ٹائپنگ مکمل قصص الحمرا

اوشو

لائبریرین
قصص الحمرا


صفحہ ۔۔۔ 180


ایک خواب آور موسیقی بکھر جاتی تھی۔ ایوان کے چاروں طرف طلائی اور نقرئی پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں رنگ برنگے پروں والی چڑیاں ہر وقت نغمہ سنج رہتی تھیں۔

بادشاہ برابر سنتا رہتا تھا کہ شہزادیاں شلوبینہ کے محل میں شاداں و فرحاں رہتی ہیں اس لئے اسے یقین تھا کہ الحمرا کا قیام انہیں اور بھی زیادہ شادماں و مسرور کرے گا۔ لیکن اسے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ اس ماحول میں غمگین اور یہاں کی ہر چیز سے غیر مطمئن ہیں۔ یہاں کے پھولوں میں انہیں خوشبو محسوس نہ ہوتی۔ یہاں کی بلبل کے نغمے ان کی نیندوں میں خلل انداز ہوتے اور سنگِ موسیٰ کا فوارہ تو اپنے کبھی نہ تھمنے والے اور شب و روز چلنے والے آتش باز کی جھنکار سے ان پر دیوانگی کی کیفیت طاری کر دیتا۔

بادشاہ کی بےتحملی اور سخت مزاجی پر شہزادیوں کا یہ رویہ سخت گراں گزرا۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شہزادیاں اب اس عمر کو پہنچ گئی ہیں جب ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور دل فضا میں کشادگی کا طالب و خواستگار ہوتا ہے۔ "وہ اب بچیاں نہیں ہیں۔" وہ اپنے دل میں سوچتا "وہ جوان ہیں اور انہیں اپنے آس پاس اپنی دلچسپی کی چیزیں چاہئیں۔" یہ سوچ کر اس نے غرناطہ کے سقاطین کے سب درزیوں، سناروں اور جوہریوں کو طلب کیا اور دیکھتے دیکھتے شہزادیوں کے آگے ریشم و کمخواب کے بیش بہا زردوزی ملبوسات، موتیوں اور ہیرے جواہرات کے گلوبندوں، کنگنوں اور کرن پھولوں اور بیش قیمت سامانِ آرائش کا انبار لگ گیا۔۔۔۔ لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ اس سارے ساز و سامان کے باوجود شہزادیوں کا غم انہیں گھلاتا رہا۔ ان کے چہروں کی زردی بڑھتی رہی۔ وہ تینوں گلاب کی کلیوں کی طرح مرجھاتی اور کمھلاتی رہیں۔ اور بےچارہ باپ! اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے! دوسرے سے مشورہ لینے کا وہ عادی نہ تھا اور اس کی عقل نے جیسے جواب دے دیا تھا۔ اس نے سوچا "تین جوان شہزادیوں کے خبط اور الجھنیں شاید ایک آدمی کے بس کی نہیں" اور بالآخر اس نے مشورہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں اس کی نظر سب سے پہلے تجربہ کار خدیجہ کی طرف گئی۔

"خدیجہ!" بادشاہ نے اعتماد کے لہجے میں کہا "میرے نزدیک دنیا میں تم سے زیادہ عقلمند کوئی اور عورت نہیں۔۔۔۔ اور پھر تم پر بھروسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیٹیوں کا نگران و نگہبان


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 181


مقرر کیا تھا۔ اور یہ خدمت تمہارے سپرد کر کے مجھے بڑا اطمینان تھا۔ اب میں ایک اور خدمت تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ کسی طرح معلوم کرو کہ شہزادیوں کو کیا غم ستا رہا ہے۔ ان کی صحت اور خوشی کو بحال کرنے کی کوئی تدبیر سوچو۔"

خدیجہ نے تعمیل کا وعدہ کیا۔ شہزادیوں کا غم کیا ہے!۔۔۔۔ یہ بات اسے شہزادیوں سے بھی زیادہ معلوم تھی۔ لیکن ان تینوں کا مکمل اعتماد حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دن تخلیے میں ان سے ان کے دل کی بات پوچھنے بیٹھی!

"پیاری بچیو! ایسے اچھے محل میں رہ کر، جہاں تمہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے، تم افسردہ و غمگین کیوں ہو؟"

شہزادیوں نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک آہ بھر کر چپ ہو رہیں۔

"تمہیں آخر کیا چاہیےی؟ کیا میں تمہارے لئے غرناطہ کا بولنے والا طوطا منگا دوں؟

"لعنت ہو اس پر!" شہزادی زاہدہ نے چلا کر کہا "مجھے تو اس کی آواز سے وحشت ہوتی ہے۔ بےسوچے سمجھے بکواس کرتے رہنے کے سوا اسے اور کیا آتا ہے۔ صرف بےعقلے ہی اس عذاب کو گوارا کر سکتے ہیں۔"

"اگر چاہو تو تمہیں جبل الطارق سے ایک بندر منگوا دوں جو ہر وقت اپنی شرارتوں سے تمہارا جی بہلاتا رہے؟"

"بندر!" زبیدہ نے حقارت سے جواب دیا "مجھے تو سخت نفرت ہے اس سے۔ دوسروں سے نقلیں کرنے کے سوا اسے آتا ہی کیا ہے ؟"

"تو پھر تمہیں مراکش کے شاہی حرم سے مشہور حبشی مغنی قاسم کو بلوا دوں؟ کہتے ہیں کہ اس کے لحن میں عورتوں کے لحن کی شیرینی و نزاکت ہے۔"

"مجھے ان وحشی غلاموں کی صورت سے ڈر لگتا ہے۔" سریتہ نے کانپتے ہوئے کہا "اور پھر اب مجھے رقص و سرود میں کوئی لطف بھی نہیں آتا۔"

"میری بیٹی" بوڑھی خدیجہ نے مکاری سے منہ بنا کر کہا "ایسا مت کہو! اگر کہیں تم ان تین سرداروں کا گانا سن پاتیں جو ہمیں اس دن راستے میں ملے تھے تو تم موسیقی کو کبھی برا نہ کہتیں۔۔۔۔ مگر میری بچیو! یہ کیا ہوا؟ ان


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 182


سرداروں کا نام آتے ہی تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا؟ تم اتنی پریشان کیوں نظر آنے لگیں؟"

"کچھ نہیں، کوئی بات نہیں! امی جان! آپ اپنی بات کہیے" سب ہم زبان ہو کر بولیں۔

"بیٹیو! بات یہ ہے کہ کل رات میں قرمزی بُرج کے پاس سے گزر رہی تھی کہ تینوں سردار مجھے حوالات میں بیٹھے نظر آئے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد وہ آرام کر رہے تھے اور اپنا جی بہلا رہے تھے۔ ایک گٹار بجا رہا تھا اور باقی دونوں باری باری گا رہے تھے۔ ان کے گانے میں کچھ ایسی کشش تھی کہ پہرے کے سپاہی بھی بت بنے کھڑے تھے، جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ اللہ میرا گناہ معاف کرے۔ میں نے اپنے وطن کے نغمے سنے تو مجھ سے بھی نہ رہا گیا۔ کھڑی ہو کر ان کا گانا سننے لگی۔ دل پر بڑا اثر ہوا اور ایسے شریف اور حسین نوجوانوں کو قید اور غلامی میں دیکھ کر بےحد کُڑھا۔"

باتیں کرتے کرتے بوڑھی خدیجہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگی۔

زاہدہ نے اس کے آنسوؤں سے فائدہ اٹھایا "خدیجہ اماں! کیا ہمیں بھی ان سرداروں کی ایک جھلک دکھا سکتی ہو؟"

زبیدہ بولی "ان کا گانا سن کر ضرور جی خوش ہو گا۔"

شرمیلی سریتہ کچھ نہ بولی۔ اس نے اپنے ہاتھ خدیجہ کی گردن میں حمائل کر دئیے۔

"اللہ مجھ پر رحم کرے!" خدیجہ نے جیسے ڈر کر کہا "میری بچیو! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ اگر بادشاہ کے کان میں اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو مجھے اور تمہیں سب کو مروا ڈالے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ تینوں سردار بڑے شریف اور نیک معلوم ہوتے ہیں لیکن اس سے کیا؟ وہ ہمارے دین کے دشمن ہیں اور تمہیں ان کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔"

عورت کے ارادے میں ایک قابلِ تحسین جرأت ہوتی ہے، خصوصاً عہدِ شباب میں اور اس ارادے کے سامنے وہ خطروں اور رکاوٹوں کی قطعی پرواہ نہیں کرتی۔ شہزادیاں اپنی بوڑھی خادمہ سے چمٹ گئیں اور دُرشتی سے، نرمی سے، التجاؤں سے، ہر طرح سے یہ ظاہر کیا کہ انکار سے ان کے دل ٹوٹ جائیں گے۔

لیکن سوال یہ تھا کہ خدیجہ آخر کیا کرے؟ یہ صحیح ہے کہ بادشاہ کے نزدیک دنیا میں خدیجہ سے زیادہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 183


عقل مند کوئی اور عورت نہیں تھی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بادشاہ کو اس کی وفاداری پر پورا بھروسا تھا لیکن کیا وہ شہزادیوں کو گٹار کے ایک نغمے سے محروم کر کے ان کا دل توڑ دے؟ علاوہ بریں، گو وہ اتنی مدت تک عربوں میں رہی تھی اور اپنی مالکہ کی تقلید میں ایک وفادار خادمہ کی طرح اپنا دین چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا تھا لیکن اصلاً وہ ہسپانوی تھی اور اب بھی اس کے دل میں عیسائیت کی چنگاری روشن تھی، اور اس لئے اس نے شہزادیوں کی آرزو پوری کرنے کی ترکیبیں سوچنی شروع کر دیں۔

عیسائی قیدی قُرمزی بُرج میں قید تھے اور ان کی نگہبانی لمبی مونچھوں اور چوڑے کندھوں والے ایک حبشی کے سپرد تھی۔ حبشی کا نام حسین بابا تھا اور وہ ہر طرف اپنی کھجلاتی ہوئی ہتھیلی کے لئے مشہور تھا۔ خدیجہ اس کے پاس گئی اور سونے کا ایک سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بولی "حسین بابا! میری آقازادیوں، یعنی ان تینوں شہزادیوں نے جنہیں بادشاہ نے الحمرا میں لا کر رکھا ہے ہسپانوی سرداروں کے گانے کی تعریف سنی ہے اور کسی وقت اسے سننے کی مشتاق ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم جیسا نرم دل انسان ان کی اس معصوم آرزو کو رَد نہیں کرے گا۔"

"کیا کہا؟ آرزو پوری کر کے اسی بُرج قرمزی پر سُولی چڑھوں؟ اس لئے کہ اگر بادشاہ کو اس بات کی خبر ہو گئی تو سمجھ لو کہ سُولی ہی میرا انعام ہے۔"

اس طرح کا اندیشہ جی میں نہ لاؤ۔ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے انجام دیا جا سکتا ہے کہ شہزادیوں کی خواہش بھی پوری ہو جائے اور بادشاہ کو بھی خبر نہ ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ الحمرا کی بیرونی دیوار کے نیچے ایک ندی بہتی ہے۔ تینوں قیدیوں کو وہاں کسی کام پر لگا دو اور انہیں اجازت دو کہ کام کے وقفوں میں اپنا جی بہلانے کے لئے خوب گائیں بجائیں۔ اس طرح شہزادیاں اپنے بُرج کے دریچوں سے ان کا گانا سن سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ کہ انعام سے تمہارا جی خوش ہو جائے گا۔"

بوڑھی خدیجہ نے اپنی تجویز پیش کی اور حسین بابا کے منتظر ہاتھوں میں چپکے سے ایک طلائی سکہ اور سرکا دیا۔ اس کی فصاحت اور طلائی سکوں کی گرمی نے حسین بابا کا دل پگھلا دیا اور تجویز پر عمل شروع ہو گیا۔

نوجوان سرداروں کو ندی کے کنارے کام پر لگا دیا گیا۔ دوپہر کی تیز گرمی میں جب دوسرے مزدور


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 184


درختوں کے سائے میں لیٹ کر خراٹے لینے لگے اور پہرے کا سنتری ایک جگہ بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ تینوں بُرج کے نیچے آرام سے سبزے پر بیٹھ گئے اور گٹار کی ہم نوائی میں ایک ہسپانوی نغمہ شروع کیا۔

وادی عمیق تھی اور بُرج بلند لیکن گرم دوپہر کے سکوت میں نغمہ کی آوازیں دور تک گونجیں اور شہزادیوں نے اپنی شہ نشین میں بیٹھ کر قیدیوں کے گیت سنے۔ انہیں ہسپانوی زبان آتی تھی اس لئے نغمے کی شیرینی اور گھلاوٹ نے ان کے دلوں میں جگہ کی۔ لیکن دانش مند خدیجہ کو یہ نغمہ سن کر غصہ آنے لگا۔ "اللہ ہمیں محفوظ رکھے!" اس نے چلا کر کہا "وہ تو محبت کا گیت گا رہے ہیں اور ان کا تخاطب شہزادیوں سے ہے! اتنی بےادبی! اتنی گستاخی! میں ابھی حسین بابا کے پاس جاتی ہوں اور اس گستاخی کے عوض ان کے ڈنڈے لگواتی ہوں۔"

"کیا؟ ایسے بہادر آدمیوں کے ڈنڈے؟ اور اتنے میٹھے گیت کی سزا میں؟ تینوں حسین شہزادیاں اس ہولناک تصور سے کانپ گئیں۔ بوڑھی خدیجہ کو غصہ تو بہت تھا لیکن فطرتاً اس کے مزاج میں نرمی تھی۔۔۔۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہی تھی کہ قیدی سرداروں کے نغمے نے شہزادیوں پر خوشگوار اثر کیا ہے۔ ان کے زرد رخساروں پر سرخی کی جھلک اور سوگوار آنکھوں میں چمک نمایاں تھی۔ اس لئے اس نے آسانی سے سرداروں کا قصور معاف کر دیا۔

گیت ختم ہو گیا اور شہزادیوں پر کچھ دیر سکوت طاری رہا۔ لیکن اس کے بعد شوخ زبیدہ نے اپنی بانسری اٹھائی اور دھیمی، کانپتی لیکن میٹھی لَے میں ایک عربی نغمہ بجانے لگی۔ نغمے کی تان اس بول پر ٹوٹتی تھی:

"پھول پتیوں کی آڑ میں چھپا ہوا ہے لیکن وہ خاموشی اور مسرت سے بلبل کے نغمے سن رہا ہے۔"

اسی دن سے نوجوان قیدی ہر روز ندی کے کنارے کام کرنے لگے۔ حسین بابا ہر روز اپنی معمولی سخت گیری میں کمی کرتا رہا اور محبت کرنے والوں کے درمیان گیتوں اور نغموں کے ذریعے محبت کے پیام آتے جاتے رہے۔ دونوں طرف کے گیتوں میں دل کی دھڑکنوں کا شور ہر روز بڑھتا رہا۔۔۔۔ اور بالآخر شہزادیوں نے بند دریچوں کے پٹ کھول دئیے اور محافظ سپاہیوں کی نظر بچا کر وہ کبھی کبھی اپنے عاشقوں کو اپنے حسن کی جھلک دکھانے لگیں۔ انہوں نے پھولوں کی زبانی، جن کی شاعرانہ زبان سے عاشق و معشوق دونوں واقف تھے، ایک دوسرے سے گفتگو بھی شروع کر دی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 185


