قرآن گارڈن

جاسم محمد

محفلین
قرآن گارڈن
نوید جان اتوار 17 فروری 2019

1555665-qurangarden-1550384857-473-640x480.jpg

دینی درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے زیراہتمام باغ میں وہ پودے اور درخت اگائے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ فوٹو: فائل

برصغیرپاک وہند میں مدارس کی اہمیت مسلمہ ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔

انہی مدارس نے یہاں کے معاشرے کو وہ عالم وفاضل شخصیات دی ہیں جن کی بدولت یہاں علم ونور کی شمعیں فروزاں ہوئیں اور جن کی بدولت آج علم ودانش کے سرچشمے ہر سو پھوٹ رہے ہیں، لیکن بدقسمی سے عرصے سے ایک سازش کے تحت ان درس گاہوں پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور یہ دلیل بھی گھڑی جارہی ہے کہ ان مدارس کا نصاب یا نظام موجودہ دورسے مطابقت نہیں رکھتا، کیوں کہ اب دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے اور ستاروں پرکمند ڈالی جارہی ہے جب کہ ان مدارس کا نصاب فرسودہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی۔

یہ دلیل پیش کرنے والوں کی شاید اپنی منطق ہوگی لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان مدارس کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا جب کہ حکومتی سطح پر بھی ان کو لائق توجہ نہیں جانا گیا اور یہ اپنی مدد آپ کے تحت علم کے دیے جلاتے رہے ہیں۔ یہ ملک کے طول وعرض میں بغیر کسی حکومتی سرپرستی وامداد کے مفت علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

ان مدارس نے ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم کا حصول غریب کے بچے کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے میں معاشرے کو ایک صالح اور مہذب شہری دینا ان مدارس کا اولین وطیرہ اور ذمہ داری ٹھہری۔ ایسا ہی تجلیوں اور فیوض کا مرکز ضلع نوشہرہ کے علاقے جلوزئی میں بھی نور کا پیام بر بنا ہوا ہے، لیکن اس کی ایک اور خاص خوبی اس کو دیگر مدارس سے ممتاز کرتی ہے اور وہ ہے ’’قرآن باغ۔‘‘

خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے معروف چراٹ روڈ پر واقع جامعہ عثمانیہ نامی مدرسے کا باغ دیکھنے میں تو ایک عام سا باغ لگتا ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا باغ ہے، جس میں صرف ان 21 اقسام کے پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں، جن کے نام قرآن مجیدفرقان حمید میں مذکور ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا جب کہ دنیا میں اس نوعیت کا تیسرا باغ ہے جہاں صرف وہ پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں، جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے، اگر دیکھا جائے تو اسلام کی نظر میں زراعت اور باغات کی سرسبز وشادابی کی اہمیت اور قدر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں بھی قرآن حکیم میں اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں پر غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے وہیں نظام زراعت وباغبانی کو غوروفکر کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو بہترین صدقہ قراردیا ہے۔ قرآن میں بہت سے نباتات کا ذکر بھی موجود ہے۔ جامعہ عثمانیہ پشاور جو ایک معروف دینی درس گاہ نے قرآن میں ذکر کردہ ان نباتات پر مشتمل باغ لگاکر ایک منفرد اور قابل داد کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس درس گاہ کے بانی مفتی غلام الرحمان وسعت علم ونظر کے حامل عالم دین ہیں، چناں چہ ان کی کاوشوں سے جامعہ عثمانیہ پشاور نے قرآنک گارڈن اور عجائب گھر قائم کرکے یہ ثابت کردیا کہ سائنس سے بے اعتنائی کا الزام لگا کر دینی مدارس کو حرف تنقید بنانا درست نہیں۔

جامعہ عثمانیہ جلوزئی میں بنائے جانے والے منفرد قرآنک گارڈن کا افتتاح 21اگست2009 کو اس وقت کے پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات نے کیا۔ پاکستان کی سرزمین پر اپنی نوعیت کا منفرد باغ جامعہ عثمانیہ پشاور کے نیوکیمپس گلشن عمر چراٹ روڈ میں چارکنال سے زائد رقبے پر لگایا گیا۔ تاہم منتظمین کے مطابق ضرورت پڑنے پر اس رقبے میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس قرآن باغ میں وہ 21 پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آیا ہے۔

ہر پودے اور درخت کے ساتھ اس کا قرآنی، عربی، انگریزی، اردو، پشتو اور نباتاتی نام ٹیبل کی شکل میں نصب کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ سمیت یہاں آنے والے لوگ اس کے بارے میں بہتر انداز میں معلومات حاصل کرسکیں، ساتھ ہی قرآن کریم کی متعلقہ آیت ساتھ لگے تختہ پر کندہ ہے۔ یہ بھی درج ہے کہ یہ آیت قران کے کس پارے اور کس سورت میں ہے۔

