازہ ہوا ، محفل میں تحسین و آفرین کا آوازہ ہوا۔
عسکری پہلوان نے ہرن کے گلے میں اگر صاحب کا ہار دیکھا، بے قرار ہوا، سودائے عشق گلے کا ہار ہوا۔ لشکر لے کر اگر صاحب کی خواستگاری کو آیا، آخر ذلیل و خوار ہو کر پھر گیا
کہتے ہیں کہ جب آہو ہار پہنے چراگاہ کو گیا، عسکری پہلوان ہم پنجہء نریمان ، رستم گرد اس کے گرد، سہراب کا منہ نبر د میں زرد، زال پامال، تہمتن ایک مشتمال۔ جسامت میں گنبد گردوں، درازی میں آسمان کا ستون۔ ہفت سر اس کے آگے بے سر ، شیر نر ایک پشے کے برابر۔ اس کی قوت کا ہر کہیں افسانہ، زورآوری میں یکتائے زمانہ۔ صحرا اس کی وحشت سے پریشان اور شہر اس کے ظلم و ستم سے ویران۔ وحشیوں کی طرح جنگل میں رہتا تھا۔ وہ آہو اس سے بہت مانوس تھا، اس کے پاس گیا۔ اس مردم آزار

ریختہ صفحہ 168
نے قرینے سے دریافت کیا، یہ ہار اگر کے گلے کا ہے۔ کہنے لگا" سبحان اللہ! جس کے ہار کی خوشبو سے زمین و آسمان مہک رہا ہے، وہ گل اندام کیسی ہوگی، دیکھا چاہیے۔" القصہ وہ دیو مست، شہوت پرست، ایک لشکر ساتھ لے کر ادھر روانہ ہوا۔ چار طرف شور پڑ گیا کہ عسکری پہلوان لشکر فراوان ساتھ لے کر آیا ہے، فتنہء خوابیدہ نے سر اٹھایا ہے ۔ گل بادشاہ اور لال دیو مع وزیروں اور رفیقوں کے آئے۔ دیکھا کہ عسکری پہلوان اگر صاحب کو احاطہ کئے بیٹھا ہے۔ جب اگر کو خطاب کرتا ہے، جان من کہتا ہے۔ گل بادشاہ کے بدن میں شعلہ ءغیرت بھڑکنے لگا۔ چاہا کہ خنجر سے کام اس کا تمام کرے، اگر شاہ نے اشارے سے منع کیا اور اس سے کہا" اے بے ہودہ، یا وہ گو! کیا بکتا ہے؟ آدمی کو چاہیے زبان سنبھال کر بولے۔ تو اپنے زور پر نازاں ہے۔ نہیں جانتا کہ اس سن میں بڑے بڑے رستم مجھ سے عاجز ہوئے ہیں؟ تو اس قابل ہے کہ مجھے اپنی دامادی میں لے؟" عسکری نے کہا" میں جانتا ہوں کہ تم عورت ہو، تمہارے گانے کے آرزو مند ہیں۔" شہزادے نے چاہا اس عقدہء مشکل کو ناخن شمشیر سے کھولے، جوگی صاحب نے شہزادے سے کہا" یہ مہمان ہیں، ان کی خاطر داری کا سامان کرو، خاصہ کھلاؤ، کوئی بازی چوسر کی کھیلو۔" عسکری بھی اس بات پر راضی ہوا۔ کھانا کھایا۔ چوسر بچھی۔ اگر اور گل یک ر نگ ہوئے، دونوں نے جگ باندھا۔ اس وقت کا یہی داؤ تھا۔ بازی مقرر ہوئی کہ جو کوئی غالب ہو وہ اپنی بادشاہت کا ملک اسے دے۔ شہزادے نے تین بازیاں پے در پے اس سے جیتیں۔ حریف نے کہا" البتہ ملک اپنا میں تجھ سے ہار بیٹھا لیکن سودائے وصل سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔" اگر شاہ نے کہا" اب تو بندہ ءسرکار ہے، ہم کو تیری ذلت و عزت کا اختیار ہے۔" یہ گفتگو تھی کہ عسکری کی نگاہ فتح نامہ پر جا پڑی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 169
