سیدہ سارا غزل
معطل
اپنے بندے کا خدا جب امتحاں لینے لگا
خواب میں حضرت خلیل اللہ سے پھر یوں کہا
اے مرے پیارے نبی کچھ دو خدا کی راہ میں
ہم بھی دیکھیں کتنے مضطر ہو ہماری چاہ میں
خواب میں دیکھا خلیل اللہ نے افتاد کو
کر رہا ہوں ذبح اپنے ھاتھ سے اولاد کو
دیکھتا کیا ہوں کہ اسمٰعیل کے حلقوم پر
اپنے ھاتھوں پھیرتا ہوں میں چھری معصوم پر
جب ہوئے بیدار تو اس راز کو سمجھے خلیل
کہ مرے فرزند کا شیدائی ہے ربّ ِ جلیل
بس اسی دم آپ بیٹے کی طرف جانے لگے
جا کے اپنے خواب کی تعبیر فرمانے لگے
اور بیٹے کو لگے کہنے کہ اے لخت ِ جگر
تجھ کو قرباں کرنے آیا ہوں خدا کی راہ پر
سن کے بیٹا مسکرا کر باپ سے کہنے لگا
آئیے حاضر ہوں بابا کیجئے مت التوا
شاد ہوں راہ ِ خدا میں جان دینے کے لئے
مضطرب ، بے چین ہوں قربان ہونے کے لئے
باپ نے بیٹے کا جب ایثار دیکھا تو کہا
مرحبا بیٹے تمہیں صد مرحبا، صد مرحبا
ہاتھ میں لے کر چھری جنگل کو جب جانے لگے
حضرت اسمعیل پھر یوں باپ سے کہنے لے
ایک میری عرض بھی سن لیجئے گا اے پدر
وقت ِ قرباں اپنی آنکھیں باندھ لیجئے گا مگر
تیز کر لینا چھری کو جب چلانا حلق پر
اس سے پہلے ھاتھ میرے باندھ لینا پشت پر
مضطرب ہر گز نہ ہوں آپ ایسے نازک وقت پر
اور ترحم بھی نہ کیجئے آپ میرے حال پر
الغرض جنگل کی جانب ہو گئے دونوں رواں
جس جگہ ہونا تھا محبوب ِ خدا کا امتحان
باپ بیٹے کو لٹا کر ذبح جب کرنے لگا
فرش اس دم کانپ اٹھا عرش بھی ڈرنے لگا
آسمانوں پر ملائک دیکھ کر خاموش تھے
دونوں عالم عالم ِ حیرت میں تھے خاموش تھے
جوش ِ رحمت میں اسی دم آ گئے پروردگار
یہ نظارہ دیکھتی تھی کائنات ِ کردگار
حکم جبرائیل کو خالق نے اس دم یہ دیا
دیکھئے نہ بال بیکا ہو مرے محبوب کا
جلد پھر جنت سے دنبہ لے کے پہنچے جبرائیل
دنبہ ذبح ہو گیا دیکھا کئے حضرت خلیل
اے مرے پیارے تری منظور قربانی ہوئی
دونوں عالم میں منور تیری پیشانی ہوئی
سرفرازی ان کو بخشی پھر خلیل اللہ سے
اور اسمعیہل کو بخشی ذبیح اللہ سے
آج ہم نے دیکھ لی شان ِ صدقت آپ کی
مرحبا صد مرحبا دیکھی رفاقت آپ کی
تو نے جو فرزند کو قربان ہم پہ کر دیا
تیری ساری آل کو ہم نے پیمبر کر دیا
اور غزل لکھے گی کیا حق سے وفا کا ماجرا
بخت آور تھی وہ ماں ہے نام جس کا ہاجرہ
(سیدہ سارا زہیب غزل)
خواب میں حضرت خلیل اللہ سے پھر یوں کہا
اے مرے پیارے نبی کچھ دو خدا کی راہ میں
ہم بھی دیکھیں کتنے مضطر ہو ہماری چاہ میں
خواب میں دیکھا خلیل اللہ نے افتاد کو
کر رہا ہوں ذبح اپنے ھاتھ سے اولاد کو
دیکھتا کیا ہوں کہ اسمٰعیل کے حلقوم پر
اپنے ھاتھوں پھیرتا ہوں میں چھری معصوم پر
جب ہوئے بیدار تو اس راز کو سمجھے خلیل
کہ مرے فرزند کا شیدائی ہے ربّ ِ جلیل
بس اسی دم آپ بیٹے کی طرف جانے لگے
جا کے اپنے خواب کی تعبیر فرمانے لگے
اور بیٹے کو لگے کہنے کہ اے لخت ِ جگر
تجھ کو قرباں کرنے آیا ہوں خدا کی راہ پر
سن کے بیٹا مسکرا کر باپ سے کہنے لگا
آئیے حاضر ہوں بابا کیجئے مت التوا
شاد ہوں راہ ِ خدا میں جان دینے کے لئے
مضطرب ، بے چین ہوں قربان ہونے کے لئے
باپ نے بیٹے کا جب ایثار دیکھا تو کہا
مرحبا بیٹے تمہیں صد مرحبا، صد مرحبا
ہاتھ میں لے کر چھری جنگل کو جب جانے لگے
حضرت اسمعیل پھر یوں باپ سے کہنے لے
ایک میری عرض بھی سن لیجئے گا اے پدر
وقت ِ قرباں اپنی آنکھیں باندھ لیجئے گا مگر
تیز کر لینا چھری کو جب چلانا حلق پر
اس سے پہلے ھاتھ میرے باندھ لینا پشت پر
مضطرب ہر گز نہ ہوں آپ ایسے نازک وقت پر
اور ترحم بھی نہ کیجئے آپ میرے حال پر
الغرض جنگل کی جانب ہو گئے دونوں رواں
جس جگہ ہونا تھا محبوب ِ خدا کا امتحان
باپ بیٹے کو لٹا کر ذبح جب کرنے لگا
فرش اس دم کانپ اٹھا عرش بھی ڈرنے لگا
آسمانوں پر ملائک دیکھ کر خاموش تھے
دونوں عالم عالم ِ حیرت میں تھے خاموش تھے
جوش ِ رحمت میں اسی دم آ گئے پروردگار
یہ نظارہ دیکھتی تھی کائنات ِ کردگار
حکم جبرائیل کو خالق نے اس دم یہ دیا
دیکھئے نہ بال بیکا ہو مرے محبوب کا
جلد پھر جنت سے دنبہ لے کے پہنچے جبرائیل
دنبہ ذبح ہو گیا دیکھا کئے حضرت خلیل
اے مرے پیارے تری منظور قربانی ہوئی
دونوں عالم میں منور تیری پیشانی ہوئی
سرفرازی ان کو بخشی پھر خلیل اللہ سے
اور اسمعیہل کو بخشی ذبیح اللہ سے
آج ہم نے دیکھ لی شان ِ صدقت آپ کی
مرحبا صد مرحبا دیکھی رفاقت آپ کی
تو نے جو فرزند کو قربان ہم پہ کر دیا
تیری ساری آل کو ہم نے پیمبر کر دیا
اور غزل لکھے گی کیا حق سے وفا کا ماجرا
بخت آور تھی وہ ماں ہے نام جس کا ہاجرہ
(سیدہ سارا زہیب غزل)