محبت کرنے والوں کی راہ میں سنگِ گراں حائل ہوں تو حسن کی کشش زیادہ بڑھتی اور آتشِ شوق زیادہ بھڑکتی ہے۔ محبت کا پھول کانٹوں میں الجھ کر زیادہ شگفتہ اور آتشِ فراق میں تپ کر زیادہ رنگین ہوتا ہے۔

شہزادیوں کے کمھلائے ہوئے چہروں کو پھر شگفتہ اور افسردہ دلوں کو پھر شادماں دیکھ کر بادشاہ متحیر بھی ہوا اور مسرور بھی اور تجربہ کار خدیجہ اس تصور پر نازاں کہ یہ شگفتگی اس کی چلائی ہوئی ہواؤں کا نتیجہ ہے۔

لیکن ایک دن محبت کے باہمی پیاموں کا یہ سلسلہ ایکا ایکی ختم ہو گیا۔ قیدی سرداروں کے ندی کے کنارے آنے کا سلسلہ نہ جانے کیوں منقطع ہو گیا۔ شہزادیاں بُرج کے نیچے نظریں لے جاتیں لیکن بےسود اور وہ اپنی ہنس کی سی گردنیں شہ نشین کے نیچے جھکا جھکا کر ادھر ادھر تکتیں لیکن بےنتیجہ۔ بُرج کے نہاں خانوں سے وہ اسیر بلبلون کی طرح غم کے گیت گاتیں لیکن کوئی انہیں سننے والا نہ تھا۔ کُنجوں سے ان گیتوں کا جواب نہ ملتا اور کوئی قیدی سرداروں کی خبر نہ سناتا۔۔۔۔ آخر خدیجہ خبر کی جستجو میں نکلی اور بہت جلد یہ غم ناک پیام سنایا "افسوس میری بچیو! میں جانتی تھی کہ اس کا انجام یہی ہو گا، لیکن تم کسی طرح نہ مانیں، اور اب تمہیں اپنی بانسریاں ہمیشہ کے لئے بند رکھنی پڑیں گی۔ ہسپانوی سرداروں کے عزیز کثیر رقمیں لے کر انہیں رہائی دلانے کے لئے آ گئے ہیں اور سردار اپنے وطن جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔"

اس غم ناک خبر نے شہزادیوں پر بجلی گرا دی۔ زاہدہ اس بات پر سخت ناراض تھی کہ ان کے عاشق انہیں کوئی رخصتی پیغام دئیے بغیر یوں اپنے وطن جا رہے ہیں۔ اسے وہ اپنی محبت کی توہین سمجھتی تھی۔ زبیدہ یہ خبر سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ ملتی، آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی اور پھر زاروقطار رونے لگتی۔ نرم و نازک سریتہ شہ نشین کی آڑ میں کھڑی ہوتی اور خاموشی سے آنسو بہاتی۔ اس کے آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح پھولوں کے اس کُنج میں گرتے جہاں بیٹھ کر قیدی سردار زادے محبت کے گیت گاتے تھے۔

بےچاری خدیجہ جس طرح ممکن ہوتا ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتی۔ وہ ان سے برابر کہتی "میری بچیو! صبر کرو۔ غم کی عادت پڑ جائے تو وہ تکلیف نہیں دیتا۔ دنیا کا دستور یہی ہے۔ جب تم بھی میری عمر کو پہنچو گی تو تمہاری سمجھ میں آئے گا کہ مرد کیا ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تینوں سردار قرطبہ یا اشبیلیہ کی کسی نہ کسی ہسپانوی دوشیزہ کی زلفوں کے اسیر ہیں۔ وہ بہت جلد اپنی شہ نشینوں میں رقص و سرود کی بزمیں آراستہ کریں گے اور


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 186


الحمرا کی حسین شہزادیوں کو ہمیشہ کے لئے بھلا دیں گے۔۔۔۔ اس لئے میری بچیو! صبر سے کام لو اور ان کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔"

دانش مند خدیجہ کے سکون آمیز لفظوں سے شہزادیوں کا غم اور بڑھتا۔ دو دن تک ان کے دلوں کو ذرا قرار نہ آیا۔ تیسرے دن علی الصبح بوڑھی خدیجہ ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور غصے سے چلائی "کوئی سوچ سکتا ہے کہ انسان اتنا گستاخ بھی ہو سکتا ہے؟"

وہ غصے سے بےقابو ہو کر کہتی رہی "مجھے اس بےوفائی کی یہی سزا ملنی چاہیے تھی، جو میں نے تمہارے باپ کے ساتھ کی۔۔۔۔ خبردار جو اب تم میں سے کسی نے اپنے ہسپانوی چہیتوں کا نام بھی لیا۔"

شہزادیاں اس کا غصہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگیں "لیکن اچھی خدیجہ! بتاؤ تو سہی کہ کیا بات ہوئی؟"

"کیا بات ہوئی؟۔۔۔۔ بغاوت کی گئی، یا بغاوت کی سازش کی گئی۔۔۔۔ اور مجھ سے کی گئی، جو اپنے بادشاہ کی سب سے وفادار رعیت اور اپنی شہزادیوں کی سب سے باوفا خادمہ ہے۔۔۔۔ ہاں! میری بچیو! یقین جانو کہ ان گستاخ ہسپانوی سرداروں نے مجھے بغاوت کی سازش میں الجھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں یہاں سے فرار ہو کر قرطبہ جانے اور ہسپانوی سرداروں سے شادی کرنے کی سازش میں مدد دوں۔"

اتنا کہہ کر بوڑھی وفا پرست خادمہ نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھک لیا اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ تینوں حسین شہزادیوں کے چہرے زرد پڑ گئے، پھر ان پر سرخی دوڑ گئی، پھر وہ زرد ہوئے اور پھر سرخ۔ وہ تھر تھر کانپنے لگیں۔ شرمیلی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور منہ سے کچھ نہ بولیں۔۔۔۔ اور بوڑھی خادمہ اپنی جگہ بیٹھی غصے سے ہچکولے کھاتی رہی۔۔۔۔ کبھی آگے کو جھکتی، کبھی پیچھے کو ہٹ جاتی اور پھر غصے سے چلا اٹھتی:

"کیا میں اب تک یہی ذلت سہنے کے لئے زندہ رہی تھی۔۔۔۔ میں، جو نوکروں میں سب سے زیادہ وفادار ہوں!"

آخر بڑی شہزادی، جو تینوں میں زیادہ جری تھی اور ہر کام میں پیش قدمی کرتی تھی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی "اماں خدیجہ! فرض کرو ہم عیسائی سرداروں کے ساتھ جانے پر راضی ہوں۔۔۔۔ تو کیا یہ ممکن ہے؟"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 187


بوڑھی خادمہ کے غصے کو تھوڑا سا وقفہ ملا۔ شہزادی کی بات سن کر اس نے گردن اٹھائی اور تیزی سے بولی "ممکن!۔۔۔۔ ممکن کیوں نہیں؟ یقیناً ممکن ہے، اس لئے کہ قیدی سرداروں نے حسین بابا کو رشوت دے کر اس سازش میں شریک کر لیا ہے، اور سارا منصوبہ تیار ہے۔۔۔۔ لیکن ذرا سوچو کہ بادشاہ کو دھوکہ دینا کس طرح ممکن ہے۔۔۔۔ بادشاہ کو، جو مجھ پر اتنا بھروسہ کرتا ہے۔"

اتنا کہہ کر بوڑھی خادمہ پر غم کا ایک اور دورہ پڑا۔ وہ پھر ہچکولے لے لے کر اپنے ہاتھوں کو ملنے لگی۔

بڑی شہزادی نے متانت سے جواب دیا "لیکن ہمارے باپ نے ہم پر تو کبھی بھروسا نہیں کیا۔ اس نے صرف مضبوط دروازوں اور آہنی سلاخوں پر بھروسا کیا ہے اور ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہے۔"

بوڑھی خادمہ اپنے غم کو ایک اور وقفہ دیتے ہوئے بولی "ہاں! یہ تو بالکل درست ہے۔ اس نے یقیناً تمہارے ساتھ معقول برتاؤ نہیں کیا۔ تمہیں اس طرح قید میں رکھ کر اس نے تمہارے شباب پر ظلم کیا ہے۔ گلاب کے پھولوں کو گلدانوں میں سجا کر شگفتہ نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔۔ لیکن پھر؟ کیا تم اپنا وطن چھوڑ کر بھاگ جانے کے لئے تیار ہو؟"

"لیکن بھاگ کر جس سرزمین میں ہم جا رہے ہیں کیا وہ ہماری ماں کا وطن نہیں، جہاں ہم قیدی بن کر نہیں آزاد رہ کر زندگی بسر کریں گے اور کیا وہاں جا کر ہمیں ایک ظالم اور سخت گیر باپ کے عوض ایک محبت کرنے والا شوہر نہیں ملے گا؟"

اس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہی ہو لفظ بہ لفظ صحیح ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ تمہارا باپ ظالم ہے۔۔۔۔ لیکن اس سے کیا؟" غم کا دورہ پھر شروع ہوا۔ "کیا تم مجھے اس کے انتقام کی آگ میں جلنے کے لئے یہیں چھوڑ جاؤ گی؟"

"بالکل نہیں، اچھی خدیجہ! کیا تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتیں؟"

"بالکل ٹھیک ہے، میری بچی!۔۔۔۔ اگر سچ پوچھو تو حسین بابا نے اس معاملے پر گفتگو کرتے وقت مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے تمہارے ساتھ جانے میں مدد دے گا۔۔۔۔ لیکن پیاری! ایک بات اور سوچ لو۔ کیا تم اپنے باپ کا دین چھوڑنے کے لئے تیار ہو؟"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 188


ہماری ماں عیسائی تھی۔۔۔۔ میں بھی عیسائی بننے کو تیار ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں میرا ساتھ دیں گی۔"

"چلو، یہ بھی ٹھیک رہا" بوڑھی عورت اطمینان کے لہجے میں بولی۔ "تمہاری ماں کا اصلی دین عیسائیت تھا اور اسے مرتے دم تک اس کا غم رہا کہ اس نے اسے کیوں چھوڑا۔ مرتے وقت میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری روحوں کی حفاظت کروں گی۔ اس وقت مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمہاری روحیں مردہ نہیں ہوئیں۔ میری بچیو! میں بھی عیسائی پیدا ہوئی تھی اور دل سے اب بھی عیسائی ہوں۔ میں نے تہیہ کیا ہے کہ عیسائی ہو کر مروں گی۔ میں نے حسین بابا سے سب باتیں طے کر لی ہیں۔ وہ اصلاً ہسپانوی ہے اور اس کا گاؤں میرے گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ہے۔ وہ بھی اپنے وطن جانے کے لئے تڑپ رہا ہے اور دوبارہ عیسائی ہونے کے لئے بےقرار ہے۔ سرداروں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم دونوں نے آپس میں شادی کر لی تو وہ ہمارے رہنے سہنے کا معقول انتظام کر دیں گے۔"

مختصر یہ کہ اس انتہائی دانش مند بڑھیا نے ہسپانوی سرداروں اور حسین بابا سے سازش کر کے فرار ہونے کا سارا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ بڑی شہزادی فوراً اس پر عمل کرنے پر راضی ہو گئی اور اس کے طرزِ عمل نے حسبِ معمول چھوٹی بہنوں کے ارادے میں بھی پختگی پیدا کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ سب سے چھوٹی نے پہلے بہت پس و پیش کیا اس لئے کہ اس کا دل نازک اور کمزور تھا۔۔۔۔ وہ دیر تک کشمکش کی آماجگاہ بنا رہا۔ پدرانہ محبت اور احساسِ شباب میں جنگ ہوتی رہی اور بالآخر حسبِ معمول شباب کے احساس نے فتح پائی اور ننھی شہزادی خاموش آنسوؤں اور دبی ہوئی آہوں کے ساتھ فرار کے منصوبے میں شریک ہو گئی۔

الحمرا کی سنگین پہاڑی میں شاہی زمانے میں بہت سرنگیں کھودی گئی تھیں اور قلعے اور شہر کے مختلف حصوں کے درمیان آمد و رفت کا کام دیتی تھیں۔ انہیں سرنگوں میں سے ہو کر حد رہ و شنیل کے دور افتادہ ساحلی بندرگاہوں تک پہنچنا بھی آسان تھا۔ ان سرنگوں میں سے بعض اب باقی نہیں رہیں، کچھ اب بھی اسی طرح قائم ہیں اور عرب حکمرانوں کی دور اندیشی اور حکمتِ عملی کی شہادت دے رہی ہیں۔ حسین بابا نے شہزادیوں کو انہیں سرنگوں میں سے ایک کے راستے باہر دریا کے ایک بندرگاہ تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ طے تھا کہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 189


ہسپانوی سرداری یہیں اپنی حسین محبوباؤں کے منتظر رہیں گے اور فوراً صبا رفتار گھوڑوں کے ذریعے انہیں ایک مملکت سے دوسری مملکت میں پہنچا دیں گے۔

مقررہ رات آ گئی۔ شہزادیوں کے مسکن کو حسبِ معمول ہر طرف سے مقفل کر دیا گیا اور الحمرا نیند کی خاموشیوں میں ڈوب گیا۔ آدھی رات کے قریب دانش مند خدیجہ نے شہ نشین کے دریچے سے باغ میں جھانکا۔ حسین بابا پہلے سے وہاں موجود تھا۔ اس نے مقررہ اشارہ کیا۔ خدیجہ نے شہ نشین سے ایک کمند باغ میں لٹکائی اور اس کے ذریعے نیچے اتر گئی۔ بڑی اور منجھلی شہزادی نے دھڑکتے ہوئے دلوں سے کمند میں پاؤں رکھا اور آہستہ آہستہ نیچے اتر گئیں۔ لیکن جب سریتہ کی باری آئی تو وہ جھجکی اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔ کئی بار اس نے اپنے نازک قدم کمند کی طرف بڑھائے اور کھینچ لئے۔ وہ کسی طرح اپنے دل کو مضبوط نہ کر سکی۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اس کے طائرِ دل کی پھڑپھڑاہٹ تیز ہوتی جاتی۔ اس نے اس ایوان پر حسرت بھری نظر ڈالی جس میں اس نے بہت سے شب و روز بسر کئے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ اس ایوان کی حیثیت ایک قفس کی تھی۔ اس قفس میں وہ آزاد تو نہیں تھی لیکن محفوظ ضرور تھی، اور کسے خبر قفس سے پھڑپھڑا کر نکلنے جانے والے طائر کے لئے دنیا میں کیسے جال بچھے ہوئے ہیں! دنیا کے خطروں کے ساتھ اسے اپنے بہادر عاشق کا خیال آیا اور اس نے فوراً کمند پر پیر رکھ دیا، لیکن فوراً ہی باپ کی شفقت یاد آئی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ ایک نازک، بےتجربہ اور محبت کرنے والے دل میں پیدا ہونے والی کشمکش کی مصوری کتنی دشوار ہے۔

سریتہ کی بہنیں نیچے کھڑی التجا کر رہی تھیں، خادمہ برا بھلا کہہ رہی تھی اور حسین بابا پیچ و تاب کھا رہا تھا، لیکن نازک، ناتواں اور معصوم حسینہ امید و بیم کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ گناہ کی لذت اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی، لیکن اس کے خطرے پیروں میں بیڑیاں ڈال رہے تھے۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ افشائے راز کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ کہیں دور سے آتی ہوئی ٹاپوں کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ حسین بابا نے گھبرا کر کہا "سپاہی گشت کے لئے نکل آئے۔ ہم نے ذرا بھی دیر کی تو ہماری جانوں کی خیر نہیں۔۔۔۔ شہزادی نیچے اترو، ورنہ ہم تمہیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔"

سریتہ کے دل میں ایک طوفان اٹھا۔ اس نے کمند کی رسی کھولی اور ایک آہنی عزم کے ساتھ اسے نیچے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
قصص الحمرا


صفحہ ۔۔۔ 190


پھینک دیا اور اوپر سے چلائی:

"میں نے اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیا۔ بھاگنا میری طاقت سے باہر ہے۔ پیاری بہنو! اللہ تمہارا حافظ و نگہبان!"