اس میں بالا جمال پر ایک مہم کے سر ہونے کا حال لکھا تھا:" پہلی مہم چالیس بادشاہ کا شہر خشخاش میں آنا اور عاجز ہوکر غاشیہ ءاطاعت شاہی کو دوش پر لینا۔ دوسری مہم راجا باسک کی بیٹی کے لیے اژدہا بنا، تیل کے کڑاہ میں کودا، حمام گرم میں نہایا، ان صعوبتوں سے اسے لا کر شہریار وزیر کو دے ڈالا۔ تیسری مہم یہ کہ شاہ لالہ کے ملک میں گیا، اسے سر کیا، وہاں سے عجوبہ پری کو لاکر جواہر کو بخش دی۔ چوتھی مہم یہ کی سیمرغ سے شہباز کی خبر سنی، تن تنہا ادھر کا قصد کیا، سات دریا کو طے کر کے اسے دام میں لیا۔ پانچویں مہم یہ کہ محمود وزیر زادے کی شادی سے اٹھ کر اپنے ماموں کے ملک کو عازم ہوا اور غنیم کو ہزیمت دے کر سلطنت رفتہ کو قائم کیا۔ چھٹی مہم یہ کہ سرو آسا کو بڑی دانائی سے قابو میں لا کر بسنت وزیر کے ساتھ کدخدا کیا۔ ساتویں مہم یہ کہ روشن رائے پری کے واسطے چھ مہینے تک پتھر کا بنا رہا، اس کوہ کنی سے وہ ہاتھ آئی، منوچہر کو حوالے کی۔ پس اس کی برابری پر وہ قدم مارے جو ایسے کار نمایاں کر دکھائے۔" جب اس نے مضمون فتح نامے کا پڑھا، ہوش اڑ گئے، نشے ہرن ہوئے۔ دل میں کہنے لگا جس نے ایسی جواں مردی کی ہے، اسے کیوں کر گوارا ہوگا، کسی کو اپنے اوپر حاکم کرے۔ یہ خیال خام، یہ بات بد انجام ہے؛ نہایت منفعل، گستاخی سےخجل ہوا۔ پیشاب کا بہانہ کیا، اپنے ویرانے کو روانہ ہوا۔ گل بادشاہ نے کہا" سنیے، یہ سمجھنے کی بات ہے۔ آج تو یہ بلا جوں تو ں سر سے ٹل گئی، حکمت چل گئی۔ ہر ایک کو ثابت ہو چکا کہ آپ حقیقت میں عورت ہیں۔ ہر ایک اس عارض گلگوں پر بلبل کی طرح شیفتہ و مفتون، ہر روز ہزاروں کا خون ہوگا۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ کہیں بیٹھئے، ان باتوں سے ہاتھ اٹھائیے۔" اگر شاہ نے کہا" لو سبحان اللہ!

ریختہ صفحہ 170
مصرع
مینڈکی کو بھی اب زکام ہوا
میں وہ شیریں نہیں کہ کوئی فرہاد کی طرح منڈ چرا بن کر کے جان دے اور وہ لیلی نہیں کہ قیس کی طرح دیوانہ بن کے مجھے اپنے عشق سے بد نام کرے۔ جو سر اٹھائے گا، وہ سزا پائے گا۔" القصہ لال دیو اور گل بادشاہ رخصت ہوئے۔ شہزادے نے افلاطون سے کہا" یہ بکھیڑا فقط تیری نادانی اور ہٹ کرنے سے ہوا۔ نہ وہ آہو آتا، نہ میرا ہار لے جاتا۔" اس نے کہا" واقعی قصوروار ہوں، عفو کا امیدوار ہوں۔"
خبردار ہونا لال دیوکا گل شاہ کی بے قراری سے اور تدبیر کرنی اس کے وصل کی بہت ہوشیاری سے
جب گل شاہ اگر صاحب سے رخصت ہوا، راہ بھر جوش رقت رہا۔ دل میں قرار دیا کہ آخر وصل یار کا کوئی سامان نہیں، اس بے مروت کو میری طرف میلان نہیں۔
شعر
شکل امید تو کب ہم کو نظر آتی ہے
صورت یاس بھی بن بن کے بگڑ جاتی ہے
اس جینے سے مرنا ہزار درجے بہتر ہے:
شعر
غرض یہی ہے کہ جھگڑا تمام ہو جاوے
اسی پہ کیوں نہ مریں ہم کہ نام ہو جاوے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 171
وہ راہ روتے دھوتے کٹی۔ مکان میں آ کر خلوت سرا میں جا بیٹھا۔ دروازہ حجرے کا بند کر لیا۔ جب کئی روز اس کو آہ و زاری میں گزر گئے، تاکجا:
شعر
آہ نے آہ ! نارسائی کی
تاب و طاقت نے بے وفائی کی
