قرض کے مرض کو فرض بنانے کی کوشش

x boy

محفلین
قرض کے مرض کو فرض بنانے کی کوشش

نوجوانوں کے ساتھ قرض کے کاروبار میں یہ تو کرتے کہ اس پر سود معاف کر دیتے۔ بلاسود قرضے دینے کی ہمت تجارت میں نہیں ہوتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ میں تو جو تھوڑی بہت امداد دی گئی اس کے لئے فرزانہ راجہ نے بہت محنت کی۔ بیرون ملک بھی اس کا چرچا ہوا۔ مگر اس کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے ہمارے ہاں نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبے پسند نہیں کرتی۔ سب کچھ رک جاتا ہے۔ یہ مہربانی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ اور 1122 کو برقرار رکھا گیا ہے۔ 1122 تو بہت کارآمد اور فلاحی منصوبہ ہے۔ جو چودھری پرویز الٰہی کی یاد دلاتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ کو ممبران اسمبلی اپنے چہیتوں اور بیورو کریسی سے بچا لیا جاتا تو یہ کام ایک کارنامہ بن جاتا۔ اب اچھے دل والے بہادر اور سچے سیاستدان دانشور انور بیگ بے نظیر انکم سپورٹ کے چیئرمین بنے ہیں۔ تو امید ہے کہ حالات شاندار طریقے سے بہتری کی طرف آئیں گے۔

مریم نواز یہ کر گزریں کہ اس قرضے کو امداد کا رنگ دینے کے لئے بلاسود کاروبار کی بنیاد ڈالیں۔ ان کی تقریر اچھی تھی۔ اس کے بعد نوازشریف کی تقریر بھی اچھی رہی۔ نوجوانوں کی تعداد نوازشریف کے بقول دس کروڑ سے زیادہ ہے۔ پانچ سات کروڑ تو اپلائی کریں گے۔ فارم فری ملیں گے مگر انہیں جمع کرانے کی فیس 100 روپے ہے جو ناقابل واپسی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اربوں روپے کی یہ رقم قرضوں کی کل رقم سے بہت زیادہ ہو جائے گی کہ یہ رقم مریم نواز کی نگرانی میں وصول کی جائے۔ اور اُن کے پاس رہے۔ یہ بھی نوجوانوں کے لئے قرضے میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ سود کی رقم کا استعمال بھی سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ یہ بھی سوچا جائے کہ کتنے نوجوان یہ رقم واپس کریں گے؟ اس سے کہیں زیادہ کے قرضے سیاستدان اور حکمران بینکوں سے معاف کرا چکے ہیں۔ ان سے وصول کر کے یہ عوام کی رقم عوام پر خرچ کی جائے۔

سٹیج پر نوازشریف کے خاندان کے لوگ بیٹھے تھے۔ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی کشمیری خاندان کے لوگ ہیں مگر پیچھے بیٹھے تھے جب نوازشریف نے کہا کہ لوڈشیڈنگ بہت کم رہ گئی ہے اور مجھے پتہ نہیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ یہ تو خواجہ آصف کو بھی پتہ نہیں۔ عابد شیر علی کو ضرور پتہ ہو گا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے مستقل خوشامدی نے بڑے زور سے تالی بجائی۔ خواجے دا گواہ ڈڈو۔ نوازشریف نے کہا کہ قرضوں کی رقم کا بندوبست میرے سمدھی اسحاق ڈار نے کیا ہے۔ انہیں بھی میری طرح پتہ نہیں کہ یہ ”بندوبست“ کیسے ہو گیا ہے۔ اب سٹیج پر ڈار صاحب کی بہو اور مریم نواز کی چھوٹی بہن تو بیٹھی نہ تھی کہ قابل اعتبار گواہ بن جاتی۔ مریم نے بہت محنت کی ہے وزیراعظم بھٹو صاحب نے بھی بے نظیر بھٹو کو کوئی عہدہ دیا تھا اور وہ دو دفعہ وزیراعظم بنیں۔ ان کی تیسری باری ”صدر“ نے قبول کر لی۔ نوازشریف نے مریم نواز کو ذمہ داری دی ہے۔ اب ”صدر“ زرداری نے بھی آصفہ زرداری بھٹو کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا ہے۔ سنا ہے وہ بالکل اپنی ماں جیسی ہے۔ یہ سیاست بھی مفاہمانہ ہے مگر بلاول کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر بختاور بلاول کے ساتھ تھی۔ بلاول نے شاید اسی لئے تقریر بہت زبردست کی۔ جس میں پرائیویٹائزیشن کو پرسنلائزیشن کہا گیا تھا۔

نوجوانوں کو قرضے دینے کا معاملہ وہی تو نہیں جو امریکی امداد قرض کی صورت میں پاکستانی حکمرانوں کو ملتی ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں اسے کشکول پالیسی کہتے ہیں حکمران بن کر اس سے بڑا کشکول پکڑ لیتے ہیں۔ مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ بیرونی قرضہ کہاں گیا۔ اذیت اور ذلت میں لوگوں کو نہ مرنے دیا جاتا ہے نہ جینے دیا جاتا ہے۔

جہاں تک قرضے کی واپسی کی بات ہے تو اس کے لئے ”اخوت“ والے ڈاکٹر امجد ثاقب سے رابطہ کیا جائے۔ میری گزارش ہے کہ مریم نواز ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات کرےں۔ شعیب بن عزیز کی کوشش سے شہباز شریف ڈاکٹر امجد ثاقب سے بہت کام لے رہے ہیں۔ ایسے کام باہمی تعاون سے چلتے ہیں۔ اخوت کے زیر اہتمام قرضے واپس آ جاتے ہیں اور اس سے خواتین و حضرات اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے میں کامیاب بھی ہوئے۔ مریم نے بہت بڑے کام کی ابتدا کر دی ہے مگر اس میں ”انتہا“ کرنے والوں کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور اس کا حشر بھی پیلی ٹیکسی سکیم جیسا ہو گا۔ یہ ٹیکسیاں بڑے لوگوں کے چھوٹے نوکروں کے نام پر لی گئیں۔ اور اس کے پاس پہنچ گئیں جس نے اس کے لئے ادائیگی کی تھی۔ مجھے کئی فون آ رہے ہیں کہ گارنٹی دینے والوں سے ہمیں بچایا جائے۔