اس انوکھے باغ کا داخلی دروازہ اینٹوں سے بنایا گیا ہے، جس پر نظر پڑتے ہی سحرانگیز کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی آنکھوں سے روح تک سکون اور اطمینان اُترنے لگتا ہے۔

quran-garden-1-1550384044.jpg


مدرسے کی انتظامیہ کے ایک رُکن نے بتایا کہ موجودہ دور میں جہاں ماحولیاتی تبدیلیاں بڑا مسئلہ ہے وہیں درخت لگانے سے بڑا کوئی صدقہ نہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک طرف اگر درخت سایہ اور پھل دیتے ہیں تو دوسری جانب گردوغبار اور ماحولیاتی آلودگی سے بھی ماحول کو صاف رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ باغ کے منتظمین کے مطابق اس باغ کا مقصد لوگوں میں ان پودوں کی افادیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ان میں جذبہ ابھارا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہم اس تصور کو بھی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں جس کے مطابق مدارس کے طلباء ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔

اس باغ میں موجود پودوں پر مدرسے کے ایم فل (مدرسہ نظام میں ایم فل عام ایم فل سے مختلف ہوتا ہے ) کے طلباء 20سے لے کر 80صفحات تک مقالے لکھتے ہیں۔ چند پودوں پر لکھے ہوئے مقالے دکھاتے ہوئے منتظم نے بتایا کہ اس باغ کے انتظام وانصرام اور ان پودوں پر تحقیق کے لیے ایک الگ بورڈ قائم کیا گیا ہے جس کے ارکان میں پشاور یونی ورسٹی اور پشاور کی زرعی یونی ورسٹی کے اساتذہ شامل ہیں۔ باغ کے پودوں پر اب تک درجنوں مقالے لکھے گئے ہیں ، مقالے لکھنے کے بعد ان کا درست طریقے سے زرعی یونی ورسٹی کی زیرنگرانی دفاع کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ پشاور کے کسی مدرسے میں طلباء کو اس طرح کی مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا گیا ہے جس سے ان کی تحقیق کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ باغ کے لیے الگ سے ملازمین وغیرہ نہیں رکھے گئے ہیں بلکہ مدرسے کے طلباء ہی اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہی ان طلبہ کے لیے ایک مفید اور بہترین سرگرمی بھی ہے۔ ان کے مطابق طلباء میں پودوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کے بعد انہیں کچھ پودے گھروں میں لگانے کے لیے بھی دیے جاتے ہیں اور یہی ہمارا بنیادی مقصد بھی ہے کہ مدرسے کے طلباء اور معاشرے کو پودوں کی افادیت کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔

قرآنک گارڈن کے انتظام وانصرام کے لیے باقاعدہ طور پر پندرہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو اس کی دیکھ بھال سمیت ہر قسم کے امور کی انجام ہی پر مامور رہتی ہے۔ علاوہ ازیں اس باغ کی تیاری ونگہداشت کے لیے جامعہ عثمانیہ کے منتظمین کو یونی ورسٹی آف پشاور کے شعبہ باٹنی کا تعاون بھی حاصل ہے۔

مدارس کے حوالے سے یقیناً یہ ایک بہترین کاوش ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اس کاوش اور نظریے کو فروغ حاصل ہو۔ اس کاوش کا سہرا جامعہ عثمانیہ کے مہتمم مفتی غلام الرحمان کے سر ہے، جنہوں نے طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عصری تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں قدم رکھ کر دینی اور عصری علوم کے حسین امتزاج کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس باغ کے ذریعے نہ صرف مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا جواب دیا جارہا ہے بلکہ اس کاوش سے تعلیم وتربیت کے علاوہ ماحول دوست پیغام بھی دیا جارہا ہے۔ ظاہری اور باطنی آلودگیوں کا ازالہ مدارس کا ہدف ثابت ہوگا۔ مذکورہ اقدام دینی مدارس کی جانب سے ایک مثبت پیغام کی تحریک ہے اور دیگر مدارس میں بھی اس قسم کی ہم نصابی سرگرمیاں فروغ پائیں گی،