قریش نے خبر پائی، در حجرہ پر آئی۔ ہرچند پکارا، جواب نہ پایا، سر ٹکرایا۔ اس قدر گریہ وزاری کی کہ ایک نہر خون کی جاری کی۔ لال دیو نے یہ قصہ سنا، قریش کی پیشانی مجروح پر سر د ھنا اور بیت الحزن توڑ کر گل پژ مردہ کو باہر نکالا۔ آغوش میں لیا، دم واپسیں پایا۔ دیر کے بعد ہوش میں آیا، تسلی و تشفی سے کہا" اےگل! تیرے غم نے دل کو بے قرار بلکہ زندگی سے بیزار کیا۔ برائے خدا کچھ حال دل اظہار کر۔" اس نے کہا" آپ کو کیا پروا ہے؟ لعل شہزادے کے مقابل میں مجھ سے پتھر کی قدر سوا ہے؟ ان کے واسطے آپ نے کیا کیا؟ محنت و مشقت اٹھائی، ماہ پرور اس سے ملائی۔ میں ایک مدت سے اگر کے واسطے جان بہ لب، گرفتار رنج و تعب ہوں۔ کیا کیا میری حالت تباہ ہوئی، آپ نے اچھی طرح خبر بھی نہ لی، بات نہ پوچھی۔" لال دیو نے کہا" اب مفصل معلوم ہوا۔ آپ خلوت سے برآمد ہوں، ہنسیں بولیں، کھائیں، پئیں، ہم بخوبی تدبیر اس کی کریں گے۔" گل نے کہا" آپ اس بات پر حضرت سلیمان کی قسم کھائیں۔" لال دیو نے کہا" اگر قسم کھائیں اور قابو نہ پائیں!" گل نے کہا" اس کے ماں باپ چاہتے ہیں کہ اگر لعل شہزادے سے وصل مدام ہو تو اس کام کا سرانجام ہو۔" لال دیو نے بعد تامل کے کہا " ہرچند

ریختہ صفحہ 172
اس کی مفارقت کی تاب نہیں رکھتا ہوں، خیر تمہاری ہلاکت کے خوف سے ناگوار گوارا کرتا ہوں۔" اسی وقت وزیروں کو بلاکر لعل شہزادے اور محمود وزیر کے سفر کا سامان مہیا کیا۔ وہ اس سامان میں مصروف اور کاروبار سب موقوف ہوا ۔حمید نے یہ خبر سنی کہ دو چار دن میں لعل شہزادہ اپنے شہر میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ اگر صاحب کے گوش گزار کی۔ شہزادہ کمال متردد ہوا۔ ظاہر میں ہنسا بولا، باطن میں نہایت حزیں، آخر تنہا حجرے میں خلوت گزیں ہوا۔ ہرچند حمید نے پوچھا، کچھ جواب نہ دیا۔ پھر نقب کی راہ سے جوگی صاحب کے پاس گیا۔ اس نے شفقت فرمائی۔ آنکھیں سوجی دیکھیں۔ رو رو کر استفسار کیا" آج کیا صدمہ فلک نے دکھایا کہ یہ حال بنایا؟" شہزاد نے کہا" آپ نے یہ افسانہ نہیں سنا کہ لعل شہزادہ دو ایک دن میں اپنے شہر میں داخل ہوا چاہتا ہے؟ محمود کی شادی میں لال دیو اور خوش حال وزیر سے یہ عہد و پیماں ہوا تھا کہ جس وقت لعل شہزادہ تمہاری قید سے چھوٹ کر اپنی سلطنت پر تحت نشین ہوگا، ہم اگر کو گل سے منعقد کر دیں گے۔ چنانچہ وہی عہد و پیمان وفا ہوتا ہے۔ کوئی دن میں ادھر سے یہ پیغام ہوگا کہ ہم نے تم سے جو کہا تھا ،سو کیا۔ تم بھی قید غم سے ہمیں رہائی دو۔ میں اس معاملے میں نہایت متردد ہوں۔ اگر ماں باپ کی اطاعت سے تجاوز کروں، خدا اور رسول سے شرمندگی کھینچوں اور اگر اطاعت کروں تو شرم آتی ہے کہ حاکم ہوکر محکوم ہوں ، ، نا گوار کو گوارا کروں۔" جوگی صاحب نے کہا" اے فرزند!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 173