بڑی بہنوں کے دل چھوٹی بہن کو تنہا چھوڑنے کے خیال سے لرز گئے۔ وہ ابھی سوچ رہی تھیں کہ روند کے سپاہیوں کی آوازیں اور قریب آ گئیں۔ حسین بابا غصے سے دیوانہ ہو گیا اور وہ تیزی سے سرنگ کے اندر داخل ہو گئیں۔ وہ سرنگ کی خوفناک اور پیچ در پیچ راہوں میں الجھتی اور ٹھوکریں کھاتی، بالآخر سرنگ کے دوسرے سرے پر پہنچ گئیں اور شہر پناہ کے باہر ایک آہنی دروازے کی راہ دریا کے کنارے جا پہنچیں۔ ہسپانوی سردار ان کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے اور عرب سپاہیوں کی وردی میں ملبوس تھے۔

سریتہ کے عاشق کو معلوم ہوا کہ وہ نہیں آئی تو اسے بےحد رنج ہوا، لیکن وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ شہزادیوں کو نوجوان سرداروں کے پیچھے سوار کیا گیا، خدیجہ حسین بابا کے ساتھ اس کے گھوڑے پر بیٹھی اور یہ چھوٹا سا قافلہ تیزی سے درۂ لوبہ کی طرف روانہ ہو گیا۔

ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ انہیں الحمرا کی فصیلوں سے قرنا کا شور سنائی دیا۔ حسین بابا نے گھبرا کر کہا "ہمارا راز فاش ہو گیا۔"

"ہمارے گھوڑے صبا رفتار ہیں اور رات اندھیری ہے کسی کا ہم تک پہنچنا دشوار ہے" نوجوان سردار یک زبان ہو کر بولے۔

انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ دی اور وہ سچ مچ ہوا سے باتیں کرنے لگے۔ بہت جلد وہ جبال البیرۃ کے نیچے پہنچ گئے۔ حسین بابا نے کان لگائے اور اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا "کوئی ہمارا پیچھا نہیں کر رہا اس لئے ہم آسانی سے پہاڑ عبور کر لیں گے۔" ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ الحمرا کے حفاظتی مینار سے ایک شعلہ بجلی کی طرح ہر طرف کوند گیا۔

حسین بابا چلایا "یہ ظالم شعلہ چوکیوں کے حفاظتی دستوں کو خبردار کر دے گا۔۔۔۔ بھاگو! بھاگو! دیوانوں کی طرح بھاگو!۔۔۔۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 191


اور وہ دیوانوں کی طرح بھاگے۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز چٹانوں میں گونجتی رہی اور وہ جبال البیرۃ کے نیچے سے گزرتی ہوئی شاہراہ کو روندتے ہوئے بجلی کی طرح آگے بڑھتے رہے۔ الحمرا کے شعلے کا جواب ہر سمت سے دیا گیا۔ پہاڑوں کے سب حفاظتی میناروں پر مشعلیں فروزاں ہو گئیں۔

"بڑھو! بڑھو! جلدی کرو حسین بابا چیخا۔۔۔۔ قبل اس کے کہ پل کی چوکی والے خبردار ہوں پل کو عبور کر لو۔"

انہوں نے قدم اور تیز کئے اور بہت جلد نہر جارف کے مشہور پل کے سامنے پہنچ گئے۔۔۔۔ جہر جارف جس کا تیزی سے بہتا ہوا پانی بارہا مسلمانوں اور عیسائیوں کے خون سے سرخ ہوا ہے۔ لیکن پہل پر مشعلیں روشن تھیں اور اس روشنی میں زرہ بکتریں اور تلواریں بجلی کی طرح کوند گئیں۔ حسین بابا نے گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں، رکابوں پر کھڑا ہو گیا اور تیزی سے ہر طرف نظر دوڑائی۔۔۔۔ سرداروں کو رخ بدلنے کا اشارہ کر کے شاہراہ چھوڑی اور دریا کے کنارے آ گیا۔ کچھ دور کنارے کنارے چل کر اس نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا۔ شہزادیوں نے سرداروں کی کمر زیادہ مضبوطی سے پکڑ لی اور ان کے گھوڑے بھی آناً فاناً پانی میں کود پڑے۔ تھوڑی دور تک وہ پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتے رہے۔ طوفانی لہریں ان کے گرد حلقہ بناتی رہیں، شہزادیاں عیسائی سرداروں سے چمٹی بیٹھی رہیں اور ان کے لبوں پر سکوت کی مہر لگی رہی۔ گھوڑے موجوں سے لڑتے لڑاتے تھوڑی دیر میں دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے اور تجربہ کار حسین بابا سنسان، ویران پہاڑوں راستوں سے گزارتا انہیں قرطبہ لے آیا۔ وہ قرطبہ پہنچے تو ان کے عزیزوں نے خوش میں خوب جشن منائے، اور حسین شہزادیوں کی شادی نوجوان سرداروں سے ہو گئی۔

شہزادیوں کو دریا پار اتارنے کی جلدی میں ہم نے بوڑھی خدیجہ کا بالکل ذکر نہیں کیا۔ گھوڑوں کے اس طوفانی سفر میں وہ برابر حسین بابا سے چمٹی بیٹھی رہی۔ ہر چھلانگ اور ہر جھٹکے پر وہ چیختی چلاتی اور حسین بابا کی ڈانٹ ڈپٹ سنتی رہی۔ لیکن جب حسین بابا نے گھوڑا پانی میں ڈالا تو اس کے خوف کی حد نہ رہی اور اس نے حسین بابا کی کمر پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے پکڑ لی۔ اس پر حسین بابا چیخا "مجھے اتنے زور سے مت پکڑو۔ بس میری پیٹی کو مضبوطی سے تھام لو اور نڈر ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس نے پیٹی مضبوطی سے پکڑ لی۔ لیکن جب مہمرورو کا یہ قافلہ دم لینے کے لئے پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہرا تو حسین بابا کو پتہ چلا کہ خدیجہ گھوڑے پر نہیں ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 192


شہزادیاں غم سے چلا اٹھتیں "خدیجہ کو کیا ہوا؟"

حسین بابا نے جواب دیا "خدا بہتر جانتا ہے، جب ہم دریا پار کر رہے تھے تو میری پیٹی کھل گئی اور خدیجہ دریا میں گر پڑی اور لہریں اسے نہ جانے کدھر بہا لے گئیں۔ اللہ کی یہی مرضی تھی! لیکن میری پیٹی جڑاؤ تھی اور بہت قیمتی تھی۔"

غموں میں وقت ضائع کرنے کی فرصت نہ تھی، گو شہزادیوں کو اپنی دانش مند خادمہ کی جدائی کا سخت ملال تھا۔ لیکن خوش قسمت خدیجہ کو بھی بلی کی طرح اللہ نے 9 جانیں دی تھیں۔ طوفانی لہروں نے اگر آٹھ جانیں ختم بھی کر دی ہوں تو نویں جان باقی رہ گئی۔ دریا کے بہاؤ پر ایک مچھیرے نے جال ڈال رکھا تھا۔ اس نے جال کھینچا تو اس میں خدیجہ بھی مگرمچھ کی طرح نکلی۔ مچھیرا اسے دیکھ کر سخت متحیر ہوا۔ اس نے خدیجہ کے ساتھ کیا کیا اور خدیجہ کا اس کے بعد کیا حشر ہوا۔۔۔۔ اس کا حال داستانوں میں بیان نہیں کیا گیا۔ لیکن یقین کے ساتھ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ خواہ کہیں بھی گئی ہو اس کی دانش مندی اور دور اندیشی نے اسے کھّبے یا بائیں ہاتھ والے محمد الہیجری کی دسترس سے دور رکھا ہو گا۔

اسی طرح داستان طرازوں نے یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی کہ جب دوربین و دور اندیش بادشاہ کو اپنی بیٹیوں کے فرار ہونے کی اطلاع ملی تو اس کا کیا حال ہوا۔۔۔۔ زندگی میں صرف ایک بار اس نے کسی مشکل کے وقت کسی دوسرے کا مشورہ لیا تھا اور وہ موقع یہی تھا۔ اس کے متعلق یہ ضرور معلوم ہے کہ اپنی زندگی میں پھر کبھی وہ اس غلطی کا مرتکب نہیں ہوا۔ لیکن اس نے اپنی تیسری بیٹی کی حفاظت میں پہلے سے بھی زیادہ اہتمام کیا، حالانکہ اس کے معاملے میں یہ احتیاط اس لئے غیر ضروری تھی کہ اس میں کسی کے ساتھ فرار ہونے کی ہمت نہ تھی۔ گو سنا گیا ہے کہ اپنی بہنوں کے ساتھ نہ جانے پر وہ کبھی کبھی پچھتاتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ برج کی فصیل پر کھڑی افسردہ نگاہوں سے قرطبہ کی طرف دیکھے جا رہی ہے۔ اور پھر کبھی کبھی اس کے ایوان سے بانسری کے درد بھرے نغمے بھی سنائی دیتے تھے اور لوگوں کا اندازہ ہے کہ ان نغموں میں درد کی جو کسک تھی وہ بہنوں کی جدائی اور محبوب کے فراق کی پیدا کی ہوئی تھی۔ معصوم شہزادی نے کچھ عرصہ تک سوگ کی یہ تنہا زندگی بسر کی اور جوانی ہی میں مر گئی۔ اسے بُرج کے نیچے ایک گنبد کے نیچے دفن کیا گیا۔ لیکن الحمرا کے ویرانوں میں اب بھی بعض ایسی داستانیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 193


گونج رہی ہیں جن میں اس کی بدنصیبی کی غم انگیز کہانی دہرائی گئی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
قصص الحمرا


صفحہ ۔۔۔ 194


طلمی سپاہی


سلمانکا سینٹ سپرین کے غار کا نام کس نے نہیں سنا ہو گا؟ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک ساحر گورکن یہاں پوشیدہ طور پر ہئیت، علم الارواح اور دوسرے علوم مظلمہ اور فنونِ خبیثہ کی تعلیم دیتا تھا۔۔۔۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس ساحر گورکن کے بھیس میں خود ابلیس تھا۔ اس غار کا منہ مدتیں ہوئیں بند کر دیا گیا اور لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا محل وقوع کیا تھا، گو عام روایت یہ ہے کہ یہ غار اس جگہ تھا جہاں مدرسۂ قروجل کے مختصر صحن میں پتھر کی صلیب نصب ہے۔ اور ہم اس وقت جو داستان سنا رہے ہیں اس سے اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے۔

کسی زمانے میں سلمانکا میں ایک طالب علم پڑھتا تھا، جس کا نام ڈان وِسنتے تھا۔ یہ طالب علم بےفکرے طلباء کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو خالی ہاتھ اور خالی کِیسے لے کر علم کی رہ گزر پر گامزن ہو جاتے ہیں اور مدرسے کی تعطیل کے زمانے میں قریہ قریہ، دیار دیار پھر کر دریوزہ گری کرتے ہیں اور اپنی تعلیم کے لئے فلوس و دِرم فراہم کرتے ہیں۔ چھٹیاں ہوئیں تو وِسنتے نے بھی یہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے موسیقی سے تھوڑا بہت لگاؤ تھا اس لئے اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنے کندھے پر ایک ستار رکھ لیا کہ سادہ دل دہقانیوں کو خوش کر کے اپنے لئے زادِ راہ حاصل کرتا رہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 195


وہ مدرسے کے صحن میں لگی ہوئی پتھر کی صلیب کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور سینٹ سپرین سے اپنی مہم کی کامیابی کی دعا مانگنے لگا۔ وہ دعا مانگ رہا تھا کہ صلیب کے قریب زمین پر اسے کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے جھک کر وہ چمکدار چیز اٹھائی تو وہ کسی کی مہر تھی جو سونے اور چاندی کے میل سے بنائی گئی تھی۔ مہر پر دو مثلث اس طرح بنے ہوئے تھے کہ ان کے کٹنے سے ایک ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ستارے کے اس نمونے کو قوت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، جو حضرت سلیمان کا اختراع تھی اور جسے سحر و طلسم میں بڑی اہم چیز خیال کیا جاتا ہے، لیکن سیدھا سادا طالب علم نہ ولی تھا نہ ساحر اور اس لئے اس علامت کی اہمیت سے واقف نہ تھا۔ اس نے انگوٹھی کو سینٹ سپرین کا انعام سمجھ کر انگلی میں ڈال لیا اور صلیب کو تعظیم دے کر ستار کے تاروں پر انگلیاں مارتا خوشی خوشی اپنی مہم پر روانہ ہو گیا۔

اسپین میں اس طرح کے گداگر یا وظیفہ خوار طالب علموں کی زندگی بڑے مزے سے گزرتی ہے بشرطیکہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ وہ اپنے من کی موج میں گاؤں گاؤں، شہر شہر گھومتے پھرتے ہیں۔ گاؤں کے چھوٹے پادری، جو اپنی طالب علمی کا دور اسی طرح گزار چکے ہوتے ہیں رات کی رات ان سیاح طالب علموں کی میزبانی کرتے ہیں اور صبح کو دو چار سکوں سے ان کی مٹھی گرم کر کے انہیں رخصت کر دیتے ہیں۔ شہر کی گلیوں میں دربدر پھرنے والے ان طالب علموں کو نہ کوئی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہ ان سے بےرخی برتتا ہے۔ اس لئے کہ علم کے حصول کی خاطر یہ دریوزہ گری کوئی معیوب چیز نہیں۔ یوں کہ ہسپانیہ کے اکثر اربابِ علم و فضل کی علمی زندگی کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔۔۔۔ لیکن اگر طالب علم ایسا ہو جیسا کہ ڈان وسنتے تھا۔۔۔۔ خوش رو اور خوش مزاج اور ستار بجانے کے ہنر سے واقف، تو دہقان اس کا بڑا پرجوش خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں اس پر تبسم کے پھول نثار کرتی ہیں۔

غرضیکہ علم و دانش کے اس شکستہ حال اور موسیقی داں فرزند نے اسپین کی مملکت کا نصف سے زیادہ حصہ طے کر لینے کے بعد یہ تہیہ کیا کہ واپسی سے پہلے غرناطہ کی زیارت ضرور کرے گا۔ اپنی اس طالب علمانہ سیاحت میں اسے کبھی گاؤں کے پادری کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا اور کبھی کسی دہقان کی سادہ لیکن پرخلوص جھونپڑی کی آغوش میں پناہ ملتی۔ جب وہ دہقانوں کی جھونپڑیوں کے دروزے پر بیٹھ کر ستار بجاتا اور سادہ دھن میں کوئی دلکش نغمہ چھیڑتا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 196


تو سادہ دل دہقانوں کے دل کنول کی طرح کھل جاتے اور کبھی کبھی گاؤں کے چراغوں کی مدھم روشنی میں دہقانوں کے معصوم بچے اور بچیاں اس کی دھنوں پر رقص کرنے لگتیں۔ صبح کو وہ میزبان اور اس کی بیوی کی دعاؤں اور ان کی غزالیں چشم بیٹی کی مہربان نظروں کا تحفہ لے کر وہاں سے رخصت ہو جاتا۔

