قربانی پاکستان سے دوستی بھارت سے

قمراحمد

محفلین
قربانی پاکستان سے دوستی بھارت سے
تحریر: وقار احمد
روزنامہ جنگ 2009-05-31

سوات اور دیر میں آرمی آپریشن زور و شور سے جاری ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وادیٴ سوات سے دہشت گردی کے خاتمے کا حکم جاری کر چکے ہیں۔ ان کے اس فیصلے کی تائید مسلم لیگ (ن) سمیت ملک کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں کر چکی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے میجر جنرل اطہر عباس روزانہ ” پی آئی ڈی “ میں آپریشن کے متعلق بریفنگ دیتے ہیں اور ٹی وی پر عوام کو آپریشن کی تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قوم کی واضح اکثریت فوجی آپریشن کے حق میں ہے اور جانتی ہے کہ طالبان نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئے جن کی وجہ سے ملک میں بد امنی پیدا ہو۔ ان کا منفی اور غیر ملکی ایجنڈہ بھی اب زیادہ پوشیدہ نہیں رہا، لیکن اس سارے کھیل میں اگر پس رہے ہیں تو بے چارے وہ معصوم عوام جن کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً تیرہ لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی وطن میں مہاجروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور ہجرت کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ unhcr نے مردان اور تخت بھائی میں مہاجر کیمپ قائم کر رکھے ہیں، جہاں ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن کہتے ہیں کہ ہجرت بذات خود ایک بہت بڑا درد ہے۔

عوام کی اکثریت کو پہلے سے اندازہ تھا کہ نظام عدل کا انجام کیا ہو گا۔ اس اندازے کی وجہ مولانا صوفی محمد اور ان کے داماد مولوی فضل اللہ کی وہ ہٹ دھرمی تھی جس کے تحت انہوں نے کسی وعدے کا پاس نہ کیا، معاہدوں سے انحراف کیا اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے علاقے میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھا۔ ہر کوئی جان چکا تھا کہ ارادے کی کھوٹ اور مقصد میں بے ایمانی کی وجہ سے یہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔ معاہدے کے باوجود صوفی محمد اپنے لوگوں سے ہتھیاروں کی نمائش بند نہ کروا سکے۔ طالبان نے مینگورہ اور سیدو شریف میں کمشنر کے دفتر، تھانے اور دیگر سرکاری عمارات پر قبضہ جما رکھا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اصل مقصد نفاذ شریعت نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ سرکاری اسکولوں اور ڈسپنسریوں کی تباہی، تھانوں پر قبضے، پولیس والوں اور سرکاری اہلکاروں کی سربریدہ لاشیں، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں، گھروں اور دکانوں میں لوٹ مار، نفاذ شریعت کے تقاضے نہیں ہو سکتے۔ یہ دراصل نفاذ شریعت کے بہانے پاکستان کو دنیا میں کمزور اور تنہا کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس ساری صورت حال کا فائدہ امریکا نے اٹھانے کی کوشش اور پاکستان پر مختلف طریقوں سے اپنا دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ مثلاً صدر زرداری کے دورہ امریکا سے پہلے باقاعدہ ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور بین الاقوامی پریس میں اس طرح کے بیانات لگوائے گئے کہ ” پاکستان دو ہفتے میں ختم ہو سکتا ہے “ ” پاکستان میں جمہوریت کمزور اور مطلوبہ نتائج برآمد کرنے میں بے بس ہے“ ”طالبان اسلام آباد سے صرف 60 کلو میٹر دور رہ گئے ہیں “ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح وہ صدر زرداری کو دورہ امریکا سے پہلے ذہنی طور پر دفاعی انداز اپنانے کے لیے مجبور کرنا چاہتے تھے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

اب جبکہ پاکستان کی افواج نے ملکی سلامتی کی خاطر انتہائی قدم اٹھایا ہے تو پارلیمنٹ، سیاسی قائدین اور سول سوسائٹی کا فرض بنتا ہے کہ فوجی ایکشن کی پوری تائید و حمایت کرے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ طالبان کے جھانسے میں نہ آیا جائے اور کسی قسم کے معاہدے کرنے کی بجائے اس لعنت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ جب تک اس مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا، پاکستان میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا اور ہمارے دشمن ہماری اس کمزوری کا فائدہ مسلسل اٹھاتے رہیں گے۔