اس کے رد کرنے میں سوائے کشت و خون کے نتیجہ نیک نہیں ہے۔" شہزاد ےنے کہا " آپ کی خدمت سے جدا ہونے کا بڑا رنج و الم ہے، آپ کے تنہا ہونے کا بڑا غم ہے۔" جوگی اس بات سے نہایت رویا۔ پھر غبار ملال گو رو رو کر چہرے سے دھویا، بہت سمجھایا۔ شہزاد ےنے کہا" اب ہمارے مکان کو میدان سے اکھڑ وا کر اپنے ایوان کے برابر نصب کر دیجئے۔" دو تین دن میں عمارت وہاں سے اکھڑ کر یہاں نصب ہوئی۔ اگر صاحب نہایت وملول اور غم ناک، اس صحرا کا دامن چاک چاک ہوا۔
جانا لعل شہزادے کا مع محمود وزیر شہر خشخاش کو، واسطے بودوباش کے
لعل شہزادہ مع ماہ پرور، محمود مع گلنار بڑے کروفر سے اپنے وطن کی طرف چلے۔ لال دیو اور قریش نے ان کی مفارقت پر دست تاسف ملے۔ گل نے بھی حال اپنا غمزدوں کا بنایا، دور تک انہیں پہنچا نے آیا۔ جب وہ متصل شہر خشخاش پہنچے، عرضی منصورشاہ کو بھیجی کہ الحمدللہ طالع ہمارا شرف سعادت سے سرفراز ہوا، امیدوار ہیں کہ اجازت قدم بوسی سے ممتاز ہوں۔ منصورشاہ نے وہ خط فرط اشتیاق سے دیر تک آنکھوں پر رکھا، جواب اس کا اپنے ہاتھ سے لکھا۔ اے نور بصر! طاقت انتظار طاق، اجازت طلبی مشتاق کو شاق ہے:
شعر
آو کرو آباد میرے کشور دل کو
اک عمر سے غم نے اسے برباد کیا ہے

ریختہ صفحہ 174
بہ مجرد پہنچنے اس پروانے کے، پروانے کی طرح روانہ ہوئے۔ یہاں اگر شاہ نے سامان دعوت جیسا چاہیے مہیا کیا۔ جب شہر میں آئے، بادشاہ بڑی دھوم سے سوار ہوا، فرط شوق سے استقبال کیا۔ بیٹے کو اپنے برابر، محمود کو خوش حال کےہاتھی پر بٹھایا۔ لعل شہزادے نے شہر کے ہر کوچے کو جنت کی روش دو راستہ، آئینہ بندی سے ہر دیوار و در کو آراستہ دیکھا۔ گلدستوں میں گلہائے جنت کی بو باس، رعیت خوش دل و خوش لباس۔ ہر قدم پر اگر شاہ کے حسن سلیقہ کی تعریف کرتے آئے۔ شہزادہ اور ماہ پرور محل میں تشریف لائے۔ مادر مہربان کو بہو بیٹے کے دیدار سے شادی بے اندازہ حاصل ہوئی، محمود اور گلنار کی آمد سے خوش حال میں جان آئی۔ تصدق ہر جگہ سے آیا، انعام و اکرام امیدواروں نے پایا۔ اگر شاہ نے بہت تقلف سے سامان دعوت بھیجا، لعل شہزادےنے کہلا بھیجا کے ہم تمہاری نعمت دیدار کے بھوکے ہیں۔ آپ جب تک تشریف فرما نہ ہوں گے، مہمان لذت یاب نہ ہوں گے۔ حمید نے پیام اشتیاق بھیجا۔ اگر شاہ یہ سن کے ان کی محفل میں آیا۔لعل شہزاد نے کہا " اے برادر ! تشریف لائیے، ہم اول ہوجیے۔" اگر شاہ نے کہا" میں جوگی بچہ ہوں، ہم بغل ہونا ترک ادب جانتا ہوں۔" دستر خوان بچھا، کھانا کھایا۔ از بس کہ اگر شاہ کو انقباض اور دلبستگی تھی، گھبرایا۔ بغیر اطلاع نقب کی راہ سے روانہ ہوا اور دروازہ نقب کا بند کر دیا۔لعل شہزاد ےنے کہا" جوگی بچہ یہاں سے گیا۔" ارکان سلطنت اس سخن سے انگشت بہ دندان ہوئے۔ بعض نے جرأت کرکے یہ عرض کیا کہ حضرت! ایسا حرف ان کے حق میں نہ فرمائیں۔ ان کے اقبال سے نام و نشان سلطنت کا قائم ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 175
نظم
اسی سے گلستاں میں ہے یہ بہار