بالآکر ہوتے ہوتے وہ اپنی اس پُر ترنّم آوارگی کی منزلِ مقصود، یعنی غرناطہ کے مشہور و معروف شہر میں پہنچ گیا اور حیرت سے عربوں کے تعمیر کئے ہوئے بُرجوں اور میناروں، اس کے حسین مرغزاروں اور بہار کی فضا میں چمکتے ہوئے برفانی پہاڑوں پر نظر ڈال کر خوش ہونے لگا۔ یہ بتانا لاحاصل ہے کہ وہ کس فرطِ شوق سے غرناطہ کے پھاٹک میں داخل ہوا اور اس کی شاہراہوں پر گھوم پھر کر مشرقی تعمیر کی شاندار یادگاروں کا کس حیرت و استعجاب سے مشاہدہ کیا۔ ہر دریچے سے جھانکتے ہوئے چہرے یا شہ نشین پر چمکتی ہوئی نظر میں اسے زبیدہ کا روئے تاباں اور زاہدہ کی چشمِ نازکی جھلک دکھائی دی۔ شہر کی شاہراہ سے گزرتی ہوئی ہر حسینہ کو اس کی نظر نے کوئی عرب شہزادی جانا اور اپنی طالب علمانہ گلیم اس کے قدموں میں بچھا دی۔

وِسنتے کے بوسیدہ فرسودہ لباس کے باوجود، اس کی موسیقی کی مہارت، اس کی زندہ دلی، اس کی کمسنی اور اس کے مردانہ حسن نے اسے شہزادیوں کا محبوب بنا دیا اور اس نے غرناطہ کی گلیوں اور اس کے نواح میں کئی دن بڑے لطف اور بڑی آسائش سے بسر کئے۔ غرناطہ میں اس کا سب سےپسندیدہ مستقر وادیِ حدرہ کا مشہور فوارہ تھا۔ یہ فوارہ غرناطہ کی سب سے پُرلطف سیر گاہ ہے، جو عرب حکمرانوں کے زمانے میں اتنی ہی پسندیدہ تھی جتنی آج کل۔ یہاں ہمارے نوجوان طالب علم کو نسوانی حسن کے مشاہدے اور مطالعے کا موقع سب سے زیادہ ملتا تھا، اور علم کے اس شعبے کی طرف اس کا میلان اور زیادہ تھا۔

فوارے پر پہنچ کر وہ اپنے لئے ایک گوشہ تلاش کر لیتا اور یہاں بیٹھ کر، اپنے گرد حلقہ بنا کر کھڑے ہو جانے والے مداحوں کو محبت کے گیت سناتا۔ ایک شام وہ اسی طرح مردوں اور عورتوں کے حلقے میں بیٹھا ستار بجا رہا تھا کہ اس نے ایک پادری کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔ پادری کے قریب آتے ہی سب سنے احتراماً اپنی ٹوپیوں پر ہاتھ رکھ کر اسے سلام کیا۔ بظاہر وہ کوئی بڑا آدمی معلوم ہوتا تھا اور اس کا چہرہ مقدس زندگی کا نہ سہی، پُرآسائش زندگی کا آئینہ وار یقیناً تھا۔ اس کا چہرہ بھرا ہوا تھا اور اس پر خون کی سرخی چھلک رہی تھی۔ موسم کی حدت اور پیادہ پائی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 197


کی مشقت سے اس کا جسم پسینے میں تربتر تھا۔ پادری سڑک پر سے گزرتے ہوئے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اپنی جیب سے کوئی سکہ نکالتا اور کرم گستری کی ایک خاص شان سے کسی گداگر کے ہاتھ پررکھ دیتا۔ یوں فقیروں پر جو و سخا کی یہ بارش کرتا پادری آگے بڑھتا اور لوگوں کی دعائیں لیتا رہا۔۔۔۔ "خدا پادری کو بڑی عمر دے اور جلدی بڑے پادری کا عہدہ عطا کرے۔"

پہاڑی کے سنگلاخ راستے سے اترتے ہوئے وہ کبھی کبھی شفقت و نرمی سے اپنے ساتھ چلتی ہوئی حسین خادمہ کے ہاتھ کا سہارا لیتا۔ جس کے لئے بظاہر اس مہربان پادری کے خانہِ دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ اُف! وہ حسین دوشیزہ! سر سے پیر تک اندلسی حسن کا مجسمہ، بالوں میں گندھےہوئے گلاب سے لے کر نازک چمکیلے جوتوں اور کڑھے ہوئے موزوں تک اندلس کی تصویر! ہر جنبشِ قدم میں، تنِ نازک کے ہر لوچ میں اندلس کا عکسِ رنگیں۔۔۔۔ شاداب، شیریں اور پگھلتا، مچلتا ہوا اندلس! اور اس فتنہ سامانی کے باوجود شر و حیا کی دیوی! نیچی نظریں، متوجہ گوش۔۔۔۔ کبھی کبھی بےخیالی میں اوپر اٹھ کر چار ہو جانے اور پھر تیزی سے زمین کی طرف جھک جانے والی نظریں۔

شفیق پادری نے فوارے کے قریب والے مجمعےپر شفقت کی نظر ڈالی اور اطمینان سے ایک پتھر کی تپائی پر بیٹھ گیا۔ حسین خادمہ نے فوراً ہی ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے شفاف پانی کا ایک گلاس اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ پادری نے پانی ایک ایک گھونٹ کر کے مزے لے لے کر پی لیا اور ہر گھونٹ میں پہلے سے تلے ہوئے انڈےکا ایک خوش ذائقہ ٹکڑا منہ میں رکھ کر مسرور ہوتا رہا۔ خالی گلاس حسین خادمہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس نے اس کے نازک رخسار پر ایک ہلکی سی چُٹکی لے لی، ایسی چُٹکی جو بےاندازہ شفقت و مہر کی مظہر تھی۔

ستار بجاتے ہوئے طالب علم حسرت سے دل ہی دل میں سوچنے لگا "کتنا خوش نصیب ہے یہ مہربان پادری بھی، جسے ہر وقت اس جیسی حسینہ کی ہم نشینی و ہم جلیسی کی مسرت حاصل ہے!"

لیکن یہ قابلِ رشک مسرت اس کے نصیب میں نہ تھی۔ اس نے وہ سارے افسوں جن سے دہقان دوشیزاؤں کو بارہا اپنا مفتوں و گرویدہ بنا چکا تھا، آج بھی آزمائے لیکن پادری کی قابلِ رشک مسرت اس کے حصے میں نہ آئی۔ اس نے اپنے ستار کے تاروں کو کبھی اس مہارت سے نہ چھیڑا تھا اور کبھی اس کے سینے سے اتنے دل دوز نغمے نہ نکلے تھے، لیکن افسوس! اس کے حریف گاؤں کے پادری اور دہقانی دوشیزائیں نہیں تھیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 198


شفیق پادری کوغالباً موسیقی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور شرمیلی دوشیزہ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نظریں زمین سے نہ ہٹائیں۔ پادری نے پتھر کی تپائی پر بہت تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر غرناطہ کا رخ کیا۔ حسین خادمہ نے چلتے ہوئے ایک اچٹتی سی شرمیلی نظر طالب علم پر ڈالی، لیکن یہی ایک نظر اس کا دل چھیننے کے لئے کافی تھی۔

دونوں چلے گئے تو اس نے لوگوں سے ان کا اتا پتا پوچھا۔ پادری ٹامس کے غرناطہ کے پادریوں میں سے ایک تھا،۔۔۔۔ پابندیِ اوقات کا مکمل نمونہ۔ اس کے سو کر اٹھنے، ناشتہ کرنے، کھانا کھانے، قیلولہ کرنے، بچوں کے معصوم کھیل کھیلنے، شام کو ٹہلنے، رات کو گرجے کے مخصوص حلقوں میں گپ بازی کرنے اور سونے کے اوقات مقرر تھے۔ وہ ان کی پوری پابندی کرتا اور اگلے دن پھر انہیں معمولات کے وظیفے کے لئے تروتازہ بیدار ہوتا۔ سواری کے لئے اس کے پاس ایک چکنا چپڑا سُبک رو خچر تھا، اس کے پسندیدہ کھانے پکانے کے لئے ایک مستعد خادمہ، اور رات کو اس کے تکئے کی شکن درست کرنے اور صبوحی کے لئے چاکلیٹ کی پیالی مہیا کرنے کے لئے حسین اندلسی دوشیزہ۔

اے طالب علم کی آزاد اور بےغم زندگی تیرا خدا حافظ! ایک چشمِ مست کی اچٹتی ہوئی نظر اس سے سب کچھ چھین کر لے گئی۔ کسی لمحے اس کے دل سے اس شرمیلی حسینہ کی تصویر کا نقش محو نہ ہوتا۔ اس نے پادری کے مسکن تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس جیسے کوچہ گرد طالب علموں کی رسائی سے باہر تھا۔ پادری کو اس سے کوئی دلچپسی نہ تھی اس لئے کہ اسے کبھی اپنی نانِ شبینہ کے لئے تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ دن کو دور سے پادری کے گھر کا طواف کرتا اور کبھی کبھی دریچے میں سے اس حسین خادمہ کی جھلک نظر آ جاتی لیکن یہ جھلک امید کی کوئی کرن دکھانے کے بجائے محبت کے شعلے کو اور بھڑکاتی۔ اور وہ رات کو پادری کی شہ نشین کے نیچے اپنا نغمہِ محبت سناتا۔ ایک دن کھڑکی میں کسی سفید چیز کے جلوے سے اس کے دل میں دھڑکن پیدا ہوئی، لیکن افسوس! یہ پادری کی شب خوابی کی سفید ٹوپی کی جھلک تھی۔

محبت شاید اتنی صادق کبھی نہیں ہوئی اور حسن نے شاید اتنا شرمیلا پن کبھی نہیں دکھایا۔ غریب طالب علم مایوسی کی تصویر بن گیا۔ اور آخر ہوتے ہوتے سینٹ جان کا تہوار آ پہنچا، جب غرناطہ کے غریب، مرد، عورتیں اور بچے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں، شام کا وقت رقص و نغمے میں گزارتے ہیں اور راتیں حدرۃ اور شنیل کے ساحلوں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 199


پر بسر کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اس وقت جب آدھی رات کو گرجا کی گھنٹیاں بجتی ہوں حدرۃ و شنیل کے بہتے ہوئے پانی میں منہ دھونے کا موقع مل جائے۔۔۔۔ اس لئے کہ اس خاص لمحے پانی میں چہرے کو حسین بنانے کی طلسمی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ کوچہ گرد طالب علم کی بےشغلی اسے بھی غرناطہ کے سیلانیوں کے ساتھ حدرۃ کی تنگ وادی میں لے آئی اور اس نے اپنے آپ کو بِلا ارادہ، الحمرا کے سرخ بُرجوں کے زیر سایہ پہاڑی کے دامن میں کھڑا پایا۔ دریا کی خشک ترائی، اسے اپنے حلقے میں لینے والی سنگلاخ چٹانیں اور ان چٹانوں کا حاشیہ بنانے والے مرغزار سیلانیوں کی گہما گہمی اور چہل پہل سے معمور تھے اور انگوروں اور انجیروں کے سائے میں ستار اور جھانجھ اور رقص کی جھنکار گونج رہی تھی۔

طالب علم حدرۃ کے تنگ پہل کے ایک بھدے اور بھاری پتھر کے سہارے کھڑا غم کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہا۔ اس نے اس ہشّاش بشّاش مجمعے پر حسرت بھری نظر ڈالی، جس میں ہر نوجوان کے ہاتھ میں ایک حسینہ کا ہاتھ تھا اور وہ اپنی تنہائی کے احساس سے غمگین، اُس چشمِ مست کے تصور میں غرق تھا، جس تک اس کی رسائی نہ تھی۔ اسے اپنا بوسیدہ لباس محبت کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا نظر آ رہا تھا۔

اتفاق سے اس کی نظر ایک اور آدمی پر پڑ گئی، جو اسی کی طرح یکّہ و تنہا اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ یہ یکّہ و تنہا شخص خاکستری داڑھی اور سنجیدہ چہرے والا ایک طویل قاپت سپاہی تھا، جسے بظاہر انار کے درخت کے پاس سنتری بنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ زمانے نے اس کے چہرے کو سنولا دیا تھا۔ اس کے جسم پر ایک قدیم ہسپانوی زرہ بکتر، کندے پر ڈھال اور ہاتھ میں نیزہ تھا اور وہ اپنی جگہ بت بنا کھڑا تھا۔ یہ بات طالب علم کے لئے باعثِ حیرت تھی کہ گو سپاہی کے جسم پر ایسا عجیب لباس تھا لیکن گزرنے والوں میں سے کوئی اُس کی طرف دھیان نہ دیتا۔ وہ اس کے جسم کو چھوتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔

طالب علم نے اپنے دل میں سوچا "یہ شہر قدیم زمانے کے عجائبات کا شہر ہے، اور یقیناً یہ سنتری بھی اس شہر کا ایسا عجوبہ ہے جس سے یہاں کے باشندے اچھی طرح مانوس ہیں اور اس لئے اس کی یہاں موجودگی ان کے لئے باعثِ استعجاب نہیں" لیکن اس کے ذوقِ تجسس نے اس کے قدموں کو جنبش دی اور طبعاً ملنسار ہونے کے سبب وہ سپاہی کے قریب گیا اور اسے یوں مخاطب کیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 200


"اجنبی دوست! تم نے کتنا عجیب زرہ بکتر پہن رکھا ہے؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم کس فوجی دستے کے سپاہی ہو؟"

سپاہی نے ان جبڑوں کو ہلا کر جو یقیناً زنگ آلود ہو چکے تھے بہ مشکل جواب دیا۔

"فرڈننڈ اور اشابیلا کا محافظ شاہی دستہ!"

