سیف قریب موت کھڑی ہےذرا ٹھہر جاؤ

یوسف سلطان

محفلین
قریب موت کھڑی ہےذرا ٹھہر جاؤ
قضاسے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

تھکی تھکی سی فضائیں، بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

نہیں امید کے ہم آج کی سحر دیکھیں
یہ رات ہم پہ کڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی نہ جاؤ کہ تاروں کا دل دھڑکتا ہے
تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

عروس شام ابھی گیسوؤں کے سائے میں
کنیز بن کے کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

پھر اس کے بعد کبھی نہ تم کو روکیں گے
لبوں پہ سانس اڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

دمِ فراق میں جی بھر کے تم کو دیکھ تو لوں
یہ فیصلے کی گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

سیف الدین سیف​
 
Top