قرآن کی پکار ۔۔۔۔ قلم کمان ۔۔۔۔ حامد میر

کعنان

محفلین
قرآن کی پکار .... قلم کمان ..... حامد میر


2009-12-07 10:45:46 :تاریخ اشاعت



دور جدید میں امن، رواداری اور روشن خیالی کی اکثر علمی و سیاسی تحریکوں کا مرکز یورپ رہا ہے۔ لیکن حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں ہونیوالے ایک ریفرنڈم کے نتائج نے دنیا بھر کو حیران کردیا ہے۔ چند دن قبل ہونیوالے ریفرنڈم میں سوئٹزر لینڈ کے 57 فیصد ووٹروں نے اپنے ملک میں مسجدوں پر مینار بنانے کی مخالفت کردی ہے کیونکہ وہ میناروں کو مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس وقت سوئٹزر لینڈ میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ مسلمانوں کیلئے 160 مساجد ہیں جن میں سے صرف چار مساجد میناروں والی ہیں اور انمیں سے بھی زیورخ کی ایک عبادت گاہ قادیانیوں کی ہے۔ مسلمانوں کو اپنی مسجدوں میں مینار تعمیر کرنے کی اجازت نہ دینا سوئٹزرلینڈ کے اپنے آئین، یورپی یونین کے آئین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کیخلاف ورزی ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ یورپ میں لبرل فاشزم بڑھتا جارہا ہے کیونکہ یورپ کے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کو صرف سوئٹزر لینڈ میں نہیں بلکہ فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر
یورپی ممالک میں بھی مذہبی تعصب کا سامنا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے کیتھولک پادریوں اور یہودیوں کی تنظیموں نے میناروں پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے، سوئس اسمبلی نے بھی 50 کے مقابلے میں 129 ووٹوں سے میناروں پر پابندی کو مسترد کردیا ہے لیکن لبرل فاشسٹ جماعت سوئس پیپلز پارٹی اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کررہی ہے اور ان دنوں سوئس پیپلز پارٹی کے رہنما کھلم کھلا پاکستان کی مثالیں پیش کر رہے ہیں جہاں مساجد پر خودکش حملے ہورہے ہیں اور یورپی میڈیا ان حملوں کی ذمہ داری بلیک واٹر پر نہیں ڈالتا بلکہ طالبان و القاعدہ پر ڈالتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی سے صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ کچھ ہفتے قبل پشاور کے مینا بازار اور چارسدہ کے فاروق اعظم چوک میں کار بم دھماکے ہوئے تو طالبان اور القاعدہ نے ان بم دھماکوں سے اعلان لاتعلقی کیا۔

القاعدہ افغانستان کے نگران مصطفی ابوالیزہد نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کا ہدف تو صرف وہ لوگ ہیں جو براہ راست لال مسجد، سوات، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر اور اورکزئی میں معصوم و کمزور مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں لیکن ڈالروں کے پجاری نشریاتی ادارے بازاروں اور سڑکوں پر بم دھماکوں کی ذمہ داری طالبان و القاعدہ پر ڈال کر بددیانتی کررہے ہیں۔

انہوں نے پشاور بم دھماکوں کی ذمہ داری بلیک واٹر پر عائد کی۔ سرحد پولیس کے ذمہ داروں نے بھی مجھے بتایا کہ مینا بازار میں کار بم دھماکہ بھارتی خفیہ ادارے " را " کی کارستانی تھی لیکن راولپنڈی کی پریڈ لائن مسجد میں خودکش حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان جنوبی وزیرستان کے امیر ولی الرحمن محسود نے قبول کرلی ہے۔

انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پریڈ لائن مسجد کو منافقین کی مسجد قرار دیا۔ جس دن اس مسجد پرحملہ ہوا اسی دن مجھے ای میل پر محمد زاہد صدیق مغل کا ایک مضمون بھجوایا گیا جس میں نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ ریاست کو کافر قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا گیا کہ پاکستان پر جو امریکی حملے جاری ہیں وہ ہماری پارلیمینٹ کی اجازت سے ہورہے ہیں اور پارلیمینٹ عوام کی نمائندہ ہوتی ہے کیا اس منطق سے ساری پاکستانی عوام حربی نہیں ٹھہری کہ وہ ایک حربی کافر کا ساتھ دے رہی ہے؟

آگے چل کر سوال اٹھایا گیا کہ پاکستانیوں نے امریکی حملوں کے خلاف اتنی چستی کیوں نہیں دکھائی جتنی ایک چیف جسٹس کی بحالی کے لئے دکھائی گئی۔ اس مضمون میں ان علماء پر افسوس کا اظہار کیا گیا جو خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں لیکن امریکی ڈرون حملوں پر خاموش رہتے ہیں۔