"اللہ تم پر رحم کرے! لیکن یہ فوجی دستہ تو اب سے تین صدی پہلے تھا۔"

"اور تین صدیوں سے میں سنتری کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب میرے گشت کی مدت ختم ہونے والی ہے۔۔۔۔ لیکن بتاؤ تمہیں دولت چاہیے؟"

طالب علم نے جواب میں اپنا بوسیدہ لبادہ اس کے آگے پھیلا دیا۔

"میں تمہارا مطلب سمجھ گیا۔ لیکن تم میں ہمت اور ایمان ہے تو میرے ساتھ آؤ اور سمجھ لو کہ تمہارے دن پھر گئے۔"

"دوست! ذرا آہستہ آہستہ بولو۔ جس کے پاس ایک جان اور ایک ٹوٹے پھوٹے ستار کے سوا کھونے کو کچھ اور نہ ہو اسے تمہارے ساتھ چلنے کے لئے زیادہ ہمت کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ میرے لئے ان دونوں چیزوں کی قیمت یکساں ہے۔ لیکن میرا ایمان؟ اس کی صورت ذرا مختلف ہے۔ اسے طمع کا شکار بنانا آسان نہیں۔ اگر میرے دن کوئی جُرم کر کے پھرنے والے ہیں تو ہر گز مت سمجھو کہ میرا یہ بوسیدہ لباس مجھے کسی جرم پر آمادہ کر سکے گا۔"

سپاہی نے طالب علم پر سخت غصے کی نگاہ ڈالی اور بولا "میں نے تلوار دین اور تاج کی حمایت کے سوا کبھی کسی اور مقصد سے نہیں اٹھائی۔ میں سچا عیسائی ہوں۔ مجھ پر بھروسا کرو اور بےخوف ہر کر میرے ساتھ چلو۔"

طالب علم حیرت سے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ گزرنے والوں میں سے کسی نے ان کی گفتگو میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لی اور سپاہی سیلانیوں کے گروہوں میں سے اس طرح گزرتا رہا جیسے وہ کسی کو نظر ہی نہیں آ رہا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 201


پُل پار کر کے، سپاہی ایک تنگ اور سنگلاخ راستے سے ہوتا ہوا مسلمانوں کے زمانے کی ایک پن چکی کے پاس پہنچا اور وہاں اس نالے کے اوپر چڑھ گیا جو الحمرا اور جنت العریف کی حد بندی کرتا ہے۔ سورج کی آخری کرنیں الحمرا کی قرمزی فصیلوں پر پہنچ کر اپنا دن کا سفر ختم کر رہی تھیں اور گرجا کی گھنٹیاں تیوہار کی مسرتوں کا پیام سنا رہی تھیں۔ انجیر کے درختوں، انگور اور حنا کی شاخوں اور قلعے کے بیرونی بُرجوں اور دیواروں کا سایہ نالے پر پڑ رہا تھا۔ فضا تاریک اور سنسان تھی اور کہیں کہیں چمگادڑوں کے پیروں کی سنسناہٹ سنائی دینے لگی تھی۔ سپاہی چلتے چلتے ایک دُور اُفتادہ بُرج کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی برچھی کا دستہ زور سے زمین پر مارا۔ گڑگڑاہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور سنگلاخ زمین میں دروازے کے برابر چوڑا ایک شگاف پیدا ہو گیا۔

سپاہی نے طالب علم سے کہا "مقدس تثلیث کا نام لے کر اندر داخل ہو جاؤ اور ڈرو مت!" طالب علم کا کلیجہ کانپ گیا لیکن اس نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اپنے پُراسرار رہنما کی قیادت میں ایک گہرے تہ خانے میں داخل ہوا جو چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ تہ خانے کی دیواروں پر ہر طرف عربی عبارتیں کندہ تھیں۔ سپاہی نے تہ خانے کے ایک طرف بچھی ہوئی ایک پتھر کی تپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طالب علم سے کہا "تین سو سال سے یہی پتھر میری نشست گاہ ہے۔" حیرت زدہ طالب علم نے سپاہی پر ایک فقرہ چست کرنے کی کوشش کی "سینٹ انتھونی کی قسم! اس نرم و نازک بستر پر تمہیں نیند تو خوب گہری آتی ہو گی!"

"تمہارا خیال درست نہیں۔ یہ آنکھیں نیند کی رفاقت سے بیگانہ ہیں۔ تین سو سال سے مسلسل نگہبانی میرا مقسوم رہی ہے۔ تم چاہو تو میری داستان سن لو۔۔۔۔ جیسا کہ میں تمہیں بتا چکا ہوں میں فرڈنینڈ اور اشابیلا کے شاہی محافظ دستے کا ایک سپاہی تھا۔ عربوں کے ایک دھاوے میں گرفتار ہوا اور اس برج میں قید کر دیا گیا۔ جب عسائیوں کا اقتدار شروع ہوا اور اس قلعے کو ان کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں تو ایک عرب درویش نے، جس کا نام الفقیہہ تھا، میری مدد سے ابی عبداللہ کا کچھ خزانہ اس تہ خانے میں منتقل کر دیا۔ مجھے اس جرم میں شرکت پر سزا ملی۔ الفقیہہ نے جو حقیقت میں ایک افریقی ساحر تھا، اپنے سحر کی تاثیر سے مجھے اس خزانے کا پاسبان بنا دیا۔ یہ خدمت میرے سپرد کر دینے کے بعد بوڑھا ساحر پھر کبھی یہاں نہیں آیا۔ خدا جانے اس کا کیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 202


حشر ہوا۔ میں اسی وقت سے اس تہہ خانے میں زندہ درگور ہوں۔ صدیاں گزر گئیں۔ زلزلوں نے پہاڑ کو تہ و بالا کر دیا۔ بُرج اور قلعے کے پتھر ایک ایک کر کے زمین کی سطح پر آتے رہے۔ زمانے کی فطری دستبرد نے گرد و پیش کی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا، لیکن تہ خانے کی سحرزدہ دیواریں زلزلے اور وقت کے حوادث سے بےخبر مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہیں۔

"ہر سو سال کے بعد سینٹ جان کے تیوہار کے دن طلسم کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور مجھے اس غار سے حدرۃ کے پُل پر جا کر اس جگہ کھڑے ہونے کی اجازت ملتی ہے، جہاں آج تم نے مجھے دیکھا تھا۔ میں اس جگہ کھڑا ہو کر اس شخص کا انتظار کرتا ہوں جس کے ہاتھوں یہ طلسم ٹوٹنے والا ہے۔ آج سے پہلے میں نے سینٹ جان کے دو تیوہار وہاں کھڑے ہو کر گزارے لیکن مجھے میرے طلسم سے رہائی دینے والا نہ آیا، اور میں انسانوں کی نظر سے اوجھل اس طرح یہاں واپس آ گیا جیسے بادلوں نے مجھے پردے میں چھپا رکھا ہو۔ تم پہلے شخص ہو ججس نے تین سو سال بعد آج مجھ سے بات کی اور اس کا سبب مجھے معلوم ہے۔ تمہاری انگلی پر حضرت سلیمانؑ کی انگوٹھی ہے، جس کی تاثیر پہننے والے کو ہر طلسم کے اندیشوں سے بےخطر اور محفوظ کر دیتی ہے۔ اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ مجھے اس قید سے رہائی دلواؤ یا سو برس کے لئے اور اسی قید میں چھوڑ جاؤ۔"

طالب علم حیرت سے مستغرق یہ داستان سنتا رہا۔ اس نے اس سے پہلے بھی الحمرا کے تہ خانوں میں چھپے ہوئے طلسمی دفینوں کے افسانے سنے تھے لیکن انہیں ہمیشہ محض افسانہ سمجھ کر ان پر یقین نہ کیا تھا۔ اسے اب اس مہر کی قیمت کا اندازہ ہوا جو اسے سینٹ سپرین سے انعام میں ملی تھی۔ گو وہ ایسے قوی اور مؤثر طلسم سے مسلح تھا لیکن اس طرح ایک طلسمی غار کے تہ خانے میں قید ہونا اور ایک ایسے طلسمی انسان سے باتیں کرنا جسے قوانینِ قدرت کے مطابق اب سے تین سو برس پہلے اپنی قبر میں دفن ہونا چاہیے تھا اسے بڑا عجیب معلوم ہوا۔

اس طرح کا انسان زندگی کے عام انداز سے بالکل مختلف تھا لیکن اسے محض مذاق یا افسانہ سمجھ کر نہیں ٹالا جا سکتا تھا، اس لئے اس نے طلسمی سپاہی کو یقین دلایا کہ وہ اس کی دوستی پر بھروسا کر سکتا ہے۔ وہ اس کی رہائی کے لئے جو کچھ ہو سکے گا اس سے دریغ نہ کرے گا۔

طالب علم کی زبان سے دوستی کی بشارت کے جواب میں سپاہی بولا "میں دوستی سے زیادہ کسی اور چیز کا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 203


قائل ہوں۔"

وہ فولاد کے ایک بےحد وزنی صندوق کی طرف جس میں کئی قفل پڑے ہوئے تھے اور جس پر ہر طرف عربی کی عبارتیں کندہ تھیں، اشارہ کرتے ہوئے بولا "اس صندوق میں بےشمار سونے کے سکے، جواہرات اور بیش بہا زیورات بند ہیں۔ اگر تم اس طلسم کو توڑ دو جس میں میں قید ہوں تو اس خزانے میں سے آدھا تمہارا ہو گا۔"

"لیکن میں اس طلسم کو کیسے توڑ سکتا ہوں؟"

"اس کام کے لئے ایک عیسائی پادری اور ایک عیسائی دوشیزہ کی مدد درکار ہے۔ عیسائی پادری طلسم کے الفاظ پڑھنے کے لئے اور دوشیزہ اس آہنی خزانے کو مُہرِ سلیمانی سے چُھونے کے لئے۔ اور یہ کام آج ہی رات کو کرنے کا ہے۔ اس سنجیدگی اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ یہ پاکیزہ صفت لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے۔ پادری کو صحیح قسم کا دین دار اور تقدّس کا مجسمہ ہونا چاہیے اور یہاں آنے سے پہلے ایک دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح دوشیزہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی سیرت معصیت سے پاک ہو اور آسانی سے نفس پرستی کا شکار نہ ہو جائے۔ تمہیں ایسے دو آدمیوں کی مدد حاصل کرنی ہے۔ لیکن کام ایسا ہے کہ اس میں تاخیر کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ تین دن کی فرصت ہے۔ اگر تین دن کے اندر مجھے رہائی نہ ملی تو میری ایک صدی پھر اسی قید خانے میں بسر ہو گی۔"

گھبراؤ مت!" طالب علم نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ ایسا پادری اور ایسی دوشیزہ میری نظر میں ہے۔ لیکن اپنی مہم کی تکمیل کے بعد میں اس تہ خانے میں کیسے پہنچوں گا؟"

"مُہرِ سلیمانی تمہاری رہنمائی کرے گی۔ تہ خانے کا راستہ تمہارے لئے کھل جائے گا۔"

طالب علم تیزی سے تہ خانے سے نکلا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سنگین راستہ بند ہو گیا اور زمین پہلے کی طرح ہموار ہو گئی۔

اگلے دن علی الصبح وہ پادری کی حویلی پہنچ گیا۔ آج اس کے قدم جرأت و استقامت سے اٹھ رہے تھے۔ آج وہ کوچہ گرد طالب علم کی حیثیت سے پادری کے پاس نہیں جا رہا تھا، جس کا مقسوم ستار بجانا اور دریوزہ گری کرنا تھا۔ آج وہ طلسمی دنیا کا سفیر بن کر اس کے پاس آیا تھا اور اس کے پاس زمین کے پُراسرار طلسمی خزانوں کی بشارت تھی۔ اس سفارت کی تفصیل داستان میں بالکل نہیں بتائی گئی۔۔۔۔ سوائے اس کے کہ ایک دیندار سپاہی کو بچانے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
قصص الحمرا


صفحہ ۔۔۔ 204


اور ایک بیش بہا خزانے کو شیطان کے قبضے سے نکالنے کے خیال نے پادری کو فوراً اس مہم کے لئے راضی کر دیا کہ دولت کتنے غریبوں کی غریبی دور کرنے، کتنے کلیسا تعمیر کرنے اور کتنے دوستوں اور عزیزوں کو متموّل بنانے کے کام آئے گی!

رہی نیک دل اور معصوم خادمہ تو وہ بھی خوشی سے اس مقدس مہم میں شریک ہونے پر راضی ہو گئی۔۔۔۔ اور اگر کبھی کبھی اٹھ جانے والی نظر پر اعتبار کیا جا سکے تو یہ کہنا بھی درست ہے کہ طلسمی دنیا کے سفیر کے لئے شرمیلی آنکھوں میں اب تھوڑی سی جگہ بھی پیدا ہو گئی تھی۔

لیکن وہ روزہ جو پادری کو اس مہم کے سلسلے میں رکھنا تھا اس کے لئے بڑا عذاب ثابت ہوا۔ دو بار اس نے روزہ شروع کیا اور دونوں بار جسم کی ضرورتیں روح کے تقاضوں پر غالب آئیں۔ تیسرے دن بڑی مشکل سے اس نے اپنے اوپر یہ جبر گوارا کیا، لیکن سوال یہ تھا کہ طلسم ٹوٹنے تک اس جبر کی سختی برداشت ہو سکے گی یا نہیں!

رات کا خاصا حصہ گزر جانے پر یہ قافلہ لالٹین کی روشنی میں بھٹکتا اور ٹھوکریں کھاتا نالے کے اوپر چڑھتا نظر آیا۔ خادمہ کے ہاتھ میں کھانے پینے کے سامان کی ایک ٹوکری تھی کہ جب ایک شیطان سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو چکے تو دیوِ اشتہا کی تواضع کی جا سکے۔

مُہرِ سلیمانی کی تاثیر نے انہیں بُرج کے تہ خانے میں داخل کر دیا۔ طلسمی سپاہی آہنی صندوق پر ان کا منتظر بیٹھا تھا۔ اس کی ہدایت کے مطابق طلسم توڑنے کے سب رسمی مرحلے طے کئے گئے اور آخر دوشیزہ نے مُہرِ سلیمانی آہنی قفلوں سے لگا دی۔ مُہر لگتے ہی صندوق کا ڈھکن ایک جھٹکے کے ساتھ کھل گیا اور سونے کے سکوں، بیش بہا زیوروں اور نایاب جواہرات کی آب وتاب نے سب کی نظریں خیرہ کر دیں۔

"یہ ہے معاملے کی بات!" طالب علم خوشی سے چلا اٹھا اور جلدی جلدی اپنی جیبیں بھرنے لگا۔

"جلدی اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں" سپاہی نے نرمی سے کہا "چلو! پہلے صندوق کو باہر نکالیں اور پھر اس کے حصے بخرے کریں۔"

اس مشورے پر سب آگے بڑھے۔ لیکن کام آسان نہ تھا۔ صندوق بےحد وزنی تھا اور صدیوں سے اس جگہ رکھا تھا۔ سب تو صندوق کو باہر نکالنے میں مصروف تھے اور نیک دل پادری ایک کونے میں بیٹھا دونوں ہاتھوں سے کھانے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 205


کی ٹوکری پر حملہ کر رہا تھا کہ کسی طرح دیوِ اشتہا کو تسکین دے جس نے اس کی انتڑیوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ آن کی آن میں ایک فربہ بھنا ہوا مرغا اور ہسپانوی شراب کا ایک شیشہ آنتوں میں اتر گیا اور دیوِ اشتہا تسکین پا چکا تو پادری نے اظہارِ تشکر کے طور پر معصوم دوشیزہ کے رخساروں پر ایک شفقت آمیز بوسہ کی مُہر ثبت کر دی۔ یہ سب کچھ تہ خانے کے ایک گوشے میں بڑی خاموشی سے ہوا تھا لیکن کان اور زبان رکھنے والی دیواروں نے جیسے بڑی فتح مندی کے ساتھ اس کا پُرزور اعلان کر دیا۔ اور ایک معصوم بوسے نے جو طوفان اٹھایا وہ شاید آج سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا ہو گا۔ بوسے کی آواز پر سپاہی مایوسی سے چلا اٹھا۔ صندوق جسے آدھا اٹھایا جا چکا تھا ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر گرا اور پھر مقفل ہو گیا۔ پادری، خادمہ اور طالب علم تینوں نے اپنے آپ کو غار سے باہر کھڑا پایا اور اس کی دیوار بادل کی گرج کے ساتھ بند ہو گئی۔ افسوس! نیک دل پادری نے اپنا روزہ وقت سے پہلے کھول لیا تھا۔

خوف و حیرت کا غلبہ کم ہوا تو طالب علم نے پھر بُرج کے تہ خانے میں گھسنے کا ارادہ کیا، لیکن حیف! معصوم خادمہ جلدی میں مُہرِ سلیمانی تہ خانے کے اندر ہی چھوڑ آئی تھی۔