نوازشریف نے کہا کہ فیکٹری ہم نے نہیں لگانی۔ سعودی عرب اور بھارت میں لگانے کے بعد ہم تھک گئے ہیں۔ اب یہ کام چند لاکھ میں نوجوان کریں گے۔ ایک لاکھ کو قرضے ملیں گے تو باقی لوگ کیا کریں گے۔ دس کروڑ میں سے نو کروڑ 99 لاکھ نوجوان وہی کریں گے جو آجکل کر رہے ہیں یہ اگر متحد ہو کر باہر نکل آئے تو حکمران کیا کریں گے۔ شکر ہے کہ مریم نواز ابھی تک حکمراں نہیں ہیں۔ وہ یوتھ پروگرام میں حکمرانی اور من مانی کا راستہ روکیں۔ یہ کام ہے بہت مشکل کہ آغاز ہی میں اسحاق ڈار جیسے حکمران ان کے ساتھ آ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ آ بیٹھے ہیں۔ ڈار صاحب نے مہنگائی کے ذریعے عوام کا جو حال کر دیا ہے کہ وہ بدحال تو پہلے ہی تھے اب بے حال بھی ہو گئے ہیں۔

نوازشریف نے بہت مہربانی کی ہے کہ مریم نواز کا ساتھ دینے کے لئے ماروی میمن کو بھی کوئی عہدہ دیا ہے۔ ماروی میمن جنرل مشرف کے ساتھ تو ایسی کوئی خدمت نہ کر سکی کہ وہ بھی مشرف کی بیٹی کو نہیں جانتی ہو گی۔ ٹریفک والوں نے اُسے روک لیا تھا۔ ماروی میمن کو تب اور اب کوئی روکنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کئی کاموں کے لئے تو وہ خود بھی خود کو نہیں روک سکتی۔ نوازشریف نے کہا کہ میں نے پاکستان کے لئے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو وزیراعظم بنوانے کے لئے منوایا ہے۔ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نوازشریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک لاکھ مقروض نوجوان بھی مریم نواز کے علاوہ نوازشریف کے شکر گزار ہونگے۔ کچھ نوجوان اسحاق ڈار کے بھی شکر گزار ہونگے۔ گارنٹی دینے والے تو کسی خاص شکریے کے منتظر ہیں۔

مریم نواز کالاباغ ڈیم کے لئے اپنے والد اور لیڈر نوازشریف کو قائل کریں۔ اس کے لئے نوازشریف بھی اپنے آپ کو منوائیں۔ جو حکمران کالاباغ ڈیم بنا لے گا۔ وہ لیڈر ہو گا۔ ہمارے سیاستدان حکمران بننا چاہتے ہیں۔ لیڈر بننا ہی نہیں چاہتے۔ قرضہ سکیم کے لئے یہ کوئی نوازشریف سے پوچھے کہ بلدیاتی الیکشن کے موقعے پر قرضہ سکیم کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے مدنی دستر خوان کی بات بھی کی ہے۔ کوئی ایسا منصوبہ ایسی پالیسی ایسی سکیم کہ لوگوں کا چولہا جلتا رہے۔ قوم کو بھکاری بنانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ چین ہمارا دوست ہے۔ اس نے پاکستانی حکمرانوں کو کبھی قرضہ نہیں دیا۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی منصوبہ مکمل کر کے دیا ہے۔ چشمہ بیراج گوادر پورٹ واہ فیکٹری شاہراہ ریشم اور اب بھی چینی ماہرین پاکستان میں کچھ نہ کچھ تعمیر و ترقی کے لئے کر رہے ہیں۔ گوادر سے کاشغر تک موٹروے کا منصوبہ۔ کراچی سٹیل مل روس نے بنا کر دی۔ قرضے دینے والوں نے اس کا کیا حشر کر دیا ہے۔ امریکہ نے صرف قرضے دئیے۔ جو حکمرانوں اور اُن کے کاروباری عزیزوں کی جیب سے ہوتے ہوئے واپس امریکی بنکوں میں چلے گئے۔ اس طرح کرپشن پھیلی۔ ہم ہزاروں ارب روپے کے مقروض ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے۔ قرضوں کا حال یہی ہوتا ہے۔ مریم نواز نوجوانوں کے لئے اس کے علاوہ بھی کچھ سوچیں۔ اور اسحاق ڈار اور ماروی میمن سے بالکل مشورہ نہ کریں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ نوازشریف ”اونین“ کی اردو بھول گئے ہوں۔ انگریزی ادب پڑھنے والی مریم نواز نے انہیں بتایا کہ پیاز۔ نوازشریف کی انگریزی اتنی اچھی نہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ اُن کی اردو بھی اتنی اچھی نہیں۔ پیاز کو پنجابی میں وصل کہتے ہیں۔ وصل کی انگریزی تو نوازشریف کو آتی ہو گی۔ پیاز بھولنے والے پیار کو کیسے یاد رکھیں گے۔ یہ بھی نوازشریف کو پتہ نہیں کہ ان کے ووٹرز پیاز اور پیار دونوں سے محروم ہیں۔

قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

کالم نگار : ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

نوائے وقت | آرٹسٹ
1386654795000
 
Top