دینی مدارس میں اس منفرد منصوبے کے اہداف ومقاصد کے بارے میں جب منتظمین سے پوچھا گیا تو جامعہ کے مہتمم مفتی غلام الرحمان نے بتایا کہ اس منفرد اور مثبت اقدام سے معاشرے کو یہ پیغام ملے گا کہ شجر کاری صرف سماجی ضرورت نہیں بلکہ عبادت کا ایک ذریعہ بھی ہے، جب کہ اسلام میں اس کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے کہ وہ عادات کو عبادات سے بدل دیتا ہے۔ قرآنک گارڈن کے حوالے سے معاشرہ میں یہ شعور پیدا ہوگا کہ اپنے ماحول اور زمین کو سرسبز وشاداب رکھنا صرف اخلاقی اور معاشرتی نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عثمانیہ ویلفیئر ٹرسٹ جامعہ عثمانیہ کے طلبہ کا رفاعی ادارہ ہے جو ہمہ وقت جامعہ کی چار دیواری کے اندر تعلیمی سرگرمیاں متاثر کیے بغیر طلبہ کو جملہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے مصروف عمل رہتا ہے۔

اس کے ساتھ قدرتی آفات کے مواقع پر بیرون جامعہ بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیتا ہے، اپنی مدد آپ کے تحت خدمت خلق کے جذبے کو اجاگر کرنے اور تعلیمی، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے ماحول تشکیل دینا، انسانی تمدنی ماحول کی نظافت اور تزئین و آرائش کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا، وبائی امراض، غربت اور جہالت کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا، طلبہ کے لیے کتب کی فراہمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کی سعی کرنا، صاف پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا، نوجوانوں میں مذہبی، علمی ، ادبی ، شہری اور معاشرتی شعور و آگہی کے فروغ کے لیے تگ ودو کرنا، غریب اور مستحق لوگوں کی کفالت کرنا اس ٹرسٹ کے منشور کا حصہ ہے۔

جامعہ کے ناظم تعلیمات مولاناحسین احمد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس باغ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے دل ودماغ میں باغ بانی وشجرکاری کی اہمیت اجاگر ہوگی اور وہ اس کام کو ضرورت سے بڑھ کر عبادت سمجھ کر سرانجام دیں گے۔ یہ باغ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی عصری اور دینی تعلیمی اداروں کے درمیان ربط وتعلق کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ گویا یہ عصری اور دینی اداروں کے درمیان حائل خلیج کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ باغ دیگر دینی مدارس کو بھی تحقیق اور شجر کاری کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔

جامعہ عثمانیہ کے میڈیا انچارج مفتی سراج الحسن نے کہا کہ یہ ایک تحقیقی پراجیکٹ ہے۔ یہاں باغ بانی کا ذوق رکھنے والوں کے تحقیقی ذوق کی قرآن وحدیث کی روشنی میں آب یاری ہوگی۔ حکومت ہر سال آگاہی شجرکاری مہم پر اشتہارات اور سیمینارز کی صورت میں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن نتیجہ صفر ہے، لیکن ہم نے بہت ہی کم خرچ کرکے مختصر مدت میں ایک منفرد باغ لگا کردینی مدارس کے متعلق منفی سوچ رکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے۔ امید ہے کہ جامعہ عثمانیہ پشاور نے جو مثبت قدم اٹھایا ہے وہ پودوں کا تحفظ، تحقیق اور تعلیم کے لیے عوام کی بیداری اور شراکت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

آرٹ اینڈ فوڈ فیسٹیول کا انعقاد

جامعہ عثمانیہ میں پہلی مرتبہ طلبہ کے لیے آرٹ اینڈ فوڈ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں دینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، اس دوروزہ نمائش میں مختلف علاقوں کے سترہ کے قریب اسٹالز لگائے گئے تھے۔ ہر سٹال پر متعلقہ ضلع یا علاقے کی کوئی تاریخی عمارت اس علاقے کا مظہر بنی ہوئی تھی اور ثقافت، لباس اور طورطریقوں کی عکاسی ایسے انداز میں کی گئی کہ دیکھتے ہی معلوم ہوجاتا کہ اس علاقے کا کلچر کیا ہے۔ ہر اسٹال پر ایک سے دو طلبہ گائیڈ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے نظر آئے اور ہر آنے والے مہمان کو پورے اسٹال کا دورہ کرانے کے ساتھ انہیں وہاں رکھے گئے مختلف تاریخی ماڈلز، دینی کتب، مقامی ثقافت اور طلبہ کی جانب سے سجائی گئی اشیاء کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہے۔

نمائش میں طلبہ کی جانب سے مقامی کھیلوں کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اسٹالوں پر پرانے زمانے کے ہتھیاروں کے نمونے بھی رکھے گئے تھے۔ فیسٹیول میں مختلف علاقوں کی مشہور سوغاتیں، خشک میوہ جات، ثقافتی ملبوسات اور پرانے زمانے میں بادشاہوں کے زیراستعمال نادر اشیاء بھی نظر آئیں۔ نمائش کے اختتام پر جرگہ کے موضوع پر ایک اسٹیج ڈراما بھی پیش کیا گیا اور طلبہ کی جانب سے مزاحیہ اور اصلاح پر مبنی خاکے پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ بعض طلبہ کی جانب سے مزاحیہ شعروشاعری بھی کی گئی۔ اس دو روزہ نمائش میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے وہ تمام سرگرمیاں موجود تھیں جو کسی بھی یونی ورسٹی یا کالج کے پروگراموں کا حصہ ہوتی ہیں۔