عوام امریکا کی کھوکھلی دھمکیوں اور طالبان سے خطرے کے بے جا پراپیگنڈہ سے تو مرعوب نہیں ہوئے، لیکن وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ملک میں حکومت کی رٹ قائم ہو اور سوات اور دیر سمیت ملک کے تمام حصوں سے طالبانائزیشن کا مکمل خاتمہ ہو۔ عوام اس بات سے بہت دلبرداشتہ ہیں کہ امریکا کی افغانستان میں شروع کی ہوئی جنگ اب پاکستانی علاقوں میں لڑی جا رہی ہے اور پاکستان کی اپنی جنگ بن چکی ہے۔ افغان جہاد میں امریکا کی حمایت کرنے کی قیمت اب پاکستان کو اپنے خون سے چکانی پڑ رہی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ امریکا ہمارا رتی برابر احسان مند نہیں بلکہ الٹا ہمیں ہی لتاڑ رہا ہے۔ کبھی ہمیں ” ڈو مور “ کا کہا جاتا ہے تو کبھی رچرڈ ہالبروک ہمیں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ” پاکستان کو امداد اتنی ہی ملے گی، جتنی وہ ہمیں سروس مہیا کرے گا “۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن خود اعتراف کر چکی ہیں کہ افغان جنگ کے بعد امریکا نے پاکستان کو اس علاقے میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو آج افغانستان اور پاکستان میں امن کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔ اس اعتراف کے باوجود امریکا اس وقت علاقے میں بھارت کا سب سے بڑا حواری ہے۔ سول نیو کلیئر ڈیل سے لے کر ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے تک ہر معاملے میں بھارت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ مشرقی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا لیں حالانکہ بھارت اس وقت بھی ہماری مشرقی سرحدوں کے ساتھ فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ سرد جنگ میں پاکستان نے امریکا کا جو ساتھ دیا، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی جنگ میں بھارت کس کا ساتھی تھا اور اس نے امریکا کو نقصان پہنچانے کے لیے روس کا کس طرح ساتھ دیا۔ یہ بھی کوئی معمہ نہیں۔ کیا احسان مندی کے یہی تقاضے ہیں؟ کیا اخلاقی روایات کا امریکا پر کوئی اطلاق نہیں ہوتا؟ دورہٴ امریکا کے دوران صدر زرداری کو وہ پروٹوکول نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کے مقابلے میں صدر حامد کرزئی کو زیادہ اہمیت دی گئی اور پروٹوکول میں انہیں صدر زرداری سے اوپر رکھا گیا۔ یقیناً یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ ان کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ وہ امریکا کے مطلوبہ اہداف کی اس طرح پاسداری نہیں کر رہے، جس طرح امریکا چاہتا ہے۔ یقیناً امریکا یہ نہیں بھولا ہو گا کہ صدر زرداری ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں جو ایک ایٹمی طاقت ہے، اس کی ایک آزاد پارلیمنٹ ہے، اس کے مقابلے میں حامد کرزئی ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے، جہاں نہ عدلیہ کا کوئی وجود ہے، نہ پارلیمنٹ ہے اور نہ ہی جمہوریت۔

ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں گو بھارت کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، لیکن بالآخر اس کا فائدہ بھارت کو ہی زیادہ پہنچے گا اور افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط کے ساتھ ساتھ اسے وسطی ایشیاء کی ریاستوں تک رسائی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ یہ معاہدہ دراصل امریکا کی طرف سے بھارت کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی بدولت وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کر سکے گا جو کہ بھارت کا ایک دیرینہ خواب ہے۔ دورہٴ امریکا کے دوران ہمیں جو مالی امداد ملی ہے، وہ بھی ہمارے لیے کوئی زیادہ خوشی کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں اور افغانستان، فاٹا کے علاوہ سوات میں جو نقصان اٹھائے جا رہے ہیں، ان کے مقابلے میں یہ امداد ” اونٹ کے منہ میں زیرے “ کے مترادف ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ سوات سمیت اس پورے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کھل کر مالی معاونت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو فوجی ساز و سامان بھی مہیا کرے تاکہ اس علاقے سے دہشت گردی کا مکمل صفایا کیا جا سکے۔ امریکا اور بین الاقوامی برادری کی مالی معاونت سوات سے بے گھر ہونے والوں کے لیے بھی چاہیے، کیونکہ یہ کوئی ہفتے دس دن کی بات نہیں بلکہ ان کی بحالی کے لیے نجانے کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ یہ صرف جنوبی ایشیا کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکا نے اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھول ہمارے گلے میں ڈال ہی دیا ہے تو پھر اس کے مطابق پاکستان کی معاونت بھی کرے۔ امریکا کو یہ زیب نہیں دیتا کہ قربانیاں پاکستان سے وصول کرے اور پیار کی پینگیں بھارت کے ساتھ بڑھائے۔ اس طرح کی دوغلی پالیسیاں دنیا میں امریکا کے لیے نفرت مزید بڑھانے کا سبب بنیں گی۔
 
Top