مختصر یہ کہ گرجا کے جَرس نے بارہ بجائے اور طلسم کا اثر پھر سے شروع ہو گیا۔ ابھی بےچارے سپاہی کی قسمت میں ایک صدی کی قید اور لکھی تھی۔۔۔۔ ایک صدی کی یا اس کے بعد آنے والی کئی صدیوں کی۔ وہ شاید آج بھی اسی تہ خانے میں قید ہو۔۔۔۔ محض اس لئے کہ نیک دل پادری نے حسین خادمہ کے رخساروں پر ایک معصوم بوسہ لیا تھا۔ "افسوس! شفیق بزرگ، افسوس!" واپس آتے ہوئے طالب علم نے پادری کو مخاطب کر کے کہا۔ اور سر کو جنبش دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی "شاید اس بوسے میں روح کم تھی اور نفس زیادہ۔"

طلسمی سپاہی کی داستان کا جتنا حصہ مستند سمجھا جاتا ہے وہ اس جگہ آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن روایت نے اس میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ طالب علم اپنی جیبوں میں اتنے سکے اور جواہرات بھر لایا تھا کہ اس کی باقی زندگی آسائش اور آسودگی سے گزری اور نیک نفس پادری نے اس غلطی کی تلافی کے لئے جو اس سے تہ خانے میں سرزد ہوئی تھی، اپنی حسین خادمہ کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔ حسین خادمہ جتنی اچھی خادمہ تھی اس سے بھی اچھی بیوی ثابت ہوئی اور اپنے شوہر کے گھر کو اولاد کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ پہلی اولاد ایک لڑکا تھا اور اس لحاظ سے حیرت انگیز تھا کہ گو ست ماہا تھا لیکن سب بچوں میں فربہ اور تندرست تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 206


طلسمی سپاہی کی داستان غرناطہ کی داستانوں میں سب سے زیادہ دلچسپی سے بیان کی جاتی ہے، گو اس کی تفصیلات میں جابجا اختلاف ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر عوام پوری طرح سے متفق ہیں یہ ہے کہ سینٹ جان کے تیوہار کے دن وہ اب بھی حدرۃ کے پُل پر سنگین انار کے قریب کھڑا ہو کر سنتری کی خدمت سرانجام دیتا ہے۔۔۔۔ گو سوائے ان معدودے چند خوش نصیب لوگوں کے جن کے پاس خاتمِ سلیمانی ہو، کسی کو نظر نہیں آتا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
قصص الحمرا


صفحہ ۔۔۔ 207


الحمرا کا گلاب


غرناطہ عرب بادشاہوں کے قبضے سے نکل کر عیسائی حکمرانوں کے ہاتھ میں آ گیا تو مدتوں تک انہوں نے اس دلفریب شہر کو اپنا مسکن رکھا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب زلزلوں کے پیہم صدمات نے یہاں کے شاندار محلوں کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ شاہی زمانے کے بُرج و مینار سربسجود نظر آنے لگے۔ اور عیسائی حاکموں نے خوفزدہ ہو کر ان شاہی مسکنوں کو خیرباد کہہ دیا۔

اس کے بعد سالہا سال غرناطہ کی خاک کسی شاہی مہمان کے قدوم سے محروم رہی۔ شاہی ایوانوں پر خاموشی و ویرانی مسلط رہی اور اس خاموشی ویرانی میں الحمرا کا قصر ایک مہجور حسینہ کی طرح، اپنے بےبرگ و گیاہ گلستانوں میں گھرا، سوگ کے دن گزارتا رہا۔ بُرج الامیرات جو کسی زمانے میں تین شہزادیوں کا مسکن تھا، اس عام بربادی و ویرانی اور غفلت کا شکار بنا۔ اس کے طلائی محرابوں پر مکڑیوں نے جالے بُن لئے اور جو ایوان کبھی زاہدہ، زبیدہ اور سریتہ کی جلوہِ گاہِ ناز تھے ان پر چمگادڑوں اور الوؤں کا قبضہ ہو گیا۔ اس حسین بُرج کی بربادی اور اس کی طرف سے لوگوں کی غفلت شعاری کا ایک سبب کسی حد تک وہ اوہام بھی تھے جن میں غرناطہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 208


کے رہنے والے مبتلا تھے۔ عام طور پر مشہور تھا کہ نوجوان سریتہ کی روح اب بھی ان ایوانوں میں منڈلاتی پھرتی ہے جنہوں نے اسے موت کی آغوش میں سلایا تھا۔ اب بھی چاندنی راتوں میں سریتہ انہیں مرمریں فوارے کے قریب بیٹھی ہوئی نظر آتی تھی اور اب بھی راتوں کو وادی میں سے گزرنے والے مسافروں کو اس کے نقرئی بربط کے نغمے سنائی دیتے تھے۔

لیکن ایک دن ایسا آیا کہ غرناطہ کی ویرانیوں میں پھر بہار آئی۔ فلب پنجم نے کچھ عرصہ کے لئے الحمرا کو اپنے قیام کا شرف بخشا۔ اس نامور شہنشاہ اور اس کی حسین ملکہ ازابیلا کے خیر مقدم کے لئے الحمرا کو ایک بار پھر سنوارا اور سجایا گیا۔ ویران اور سنسان قصر میں ایک بار پھر ہر طرف آوازیں گونجنے لگیں۔ طبل و قرنا کے شور اور گھوڑوں کی آمد و رفت سے روشوں اور میدانوں میں ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی۔ بُرجوں اور فصیلوں پر اسلحوں کی چمک دمک اور پرچموں اور پھریروں کی پھڑک نے ایک بار پھر قصر کے شاہانہ ماضی کی یاد تازہ کر دی۔

قصر کے بیرونی حصوں میں شاہانہ عظمت و شکوہ کا یہ عالم جلوہ تھا۔ لیکن قصر کے اندرونی گوشوں میں ایک خاص طرح کی نزاکت و نفاست اور نرمی تھی۔ وہاں کے ایوانوں اور شہ نشینوں میں خلعتوں کی پُراسرار سرسراہٹ اور مہذب و مؤدب درباریوں کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں تھیں، باغوں کی روشوں اور کُنجوں میں ادھر سے ادھر آنے جانے والی کنیزوں اور غلاموں کے قدموں کی چاپ تھی اور دریچوں میں سے چھپ چھپ کر نکلنے والے نغموں کی صدا کا طلسم و سحر۔

اس شاہانہ جلوس کے ساتھ جن بےشمار لوگوں نے الحمرا کے قصر کو رونق بخشی ان میں شہزادی کا مقرب ایک غلام بھی تھا جس کا نام رویس ارکونی تھا۔ اس غلام کی تعریف میں صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ شہزادی کا مقرب خاص تھا اس لئے کہ پرشکوہ ازابیلا کے غلاموں میں سے ہر ایک نفاست، حسن اور تہذیب کا مجسمہ تھا۔ ارکونی کی عمر ابھی مشکل سے اٹھارہ سال کی تھی۔ شہزادی سے وہ بےحد ادب و احترام سے پیش آتا تھا لیکن حقیقت میں وہ شوخیوں اور شرارتوں کا پتلا تھا۔ محل کے نسائی حسن و جمال نے اس کی ساری معصومیت ختم کر دی تھی اور اسے اس کم سنی میں بھی عورتوں کی دنیا کا غیر معمولی تجربہ تھا۔

یہ آزاد منش غلام ایک دن جنتِ عریف کے کُنجوں میں گل گشت کر رہا تھا ۔ دل بہلانے کے لئے وہ شہزادی کا ایک باز اپنے ساتھ لیتا آیا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر ایک چڑیا پر پڑی جو ایک جھاڑی میں سے نکل کر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 209


اوپر جا رہی تھی۔ غلام نے باز کو چڑیا کے پیچھے چھوڑ دیا۔ باز تیزی سے پرواز کرتا ہوا اوپر چڑھ گیا اور بلندی سے اپنے شکار پر جھپٹا۔ لیکن اس کا نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا اور وہ اسے چھوڑ کر اونچا اڑتا چلا گیا۔ غلام نے اسے واپس بلانے کے لئے ہزار جتن کئے لیکن وہ نیچے نہ اترا۔ گلام نظر سے اس کا پیچھا کرتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ اوپر جاتے جاتے باز نے نیچے اترنا شروع کیا اور الحمرا کی بیرونی فصیل سے دور ایک ایسے بُرج پر جا بیٹھا جو قصرِ الحمرا اور جنتِ عریف کو ایک دوسرے سے الگ کرتا تھا۔ حقیقت میں یہی برج تھا جسے لوگ "بُرج الامیرات" کہتے تھے۔

غلام وادی میں سے گزر کر اس برج کے قریب پہنچ گیا۔ لیکن اسے برج میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا، اور اس کی بلندی اس کے لئے قطعی ہمت شکن تھی۔ اس لئے ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ برج کے اس رخ کی طرف پہنچ گیا جو قصر کی دیواروں کی طرف تھا۔

برج کے سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا جو سرکنڈے اور حِنا کے ایک جنگلے سے گھرا ہوا تھا۔ پھولوں کی کیاریوں اور گلاب کی جھاڑیوں میں ہوتا ہوا، غلام بُرج کے دروازے تک جا پہنچا۔ دروازہ بند اور مقفل تھا۔ دروازے میں ایک باریک سی جھری تھی جس میں سے برج کے اندر کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ جھری میں سے اسے ایک کشادہ دالان نظر آیا، جو نازک مرمریں ستونوں کے سہارے قائم تھا۔ دالان میں سنگِ سیاہ کا ایک فوارہ تھا، جس کے چاروں طرف پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ دالان کے وسط میں ایک سونے کا پنجرہ ٹنگا ہوا تھا جس میں ایک گانے والی چڑیا بند تھی۔ پنجرے کے عین نیچے ایک چوکی پر ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ایک بلی بیٹھی تھی۔ بلی کے پاس زچہ خانہ کا پورا سامان رکھا ہوا تھا اور فوارے کے سہارے ایک ستار رکھا تھا جسے رنگین فیتوں سے سجایا گیا تھا۔

اس دور افتادہ اور بظاہر ویران بُرج میں نسوانی ذوق کی یہ نازک اور نفیس چیزیں دیکھ کر رویس الارکونی متحیر رہ گیا۔ ان چیزوں کو دیکھ رکر اس کے ذہن میں وہ پراسرار داستانیں گردش کرنے لگیں جو وہ الحمرا کے متعلق لوگوں سے سنا کرتا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی یہ بلی کوئی شہزادی تو نہیں۔

اس نے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دی۔ برج کی بالائی منزل کے ایک دریچے میں سے ایک حسین چہرہ دکھائی دیا اور فوراً ہی نظر سے اوجھل ہو گیا۔ وہ کچھ دیر منتظر رہا کہ شاید کوئی دروازہ کھولنے آئے۔ لیکن کوئی نہ آیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 210


اندر بھی قدموں کی آہٹ سنائی نہ دی۔ ہر طرف مکمل سکوت تھا۔ وہ سوچنے لگا، کہیں میری آنکھوں نے دھوکا تو نہیں کھایا؟ کہیں یہ حسین سایہ برج کی پری کا سایہ تو نہیں تھا؟ اس نے دروزہ پھر کھٹکھٹایا اور اس مرتبہ پہلے سے زیادہ زور سے کھٹکھٹایا۔ چند لمحوں کے بعد حسین چہرہ پھر دریچے میں چمکا۔ یہ حسین چہرہ شباب و رعنائی سے مخمور ایک پانز دہ سالہ دوشیزہ کا تھا۔

دوشیزہ کو دیکھتے ہی رویس نے اپنی پَروار ٹوپی پر ہاتھ رکھا اور بڑے بُرج میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی۔

اس کی مودبانہ التجا پر حسین دوشیزہ نے شرما کر جواب دیا "جناب! میں دروازہ نہیں کھول سکتی۔ میری چچی نے مجھے منع کرر کھا ہے۔"

"حسین خاتون! میں آپ سے پھر التجا کرتا ہوں۔۔۔۔ میں جس باز کی تلاش میں جا رہا ہوں وہ ملکہ ازابیلا کا چہیتا باز ہے، اور میری مجال نہیں کہ میں اسے لئے بغیر محل میں داخل ہو سکوں۔"

"تو جناب! کیا آپ شاہی دربار کے سردار ہیں؟"

"ہاں! حسین خاتون! آپ کا خیال درست ہے۔ لیکن اگر مجھے یہ باز نہ ملا تو مجھ پر ملکہ کا عذاب نازل ہو گا اور مجھے شاہی دربار سے الگ کر دیا جائے گا۔"

"معصوم مریم کی قسم! اور میری چچی نے مجھے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ شاہی دربار کے سرداروں کے لئے بُرج کا دروازہ ہر گز نہ کھولوں۔"

"کی ہو گی! لیکن ان کی یہ ہدایت بداطوار سرداروں کے لئے ہو گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر گز ویسا نہیں ہوں۔ میں تو ایک سیدھا سادا بےضرر سا غلام ہوں اور اگر آپ نے میری یہ معمولی سی درخواست رد کر دی تو بالکل تباہ و برباد ہو جاؤں گا۔"

غلام کی پریشانی دیکھ کر دوشیزہ پسیجی۔ وہ اپنے دل میں سوچنے لگی 'کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے اس معمولی سے انکار سے اس پر تباہی آ جائے اور پھر یہ نوجوان یقیناً ان خطرناک سرداروں جیسا نہیں جنہیں چچی جان شیطان کی نسل بتاتی ہیں، اور جو ہر وقت معصوم دوشیزاؤں کو اپنے فریب کے جال میں پھنسانے کی فکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صفحہ نمبر 211


میں لگے رہتے ہیں۔ یہ نوجوان تو سیدھا اور بھولا بھالا ہے اور مجھ سے بڑے ادب التجا کر رہا ہے اور پھر دیکھنے میں حسین بھی ہے۔

عیّار نوجوان کو دوشیزہ کے سینے میں اُٹھتے ہوئے ہلکے سے طوفان کا پتہ چل گیا اور اُس نے اپنی التجاؤں میں ایسی رقت پیدا کی کہ حسین دوشیزہ کے لیے انکار ممکن نہ رہا۔ بُرج کی وہ ننھی شرمیلی پاسبان نیچے اُتری اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بُرج کا دروازہ کھول دیا۔ نوجوان غلام جس روئے زیبا کی ایک ہلکی سی جھلک پر فریفتہ ہوا تھا۔ اُس کے قدِ رعنا کے نظّارے نے اُسے دیوانہ بنا دیا۔

دوشیزہ کی اُندلسی کُرتی اور چست فراک نے اُس کے جسم کے تناسب کو نمایاں کر دیا تھا اور ایک ہی نظر میں یہ معلوم کر لینا مشکل نہ تھا کہ حُسن شباب کی منزل میں قدم رکھنے والا ہے۔ اُس کے بال چمک دار تھے اور مانگ میں کہکشاں کی سی راستی و ہمواری تھی۔ اُس کے حسین جوڑے میں، اندلس کے عام دستور کے مطابق ایک تازہ شگفتہ گلاب لگا ہوا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اُس کے چنپئی رنگ میں سنہرے پن کی ہلکی سی جھلک تھی، لیکن اس سنہرے پن سے اُس کے رخساروں کی شادابی زیادہ بڑھ گئی تھی، اور اُس کی رسیلی آنکھوں کے نور میں زیادہ چمک پیدا ہو گئی تھی۔