نہیں تو یہ گلزار تھا خار خار
نہ ہوتا جو وہ شاہ والا ہمم
نہ یہ سلطنت تھی نہ یہ دم قدم
لعل شہزاد ےنے کہا" ہمیں اس کا کب انکار ہے، انہوں نے خود اپنے تئیں جوگی بچہ قرار دیا۔ " بہت تلاش کی، نہ پایا۔ شہزادے نے کہا" ہنوز اشتیاق ملاقات باقی رہا۔" محمود نے کہا" میں نے دل بھر کے نہیں دیکھا، اب اس کا آنابہ طیب خاطر بہت دشوار ہے۔" ایک نامہء شوقیہ روانہ کیا۔ جواب میں لکھا کہ جو گی بچے کو بادشاہوں کی ملاقات سے کیا سروکار ہے۔
جانا لال دیوکا واسطے درخواست وصلت عاشق و معشوق کے، منصور شاہ کی خدمت میں اور راضی ہونا بادشاہ کا مقدمہ ءمنا کحت میں
بعد چند روز کے لال دیو نے ایک خط منصورشاہ کو اس مضمون کا لکھا کہ یہ گنہگار بہ سبب لانے شہزادہء والاتبار کے کہ حضرت ان کی مفارقت میں زندگی سے بیزار رہے بہت شرمسار ہے۔ آج تک حضور کی خدمت سے قاصر رہا۔ اگر غبار ملال کو مشاہدہء جمال نے آئینہ قلب مبارک سے برطرف کیا ہو تو سعادت ملازمت حاصل کروں۔ منصور شاہ نے وہ خط پڑھا، شہزادے سے جواب کو فرمایا۔ عرض کیا کہ قبلہ ءعالم! جو صدمہ میری مفارقت سے حضرت کو تھا، وہی حال بھائی صاحب کی پریشانی سے ان کا تصور ہو۔" بادشاہ نے کہا" گل کی پریشانی کا مجھ سے کیا چارہ

ریختہ صفحہ 176
اس میں کیا اشارہ ہے؟" شہزاد ےنے کہا" ہماری رخصت اس اقرار پر ہے کہ اگر صاحب کے ساتھ گل بادشاہ کی وصلت ہو کہ وہ اس کے عشق میں نہایت بیقرار ہے۔ واللہ ہماری فوج کو ان کے ایک سپاہی سے مقاومت دشوار ہے۔ لہذا ان کو ملاقات کی اجازت بہتر ہے۔ آئندہ سامان ان کے مطلب کا مدنظر ہے۔" بادشاہ نے کہا" اچھا۔" شہزاد ےنے بادشاہ کی طرف سے خط لکھا: " برادر من سلامت! خط تمہارا پہنچا، مسرت بے اندازہ حاصل ہوئی۔ طبیعت مواصلت کی مائل ہوئی۔
مصرح
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانہ ءتست
بہ مجرد پہنچنے اس خط کے گل بادشاہ نے لال دیو کو ادھر روانہ کیا۔ وہ آیا، بادشاہ سے عذر تقصیر بہت سا کر کے کہا" خدا کے فضل سے آپ شاداں اور مسرور ہوئے، امیدوار ہوں کہ میری پریشانی کو اپنی عنایت سے دور کیجئے، یعنی میرے پیوند دل کو پیوند دیجئے۔" بادشاہ نے کہا" اگر شاہ کا مزاج ظاہر اور مشہور ہے، خاطر جمع رکھیے، اپنی طرف سے قصور نہ ہوگا۔" دیر تک صحبت رہی، بہت سی خاطر داری کی۔ بادشاہ سے رخصت ہو کر وزیر خوشحال کے گھر میں گیا۔ سمدھی نے بہت سی آؤ بھگت کی۔ شربت پلایا، چوبھا کھلایا۔ گلنار نے سلام کیا، سر اس کا چھاتی سے لگایا، محمود کو پہلو میں بٹھا یا۔ سمدھی اور سمدھن کو بہو بیٹے کے ملنے کی مبارکباد دی۔ اس ضمن میں اپنی کہانی بھی بیان کی۔ وزیر نے کہا " جو حضرت نے آپ سے ارشاد کیا ہے، ہم کو اس میں انکار و اقرار کی مجال کیا ہے؟ جس دن سے محمود کی زبانی حال آپ کی پریشانی کا سامنا ہے، خدا شاہد ہے کہ ہمیں آپ کے غم کا نہایت الم ہوا ہے۔ انشاء اللہ تعالی جو بات دل میں ہے، وہ
 
Top