جامعہ عثمانیہ کے تعلیمی و تحقیقی شعبہ جات

1، درس نظامی شعبہ بنین: وفاق المدارس کے منظورکردہ نصاب کے مطابق درجہ اولیٰ سے دورہ حدیث تک مکمل درس نظامی۔

2، تخصص فی الحدیث: اس شعبے میں جامعہ عثمانیہ اور دیگر جامعات کے ممتاز و باصلاحیت فضلاء کو علوم حدیث میں ایک سالہ کورس کرایا جاتا ہے۔

3،شعبہ تخصص فی الفقہ الاسلامی و الافتاء: اس شعبے میں جامعہ عثمانیہ اور دیگر جامعات کے ممتاز و باصلاحیت فضلاء کو دو سالہ مفتی کورس کرایا جاتا ہے اور اہم فقہی موضوعات پر ان سے مقالات لکھوائے جاتے ہیں ۔

4،تحفیظ القرآن الکریم: اس شعبے میں بچوں کو قرآن کریم حفظ کرایا جاتا ہے۔

5، درس نظامی شعبہ بنات: وفاق المدارس کے منظورکردہ نصاب میں کچھ اضافوں کے ساتھ دورہ حدیث تک 6سالہ نصاب۔

6، تجوید : درجہ اولیٰ تا رابعہ کے طلبہ کے لیے تجوید بہ روایت حفص

7،دارالقرآن: غیررہائشی طلبہ کو حفظ کرایا جاتا ہے۔

8، عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی: جامعہ کے زیرانتظام عصری تعلیمی ادارہ، جہاں سے طلبہ کو پشاور بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کرایا جاتا ہے۔

9، عثمانیہ ویلفیئر ٹرسٹ: جامعہ کا رفاہی ادارہ جو قدرتی آفات کے مواقع پر بیرون جامعہ بھی قابل قدر خدمات انجام دیتا ہے ۔

10، مکتبہ عثمانیہ: ہزاروں دینی و عصری کتب اور مراجع پر مشتمل قیمتی علمی ذخیرہ ۔

11، شعبہ تعلیم اللغات: درجہ اولیٰ سے رابعہ تک نیز تخصص و تدریب کے طلبہ کو عربی اور انگریزی زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔

12،دارالافتاء: عوام الناس کو روز مرہ کے ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل میں شرعی راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔

13، مجلس فقہی: جید مفتیان کرام پر مشتمل بورڈ جو عصر حاضر کے اہم پیچیدہ مسائل پر غور و خوض اور تحقیق کے بعد مسائل کا شرعی حل نکالتا ہے ۔

14، ماہنامہ العصر: جامعہ کا ترجمان رسالہ جو ہر ماہ نہایت مفید اور تحقیقی مضامین کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔

15، العصر اکیڈمی: ادارہ اشاعت کتب۔

16، شعبہ کمپیوٹر: شعبہ کمپیوٹر میں جامعہ کے شعبہ تعلیمات، مالیات اور لائبریری کو کمپیوٹرائزڈ کرکے ان کا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔

17، متحف عثمانی: تاریخی، ثقافتی اور تعلیمی عجائب گھر۔
 

جاسمن

لائبریرین
جاسم! بہت شکریہ بلانے کے لیے۔
پورا مضمون پڑھا ہے اور بہت خوشی محسوس ہوئی ہے۔ انھوں نے تو طلبہ کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں بھی شروع کی ہوئی ہیں۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ قرآن باغ کا تصور پہلے کسی نے پیش کیا ہوگا پھر اسے عملی صورت دینا ۔۔بہت خوبصورت اور زبردست عمل۔
میں نے بہت سے مدارس کے دورے کیے ہیں۔ اور ان میں کم ہی مدارس بہتر حالت میں تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت اتنے بڑے سیٹ اپ کو چلانا بہت مشکل ہے۔
پلندری آزاد کشمیر کا ایک مدرسہ بہت جدید طرز پہ بنا ہوا ہے۔ اس کا ہاسٹل، مہمان خانہ اور کمپیوٹر سینٹر ہمارے بعض اداروں سے بھی زیادہ خوبصورت
تھے۔
جھنڈیر لائبریری کے لان میں ہم نے وہ درخت اور پودے لگے دیکھے ہیں کہ جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔
 
Top