رویس کی عیّار نظروں نے ایک ہی آن میں حُسن کے مجسمے کا پورا جائزہ لے لیا تھا۔ لیکن وہاں ٹھہرنے کے بجائے اُس نے منہ ہی منہ توصیف کے کچھ کلمات کہہ کر تیزی سے بُرج کی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کر دیا۔ چند لمحوں میں وہ باز کو اپنے ہاتھ پر بٹھائے نیچے آ گیا۔ اتنی دیر میں دوشیزہ فوؔارے کے قریب بیٹھ کر ریشم لپیٹنے میں مصروف ہو گئی تھی۔ لیکن جلدی اور گھبراہٹ میں ریشم کی چرخی فرش پر گر پڑی۔ غلام نے ایک جست لگائی، چرخی اُٹھائی اور اپنے ایک گھٹنے کے بل جھُک کر اُسے بڑے ادب سے دوشیزہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ دوشیزہ نے چرخی لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تا اُس نے اپنے لب دستِ نازک پر رکھ کر بڑے جوش اور اعتقاد سے اُسے چوم لیا۔

گھبراہٹ اور پریشانی سے دوشیزہ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ اس لیے کہ وہ سلام و پیام کے اس انداز سے قطعی نا آشنا تھی۔ اُس نے چلّا کر کہا "جناب! یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟"

منکسر مزاج غلام مجسّم معذرت بن گیا اور دوشیزہ کو یقین دلایا کہ جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ احترام و عقیدت کے اظہار کا درباری طریقہ ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔


صفحہ نمبر 212


دوشیزہ کا غصہ، اگر واقعی ُسے غصہ کہا جا سکے، فوراً دور ہو گیا۔ لیکن اُس کی الجھی اور پریشانی کم نہ ہوئی۔ اُس کے شرمیلے چہرے کی سُرخی برابر بڑھتی رہی۔ نظریں نیچی کیے وہ ریشم کو سلجھانے کے بجائے اُسے الجھاتی رہی۔

عیّار غلام کو حریف کے صفوں کے انتشار کا پتہ چل گیا۔ وہ یقیناً اس انتشار سے پورا فائدہ اُٹھاتا، لیکن دل میں پیدا ہونے والی شاعری اُس کے لبوں تک نہ آ سکی۔ اظہارِ محبت کے سارے حربے اُسے حربے اُسے اوچھے اور بے اثر معلوم ہونے لگے۔ اور میدانِ عاشقی کا وہ جاں باز جو دربار اور محل کی حد درجہ تجربہ کار اور عشوہ ساز خاتونوں سے بازی لے جاتا تھا، پندرہ سال کی ایک سادہ و معصوم دوشیزہ کے سامنے بے دست و پا نظر آ رہا تھا۔ وہ مرعوب تھا۔ وہ شرما رہا تھا، کتنی حیرت کی بات تھی۔

سادہ دل اور معصوم دوشیزہ کی سادگی و معصومیت اُن آہنی سلاخوں اور مقفل دروازوں سے زیادہ اُس کی محافظ و نگہبان تھی جن میں اُس کی دور اندیش چچی نے اُسے قید کر رکھا تھا۔ لیکن دل جب پہلے پہل محبت کی سرگوشی سُن لے تو کوئی بڑے سے بڑا نگہباں بھی اُس کا محافظ نہیں بن سکتا۔ سادہ و معصوم دوشیزہ کے نادان و بے خبر دل نے نہ جانے کیسے وہ ساری باتیں سُن لیں جو غلام کے دل سے اُس کے لبوں تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ اور اُس کا طائر دل پہلی مرتبہ اپنے قدموں میں ایک عاشق کو، ایسے حسین دیکھ کر، سینے کے قفس میں پھڑپھڑا اُٹھا۔

غلام پر جو اب تک بے خودی طاری تھی وہ رفتہ رفتہ دور ہو رہی تھی اور آہستہ آہستہ اُس کا سویا ہوا اعتماد بیدار ہو رہا تھا کہ دور سے آنے والی ایک کرخت آواز نے اسے چونکا دیا۔

دوشیزہ نے گھبرا کر کہا "میری چچی آ گئیں۔ جناب! خدا کے لیے آپ چلے جائیے"

"صرف اس شرط پر کہ جوڑے میں لگا ہوا گلاب مجھے نشانی کے طور پر مل جائے"

دوشیزہ نے تیزی سے گلاب اپنے جوڑے سے نکالا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اُس کے ہاتھ پر رکھ کر چلائی "یہ لیجیے اور خدا کے لیے فوراً چلے جائیے"

نوجوان نے گلاب لے لیا اور گلاب دینے والے حسین ہاتھ پر بوسوں کی بارش کر دی۔ گلاب اپنی ٹوپی میں لگایا، باز کو اپنی مُٹھی پر بٹھایا اور ایک جست میں جھاڑیوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ لیکن جاتے ہوئے دوشیزہ کا دل اپنے ساتھ لیتا گیا۔


صفحہ نمبر 213


چچی کی تیز نظروں نے آتے ہی بھتیجی کے چہرے پر بکھری ہوئی حیرانی اور دالان کی فضا میں پھیلی ہوئی پریشانی کو دیکھ لیا۔ لیکن بھتیجی کے اس جوان نے سارے شبہے دور کر دئیے "ایک باز ایک چڑیا کا پیچھا کرتا ہوا یہاں گُھس آیا تھا"

"اللہ رحم کرے! بھلا کبھی کسی نے سُنا ہے کہ باز گھروں کے اندر گھستے پھریں۔ کیسا زمانہ ہے۔ بھلا ایسی حالت میں پنجرے کی چڑیاں بھی کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں!"

دور اندش ع دور بین فریدو جندا سے زیادہ وہمی بڑھیا شاید ہی دنیا میں کوئی ہو۔ اُس کے دل میں "جنسِ غیر" کی طرف سے حد درجہ کاخوف اور بے اعتمادی کا سبب یہ ہرگز نہیں تھا کہ اُسے اِس "جنسِ غیر" کے ہاتھوں کوئی تکلیف پہنچی ہو، اس لیے کہ قدرت نے اُسے ایسا حسنِ طاہر عطا کیا تھا کہ اس کی نگہبانی میں وہ ہر طرح کے بیرونی حملے سے محفوظ تھی۔ لیکن قاعدہ ہے کہ جو خاتوین خود اس طرح کے حملوں سے قطعی محفوظ ہوتی ہیں وہ اپنے زیادہ دلکش اور حسیں ہمسایوں کی پاسبانی کا فرض اپنے ذمے لے لیتی ہیں۔

دور اندیش چچی کی یہ حسین و معصوم بھتیجی ایک فوجی افسر کی بیٹی تھی جو میدانِ جنگ میں مارا جا چکا تھا۔ اُس کی تعلیم ایک کانونٹ میں ہوئی تھی۔ اُسے حال ہی میں اُس مقدس پناہ گاہ سے چچی کے گھر منتقل کیا گیا تھا اور وہ اُس کے سایہ عاطفت میں اسی طرح پرورش پا رہی تھی جیسے جھاڑیوں میں چُھپی ہوئی گلاب کی کلی۔ یہ تشبیہہ محض اتفاقی نہیں اس لیے کہ حقیقت میں اس دوشیزہ کا تازہ اور اُبھرتا ہوا حسن، اس گوشہِ تنہائی میں بھی لوگوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہا تھا اور اندلس کے نظر بازوں نے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں اُس کے حسنِ مجسم کو "الحمرا کا گلاب" کا لقب دیا تھا۔

جب تک شاہ فلپ اور اُس کے درباری غرناطہ میں رہے دور اندیش چچی نے اپنی حسین اور دلربا بھتیجی پرخوب گہری نظر رکھی اور اُسے اِس بات کی خوشی تھی کہ اُس کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ یہ صحیح ہے کہ اس نیک دل خاتون کو جب کبھی کبھی چاندنی راتوں میں بُرج نے نیچے والے کنجوں میں سے ستار کی جھنکار اور محبت کے نغموں کی پکار سنائی دیتی تو وہ بے حد پریشان ہوتی لیکن اُس نے بھتیجی سے تاکید کر رکھی تھی کہ وہ اِن آوازوں کی طرف دھیان نہ


صفحہ نمبر 214


دے اس لیے کہ ستار کے نغمے اور محبت کے گیت پر فن مردوں کے بنائے ہوئے ایسے فریب ہیں جو سادہ دل عورتوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس! نیک دل خاتون کو شاید اس کی خبر نہیں تھی کہ سادہ دل دوشیزاؤں کے لیے چاندنی راتوں کے گیت پند و وعظ سے کہیں زیادہ شیریں و دلکش ہوتے ہیں۔

شاہ فلپ تھوڑے دن غرناطہ میں رہ کر اپنے امیروں وزیروں کے ساتھ وہاں رخصت ہوا۔ باخبر و جندرا نے شاہی قافلے کو باب العدل سے نکلتے اور شاہرہ کے راستے شہر کی طرف جاتے دیکھا۔ جن قافلے کا آخری پرچم بھی اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو وہ خوش خوش بُرج کے اندر آئی کہ آج اُس کی پریشانیوں کا خاتمہ ہوا۔ لیکن اُسے ایک بات دیکھ کر سخت حیرت ہوئی۔ باغ کے دروازے کے قریب ایک شاندار عرب گھوڑا کھڑا تھا۔ اور گلاب کی جھاڑیوں کی آڑ میں، زرتار خلعت میں ملبوس ایک نوجوان اُس کی بھتیجی کے قدموں پر جھکا ہوا تھا۔ قدموں کی چاپ سنتے ہی نوجوان سردار نے اُس کی بھتیجی کو خدا حافظ کہا اور سرکنڈے اور حنا کے جنگلے پر جست لگاتا ہوا اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور آن کی آن میں آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

نازک دل دوشیزہ، شدتِ غم میں ہر بات بھول گئی اور چچی کے غصے کی پروا کیے بغیر اُس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ وہ رو رو کر کہہ رہی تھی "ہائے اللہ! وہ چلا گیا! وہ چلا گیا! وہ چلا گیا! اور اب میں اُس سے کبھی نہیں مل سکوں گی۔"

"چلا گیا!۔۔۔۔۔۔۔۔ کون چلا گیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون نوجوان تھا جو تیرے قدموں میں جھکا ہوا تھا؟"

چچی جان! وہ ملکہ الزبتھ کا ایک غلام تھا اور مجھے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔"

"ملکہ کا غلام!" چچی نے چیخ کر اُس کے لفظ دہرائے "اور ملکہ کے اس غلام سے تمہاری ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟"

"جس دن برج میں آیا تھا۔ وہ باز ملکہ کا تھا اور یہ نوجوان غلام اُسے پکڑنے یہاں آیا تھا۔"

"افسوس! نادان لڑکی! یاد رکھ کہ باز اتنے خطرناک ہرگز نہیں ہوتے جتنے یہ آوارہ گرد غلام۔ اور تم جیسی بھولی بھالی چڑیاں ہیں جو اُن کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔"

پہلے تو چچی کو اس بات پر بے حد غصہ آیا کہ اُس کی احتیاط اور نگرانی کے باوجود اُس کی بھتیجی محبت


صفحہ نمبر 215


کا معصوم کھیل کھیلتی رہی ہے، لیکن جب اُسے پتہ چلا کہ بظاہر "جنسِ غیر" کے مکر و فریب کی آگ میں گرنے کے باوجود بھتیجی کا دامن اُس کے شعلوں سے محفوظ رہا ہے تو اُس نے اپنے دل کو یہ سوچ کر تسکین دے لی کہ اُس کی پاکدامنی نیکی کے اُن اُصولوں کا نتیجہ ہے جن سے چچی نے اُسے سر تا پا مسلح کر دیا تھا۔

چچی اپنے احساسِ فخر کے زخم پر یہ مرہم رکھ کر سکون حاصل کر رہی تھی اور بھتیجی نوجوان عاشق کی زبان سے بارہا سنے ہوئے وفاداری کے وعدوں کو ایک بیش بہا خزانے کی طرح اپنے پسینے میں محفوظ رکھ کر مسرور و شادماں تھی۔ لیکن مرد کی بے قرار اور ہرجائی محبت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک بہتی ہوئی ندی جو تھوڑی دیر ساحل پر لگے ہوئے ہر پھول سے اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے اور پھول فراق کے غم میں آنسو بہاتے رہ جاتے ہیں۔

دن، ہفتے، مہینے گزرتے چلے گئے اور کسی غلام کی کوئی خبر نہ سُنی۔ انار پک گئے، انگوروں کی بیل گچھوں سے لد گئی، خزاں کی بارشوں کے طوفانوں نے پہاڑوں سے میدانوں کا رُخ کیا، سرانوادا کی پہاڑیوں نے برفانی فرغل اوڑھے، اور سرد ہواؤں کا شور الحمرا کے ایوان اور دالانوں میں گونجا۔۔۔۔ لیکن وہ نہ آیا۔ سردیاں رخصت ہوئیں اور حیات آفرین بہار، نغموں، پھولوں اور خوشبوؤں کے قافلے کے ساتھ ایک بار پھر لوٹ کر آئی۔ پہاڑوں کی سفید برف پگھلی اور نوادا کی بلند و بالا چمکتی ہوئی چوٹیوں کے سوا اُس کا نام و نشان نہ رہا۔ پھر بھی کسی نے اُس بھولنے والے کی کوئی خبر نہ سنائی۔

معصوم اور ننھی دوشیزہ کے چہرے پر زردی چھا گئی۔ وہ ہر وقت کسی خیال میں گم رہنے لگی۔ اُس نے اپنے پچھلے مشغلے ترک کر دئیے۔ پچھلی دلچسپیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا۔ اُس کا ریشم الجھا پڑا رہا۔ اُس کے ستار ڈھیلے پڑ گئے، پھولوں کو اپنی توجہ سے شگفتہ رکھنے والا اور خوش نوا بلبل کے نغمے سننے والا کوئی نہ رہا۔ لگاتا بہنے والے آنسوؤں نے اُس کی آنکھوں کی چمک مدھم کر دی۔ اگر فرقت زدہ دوشیزہ کے غم کے پرورش کے لیے کوئی گوشہ منتخب کیا جا سکتا تھا تو وہ الحمرا تھا، جہاں کے ذرے ذرے میں محبت کے نرم و شیریں تصورات کو بیدار رکھنے کی خاصیت ہے۔ الحمرا محبت کرنے والوں کی بہشت ہے۔ اس بہشت میں تنہا رہنا کتنا بڑا ستم ہے۔۔۔ محبوب سے دور اس کے وصال سے مایس:

نیک دل چچی اُسے اس حال میں دیکھ کر اُس سے کہتی "نادان بچی! کیا میں نے تجھے مردوں کے مکر و فریب سے