محمد زاہد صدیق مغل کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہی پاکستانی پارلیمینٹ تھی جس نے اس ریاست کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا، اسی پارلیمینٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور اس پارلیمینٹ نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ قرارداد بھی منظور کی لہٰذا آپ اس پارلیمینٹ اور پاکستانی عوام کو حربی کافروں کا ساتھی ثابت نہیں کرسکتے۔

یہ درست ہے کہ حکمران طبقے نے اس پارلیمینٹ کو اختیارات سے محروم کر رکھا ہے اور اس کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا لیکن حکمرانوں کے جرائم کی سزا عوام کو دینا کہیں کا اسلام نہیں ہے۔ اگر یہ ریاست طاغوتی قوتوں کی آلہ کار ہے تو پھر آپ نے اس ریاست کے ساتھ مل کر افغانستان میں روسی فوج کے خلاف جہادکیوں کیا؟ وہ جہاد تھا یا فساد؟

پریڈ لائن مسجد پر حملے سے اگلے روز کئی صحافیوں کو انور العلوقی کا ایک بیان بھجوایا گیا جس میں پاکستان، صومالیہ اور عرب ممالک کی افواج پر الزام لگایا گیا کہ یہ کافروں کی ساتھی ہیں اور ان فوجوں سے لڑنا اعلیٰ ترین جہاد ہے۔ انور العلوقی کی عمر 38 سال ہے۔ موصوف نے 11ستمبر 2001ء سے قبل یمنی حکومت کے خرچ پر امریکہ کی کورلوڈو یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں بی ایس سی کیا اور اس دوران ایک مقامی مسجد میں نماز پڑھاتے رہے۔ پھر یمن واپس آگئے۔ اگست 2006ء میں القاعدہ سے تعلق کے الزام میں گرفتارہوئے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ دسمبر 2007ء میں رہائی کے بعد مسلم ممالک کی حکومتوں کے خلاف جہاد کا درس دے رہے ہیں۔ مارچ 2009ء سے زیرزمین ہیں۔ پڑھے لکھے ضرور ہیں لیکن کسی مستند دینی ادارے کے فارغ التحصیل نہیں اور فتوے جاری کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

خدانخواستہ انورالعلوقی کے کہنے پر پاکستانی قوم اپنی فوج کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو سب سے زیادہ خوشی بھارت اور اسرائیل کو ہوگی۔ انور العلوقی کے خیالات دراصل ان مسلمان نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں سے خوش نہیں، یا جن پر جیلوں میں تشدد ہوا یا جو پاکستان کے قبائلی علاقوں، افغانستان، کشمیر، فلسطین یا عراق میں بمباری کا نشانہ بنے، انکے عزیز رشتہ دار مارے گئے اور اب یہ جہاد کے نام پر مسلمان فوجیوں اور ان کے بچوں کو مار رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں لال مسجد یا پریڈ لائن مسجد میں گھس کر بچوں کو مارنا کوئی جہاد نہیں صرف اور صرف انتقام یا پاگل پن ہے۔ اور اسلام کیلئے بدنامی کا باعث ہے۔

حالیہ خودکش حملوں سے یہ تو واضح ہے کہ طالبان اپنی جنگ جنوبی وزیرستان میں نہیں بلکہ پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں لڑیں گے۔ یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ جنوبی وزیرستان پرفوج کا کنٹرول قائم ہونے کے بعد خودکش حملے بند ہوجائیں گے۔ جنوبی وزیرستان کو مقبوضہ کشمیر بنانے کی سازش کامیاب ہوچکی ہے اس سازش کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

قرآن پاک کی سورہ النساء میں کہا گیا کہ جو شخص کسی مسلمان کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ آیت طالبان اور فوج دونوں کیلئے قابل غور ہے۔ سورة الحجرات میں کہا گیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ یہ آیت علمائے کرام کیلئے قابل غور ہے۔

صرف فتوے جاری کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء اور اہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مربوط حکمت عملی بنائے اور ایک ایسا مصالحتی گروہ بنانے پر غور کرے جو مسلمانوں کے دو گروہوں میں لڑائی بند کرانے کا راستہ تلاش کرے کیونکہ مسلمانوں کے کئی دشمن اس لڑائی سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے خودکش حملے کرنے والوں کو کرائے کے قاتل قرار دیا ہے۔ وہ قاتلوں کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن انکے کرائے ادا کرنیوالوں کا نام کیوں نہیں لیتے؟

پاکستان میں دہشت گردی اسی وقت رُکے گی جب ہم مساجد میں بچوں کو قتل کرنیوالوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں بے گناہ لوگوں کو مارنا بندکریں گے، ڈرون حملوں کے خلاف عملی طور پر اُٹھ کھڑے ہوں اور غیرملکی مداخلت مسترد کردیں۔ ہم قرآن کی پکار سن لیں تو ہماری اندرونی لڑائی ختم ہوجائے گی لیکن خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو آپس میں لڑنے والے دونوں گروہ آخرکار بیرونی دشمن کے نشانے پر ہوں گے۔


قرآن کی پکار .... قلم کمان ..... حامد میر
 
Top