صفحہ 216

آگاہ نہیں کر دیا تھا؟ تجھے۔۔۔ جو یتیم ہے اور غریبوں کے ایک بدحال گھرانے کی بیٹی ہے۔ امیری کی گود میں پلے ہوئے کسی
نوجوان سے کیا توقع ہو سکتی ہے ؟ میری بچی اچھی طرح سمجھ لے کہ اگر تیرا نوجوان عاشق سچا بھی ہوتا تو اس کا باپ جو شاہی دربار کا ایک بڑا مغرور امیر ہے، کبھی یہ بات گوارا نہ کرتا کہ اس کا بیٹا ایسی کم حیثیت اور نادار لڑکی کو اپنی بیوی بنائے جیسی کہ تو ہے۔ اس لئے میری بچی، ہمت سے کام لے اور نادانی کے یہ خیال اپنے سے دور کر۔"
چچی کی نصیحتیں بھتیجی کے غم کو اور بھی بڑھاتیں اور وہ تنہائی میں پہلے سے بھی زیادہ آنسو بہاتی۔ گرمی کی ایک رات کا ذکر ہے جب چچی کو نیند آ گئی اور بھتیجی بُرج کے دالان میں تنہا رہ گئی تو وہ فوارہ کے قریب آ کر بیٹھ گئی ۔ یہی جگہ تھی جہاں بے وفا غلام نے پہلی مرتبہ اس کے قدموں میں گر کر اس کے ہاتھ کو چوما تھا۔ یہی جگہ تھی جہاں اس نے بارہا وفاداری کی قسمیں کھائی تھیں۔ ننھی اور معصوم دوشیزہ کا دل محبت کی غمگین یادوں سے ابل رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئےاور وہ ایک ایک کر کے فوارہ کے پانی میں ٹپکنے لگے۔ آنسو کے قطروں سے شفاف پانی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھنے لگیں۔۔۔ لہریں بلبلے بنیں ، بلبلے بھنور بن گئے اور ابلتے ہوئے پانی کی تہہ میں سے ایک نسوانی مجسمہ انھرنا شروع ہوا۔ اور دیکھتے دیکھتے بیش بہا عربی ملبوسات سے مزیّن ایک پری جمال عورت سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
دوشیزہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگی اور پھر وہاں لوٹنے کی ہمت نہ کی۔ صبح کو اس نے یہ ساری بات اپنی چچی کو سنائی لیکن چچی نے اسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ سب کچھ محض اس کی پریشاں خیالی کا نتیجہ ہےیا شاید اس نے رات کو کائی خواب دیکھا ہے جسے وہ حقیقت سمجھ رہی ہےاس نے اپنی بھتیجی سے کہا، " بیٹی ! تمہارے دماغ میں شاید تین عرب شہزادیوں کی داستان چکر لگا رہی تھی ، وہی تمہیں خواب میں نظر آئی۔ "
چچی جان کون سی داستان ؟ میں نے وہ کبھی نہیں سنی۔"
" نہیں بیٹی تم نے زاہدہ، زبیدہ اور سریتہ کے نام ضرور سنے ہوں گے۔ ان تین عرب شہزادیوں کے باپ نے یہ بُرج انھیں کے لئے بنوایا تھا۔ یہیں انھیں تین عیسائی سرداروں سے محبت ہوئی۔ ان میں سئٓے دو اپنے محبوبوں کے ساتھ ان کے مُلک کو چلی گئیں ۔ لیکن تیسری شہزادی کسی طرح اپنے آپ کو جانے پر آمادہ نہ کر سکی اور فراق کے دن

ریختہ صفحہ 217
بسر کر کے اسی بُرج میں اس کا انتقال ہوا۔ "
" جی ہاں مجھے یاد آیا۔میں نے یہ کہانی سنی ہے اور اس بد نصیب شہزادی کے حال پر بارہا روئی بھی ہوں ۔ "
"تمہارا شہزادی کی قسمت پر رونا ٹھیک ہی ہے اس لئے کہ اس بدنصیب شہزادی کا عاشق تمہارے عاشق کے خاندان کا ایک بزرگ تھا۔ اسے بھی بہت دن تک اس کی عرب محبوبہ کی محبت ستاتی رہی لیکن وقت نے آخر اس کے زخم پر مرہم رکھ دیا۔ اس نے ایک ہسپانوی عورت سے شادی کر لی اور تم اسی کی اولاد ہو۔"
دوشیزہ چچی کی باتوں پر جھنجھلا اٹھی اور اپنے دل میں سوچنے لگی" جو کچھ میں نے کہا ہے وہ وہم ہر گز نہیں۔ مجھے اپنی بات پر پورا یقین ہے، جس حسین شہزادی کو میں نے دیکھا ہے اگر وہ بدنصیب سریتہ کی روح ہے تو مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں آج رات کو پھر فوارے کے پاس جا کر بیٹھوں گی۔ ممکن ہے کہ شہزادی مجھے آج بھی نظر آ جائے۔"
آدھی رات کے قریب جب ہر طرف سناٹا چھا گیا وہ فوارے کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ جب الحمرا کے گھنٹہ گھر میں بارہ بجے تو فوارے کے پانی میں پھر کل کی طرح بُلبلے اٹھے اور بھنور کے بیچ میں سے حسین شہزادی ابھر کر اوپر آ گئی۔ شہزادی جوان تھی حسین تھی اور اس کا جسم بیش بہا ملبوسات و زیورات سے آراستہ تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک نقرئی بربط تھا۔
وہ اس حسین مجسمے کو دیکھ کر کانپی اور بے ہوش ہو گئی۔ لیکن شہزادی کی نرم اور شیریں آواز نے اسے ہوشیار کیا اور اس کا زرد ، اداس اور پیارا چہرہ دیکھ کر اس کا سارا خوف جاتا رہا۔
شہزادی کی روح نے اسے مخاطب کیا " اے انسان کی بیٹی! تمہیں کیا دکھ ہے؟ تم اپنے آنسوؤں سے میرے فوارے میں کیوں تلاطم پیدا کرتی ہو؟ اور کیوں اپنی سرد آہوں سے رات کے سکون اور خاموشی میں خلل ڈالتی ہو؟"
" شہزادی! میں روتی ہوں اس لئے کہ ایک مرد نے مجھس ے بے وفائی کی اور میں اہیں بھرتی ہوں کہ تنہا اور بے یار و مددگار ہوں"
اے معصوم دوشیزہ گھبرا مت۔ شاید تیرے غموں کا خاتمہ ہو جائے۔ دیکھ ! ایک عرب شہزادی تیرے سامن

صفحہ 218
موجود ہے۔ اسے بھی تیری طرح اس کی محبت نے دکھ دیا۔ایک عیسائی سردار نے جو تیرے ہی گھرانے کاا یک بزرگ تھا ۔ میرے دل پر قبضہ کیا ۔ ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے اپنے دیس لے جاتا اور میں بھی اسی کی طرح عیسائی ہو جاتی۔ دل سے تو میں یوں بھی عیسائی تھی لیکن مجھ میں ہمت کی کمی تھی اور میں آخر دم تک کوئی فیصلہ نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ وقت نکل گیا۔ اسی جرم کی سزا میں مَیں آج بُری روحوں کے قبضے میں ہوں اور اس وقت تک اس برج میں قید رہوں گی جب تک کوئی سچا عیسائی مجھے اس طلسم سے رہائی نہ دلائے۔ کیا تم میری خاطر یہ کام کرو گی؟
"ضرور کروں گی" دوشیزہ نے کانپتے ہوئے جواب دیا۔
" تو آگے بڑھو ! اور ڈرو مت۔ اپنی انگلیاں حوض میں ڈالو اور مجھ پر اس طرح پانی چھڑکو جیسے کسی کو عیسائی بناتے وقت چھڑکتے ہیں۔ اس طرح یہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور میری بے چین روح کو سکون حاصل ہو گا۔
دوشیزہ کانپتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھی، اپنی انگلیاں فوارے کے پانی میں بھگوئیں اور اسے شہزادی کی روح کے زرد چہرے پر چھڑک دیا۔
شہزادی کے چہرے پر احسان مندی کی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے اپنا نقرئی بربط اپنی محسنہ کے پیروں میں ڈال دیا اور اپنے مرمریں بازوؤں کو اپنے سینے پر رکھ کر نظر سے اوجھل ہو گئی اور یوں محسوس ہوا جیسے فوارے کے پانی میں اوس کے قطروں کی بارش ہوتے ہوتے تھم گئی۔
دوشیزہ متحیّر اور خوف زدہ فوارے کے پاس سے آئی اور پلنگ پر لیٹ گئی۔ لیکن اس کی آنکھ ایک منٹ کو بھی نہ جھپکی۔ جب صبح کے وقت وہ اپنے بستر سے اٹھی تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ اس نے ایک حسین خواب دیکھا ہے۔ لیکن جب دالان میں جا کر اس نے دیکھا کہ نقرئی بربط فوارے کے پاس پڑا چمک رہا ہے تو اسے یقین ہو گیا کہ جسے وہ خواب سمجھ رہی ہے وہ حقیقت ہے۔
وہ دوڑی ہو ئی اپنی چچی کے پاس گئی اور رات کی ساری روداد اسے سنائی۔ فوارے کے قریب پڑے ہوئے بربط نے اس کی تصدیق کی اور جب اس نے بربط کے تاروں کو چھیڑا تو اس میں سے ایسے دل آویز نغمے پھوٹ پڑے کہ چچی کے بے حس سینے میں بھی تلاطم برپا ہو گیا۔ اس کا یخ بستہ دل بھی نغموں کی گرمی سے پگھلنے لگا اور یہ تاثیر صرف ایسے ہی نغمے میں ہو سکتی ہے جس کی اصل ارضی نہیں سماوی ہو۔

ریختہ صفحہ 219
بربط کی ساحرانہ تاثیر روز بروز زیادہ نمایاں ہوتی گئی۔ بُرج کے قریب سے گزرنے والے راہگیر چلتے چلتے تھک جاتے اور دم بخود ہو کر نغموں کے سحر میں گم رہتے۔ خوش نو طائر آس پاس کے درختوں پر آ بیٹھتے اور اپنی خوش نوائی بھول کر خاموشی سے بربط کے نغمے سنتے رہتے۔
بربط کے نغموں کی خبر آہستہ آہستہ عام ہوئی اور غرناطہ کے رہنے والے الحمراء کی چاردیواری کے گرد اکٹھے ہونے لگے کہ شاید امیرات کے برج سے باہر نکلنے والے آسمانی نغمے کبھی ان کے کانوں میں بھی پڑ جائیں۔
اور بالآخر یہ ہوا کہ ننھے بربط نواز کو اپنے گوشہءتنہائی سے باہر نکلنا پڑا۔ غرناطہ کے امیر اور با اثر رئیس اس کی مہمانی کو اپنے لئے باعثِ شرف جانتے۔ وہ شہر کے معززین کو دعوت دیتے کہ ان کے قصروں اور حویلیوں میں آ کر اس کی بربط کے ساحرانہ نغموں سے لطف اندوز ہوں۔ ننھی مطربہ جب کسی امیر یا رئیس کے گھر جاتی تو اس کی چچی اس کے ساتھ رہتی اور اسے پرستاروں کے اس ہجوم سے دور رکھتی جو اس کے نغموں پر دیوانہ وار سر دھنتا تھا۔ان نغموں کی ساحرانہ تاثیر کا شہرہ دور دور پھیلا۔ طلیعہ، اشبیلیہ، قرطبہ سب ایک ایک کر کے اس طلسم کے اسیر ہوئے۔الحمرا کی بربط نواز حسینہ پورے اندلس کا واحد موضوعِ سخن بن گئی۔ اور اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟ اندلسی موسیقی کے دیوانے اور رومان پرست، بربط کی تاثیر ساحرانہ اور بربط نواز محبت کے نشے سے مخمور۔
اندلس کی پوری سر زمین تو نغمہ کےساحرانہ طلسم میں مبتلا تھی لیکن اسپین کے دربار کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ فلپ پنجم کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ بیچارہ بری طرح وہم کے پھندے میں گرفتار تھا اور یہ وہم ہر آن ایک نئی صورت اختیار کرتا تھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ طرح طرح کی بیماریوں کا وہم اسے ہفتوں صاحبِ فراش رکھتا۔ کبھی اس کے دل میں یہ سودا سماتا کہ تخت و تاج سے کنارہ کش ہو جائے۔ مختصر یہ کہ فلپ پر وہم کے یہ زہریلے دورے برابر پڑتے رہتے اور موسیقی کا تریاق ان کا واحد علاج تھا۔ اس لئے ملکہ الزبتھ کی کوشش ہوتی کہ اچھے سے اچھے مطرب و نغمہ نواز دربار سے وابستہ رکھے جائیں۔لیکن جن دنوں کا ذکر ہم کر رہے ہیں ان دنوں یہ نامور بادشاہ وہم کے ایسے دورے میں مبتلا تھا جو پچھلے ہر دورے سے زیادہ شدید تھا اور دربار کے بڑے سے بڑے مطرب اور نغمہ نواز کا طلس بے اثر ثابت ہوا تھا۔ یہاں تک کہ

ریختہ صفحہ 220
بادشاہ نے ایک طویل وہمی علالت کے بعد خود کو مردہ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
یہ صورت حال ملکہ اور درباریوں کے لئے بڑی سہولت کی ہوتی اگر فلپ اپنے آپ کو مردہ سمجھ کر وہی طرزِ عمل اختیار کرتا جو مُردوں کے شایانِ شان ہے۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ بادشاہ کو اس بات پر اصرار تھا کہ اس کے جسم کو تجہیز و تکفین کی سب منزلوں سے گزارا جائے۔ اس احمقانہ خواہش کی تکمیل نہیں ہوئی اور فلپ کو دفن نہیں کیا گیاتو وہ سختی سے لوگوں کو غفلت اور بے ادبی کا مجرم ٹہرانے لگا۔ لیکن آخر کیا کیا جائے؟ درباریوں کی نظر میں بادشاہ کی عدول حکمی ناقابلِ معافی جرم تھا۔ لیکن اس کے حکم کی تعمیل کےٓر کے اسے زندہ دفن کر دینا سر تا سر دیوانگی۔
فلپ کی ملکہ اور اس کے درباری اس ہولناک معمّے کا حل تلاش کرنے میں حیراں و سرگرداں تھےکہ پورے اندلس کو دیونہ بنانے والی اس مطربہ کی خبر دربار تک پہنچی۔ ملکہ نے فوراً ہی شاہی قاصد بھیج کر اس طلسمی مطربہ کو دربار میں طلب کیا
چند دن بعد جب ملکہ اپنی کنیزوں کے ساتھ قصرِ شاہی کے خیابانوں میں مصروف گل گشت تھی۔ معروف مطربہ اس کے حضور میں لائی گئی۔ ملکہ الزبتھ بڑی دیر تک اس کم سن اور سادہ رنگ مطربہ کو حیرت سے دیکھتی رہی جس کے نغموں پر ایک دنیا دیوانی ہو رہی تھی۔ مخصوص دیسی وضع کا خوبصورت اندلسی لباس اس کے زیب تن تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں نقرئی بربط تھا۔ وہ اپنی معصوم نظریں جھکائے ملکہ کے سامنے کھڑی تھی۔ لیکن اس کے حسنِ سادہ میں ایک ایسی تازگی و شگفتگی تھی کہ اس پر الحمراء کا گلاب کالقب پوری طرح پھبتا تھا۔
آج بھی اس کی چچی اس کے ساتھ تھی۔وہ ملکہ کے ہر سوال کا جواب دیتی رہی۔ اس کی شخصیت میں بجائے خود اتنی کشش تھی کہ ملکہ پہلی ہی نظر میں اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔لیکن جب اسے پتہ چلا کہ کمسن مطربہ ایک اچھے، گو غریب گھرانے کی لڑکی ہے اور اس کا باپ بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا تو وہ اور بھی خوش ہوئی۔ اور اس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا " اگر تمہارے نغموں میں ویسی ہی تاثیر ہے جیسی کہ مشہور ہے اور اس کی تاثیر سے بادشاہ کو وہم کے بھوت سے نجات مل گئی تو آئیندہ سے تمہاری فکریں میری فکریں ہو جائیں گی اور عزت، شہرت اور دولت تمہارے قدم چومے گی۔"
ملکہ مطربہ کے نغمہ کی آزمائش کے لئے بے چین تھی۔ اس لئے اسے لے کر فوراً وہمی بادشاہ کے کمرے کی
 
Top